انسان پرستی اور انسانی محبت
محبت سب سے زیادہ تذکرہ کیا جانے والا معاملہ تو ہے ہی یہ اہمیت کا حامل مسئلہ بھی ہے۔ اصل میں محبت ہمارے ایمان کا پھول ہے۔ یہ دل کی ایسی ریاست ہے جو کبھی ادھر ادھر نہیں ہو تی۔ جو نہی خدائے بزرگ وبرتر کائنات کومحبت کی کھڈی پر ایک تار کی طرح چلاتا ہے تو سب سے زیادہ سحر انگیز اور دلچسپ موسیقی جو موجودات کے سینے پر پیدا ہو تی ہے وہ ٘محبت ہی ہے۔ سب سےمضبوط رشتہ جو افراد کو کنبے، سماج اور قوم بناتا ہے وہ محبت ہی ہے۔ عالمی محبت نظام کائنات میں ہر طرف اس طرح نظر آتی ہے کہ اس کا ہر جزو دوسرے جزو کے ساتھ مل کر اسکی تائید کرتا ہے۔
یہ اس حد تک درست ہے کہ موجودات کی روح میں سب سے زیادہ نمایاں عامل محبت ہے۔ کائنات کی چوکی کا فرد ہو نے کی حیثیت سے تقریبا ہر مخلوق اس طلمساتی آواز کے ساتھ جو خدا نے اسکو محبت کے نغموں میں بخشی ہے اپنے انداز سے کام کرتی اورمخصوص رویہ اپناتی ہے۔ تا ہم یہ بات ہے کہ موجودات سے انسانیت اورایک مخلوق سے دوسری مخلوق کا آپس میں محبت کا تبادلہ ان کی اپنی مرضی سے ماوراء ہو تا ہے اس لئے کہ منشاء ایزدی ان پر مکمل طور پر محیط ہو تی ہے۔
اس پیرائےمیں انسانیت "سوچے سمجھے طریقے سے" محبت کی ہم آہنگی جو موجودات میں کارفرما ہے میں شریک ہوتی ہے۔ اپنی فطرت میں محبت کو پیدا کر کے انسان یہ جاننے کی کوشش کرتےہیں کہ کس طرح وہ انسانی طریقے سے مظاہرہ کریں۔ اس لئے اپنی روح میں محبت کے بیجا استعمال سے اور اپنی ہی فطرت سے محبت لانے کیلئے ہرشخص کو چاہیئے کہ دوسروں کی حقیقی مدد اور معاونت کرے۔اسے فطری قوانین اور وہ قوانین جو انسانی زندگی کو چلانے کیلئے بنائے گئے ہیں کا خیال رکھتے ہوئےعمومی ہم آہنگی برقرار رکھنی چاہیئے جو موجودات میں ودیعت کی گئی ہے۔
انسان پرستی،محبت اور انسانیت کا ایک جامع اصول ہے جو آج کل بے احتیاطی سے اپنایا جا رہا ہےحالانکہ اسمیں مختلف تشریحات کے ذریعے بسہولت سلیقے سے کام کئے جانے کی سکت بھی ہے۔ کچھ حلقے لوگوں کو جہاد ، اسلام اور ان کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے انسان پرستی کی غیر متوازن اور غیر واضح شکل دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے جو انار کی اور دہشتگردی پیدا کر کے کسی ملک کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہوں یا جو لوگ صدیوں پر محیط کسی قوم کی بہبود کی کاروائیوں کو ختم کرنے کیلئے بی دردی سے لوگوں کو قتل کرتے ہوں یا ان لوگوں کیلئے جو اسلامی اقدار کے نام پر ایسی کاروائیاں کرتے ہوں یا ان لوگوں کیلئے جو اسلام کو دہشتگرد حملو ں کی اجازت دینے والا مذہب گردانتے ہوں ان لوگوں کو دیکھتے ہوئے انسانیت پرستی کے ساتھ "رحم اور ترس" کے عجیب رویہ کا جوڑنا مشکل ہوجاتاہے۔
ہر مومن کو سچ بولنے اور کہنے میں پیغمبر خدا کی اتباع کرنی چاہئیے انہیں دونوں جہاں میں کامیابی اور خوشی حاصل کرنے کے اصول دوسروں کو بتانا ترک نہیں چاہیئے۔ صحابہؓ جو بحیثیت مجموعی اس حق کی جیتی جاگتی مثال تھے جو پیغمبر ﷺ نے ان میں پیدا کیا تھا وہ ہر طرح کے معاملے میں توازن اور میانہ روی کی نظیر بن گئے .
