حقیقی اسلام میں دہشتگردی کا کوئی وجود نہیں
سوال :۔ دہشت گردی کو روکنے کے لئے امت مسلمہ کہتی رہی کہ اسلام دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا اور پھر 11 ستمبر کا واقعہ پیش آگیا ۔اس کے بعد کئی ملکوں میں بم دھماکے شروع ہوگئے جس میں ترکی بھی شامل ہے ۔ معلوم ہوا کہ دہشت گرد ہم میں سے تھے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سے پہلے خبر دار ہوجانا چاہئے تھا ؟
جواب:۔ آج ہم زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کو بالکل نہیں سمجھا گیا ۔ مسلمانوں کو یہ کہنا چاہئے کہ حقیقی اسلام میں دہشت گردی کا کوئی وجود نہیں اسلام میں ایک انسان کا قتل انتہائی گھناﺅنا فعل ہے ۔ کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کو قتل نہیں کرسکتا ۔ حتیٰ کہ جنگ کے دوران بھی کوئی انسان کسی معصوم انسان کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتا ۔ کوئی بھی انسان اسکا فتویٰ نہیں دے سکتا ۔ کوئی بھی انسان خود کش بمبار نہیں بن سکتا ۔ کوئی بھی انسان اپنے ساتھ بم باندھ کر انسانوں کے ہجوم میں نہیں گھس سکتا خواہ اس ہجوم کے لوگوں کا تعلق کسی بھی مذہب کے ساتھ ہو مذہبی حوالے سے یہ جائز نہیں حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی جبکہ یہ توازن بر قرار رکھنا ممکن نہیں اس چیز کی اجازت نہیں ۔ اسلام کہتا ہے کہ جنگ کے دوران بچوں یا کلیسا میںعبادت کرنیوالوں کو بھی ہاتھ نہیں لگانا یہ بات صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ ہماری تاریخ میں بار بار دھرائی گئی ہے جو کچھ نبی پاک ،حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے کہا وہی کچھ صلاح الدین ایوبی ، البار سلان ، کلی چار سلان نے بھی کہا اور پھر اس کے بعد سلطان محمود دوئم نے یہی کہا ۔ اس طرح قسطنطنیہ شہر جہاں افر اتفری اور بے ترتیبی چھائی ہوئی تھی استنبول بنا ۔ اس شہر میں اہل یونان آرمینیا والوں کو نقصان نہیں پہنچتاتے تھے ۔اور نہ ہی آر مینیا والے یونانیوں کو ۔ اور نہ ہی مسلمان دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچاتے قسطنطنیہ کی فتح کے کچھ ہی عرصے بعد فاتح کی تصویر قبائلی سربراہ کی جگہ پر ٹانک دی اس دور میں ایسا رویہ حیران کن بات ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد سلطان نے قبائلی سردار کوبلا کر شہر کی چابی اس کے حوالے کردی حتیٰ کہ آج بھی انہیں عقیدت واحترام سے یاد کیا جاتا ہے لیکن آج اسلام کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھا جارہا ہے اسلام نے ہمیشہ مختلف نظریات کا احترام کیا ہے اس لئے اسے ٹھیک طرح سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ ممالک جہاں مسلمان رہتے ہیں وہاں بعض مذہبی رہنماءاور نا پختہ ذہن رکھنے والے مسلمان اسلام کی بنیاد پرستانہ تشریح کے ذریعے لوگوں کے ہاتھوں میں ایک خطرناک ہتھیار تھما رہے ہیں اور اس طرح لوگوں کو ایک ایسی جنگ میں ملوث کررہے ہیں جو ان کے ذاتی مفاد کے لئے لڑی جارہی ہے ۔ در حقیقت اسلام ایک سچا دین ہے اور سچائی کے ساتھ اس پر کار بند رہنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے ایمان کو مضبوط بنانے کے لئے کوئی بھی شخص غیر حقیقی طریقہ اختیار نہیں کر سکتا ۔ جس طرح اسلام میں کسی مقصد کا جائز ہونا ضروری ہے اس طرح اس مقصد کے حصول کے لئے اختیار کئے گئے طریقے بھی جائز ہونے چاہئیں اس حوالے سے دیکھا جائے تو کوئی شخص کسی دوسرے کو مار کر جنت میں نہیں جاسکتا کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں کسی شخص کو جان سے مارنے پر جنت میں جاﺅں گا ۔ کسی شخص کی جان لینے سے اللہ کو خوش نہیں کیا جاسکتا ۔ کسی مسلمان کی زندگی کا سب سے اہم مقصد اللہ کو راضی کرنا ہے ۔
سوال :۔ آج ہر جگہ میدان جنگ بن چکی ہے کیا وہ اسے ایک جنگ یا جہاد سمجھتے ہیں ؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کے لئے جنت کا دروازہ کھل جائے گا ؟
جواب: ۔اسلام کے اصول بہت واضح ہیں۔افراد اعلان جنگ نہیں کر سکتے ۔ کوئی گروہ یا گروپ اعلان جنگ نہیں کر سکتا ، جنگ کا اعلان ریاست کر سکتی ہے ۔
کسی صدر یا با قاعدہ فوج کے اعلان کے بغیر جنگ شروع نہیں کی جاسکی ۔ صدر یا با قاعدہ فوج ہی یہ اعلان کرسکتے ہیں بصورت دیگر یہ دہشت گردی کا اقدام ہوگا اس صورت میں جنگ کا مرکز ایک شخص ہوگا اسی طرح ایک اور شخص اپنے گرد لوگوں کو اکٹھا کرے گا ۔ اگر افراد کو اپنے طور پر جنگ شروع کرنے کی اجازت دے دی جائے تو پھر افرا تفری اور گڑ بڑھ پھیلے گی ۔ چھوٹے موٹے اختلافات پر بھی محاذ آرائی شروع ہوجائے گی ۔
حتیٰ کہ سمجھدار لوگوں کے درمیان بھی محاذ آرائی شروع ہوجائے گی بعض لوگ کہیں گے کہ ہم فلاح فلاں شخص کے خلاف اعلان جنگ کررہے ہیں ایک ایسا شخص جو عیسائیت کو برداشت نہیں کرتا کہے گا ۔ یہ شخص عیسائیت کی مدد کرتا ہے اور اسلام کو کمزور کررہا ہے اس شخص کے خلاف جنگ کرنی چاہئے اور اسے قتل کرنا چاہئے ۔
اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جنگ شروع کرنے کا اعلان کردیا جائے گا ۔ خوش قسمتی سے جنگ شروع کرنا اس قدر آسان نہیں ۔ اگر ر یاست جنگ کا اعلان نہیں کرتی تو کوئی بھی فرد اعلان جنگ نہیں کر سکتا ۔ جو بھی ایسا کرے خواہ کوئی دانشور بھی جنکی میں قدر کرتا ہوں تو یہ حقیقی جنگ نہیں ہوگی یہ اسلام کی روح کے منافی ہوگی جنگ اور امن کے اصول اسلام نے واضح کردیئے ہیں ۔
سوال :۔ اگریہ اسلام کی روح کے منافی ہے تو پھر اسلامی دنیا ایسی کیوں ہے؟
جواب :۔ میرے خیال میں اسلامی دنیا حقیقت میں وجود نہیں رکھتی ۔ دنیا میں ایسی جگہیں ہیں جہاں مسلمان رہتے ہیں ۔ بعض جگہوںمیںمسلمان زیادہ ہیں اور بعض میں کم اسلام ایک طرز زندگی بن چکا ہے یعنی ایک ثقافت ۔ایک دین کے طور پر اس کی پیروی نہیں کی جارہی۔دنیا میں ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے اپنی سوچ کے مطابق اسلام کی تشریح کرلی ہے ۔ میں بنیاد پرست اور انتہا پسند مسلمانوں کی بات نہیں کررہا بلکہ میں تو عام مسلمانوں کی بات کررہا ہوں جو اپنی مرضی کے اسلام کے مطابق زندگی بسر کررہے ہیں اسلام کا سب سے پہلا تقاضہ اس پر مکمل طور پر ایمان لانا اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس تصور اور فلسفے کے ساتھ کوئی اسلامی معاشرہ مسلم جغرافیہ کے اندر موجود ہے ۔ اگر ہم کہیں کہ ایسا معاشرہ وجود رکھتا ہے تو یہ درست نہیں ہوگا اور اگر ہم یہ کہیں کہ سرے سے اسلام ہی وجود نہیں رکھتا تو یہ بھی غلط بیانی ہوگی ۔میرا نہیں خیال کہ عالمی توازن میں مسلما ن مستقبل قریب میں کوئی کردار ادا کرسکیں گے مجھے اپنے ایڈ منسٹریٹرز میں یہ بصیرت نظر نہیں آتی ۔ اگر چہ کہ موجودہ دور میں ایک محدود حد تک روشن خیالی آئی ہے مگر زیادہ تر اسلامی دنیا خاصی حد تک بے علم ہے یہ چیز ہمیں حج کے دوران نظر آتی ہے ۔ کانفرنسوں اور پینلز میں یہ چیز دیکھی جاسکتی ہے آپ ٹیلی ویژن پر ان کی پارلیمنٹس میں یہ چیز دیکھ سکتے ہیں مسلمان دنیا کے مسائل حل نہیں کرسکتے شاید مستقبل میں ایسا ممکن ہو ۔
سوال :۔ آپکا مطلب ہے کہ اسلامی دنیا کی اصطلاح استعمال نہیں کی جانی چاہئے ؟
جواب :۔ ایسی کوئی دنیا وجود نہیں رکھتی ۔ آج اسلام ایک فرد کا ہے ۔ دنیا کے بعض حصوں میں کچھ مسلمان ہیں ۔ ایک ایک کرکے سب ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔ بذات خود مجھے کوئی مکمل مسلمان نظر نہیں آتا ۔ اگر مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ نہیں کرتے اور ایک اتحاد نہیں بناتے اپنے مشترکہ مسائل حل نہیں کرتے ۔ کائنات کی تشریح نہیں کرتے اور اسے ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتے ۔ اور قرآنی ہدایات کے مطابق اس پر غور نہیں کرتے ، مستقبل کے بارے میں نہیں سوچنے مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کرتے ، مستقبل میں اپنی جگہ کا تعین نہیں کرتے تو پھر میں نہیں سمجھتا کہ ہم اسلامی دنیا کی بات کر سکتے ہیں ۔کیونکہ اسلامی دنیا کا کوئی وجود نہیں ہے اس لئے ہر فرد اپنے طور پر عمل کررہا ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بعض مسلمان ذاتی عقائد رکھتے ہیں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ متفقہ اسلامی ہم خیالی وجود رکھتی ہے جس پر مذہبی دانشور متفق ہوں اور جس کی بنیاد قرآن ہو اور جسے وقتاً فوقتاً آزمایا جاتا ہو یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم کلچر نہ کہ اسلامی کلچر غالب ہے یہ صورتحال گیارہویں صدی عیسوی سے ہے یہ عباسی دور میں شروع ہوئی اور سلجوک کے ظہور کے وقت سے ہے استنبول کی فتح کے بعد اس میں اضافہ ہوا ۔ اس کے بعد کے دور میں نئی تفسیر اور توضیح کے دروازے بندہوگئے فکری حوالے سے تنگ نظری پیدا ہوگئی ۔ اسلام میں جو کشادگی پائی جاتی ہے وہ بھی سکڑ گئی ۔ اسلامی دنیا ایسے لوگوں سے بھرنے لگی جو بڑے نازک تھے اور دوسروں کو برداشت نہیں کرتے تھے جو دوسروں کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ حتیٰ کہ یہ تنگ نظری درویشوں کے ٹھکانوں پر بھی دکھائی دینے لگی ۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ مدرسوں میں پہنچ گئی ۔ بلا شبہ تمام اسلامی شعائر اور دیگر پہلوﺅں کی تفسیر اور تعبیر روشن فکر انسانوں کے ذریعے ہونی چاہئے ۔
سوال:۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ القاعدہ کا نیٹ ورک ترکی تک پھیل چکا ہے ۔ آپ نے معاملے کی مذہبی رخ کی وضاحت کی کیا آپکے خیال میں اس کی اور جہتیں بھی ہیں ؟
