اسلام کو غلط سمجھا گیاہے
ہمیں اسلام کے حوالے سے اپنی سمجھ بوجھ پر نظر ثانی کرنا ہوگی بطور مسلمان ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ دوسرے ترقی کررہے ہیں اور ہم پیچھے جارہے ہیں ۔
قرآن اور سنت کو سر چشمہ ہدایت بناتے ہوئے اور ماضی کی شخصیات کا احترام کرتے ہوئے اس احساس کے ساتھ کہ ہم سب وقت کی اولاد ہیں ہمیں ماضی اور حال دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر غور کرنا ہوگا ۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اسلامی دانشور اور محققین اسلام کے متغیر اور غیر متغیر پہلوﺅں میں ضروری توازن پیدا کریں اور ان فقہی قوانین پر غور کریں جن کا تعلق تنسیخی،تصریحی ، تعمیمی اورممنوعی فقہی قوانین کے ساتھ ہے اس طرح تفہیم اسلام کو جدید انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے اسلام کی پہلی پانچ صدیوں کے دوران ایسے کئی محقق اور دانشور موجود تھے ۔ اس عرصے کے دوران فکر اور سوچ کی بہت آزادی تھی ۔ صرف اسی ماحول میں عظیم دانشور اور اسکالرز پیدا ہوتے ہیں ۔
اسلام میں اندھی تقلید کی کوئی گنجائش نہیں
سوال :۔ اسلام اندھی تقلید کے بارے میں کیا طرز فکر رکھتا ہے ؟
جواب :۔اگر اندھی تقلید کا مطلب آزادانہ سوچ اور فکر کی گنجائش باقی رہنے نہ دینا اور ذہنی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرنا ہے تو اسلام میں اندھی عقیدہ پرستی یا تقلید کی کوئی گنجائش نہیں ۔ خاص طور پر مغرب میں مذہب کے حوالے سے جو تصور پایا جاتا ہے اس کے مطابق جاننا اور ایمان رکھنا دو مختلف چیزیں ہیں جبکہ اسلام میں دونوں ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ قرآن پاک ذہنی صلاحیتوں کے استعمال مثلاً غور اور فکر ، استدلال ، تنقید اور تجزیہ کرنے کی تاکید کرتا ہے ۔
سوال :۔حتمی آسمانی قوانین سے متعلق قرآنی آیات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟
جواب :۔ تخلیق اور حیات کے حوالے سے بعض پہلو حتمی اور غیر متغیر ہیں ۔ جس طرح قوانین فطرت کبھی نہیں بدلتے جس طرح انسانی فطرت کے بعض پہلو حتمی ہیں مثلاً انسانی فطرت ، انسان کی بنیادی ضروریات احساسات وغیرہ اس لئے جو مذہب بنی نوع ا نسان سے مخاطب ہو اس کے اصول غیر متغیر ہونے چاہئیں اور دائمی انسانی اقدار کا حامل ہو ۔ اس طرح سچائی ، پاکبازی ، ایمانداری اور بڑوں ( خصوصاً والدین ) کا احترام ، محبت ہمدردی اور دوسروں کی مدد ہمیشہ سے پسندیدہ انسانی اقدار رہی ہیں ۔ اسی طرح الکوحل کے استعمال ، جوا بازی ، زنا کاری ، ڈاکہ زنی ، جعل سازی اور حرام ذرائع سے روزی کمانے سے اجتناب بھی پسندیدہ انسانی اقدار کے طور پر قبول کی جاتی ہیں۔ایسے معیار اور اقدار کو قبول کرنا اور ان پر توجہ دینا ادھی تقلید نہیں ہے ۔
تاہم تمام دیگر مذاہب کی طرح اسلام کو بھی اندھی عقید پرستی کا سامنا رہا ہے ۔ مثال کے طور پر حضرت علی کے دور میں خارجی انتہا پسندی کی بناءپر ظاہر پرستی شروع ہوئی۔ وہ قرآنی آیات کو صرف ان کے ظاہری مفہوم کے طور پر لیتے تھے اور انہوں نے ممنوعات ، تعمیمات اور تصریحات جیسے بنیادی اصولوں پر غور کرنے سے انکار کردیا تھا شروع شروع یہ کوئی مکتبہ فکر نہ بن سکا ۔ البتہ داﺅ دا لظاہری اور ابن الحزم جیسے لوگوں نے اسے اندلس میں ایک نظام کے طور پر لاگو کردیا اور اس پر کتابیں لکھیں اور بعد میں یہ فکر بعض با اثر لوگوں مثلاً ابن الثمیہ جیسے انسانوں کے ہاتھ میں چلی گئی اور اس نے ابن القائم الجاوزیہ ، امام دھابی ، اور ابن الکثیر جیسے لوگوں کو متاثر کیا بالآخر یہ وھابیت کو پروان چڑھانے کا سبب بنی لیکن اس قسم کے لوگ ہمیشہ ایک چھوٹی سی اقلیت کی نمائندگی کرتے ہیں ۔
اسلام ، ملائیت اور ملکویت
سوال :۔ کیا اسلام میں ملکویت یا ملائیت ہے جس کا میڈیا اکثر ذکر کرتا ہے ؟
جواب:۔ بعض لوگ جس طرح ہمیشہ ہر چیز کو شیطانی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اسی طرح اسلام کو بھی ملکویت کے جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن اسکایہ مطلب نہیں کہ اسلام میں ملکویت کا پہلو موجود ہے ۔ میرے خیال میں اس کی وجہ اس معاملے کو ٹھیک طرح سے نا سمجھ سکنا ہے اسلام کا ملائیت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے جو کہ پاپا ئیت کی طرز پر ایک نظام حکومت ہے اسلام میں قطعی طور پر ملائیت نہیں پائی جاتی ۔
بنیاد پرستی
بنیاد پرستی کا مطلب جنونی انداز میں کسی عقیدے کی اندھی تقلید ہے ۔ اسکا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس کے باوجود کہ بعض لوگ ایران اور سعودی عرب کی بنیاد پرستانہ تحریکوں کا حوالہ دیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام بنیاد پرستی کا تصور پیش کرتا ہے ۔ ایرانی اور سعودی نقطہ نظر ان کے اپنے فقہ کے مطابق ہے ۔ زیادہ تر مسلمان ان میں سے کسی ایک کو بھی تسلیم نہیں کرتے اسلام کو بنیاد پرستی سے تعبیر کرنا یا مسلمان کو بنیاد پرست سمجھنا غلطی ہے یہ مسئلہ فکری کنفیوژن کی وجہ سے ہے ۔ پہلے اس کی وضاحت کی ضرورت ہے ۔
- Created on .