صحابہ ؓ کے بعد پیدا ہونے والے خوش نصیب لوگوں میں سے کچھ اہم شخصیات نے ایک دفعہ خلیفہ سے جا کر یہ بھی واضح طور پر پو چھ کہ غیر ارادی طور پا گھاس کی ٹڈی کو پاؤں سےمسل دیا تو کیا اس کی بھی سزا ہے؟ جب ہم اپنی مساجد کی دیواروں اور میناروں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں چھوٹے چھوٹے سوراخ نظر آتے ہیں جو پرندوں کے گھونسلوں کے لئے بنائے گئے ہیں تو ہمیں اپنے آباو اجداد کے محبت کے گہرے اظہار کا پتہ چلتا ہے۔ تاریخ اس طرح کے رحمدلانہ کاموں سے بھری پڑی ہے ایسے کام جن سے پرندے اور انسانوں نے بیک وقت فائدہ اٹھایا ۔
اسلام کے عالمی اصولوں کے ڈھانچے میں محبت کا نظریہ اور خیال بڑا ہی متوازن ہے۔ ظالموں اور جابروں نے ہمیشہ اس محبت کا انکار کیا ہے۔ اس لئے جب بھی ان کو محبت اور رحمدلی دکھائی جاتی ہے اس سے وہ ظلم اور جبر میں اور بڑھ جاتے ہیں اور اس سے ان کو دوسروں کے حقوق کی پامالی کرنے کی مزید حوصلہ افزائی ہو تی ہے۔ اس لئے ان لوگوں کیلئے رحمدلی کا اظہارنہیں ہو نا چاہیئے جو عالمی محبت کیلئے خطرہ ہوں۔ کسی جابر کے ساتھ رحمدلی کا اظہار اصل میں مقہورین کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ البتہ ہمیں ان لوگوں کے ساتھ رحمدلی کرنی چاہیئے جو سہوا جبر کر گزرے ہیں یاوہ اپنے کئے پر نادم ہیں۔ آپﷺ کا فرمان ہے:
" اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ تم ظالم کی مدد اس طرح کر سکتے ہو کہ اس کو دوسروں پر ظلم کرنےسے روک دو۔'[1]
خدا کی محبت[2]
اس مبہم اور غیر واضح دور میں جب ہمارے دلوں میں دشمنیاں پیدا ہو چکی ہیں جب ہمارےضمیر مردہ ہو چکے ہیں جہاں نفرت و عداوت اپنے عروج پر ہے تو بات بالکل واضح ہے کہ ہمیں محبت اور رحمدلی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی پانی اور ہوا کی۔ ایسے لگتا ہے ہم محبت کو بھلا چکے ہیں اور اس سے بڑھ کرشفقت اور کرم ایسا لفظ ہے جو خال خال نظر آتا ہے۔ ہمارے اندر نہ ہی اپنےلئے رحمدلی ہے نہ ہی دوسرے لوگوں کیلئے محبت ہے۔ ہمارے اندر نرمی کا احساس ختم ہو تا جا رہا ہے ہمارے دل سخت ہو چکے ہیں اور ہمارا اردگرد عداوت کے سیاہ بادلوں سے ڈھک چکاہے۔ اسی وجہ سے ہر چیز اور ہر شخص مبہم نظر آتا ہے۔ دنیا میں برداشت اورتحمل کو نقصان پہنچانے والے بہت زیادہ ظالم موجود ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ جنگ کرنے کے بہانےاور مختلف جھوٹوں کے ذریعے دوسروں کو بدنام کرنے کے طریقے ڈھونڈھتے ہیں اور ہم اپنے آپ کو زندان، پنجہ اور ایسے الفاظ سےیاد کرتے ہیں جو خون کھولا دیتا ہے۔
یہ افراد اور لوگوں کے بیچ خطرناک قسم کی تفریق ہے ہم اپنے جملوں کو'ہم'، 'تم' اور 'دوسرے"سےشروع کرتے ہیں۔ ہماری نفرت کبھی ختم نہیں ہو تی۔ ہم اپنی صفیں متلا دینے والے طریقے سے ختم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم جاری رکھیں گے لیکن پھر بھی ایسے احساسات برقرار رکھتے ہیں جومستقبل میں اختلافات کو جنم دیں۔ ہم ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں اور جدائی اور دوری ہمارے ہر عمل سے عیاں ہو تی ہیں۔ ہم کٹی ہوئی مالا کی طرح ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہیں۔ ہم غیرمسلموں سے زیادہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