جواب :۔ دنیا میں وہ لوگ جن سے مجھے شدید نفرت ہے ان میں سے ایک بن لادن ہے کیونکہ اس نے اسلام کے روشن چہرے کو داغدار کیا ہے ۔ اس نے اسلام کے تصور کو بگاڑا ہے ۔ اگر ہم اس نقصان کے ازالے کی کوشش کریں تب بھی اس کے ٹھیک ہونے میں صدیاں لگ جائیں گی ہم کئی پلیٹ فارمز پر اس غلط رجحان کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اس پر کتابیں لکھتے ہیں ہم کہتے ہیں یہ اسلام نہیں ہے بن لادن نے اسلامی منطق کی جگہ اپنی خواہشات اور احساسات کوگھسیڑ لیا ہے یہ ایک عفریت ہے اور جو
لوگ اس کے ساتھی ہیں وہ بھی عفریت ہیں ۔ ہم لادن کے طرز عمل کی مذمت کرتے ہیں ۔ تاہم وہ ممالک جہاں مسلمان رہتے ہیں صرف یہی ممالک اپنا یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اپنے رہنماﺅں کا ا نتخاب کرتے وقت بالکل مختلف انداز میں سوچتے ہیں ؟ یا یہ بنیاد پرستانہ اصلاحات چاہتے ہیں؟ ایک اچھی اور فہمیدہ نوجوان نسل کو پروان چڑھانے کے لئے مسلمانوں کو اپنے مسائل حل کرنا چاہئیں نہ صرف دہشت گردی کے حوالے سے جوکہ ایک ایسا ہتھیار جسے اللہ پسند نہیں کرتا ، بلکہ منشیات کے استعمال‘ آپس کا اختلافات ، سماجی بحران ، کبھی نہ ختم ہونے والی غربت ، دوسروں کی غلامی اور خارجی قوتوں کی اطاعت کے باوجود ہونیوالی رسوائی جیسے معاملات بھی اس میں شامل کئے جاسکتے ہیں ۔جیسا کہ محمود آکف نے کہاکہ دوسروں کی غلامی‘ مسائل کی بہتات، نشہ آوری ، غیر فطری طور طریقوں کی مقبولیت ، اور استہزا یہ سب کچھ عام ہے اور اللہ انہیں پسند نہیں کرتا ۔یہ سب ہماری قوم پر مسلط کردی گئیں ہیں۔میرے خیال میں ان پرقابوپانے کے لئے صرف انسان ہوناضروری ہے ایک ایسا انسان جو دل سے خدا کے احکامات پر چلتا ہو۔
سوال :۔ دہشت گردی کے حامی ہم میں سے ہیں اور مسلمان گھرانوں میں پروان چڑھے ہیں ۔ ہم انہیں مسلمان سمجھتے تھے ۔ ان کے ذہنوں میں ایسی کیاتبدیلی آئی ہے کہ یہ دہشت گرد بن گئے کیا ہم سب قصور وار نہیں ہیں؟
جواب :۔ یہ ہماری غلطی ہے یہ غلطی قوم کی ہے ۔ یہ تعلیم کی غلطی ہے ایک سچا مسلمان جو اسلام کو ہر پہلو سے سمجھتا ہو دہشت گرد نہیں ہوسکتا ۔ اگر کوئی شخص دہشت گردی میں ملوث ہوتا ہے تو اس کا مسلمان رہنا مشکل ہے مذہب کسی مقصد کے حصول کیلئے لوگوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا ، مگر یقینا ہم نے ان لوگوں کو ایک سچا مسلمان بنانے کے لئے کیا کوششیں کیں ؟ ہم انہیں کن باتوں کا پابند بناتے ہیں ؟ ان کی تربیت کے لئے ہم نے کون سی ذمہ داری نبھائی ہے کہ ہم یہ توقع کریں گے وہ دہشت گردی میں ملوث نہیں ہوں گے ؟
لوگوں کو دہشت گردی میں ملوث ہونے سے بچانے کے لئے ان میں چند اسلامی شعائر کا ہونا ضروری ہے مثلاً خوف خدا ، روز حشر کا خوف اور اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی پر ملنے والی سزا کا خوف ، تاہم ہم یہ احساس پیدا کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ۔
