آفاقی ہمدردی کا دین اسلام
زندگی اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی اور سب سے واضح نعمت ہے اور حقیقی اور ابدی زندگی آخرت کی زندگی سے کیونکہ اس زندگی میں کامیابی ہم صرف اللہ کی ذات کو خوش کرکے حاصل کر سکتے ہیں اسی لئے اس ذات نے ہمارے پاس نبی اور آسمانی صحائف بھیجے ۔ اپنی اسی رحمت کو بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورة رحمن کی ابتداءان الفاظ سے کی :
”نہایت مہربان (خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا“ (55:1-4 )
دنیاوی زندگی کے تمام پہلو در اصل آنے والی زندگی ہی کا اعادہ ہیں اور ہر مخلوق اسی مقصد کے ساتھ بندھی ہے ۔ ہر عمل اور کوشش میں ایک ربط ہے اور ہر کامیابی اللہ کی رحمت کی بدولت ہے ۔ بعض فطری واقعات ابتداءمیں نا قابل قبول دکھائی دیتے ہیں لیکن ہمیں اسے رحمت خداوندی کے برعکس نہیں سمجھنا چاہئے ۔ جیسے سیاہ بادلوںکی گھن گرج جو کہ باران رحمت کا پیش خیمہ ہوتی ہے اسی لئے پوری کائنات اس رب کریم کی ثناءخوانی کرتی ہے نبی کریم کی ذات صحرا کے بیچ تازہ پانی کے چشمے کی طرح گھپ اندھیرے میں نمو دار ہونے والے روشنی کے مینار کی طرح ہے ۔ آپ کی ذات پاک کی رحمت ، ایک جادوئی کنجی کی طرح تھی ۔ اس لئے آپ نے اس کی مدد سے زنگ آلود اور کٹھور دلوں کو کھول دیا ۔ جو شاید کسی اور سے نہ کھلتے : آپ ان کے دلوں میں ایمان کی شمعیں فروزاں کیں ۔ اللہ کے نبی نے اسلام کی دعوت دی جو سراسر امن وسلامتی کا دین ہے تاہم بعض ماہرین بشریات اسے تلوار کا دین کہتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے ۔
اسی طرح یہ بھی انتہائی لازمی امرہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ رحم کا حقدار کون ہے کیونکہ ایک بھیڑیئے پر رحم اس کی حیوانیت کو مزید بڑھاتی ہے اور وہ اسے جو ملے وہ اس پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کی حرص بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ اسی طرح بد کاروں پر رحم ان کے ظلم میں اضافہ کرتا ہے اور دوسروں پر مظالم ڈھانے میں ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ در حقیقت رحم کا تصور اس بات کا متقاضی ہے کہ ایسے لوگوں کو شر پھیلانے سے روکا جائے ۔ اللہ کے نبی نے جب اپنے صحابہ سے کہا کہ اچھوں اور زیادتی کرنے والوں کی مدد کرو ۔تو صحابہ نے آپ سے اس کی وضاحت کی درخواست کی ۔ آپ نے جواب دیا ' آپ ایسے لوگوں ( یعنی اچھے لوگوں ) کو زیادتی سے روک کر ان کی مدد کر سکتے ہیں اس لئے رحم اس چیز کا متقاضی ہے کہ شر پھیلانے والوں کو وسائل سے محروم کیا جائے یا انہیں بزور روکا جائے ۔ بصورت دیگر وہ اختیارات کو ہاتھ میں لے کر اپنی مرضی چلائیں گے ۔
اللہ کے نبی کی رحمت ہر مخلوق کے لئے تھی ۔ آپ جانتے تھے کہ خون کے پیاسے اور وحشی لوگوں کو اختیار دینے کا مطلب ایسے ظلم کو عام کرنے کے برابر ہے جسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی رحمت کی بناءپر آپ نے کوشش کی کہ معصوم لوگ بھیڑیا نما انسان کے حملوں سے محفوظ رہیں ۔ بلا شبہ آپ نے کوشش کی کہ ہر ایک ہدایت پانے والا بن جائے اور بلا شبہ آپ کو سب سے زیادہ فکر اسی بات کی تھی ۔
قرآن میں ارشاد ہوتا ہے ”اچھا ‘ تو اے نبی ‘ شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھودینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے“ (18:6)