حقیقت میں ہم نے اپنے خدا کو بھلا دیا ہے جس کے نتیجے میں اس نے ہمیں بکھیر دیا ہے۔ چونکہ ہم نے اس پر ایمان اور محبت کو چھوڑ دیا ہے اس لئے اس نے ہمارے دلوں سے محبت کا احساس چھین لیا ہے۔ ہم اپنے آغوش کی گہری کھائی میں جو کچھ کر رہے ہیں اور جہاں اس کی خواہش میں مبتلا ہیں یہ سب اسی کم عقلی پر مبنی '٘میں'، "تم" اور ایک دوسرے کو 'شدت پسند' اور " کافر اجڈ' کا لیبل لگانے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پر غضب ہوا ہےجس سے کہ ہم محبت کرنے اور کئے جانے سے محروم ہو گئے ہیں۔ اور ہم کرم اور شفقت کو گھن لگا رہے ہیں۔ ہم اس سے پیار نہیں کرتے تو اس نے ہم سے پیار چھین لیا۔ پتہ نہیں اس میں کتنا وقت لگے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم اسکی طرف متوجہ ہو کر اس سے محبت نہیں کرٰیں گے وہ ہماری آپس کی محبت ہمیں عطا نہیں کرے گا۔ وہ راہیں جن پر ہم چل رہے ہیں وہ اس تک بالکل نہیں پہنچا تیں۔ اس کے برعکس اس سے دور لے جا رہی ہیں۔ وہ نفوس جو اس کی محبت کی نہروں کا منبع تھے آج بالکل ویران ہٰیں۔ ہمارے دل خشک صحراؤں کی طرح ہیں۔ ہماری اندر کی دنیا میں غار بن چکے ہیں جیسے جانوروں کے کچھار ہو تے ہیں ۔ ان سب منفی باتوں کا علاج صرف اور صرف خدا کی محبت ہے۔خدا کی محبت ہر چیز کی بنیاد ہے اور تمام محبتوں کیلئے خالص ترین اور صاف ترین ذریعہ ہے۔ انسانی رشتےصرف اسی وقت بنیں گے جب اس سے ہمارا رشتہ استوار ہو گا۔ خد کی محبت ہمارا ایمان، یقین جسم میں داخل روح کی طرح ہے۔ اس نے ہمیں جینا سکھایا اگر آج ہم زندہ ہیں تو صرف اسی وجہ سے زندہ ہیں۔ ہر وجود کی بنیاد اس کی محبت ہے اور آخر میں خدا کی الہی محبت کی وسعت بشکل جنت عطا ہو تی ہے۔ جو کچھ اس نےپیدا کیا ہے وہ محبت پر مبنی ہے اور اس نے انسان کے اپنے ساتھ تعلق کو محبوب ہو نے کے مقدس جذبے میں رکھ دیا ہے۔
محبت کی اظہار کی جگہ نفس ہے ہم اسکو جس سمت بھی موڑیں یہ ہمیشہ خدا کی طرف جاتی ہیں۔ سمت صحیح نہ ہونا اور تنوع میں گم ہو جانا جیسی مشکلات صرف ہماری اپنی پیدا شدہ ہیں[3]۔ اگر ہم چیزوں کی محبت کو خدا سے منسوب کرلیں اور اسی طرح ہم محبت کو اس کے حقیقی معنوں میں لیں تو ہم بہت ساری ایسی چیزوں سے بچ سکتے ہیں جو محبت کو ختم کریں۔ اور اس طرح ہم خد کے ساتھ اورمعبود بنانے سے بھی بچ جائیں گے۔ پھر ہم اپنی محبت اور موجودات سے تعلقات کے ساتھ ان کی طرح رہیں گے جو صحیح راستے پر آگے بڑھتےرہتے ہیں۔
بت پرستوں نے بتوں کی پوجا اسلئے کی کہ ان کے آباواجداد بتوں کو پوجتے تھے اس کے مقابل خدا کی عبادت اور اسکی محبت اسلئے کی جاتی ہیں کہ وہ خدا ہے۔ اسکی عظمت اور بڑائی ہم سے چاہتی ہے کہ ہم اسکے غلام بنیں۔ ہم اس کی عبادت کرنے کی کوشش اسلئے کرتے ہیں کہ ہم اس سے اپنا اظہار محبت کر سکیں، اپنی کامیابیوں پر اس کا شکر ادا کر سکیں اور اپنے پیار کو الفاظ کا جامہ پہنا کر اسکو پیش کر سکیں اور اس سے اپنا تعلق اور واسطہ کا اظہار کر سکیں۔
دنیاوی اعتبارسے ظاہری صفات جیسے خوبصورتی، کمال،شکل، ظاہری وجود،عظمت، شہرت، طاقت، عہدہ، بڑھوتری, خاندان اور نسل وغیرہ کو دیکھ کرمحبت کی جاتی ہے۔ کبھی لوگ خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے کی غلطی کر لیتے ہیں۔ اس کی وجہ ان ذکر کردہ چیزوں سے ان کی کثرت محبت اور تعلق ہوتا ہے اسی لئے دنیا میں بت پرستی بھی موجود ہے۔اسی طرح کے لوگ عموما ظاہری یا جسمانی خوبصورتی اور عادات کے شوقین ہوتے ہیں۔ وہ کمال کی تعریف کرتے ہیں اورعظمت اور ظاہری شکل کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ اپنی انسانیت اور آزادی کو دولت اور طاقت کے حصول کیلئے قربان کر دیتے ہیں اور عہدہ اور جاہ و جلال کی لالچ میں اپنے آپ کو گم کر دیتے ہیں۔ اس طرح اپنی محبت و الفت کو بہت سی مخلوقات میں تقسیم کر کے نہ صرف وہ اپنے جذبات کو جو صرف معبود بر حق اور شان والے خدا کیلئے ہونے چاہئے ضائع کر دیتے ہیں اور محبت کے دو طرفہ میل نہ ہونے یا اپنے معبودوں میں لچک یا ایمان کے قبول کرنے کی رمق نہ دیکھنے کی وجہ سے وہ بار بار موت کا مزہ چکھتے رہتے ہیں۔