تاہم پس پشت ڈالے گئے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے چند حقیر کوششیں کی گئی ہیں لیکن بد قسمتی سے اپنے ہی ملک کے لوگ ان میں روڑے اٹکارہے ہیں بعض کہتے ہیں کہ جن سر گرمیوں کی ہمیں ضرورت ہے ان کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے یعنی تہذیب اور اخلاق سکھانے والے کورس تعلیمی اداروں میں ممنوع قرار دیئے جائیں اور اس کے ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ زندگی کے لئے ہر ضروری چیز سکول میں سکھائی جائے مثلاً صحت کی تعلیم ڈاکٹروں کے ذریعے دی جائے ۔ عام زندگی اور گھریلو زندگی سے متعلق کلاسز بھی سکول میں ہوں ۔ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ انہوں نے اپنے شریک حیات کے ساتھ زندگی کیسے گزارنی ہے بچوں کی پرورش کس طرح سے کرنی ہے لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوگی ۔ ترکی اور دیگر ممالک جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے منشیات ، جولبازی اور کرپشن کی لعنت میں مبتلا ہیں ۔ ترکی میں شاید ہی کوئی بچا ہو جسکا نام کسی سکینڈل میں ملوث نہ ہو ۔ بعض احداف ایسے تھے جن کے بارے میں خیال تھا کہ یہ حاصل کر لئے جائیں گے اور وہ حاصل کر لئے گئے تاہم کئی احداف ابھی تک حاصل نہیں ہوئے ۔ آپ ان سے پوچھ نہیں سکتے جو اس کے لئے جوابدہ ہیں ۔ ان کا تحفظ کیا جاتا ہے انہیں پناہ دی جاتی ہے اور انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
یہ لوگ ہمارے بیچ پروان چڑھے ۔ یہ سب ہمارے بچے ہیں ۔ ان میں سے بعض کیوں بگڑے ؟ ان میں سے بعض بد معاش کیوںبنے ؟ ان میں سے بعض نے انسانی اقدار سے بغاوت کیوں کی ؟ یہ اپنے ہی ملک میں آکر خود کو بموں سے کیوں اڑاتے ہیں ؟ یہ ہمارے ساتھ پروان چڑھے تو پھر یقینا ان کی تعلیم میں کوئی خرابی ہوگی ۔ سسٹم میں کوئی خامی ہوگی کوئی ایسی کمزوری جسکا جائزہ لیا جانا چاہئے اور ان کمزوریوں کو دور کرنا چاہئے ۔ مختصر یہ کہ انسانی تربیت کو ترجیح نہیں دی گئی اور اس دوران کچھ نسلیں بگڑ کر تباہ ہوگئیں ۔
عدم اطمینان کا شکار نوجوان نسل روحانیت کھو بیٹھی ہے ۔ بعض لوگ ایسے لوگوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں انہیں کچھ ڈالرز دے کر غلط کام کرواتے ہیں یا انہیں روبوٹ بنا دیتے ہیں ۔ یہ لوگ ان
کے ذہن ماﺅف کر دیتے ہیں
یہ موضوع ایک ایجنڈا بن چکا ہے جس کے بارے میں جرائد میں پڑھا جاسکتا ہے ۔ یہ نوجوان اس حد تک بگڑ گئے کہ انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا انہیں دیوانگی پر مبنی مقاصد یا احداف کے حصول کے لئے قاتل بنا دیاگیا اور یہ لوگوں کو مارنے لگے ۔ بعض شیطان صفت انسانوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ان جوانوں کو غلط راہ پر ڈال دیا ۔
ان لوگوں کو روبوٹ بنا دیاگیا ۔ ایک مرتبہ ترکی میں کئی لوگوں کو ہلاک کیا گیا ۔ ایک گروپ نے ایک شخص کو ہلاک کیا تو دوسرے گروپ نے دوسرے شخص کو مار ڈالا ۔ ہر شخص اس میں شامل ہوگیا۔ تاوقتیکہ فوج نے آکر 12 مارچ 1971ءکو مداخلت کی اور پھر 12 ستمبر 1280ءکو لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوچکے تھے ۔ ہر شخص دوسرے کی جان لینے پر تلا ہوا تھا ۔