جب احد میں آپ کوزخم آئے تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی ” اے اللہ ان لوگوں کو معاف فرما کیونکہ یہ نہیں جانتے “ آپ کے اپنے شہر مکہ کے لوگوںنے آپ کو اس قدر تکالیف دیں کہ آپ مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اس کے پانچ برس بعد تک بھی انہوں نے آپ کو چین سے نہ بیٹھنے دیا ۔ البتہ اپنی نبوت کے اکیسویں برس فتح مکہ کے موقع پر آپ نے جب ان سے سوال کیا کہ ” میں آپ سے کیا سلوک کرنے والا ہوں “ تو انہوں نے بہ یک آواز کہا ” آپ ایک اچھے انسان اور ایک اچھے انسان کے بیٹے ہیں “ تو آپ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ” جاﺅ “ تم آزاد ہو اور آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں تم سب پر اللہ رحم کرے وہ سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے ۔
اللہ کے نبی نے اہل ایمان کے ساتھ حد درجہ مہربانی اور شفقت کا مظاہرہ کیا ۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں ۔
” دیکھو ! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے ۔ تمہاری فلاح کا حریص ہے ایمان لانے والوں کے لئے وہ شفیق اور رحیم ہے“ (9:128)
” بلا شبہ نبی ﷺ تو اہل ایمان کے لئے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہے“ (33:6)
حتیٰ کہ آپ منافقین اور کفار کے ساتھ بھی نرمی اور شفقت سے پیش آتے ۔ آپ منافقین کو پہنچانتے تھے لیکن آپ نے ان کی نشاندہی نہیں کی ۔ کیونکہ اس طرح و ہ ظاہری طور پر ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے کی بناءپر حاصل ہونے والی شہریت کے مکمل حقوق سے محروم ہوجاتے ۔
جہاں تک کفار کی بات ہے تو اللہ نے ان کے اجتماعی شر کو قوت کی نیست ونابود کردیا اگرچہ کہ ماضی میں اللہ کی طاقت ایسے لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ۔
” اس وقت تو اللہ ان پر عذاب کرنے والا نہ تھا جب کہ تو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے لوگ استغفار کررہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے“ (8:33)
اس آیت میں ہر دور کے کفار کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ان لوگوں کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹائے گی جن میں اللہ کے نبی کے پیروکار موجود تھے ۔ اس نے قیامت تک توبہ کے دروازے کھلے رکھے ہیں ۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی بڑا گناہ گار کیوں نہ ہو اسلام قبول کر سکتا ہے یا اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ سکتا ہے ۔
اسی بناءپر کسی مسلمان کے دل میں کسی کافر سے بغض وعداوت قابل افسوس ہے جب حضرت عمر نے ایک اسی سالہ بوڑھے شخص کو حالت کفر میں دیکھا تو انہیں بہت افسوس ہوا جب ان سے کسی نے پوچھا کہ اس تاسف کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے فرمایا ۔ ” اللہ نے اسے اتنی لمبی عمر عطا کی لیکن تب بھی یہ شخص سیدھا راستہ تلاش نہ کر سکا “
عمر اللہ کے نبی کے بہت سچے پیرو کار تھے ۔ جنہوں نے فرمایا ۔ میں لوگوں کے لئے بددعا کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں ان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ اور آپ نے فرمایا ” میں محمد اور احمد ہوں اور اللہ کا آخری نبیہوں۔ جس کی موجودگی میں مردوں کو اٹھایا جائے گا میں معافی و درگزر کا نبی ( وہ نبی جس کے لئے معافی کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں ) اور رحمت کا نبی ہوں ۔“
اللہ کے نبی بچوں پر بھی خصوصی شفقت فرماتے جب آپ کسی بچے کو روتا دیکھتے تو آپ اس کے ساتھ بیٹھ جاتے اور اس کے دکھ میں شریک ہوتے آپ کسی بچے کے لئے ماں کا دکھ اس ماں سے بھی زیادہ محسوس کرتے ۔ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا میں جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز کو طول دوں لیکن جب میں کسی بچے کی رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کردیتا ہوں تاکہ اس ماں کی پریشانی کم کر سکوں ۔