دوسری جانب جہاں ایمان والوں کا تعلق ہے وہ تو ابتدائی طور پر اپنےخدا سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس محبت کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ الفت کا مادہ پاتے ہیں۔ وہ صرف معبود واحد کی رحمت کے حصول کی خاطر دوسرے لوگوں اور چیزوں سے پیار کرتے ہیں اور خد کی نیابت میں اپنی الفت کا اظہار باقی چیزوں سے کرتے ہیں۔ در حقیقت خدا کو درمیان میں لائے بغیر چیزوں کی محبت بے کار، بے فائدہ، غیر یقینی اور بے ثمر ہے۔ ایک مسلمان کو باقی ہر چیز سے بڑھ کر خدا سے پیار کرنا چاہئے اور دوسروں کو صرف اسلئے پسند کرے کہ وہ سب اس کے الہی اسماء اور صفات کا رنگین اظہار اور شکلیں ہیں۔ اسی طرح لوگوں کو چاہئے کہ ان چیزوں کی تعریف کر کے انہیں اجاگر کریں اور جب بھی کوئی ایسی چیز نظر آئےانہیں سوچنا چاہئے کہ "یہ بھی تمھاری طرف ہی سے ہے" اور اپنے محبوب کے ساتھ متحد ہونے کا تصور کرنا چاہئے۔ البتہ اس کام کیلئے ہمیں نیک اور متقی لوگوں کی ضرورت ہے جو لوگوں کے سامنے خدا کی آیات پڑھ کر سنا سکیں۔ بے شک ان لوگوں کیلئے جو غور کریں ہر مخلوق ایک چمکتا آیئنہ ہے۔اور سب سے بڑی نشانی ہے جو آیات میں نظر آتی ہے وہ انسان کا چہرہ ہے جو اس کی رحمت کا آیئنہ دار ہے۔
اور احکم الحاکمین نےتمہیں اپنا کا آیئنہ بنایا ہے
ایسا آیئنہ جو اس کی منفرد ذات کو نمایاں کرتا ہے حقانی[4]
یہ شعر کتنا اہم ہے جو نہ صرف ہمیں ہمارا رتبہ بتاتا ہے بلکہ حقیقت بھی آشکار کرتا ہے اگر انسان ایک مخفی خوبصورتی (خدا) کا طلمساتی آیئنہ ہے جو کہ بلا شک ہے تو اسے اپنے دل کی آنکھ کھول کر اس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور اسکی طرف سے کشف اور ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں کا انتظار کرنا چاہئے جو اسےمحبت کےسمندر کی گہرائی میں لے جاسکے۔ اسی طرح اس کو خوش کرنے کے لئے اور اس کی عنایت کے حصول کیلئے انسان کو اس طرف لے جانے والی شاہراہ پر پہنچانے والے ہر ذریعہ کو اختیار کرنا چاہئے۔ چھپے خزانے کے تالے میں لگی چابی کی طرح انسان کا دل ہر وقت مضطرب رہنا چاہیئے۔ اگر محبت سلیمانؑ ہو اور دل تخت سلیمانی ہو تو یہ کہنا عبث نہ ہو گا کہ ایک نہ ایک دن محبت کا بادشاہ اپنے تخت پر ضرور پہنچے گا۔
جب مسلمان تخت پر پہنچ جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں محبت اور دل کا ملن ہوتا ہے تو لوگ اس (خدا) کو پا لیتے ہیں باطن میں اس سے بات کرتے ہیں اور جب پانی پیتے ہیں، خوراک کھاتے ہیں اور سانس لیتے ہیں تو اس کی رحمت کا مزہ کھلے باندوں چکھتے ہیں۔ اسی طرح اس کے لمس کی گرمائش اپنے ہر عمل میں پاتے ہیں۔ قربت کی موجیں اورمحبت بھرا تعلق گہرا ہو جاتا ہے اور انکے دل ایسے جلنے لگتے ہیں جیسے آگ پر رکھ دیے گئے ہوں۔ کبھی کبھی تو وہ اس محبت کی آگ میں جل بھی جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی نہ اکتاتے نہ اپنی آہ و زاری سے دوسروں کو پریشان کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگ اس طرح کی کیفیت کو خدا کی طرف سے ایک عطائے ربانی سمجھتے ہیں وہ اس چمنی کی طرح جلتے ہیں جو نہ دھواں دے اور نہ شعلے۔ وہ اپنی عفت کی طرح خدا کے ساتھ اپنی خوشی اور محبت کی بھی حفاظت کرتے ہیں لیکن اس کا ظہور کسی پر نہیں ہونے دیتے۔
یہ راستہ سب کیلئے کھلا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ راہرو مخلص اور پر عزم ہو۔ جب ایمان والے خدا کی یہ ساری خوبصورتی، کمال،عظمت اور کاملیت کو ظاہر ہو تا دیکھتے ہیں تو وہ پورے شوق، محبت اور پیار کے ساتھ جو ان ذرائع سے حاصل ہو تا ہے اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور خدا سے ایسا پیار کرنے لگتے ہیں جو اسکی شان کے شایاں ہو۔ یہ محبت اگر جذباتی نہ ہو، تو خدا کیلئے ہو تی ہے اور انسانی محبت اور خواہش کا یکساں طریقے سے اظہار ہو تی ہے۔ آخر کار اس دل میں جو یکسانیت تک محدود ہو تا ہے اور جو اسلامی اصولوں پرمنحصر ہو تا ہے اس سے کسی قسم کا انحراف نہیں کرتا چہ جایئکہ اس محبت میں کوئی ناموزونیت آئے۔ ایمان والے خدا سے پیار کرتے ہیں اسلئے کہ وہ خدا ہے اور ان کی خدا سے محبت کسی دنیاوی یا غیر دنیاوی چیز کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ وہ لوگ خدا کے ساتھ اپنی موسلادھارمحبت اور خدا کیلئے اپنی خواہش کی آبشار کو قرآن اور فخر کائنات (محمدﷺ) کی احادیث کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ یہ لوگ ان دونوں چیزوں کو اپنے راستے کی رکاوٹ کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ حتی کہ بسا اوقات جب وہ محبت کی آگ میں مکمل طور پر جل جاتے ہیں لیکن پھر بھی وہ صحٰیح طریقے سے اور منصفانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ مفروضے ان کی خدا کے ساتھ محبت میں مداخلت نہیں کرتے۔ بلکہ اسے مالک حقیقی اور ہر چیز کا محافظ سمجھتے ہو ئے جو کہ اپنے اچھے ناموں اور صفات کے ساتھ مشہور ہے وہ خدا کے ساتھ صاف، مقدس اور محبت بھرا پیار کرتے ہیں۔
ہر چیز سے پہلے اور بعد مومنین سب چیزوں زیادہ خدا سے پیار کرتے ہیں جو ان کا محبوب حقیقی، مطلوب حقیقی اور معبود حقیقی ہے۔ وہ خدا کے طالب ہیں اور اپنے ممکنہ عمل سے وہ پکار اٹھتے ہیں کہ وہ خدا کے بندے ہیں۔ اس کے حصول کےلئے وہ سب سے پہلے محمد ﷺفخر انسانیت سے پیار کرتے ہیں جو انبیاء کی روح تھے۔ جو خدا کے وفادار بندے خدا کی ذات، اسماء اور صفات کے صحیح ترجمان، خاتم النبین اور انبیاء کی روح تھے اس کے بعد وہ باقی تمام انبیاء اور اولیاء صالحین سے بھی محبت کرتے ہیں جو حقیقی نائب اور شفاف آیئنہ اور خدا کے وفا شعار بندے تھے جو مقاصد الہیہ اورتخلیق کائنات میں غور کرنے والوں کے نگران اور ذمہ دار تھے۔ اس کے بعد وہ نوجوانوں سے جو انسانیت کیلئے خدا کی طرف سےعطا کردہ پیشگی قرض ہیں سے پیار کرتے ہیں۔ تا کہ وہ بہتر طریقہ سے اس فانی دنیا کو سمجھ اور اندازہ لگا سکیں۔ اس کے بعد وہ اس دنیا سے پیار کرتے ہیں اسلئے کہ یہ دوسرے سلطنت کا قابل کاشت کھیت ہے۔ اور ساتھ ہی خدا کے اسماءحسنی کا نمونہ ہے۔ پھر وہ اپنے والدین سے پیار کرتے ہیں اس لئے کہ وہ محبت اور انس کے ہیرو ہوتے ہوئے اپنے بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔اور آخر میں وہ بچوں سے محبت کرتے ہیں اسلئے کہ وہ خلوص کے ساتھ اپنے والدین کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کی ساتھ بے تکلف قربت بھی رکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ خدا کے ساتھ دلی محبت اور اس کی رضا کیلئے پیار کی علامت ہے۔
غیر مسلم لوگوں سے اسی طرح کا پیار کرتے ہیں جو خدا کے ساتھ ہو تا ہے جبکہ مسلم لوگوں سے خدا کی وجہ سے پیار کرتے ہیں ان دونوں میں فرق ہے۔ اس طرح کی مبنی بر الہہ محبت جو ایمان و عبادات سے حاصل ہو تی ہے سچے مسلمانوں کیلئے ایک منفرد چیز ہے۔جبکہ دوسری جانب جسمانی محبت جو آوارہ پن اور خبث باطن پر مبنی ہو تی ہے وہ گنااور انسان کے اندر چھپی معصیت کا نتیجہ ہے۔ خدا کی محبت اور اس کا اظہار اس مقدس رقیق دو کی طرح ہے جسے فرشتے بھی پینے کی تمنا کریں۔ اگریہ محبت اتنی بڑھ جائے کہ عاشق ہر چیز محبوب کیلے قربان کرے - چاہے مادی ہو یا روحانی- اپنے لئے کچھ بھی نہ چھوڑے تو پھر صرف محبوب کا دل میں صرف تصور ہی رہ جاتا ہے۔ دل اس تصور سے معمور ہو جاتا ہے اور اسی کے ساتھ دھڑکتا ہے اور آنکھیں اس محبت کا اظہار آنسوؤں سے کرتی ہیں۔ دل اپنی ٹھندک کیلئے آنکھ سے اپنا راز اور دکھڑا سنانے کیلئے کہتا ہے۔ اندر سے رونے اور خون بہانے کی کوشش کرتا ہے اور دوسروں سے اپنا درد چھپائے اس طرح گویا ہوتا ہے۔
اگرمحبت کا دعوی ہے تو اسکے درد پر افسردہ نہ ہو
محبت کی ان تکالیف سےکوئی تجھ پر آگاہ نہ ہو (نامعلوم)
اصل میں محبت بادشاہ ہے اور دل تخت ہے اور امید کی عبا اورمصلی پر بیٹھ کر تنہائی کے عالم میں نکلی آہیں اس بادشاہ کی آوازیں ہیں۔تنہائی کے عالم کی سسکیوں اور آہوں کےمتعلق جو خدا تک پہنچنے کیلئے لانچنگ پیڈ کی حیثیت رکھتے ہیں کسی کو علم بھی نہ ہونے دینا چاہئے اسلئے کہ جو اس کی حقیقت سے نا واقف ہیں وہ اس کا ٹھٹھہ کریں گے۔ اگر یہ محبت اس وحدہ لا شریک کیلئے ہے تو پھر اسے سب سے زیادہ مخفی جگہ رکھنا چاہئے تاکہ وہ اپنے مقر (گھونسلے) سے اڑ کر کہیں اور نہ چلی جائے۔