کچھ لوگ دوسروں کو مار کر کوئی مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ ہر شخص دہشت گرد بن چکا تھا اس جانب دہشت گرد تھے اور اس جانب بھی دہشت گرد تھے ۔ لیکن ہر شخص ایک ہی کام مختلف مقاصد کے نام پر کررہا تھا ۔ ایک شخص کہتا ” میںیہ اسلام کے نام پر کررہا ہوں “ تو دوسرا کہتا ” میں اپنے لوگوں اور اپنے وطن کے لئے یہ سب کچھ کررہا ہوں “ تیسرا کہتا ” میں سرمایہ داری اور استحصال کے خلاف جنگ کررہا ہوں “ یہ سب لفاظی تھی اس کی کوئی وقت نہ تھی لیکن لوگ ایک دوسرے کو ماررہے تھے ۔ ہر شخص کسی نظریئے کے نام پر دوسروں کو ماررہا تھا ۔
ان خونی نظریات اور مقاصد کے نام پر بہت لوگ مارے گئے یہ دہشت گردی سے کچھ کم نہ تھا ۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ہر شخص یہی غلطی کررہا تھا ۔ کیونکہ ہر شخص یہی کررہا تھا اس لئے یہ ایک پسندیدہ مقصد بن گیا ۔ قتل وغارت ایک عادت بن گئی حالانکہ یہ ایک انتہائی شیطانی عمل ہے ۔ ایک مرتبہ میرے ایک عزیز ترین دوست نے ایک سانپ مارا ڈالا۔ وہ ایک گریجویٹ تھا اور اب ایک مبلغ ہے اس کی اس حرکت پرمیں نے اس سے ایک ماہ تک بات نہ کی۔ میں نے کہا ” اس سانپ کو فطرت کے مطابق زندگی گزارنے کا حق تھا۔ تمہیں کیا حق پہنچتا تھا کہ تم نے اس کی جان لی “
لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی واقعے میں 10 یا 20 افراد ہلاک ہوتے ہیں یا اگر مرنے والوں کی تعداد خدشات سے کم ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں ” چلو خیر ہے زیادہ لوگ نہیں مرے “ تشدد اور خون خرابے کو لوگ خطرناک حد تک قبول کرنے لگے ہیں آجکل ہم یہ کہتے ہیں” یہ تو اچھا ہو ا صرف 30-20 افراد ہلاک ہوئے “۔ پورے معاشرے نے اس صورتحال کو قبول کرنا شروع کردیا ہے۔ تعلیم کی مدد سے اس صورتحال سے بچا جاسکتا تھا ۔ حکومتی قوانین اس صورتحال سے بچا سکتے تھے ۔ بعض چھوٹے گروپ جنہیں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور اس لئے جنہیں روکا نہیں جاسکتا چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں اور اہم معاملات کو غیر اہم بنارہے ہیں اس کا ایک حل ہے ۔ حل یہ ہے کہ لوگوں کو سچ سکھایا جائے یہ بات واضح کی جائے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ اس چیز کو واضح کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس لئے کہ انہیں بتایا جائے کہ اگر انہوں نے کوئی گناہ‘ خواہ رائی کے دانے کے برابر کیا تو انہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کا جواب دینا ہوگا۔
جی ہاں انسان کی جان لینا گناہ کبیرہ ہے قرآن پاک کہتا ہے کہ ایک انسان کو مارنا کل انسانیت کو مارنے کے مترادف ہے۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ قاتل ہمیشہ کیلئے جہنم کی آگ میں جلے گا۔
یہ وہی سزا ہے جو ایک کافر کو ملے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کافر اور قاتل کی سزا برابر ہوگی۔ یعنی قیامت کے روز ایک قاتل کو خدا اور اس کے رسول ﷺ کا انکار کرنیوالے کے برابر لعین سمجھا جائے گا۔ اگر یہ دین کا ایک بنیادی اصول ہے تو اسے تعلیم میں شامل کیا جانا چاہئے۔
- Created on .