نبی پاک بچوں کو اپنی باہوں میں لے کر انہیں پیار کرتے ایک مرتبہ نبی پاک اپنے نواسوں حسن اور حسین کو پیار کررہے تھے کہ اکرا بن حابس نے آپ سے کہا ” میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی کو بھی آج تک نہیں چوما اللہ کے نبی نے جواب دیا ” وہ جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا “ ایک اور بیان کے مطابق آپ نے یہ بھی فرمایا ” تو پھر میں کیا کرسکتا ہوں جب اللہ نے ہی تمہارے دل سے شفقت نکال لی ہو “ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا ،،( دنیا والوں پر مہربانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ عرش بریں پر تم پر مہربانی کرے گا “
ایک مرتبہ جب سعد بن عبیدہ بیمار پڑے تو نبی پاک ان کے گھر گئے ۔ آپ ان کی خراب حالت کو دیکھ کر رو پڑے آپ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ آنسوﺅں یا دکھوں کی وجہ سے سزا نہیں دیتا بلکہ اس کی وجہ سے سزا دیتا ہے “ آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا جب عثمان ابن مدعون فوت ہوئے آپ بہت روئے ۔ ایک مرتبہ بنو موکارن قبیلے کے ایک شخص نے اپنی لونڈی کو بہت مارا تو اس نے آپ کو اطلاع دی ۔ آپ نے اس شخص کو بلوایا اور کہا کہ ” تم نے بلا وجہ اپنی لونڈی کو مارا ہے اب اسے آزاد کردو “ کسی غلام کو آزاد کرنا آخرت کے عذاب سے بہت اچھا تھا ۔ اللہ کے نبی بیواﺅں ، یتیموں ، غریبوں اور معذوروں کا دفاع نبی بننے سے پہلے سے کیا کرتے ۔
پہلی وحی کے بعد جب آپ غار حرا سے اضطراب کی حالت میں واپس لوٹے تو حضرت خدیجہ نے آپ سے کہا مجھے امید ہے کہ آپ اس امت کے نبی ہوں گے کیونکہ آپ نے ہمیشہ سچ بولا ، امانت داری کی ، اپنے عزیزوں رشتہ داروں کی مدد کی ، غریبوں اور بے کسوں کی مدد کی اور اپنے مہمانوں کو کھانا کھلایا ۔آپ کی رحمت کے دائرے میں حیوانات بھی شامل تھے ۔ ہم آپ ہی سے سنتے ہیں کہ ایک فاحشہ قیامت کے روز اس لئے بخش دی جائے گی کہ اس نے پیاس سے مرتے ہوئے ایک پلے کو پانی پلایا ہوگا ۔اور ایک دوسری عورت جہنم رسید کردی جائے گی کہ اس نے ایک بلی کو بھوک کی وجہ سے مرنے دیا ہوگا ۔ ایک مرتبہ چند صحابہنے ایک فوجی مہم سے واپسی پر پرندوں کے چند بچے گھونسلوں سے نکال کر انہیں پیا کرنا شروع کردیا ۔ پرندوں کی ماں نے واپس پہنچ کر جب دیکھا تو بچوں کو وہاں نہ پاکر بے چین ہوگئی اور فضاءمیں بے چینی سے اڑنے اور شور مچانے لگی ۔ جب اللہ کے نبی کو اس بات کا علم ہوا تو آپ بہت خفا ہوئے ا ور حکم دیا کہ پرندے کے بچے واپس گھونسلے میں رکھ دیئے جائیں ۔
ایک مرتبہ منیٰ میں آپ کے چند صحابہ نے ایک سانپ پر حملہ کرکے اسے مارنے کی کوشش کی سانپ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تو اللہ کے نبی نے فرمایا ۔ یہ تمہارے شر سے اسی طرح بچ گیا جس طرح تم اس کے شر سے ” ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص ایک بکری کے سامنے جسے اس نے ذبح کرنا تھا چاقو کی دھارتیز کررہا تھا آپ نے اس شخص سے کہا
”کہا تم اسے ذبح کرنے سے پہلے کئی مرتبہ مارنا چاہتے ہو “۔
آپ نے رنگ ونسل کے تمام امتیاز مٹا دیئے ۔ایک مرتبہ ابو ضر حضرت بلال سے اس قدر ناراض ہوئے کہ ان کے منہ سے یہ توہین آمیز کلمات نکلے “ تم کالی ماں کی اولاد ہو “ حضرت بلال روتے ہوئے آپ کے پاس آئے اور یہ بات آپ کے گوش گزار کی ۔ آپ ابو ضر کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا تم میں اب تک جہالت کے دورکے اثرات باقی ہیں ۔ابو ضر اس قدر شرمندہ ہوئے کہ انہوں نے اپنا سر زمین پر رکھ دیا اور کہا کہ وہ اپنا سر اس وقت تک زمین سے نہیں اٹھائیں گے جب تک حضرت بلال ان کے سر پر پاﺅں رکھ کر نہ گزریں ۔ حضرت بلال نے انہیں معاف کردیا ۔
- Created on .