آج کے محبت کے دعویدار غیرحقیقی محبت کا ڈھنڈورہ ہرطرف پیٹتے پاگلوں کی طرح ادھر ادھر نظر آتے ہیں۔ خدا کے عاشق تو سچےاور خاموش ہو تے ہیں۔ خدا کی دہلیز پر اپنی جبین نیاز کو جھکائے وہ اپنا مدعا صرف اسی کے سامنے بیان کرتے ہیں۔وہ گاہے گاہے مدہوش بھی ہوتے ہیں لیکن اپنا راز کسی کو نہیں بتاتے۔ وہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں، اپنی آنکھوں اور کانوں، اپنی زبانوں اور ہونٹوں سے صرف خدا کی حضوری کرتے ہیں اور اس کی صفات کی بلندیوں میں سیریں کرتے ہیں۔ وہ وجود کے نور میں گھل کر ایسے فنا ہو تے ہیں جیسے محبت کا جنازہ نکل رہا ہو۔ جوں جوں وہ خدا کو محسوس اور ادراک کرتے ہیں وہ سوزیدہ ہو کر پکار اٹھتے ہیں " اور بھی کچھ" وہ اپنے دلوں کی بلندیوں سے بہت کچھ محسوس کر رہے ہوتے ہین لیکن پھر بھی وہ یہی پکارتے ہیں " کچھ اور بھی" باوجود یکہ وہ محبت کرنے والے اور محبت کئے ہوئے بھی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی مطمئن نہیں ہو تے اور " کچھ اور بھی" ہی دہراتے رہتے ہیں۔ اور چونکہ وہ مسلسل کچھ اور مانگتے رہتے ہیں تومحبوب برحق ان سے حجابات اٹھا تے ہیں اور ان کو ایسی دانش و بصیرت عطا فرماتے ہیں جو پہلے کبھی نہ دیکھی گئی ہو اور بے شمار راز ان کو القاء ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد جب وہ اپنے محبوب اور اپنے مدعا کو محسوس کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ ان کا ہو جاتا ہے۔ وہ جو چیز بھی دیکھتے ہیں اس میں انہیں خدا کی خوبصورتی نظر آتی ہے۔ ایسا وقت آتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کو بالکل بھلا کر ایک خدا کی رضا کو پور کرنے کیلئے اپنی قوتوں کو اس سے جوڑ دیتے ہیں اور اس کے عظیم رتبے کا اپنی محبت کرنے اور کئے جانے اورعلم اور معلوم سے تجزیہ کرتے ہیں۔ اس کی اتباع اور وفاداری میں وہ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنے دل کو ایسے قفل در قفل لگاتے ہیں کہ کوئی غیر کبھی اس مقدس گھر میں داخل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کا پرتو ہوتے ہیں اور ان کا خدا کی مدح کرناسمجھ سے بھی بالاتر ہو تا ہے۔
خدا کے ساتھ اس درجہ کی وفادری کا جواب ان کے ایمان کے مطابق بہت پختہ اور یقینی ہو تا ہے۔ خدا کے یہاں ان کا مقام خدا اور ان کے قلوب سے بالمشافہ مطابقت رکھتا ہے۔ اسی لئے وہ اس کےحضور صحیح بن کر رہنا اور جانا چاہتے ہیں۔ جب وہ اس سے گہری محبت کرتے ہین تو وہ یہ نہیں سبجھتے کہ انہوں نےخدا کو کچھ دیا ہے نہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے بدلے خدا انہیں کچھ دے۔ رابعہ عدویہ[5] نے اسی لئےکہا تھا "میں آپ کی علو شان کی قسم کھاتی ہوں کہ مین نے تمھاری عبادت اس لئے نہیں کی کہ تو مجھے جنت دے گا بلکہ میں تو صرف تم سے محبت کرتی ہوں اور اپنی بندگی کا تجھ سے اظہار کرتی ہوں"۔ اس طرح وہ اس کی ذات کی طرف انتہائی محبت کے عالم میں چلتے ہوئے اپنے ذہن میں اسکی رحمت اور مہربانی کا تصور بھی ساتھ رکھتے ہیں۔وہ ہمیشہ اپنے دل کے ساتھ اسکے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی سمجھ و سوچ کے ساتھ اسکے الہی ناموں کے آیئنے میں ایک حقیقت پاتے ہیں۔ وہ ہر چیز میں محبت کی آواز پاتے ہیں اور ہر پھول کی خوشبو سےنومی کی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔اور خوبصورتی کے ہر منظر کو اس کے جمال کا پرتو سمجھتے ہیں۔ جو کچھ وہ سنتے، محسوس کرتے یا سوچتے ہیں اسے صرف اس کی خاطر محبت سمجھتے ہیں جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پوری موجودات کو محبت کا اظہار سمجھتے ہیں اور اسے محبت کی ہم آہنگی کے طور پر سنتے ہیں۔
جب محبت دل کی وادی میں خیمہ زن ہو جاتی ہے تو متضاد چیزیں بھی ایک جیسی لگنے لگتی ہیں جیسے امن، بدامنی- رحمت، مصیبت- گرم، میٹھا- راحت، بےچینی-غم، خوشی- ان سب کی ایک جیسی آواز اور شکل لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ دراصل محبت والے قلوب کیلئے مصیبت، خوشی سے مختلف چیز نہیں ہے انکے نزدیک مصیبت بھی ایک علاج ہے اسلئے وہ درد اور غم کو بھی جنت کی نہر سے آیا ہوا سمجھ کر نوش کر لیتے ہیں۔ وقت، اور حالات چاہے کتنے ہی بے رحم ہو جائیں وہ وفا شعاری کے احساسات کے ساتھ اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔ وہ اپنی نگاہیں درمحبت کے کھلنے کے انتطار میں لگائے مختلف سمتوں میں بھی خدا کی مہربانی کے اظہار میں انتطار کرتے رہتے ہیں۔ وہ خدا کی محبت کو اس کی اتباع کر کے تاج پہناتے رہتے ہیں۔انکے دل تسلیم و رضا سے دھڑکتے ہیں اور محبوب کی ناراضگی کے خوف سے دہل جاتے ہیں وہ گرنے سے بچنے کیلئے حیران کن طور پر خدا کے منفرد توکل اور مدد کی آغوش میں پناہ لیتے رہتے ہیں۔ خدا کی رضا سے ہم آہنگ ان کی یہ طلب ان کو دنیا اور آخرت دونوں میں ہر ایک کی نگاہ میں با عزت بنا دیتی ہے۔ ان کے تصور میں خدا کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک کسی چیز کا معاوضہ لینا ایک طرح کا دھوکہ ہے لیکن پھر بھی وہ اسے خلاف ادب سمجھتے ہیں کہ اس رحمت کو قبول نہ کریں جس کے وہ سزاوار نہ تھے۔ وہ ان مہربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن احتیاطا وہ یہ بھی پکار اٹھتے ہیں" اے اللہ! میں ان چیزوں کی طرف رغبت ہو جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں"
ایک سچے عاشق کیلئےپرجوش آرزو ایک انتہائی اعلی درجہ ہے اور محبوب کی رضا میں اپنے آپ کو گم کر دینا ایسی کامیابی ہے جسکا حصول مشکل ترین ہے۔ محبت کی بنیاد چند ابتدائی اصولوں جیسے توبہ، احتیاط اور صبر پر ہے۔ لیکن جب اس میں پڑ جاتے ہیں تو پھر خود تملکی، واقفیت، محبت ، اور آرزو جیسے اہم اصول اس درجہ کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ محبت کی راہ کا پہلا سبق تزکیہ ہے کہ اپنی ذاتی خواہشات کو قربان کردیا جائے۔ اپنے تمام خیالات و اتصالات کو اسی سے جوڑ دیا جائے۔ ان چیزوں میں مشغول ہوا جائے جو اسکی طرف رہنمائی کریں۔ اسکی رحمت کے ظہور کا شدت سے انتظار کرنا چاہیئے۔ اور جب وہ آپ کی طرف متوجہ ہو جائے تو زندگی بھر اپنی اس کیفیت پر قائم رہنا چاہئے۔ اس راہ میں محبت جنون کی حد تک ہو تی ہے۔ گرمجوشی انتہائی جذبے ولولہ اور مرغو بیت کا نام ہے جب گرمجوشی انسانوں کی حقیقی فطرت بن جاتی ہے تو یہ بے حد پرشوق ہوتی ہے۔ عاشق کے ہر عمل کے ساتھ رضا شامل ہوتی ہے۔ خود تملکی اس کے وجود یا اسکی ذات کے بالمشافہ زیر اثر ہونے کے احساسات و ادراکات کے نشے میں معمور ہونے کے مقابلے میں خبردار ہوئے جانے کا نام ہے۔
لوگ جتنا زیادہ ان ذکر کردہ صفات کو اپنے اندر ترقی دیتے ہیں اتنا ہی زیادہ انکے رویے میں تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ بعض اوقات وہ پر سکون کنارے ڈھونڈتے ہیں تاکہ وہاں اس ذات سے رازو نیاز کر سکیں۔ کبھی وہ مختلف حالات کے زیر اثر اس سے بات بھی کرتے ہیں اور اس سے جدائی کا غم بھی بتاتے ہیں وہ وصل کی امید سے خوشی سے جھوم جاتے ہیں اور آنسوؤں سے روحانی مسرت و سکون محسوس کرتے ہیں۔ بارہا ایسا ہو تا ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش سے بےخبر ہو جاتے ہیں اسلئے کہ وہ اس کا مزہ چکھ رہے ہوتے ہیں اور کبھی وہ سکینہ میں اس قدر غرق ہو جاتے ہیں کہ ان کو اپنی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔
محبت حکمت و بصیرت کی آعوش میں جنم اور پروان چڑھتی ہے۔ جو لوگ حکمت سے عاری ہو تے ہیں وہ محبت نہین کر سکتے اور جن کا ادراک کمزور ہو وہ بھی بصیرت تک نہیں پہنچ سکتے۔ کبھی کبھی خدا خود بھی محبت کو دلوں مین پیدا کر کے داخلی نظام چلا دیتے ہیں یہ ایک اضافی رحمت ہوتی ہیں جس کا اکثر لوگ انتطار کرتے ہیں۔ لیکن کسی بڑے عجوبے کے انتظار میں بے صبری سے بیٹھ جانا اور ہے اور فعالیت کے ساتھ نہ ختم ہونے والے روابط کا انتطار اور ہے۔ احکم الحاکمین کے دربار میں سچے غلام اپنی توقعات کوعمل سے جوڑتے ہیں۔ قوت عمل رکھنے والا نقطہ نطر اپناتے ہیں اور بظاہر ساکن حالت میں اتنی زیادہ طاقت پیدا کر دیتے ہیں جو پوری کائنات کو بڑے بڑے کام کرنے کیلئے کافی ہو سکتی ہے۔
یہ لوگ سچے عاشق ہے جو جسمانی صفات کر رہے ہیں۔ وہ محبوب کے ہر عمل کو خوشی سے لیتے ہیں اور ہر دم وفاداری کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ نسیمی[6] نے کہا ہے۔
ایک بے آس عاشق کی طرح اے محبوب میں تجھےکبھی نہ چھوڑوں گا
گر تو میرے دل کو نشتر کے ساتھ بھی چیر کر دے تب بھی نہ چھوڑوں گا
اس کے باوجود کہ یہ لوگ شدت سے خدا کی قربت کا انتظار کرتے ہیں لیکن کبھی وہ غوغ نہیں کرتے وہ اس کے توقعات کے سوا سب چیزیں اپنے دماغوں سے نکال دیتے ہیں اور صرف اسکے پاس ہونے کا سوچتے ہیں۔ انکی بات چیت محبوب کی سی ہوجاتی ہیں اور انکی آوازیں ملکوتیت حاصل کرلیتی ہیں۔ انکے لئے محبت سب کچھ ہے وہ جسم کے بغیر تو جی سکتے ہیں روح کے بغیر نہیں۔ وہ صرف محبوب کی محبت کی خاطر اپنے دل میں کسی اور کو جگہ دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ اس طرح اگرچہ وہ لوگ دنیاوی لحاظ سے غریب ترین اور کمزور ترین لوگ ہوں وہ ایسا رتبہ پاتے ہیں جس پر بادشاہ بھی رشک کریں۔ وہ چھوٹا ہوتے ہوئے بھی بڑے ہے۔ کمزور ہو کر بھی طاقتور ہیں اور اپنی ضرورتوں کے باوجود بھی اتنے مالدار ہیں کہ پوری کائنات پر حکمرانی کر سکتے ہیں۔ گرچہ وہ ایک لاغر شمع کی طرح نظر آتے ہیں لیکن وہ طاقت کے منبع کی طرح اتنے بھرپور ہیں کہ سورج کو روشنی پہنچا سکتے ہیں۔ گرچہ ہر ایک کو سچے عاشقوں کی تلاش میں دوڑنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ اس سے زیادہ واضح ہیں کہ عاشق کس طرف اور کس (خدا) کی جانب دوڑے چلے جا رہے ہیں۔اپنے کردار کی مضبوطی اور پختگی سے وہ کا ئنات کی ہر چیز پر حاوی ہے۔ لیکن جب خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ ایک چنگاری یا اس سے بھی چھوٹے بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے وجود کی طاقت کو بھلا کرلا شئے ہو جاتے ہیں۔
خدا کے بغیر زندگی انکے لئے کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ خدا کے بغیر کوئی زندگی ہی نہیں۔ محبت کے بغیر زندگی گزارنا بے کار ہے۔ اور اس کے تعلق کے بغیر خوشیاں اور مسرتیں محض اشاروں کے سوا کچھ نہیں۔ یہ لوگ بغیر کسی وقفے کے محبت اور اشتیاق کی بات کرتے ہیں اور جو ان سے واقف نہیں ان کو اس سے بالکل مختلف سمجھتے ہیں۔
[1] بخاری، مظالم،,4 ترمذی، فتن،68
[2] یہ آرٹیکل اولاً (ایک تحریک جو اپنے ماڈل خود بناتی ہے) میں استنبول 2004 ص184-196 میں شائع ہوا۔
[3] یہان مصنف "صحیح سمت نہ ہو نا اور تنوع میں گم ہو نا" اور اس کے ساتھ ساتھ خدائے واحد کے سامنے سرتسلیم خم کرکے اور اس کی جکہ دوسرے دنیاوی معبودوں جیسے کثرت مال، طاقت کا استعمال اور حرام خوشیاں اختیار کرنا وغیرہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ بت پرستی مختلف خداؤں کو پوچنے کی ایک اور شکل ہے۔
[4] حقانی،محمد بیع (متوفی 1606ء) ایک دیوانی شاعر ہیں جنکی دیوان "حلفیہ" (ادبی کتاب جو حضور کع جسمانی خواص پر مشتمل ہے) اپنی نوعیت کی پہلی کاوش تھی
[5] رابعہ عدویہ (بصریہ) 703-805ء ایک مثالی تقوی والی ولی اللہ گزری ہیں
[6] نسیمی (متوفی 1404ء) بغداد کے مشہور صوفی شاعر ہیں انکا شمار دیوانی ادب کے اولیں استادوں میں ہوتا ہے انکے ترکی اور فارسی زبانوں میں دو دیوان (شاعری کتب) ہیں۔
- Created on .