مکالمہ کا محمدی مطلب اور مفہوم

میں یہ دعوی نہیں کرنا چاہتا کہ میرا حافظہ کمزور ہے لیکن اسکے باوجود میں دسیوں ایسی آیات پے در پے پڑھ سکتا ہوں جن کا تعلق عفو و درگزر، مکالمہ اور اپنا دل دوسروں کے لئے کھول دینے سے متعلق ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام سب کو اپنے اندر سمو سکتا ہے اور یہ کہ یہ عالمگیر مذہب ہے۔

جیسا مثال کے طور پر قرآن کہتا ہے" صلح کرلینا ہی بہتر ہے(النساء: 128) اس آیت سے یہ ظاہر  نہیں ہوتا کہ یہ خاص واقعہ، معنی یا فریم ورک کے ساتھ مختص ہے۔ یہ ایک عمومی  قاعدہ ہے۔مزید برآں کیا"اسلام" کا مصدر ایسا نہیں کہ اس کا مطلب صحیح ہونا، سر تسلیم خم کرنا، امن، تحفظ اور اعتماد ہوتا ہے؟ اس وجہ سے ہمارے لئے ممکن نہیں کہ ہم ان خصوصیات کو قائم کئے اور اختیار کئےبغیر سچے مسلمان بن سکیں۔ اسکے ساتھ ساتھ اس مقدس نام کے مطلب کا سمجھنا، ایک ایسی ماہیت ہے جس سے ہر ایک کوگلے لگانا اور ہر چیز کو محبت کے ساتھ دیکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم اس مضمون کو اس جذبے سے نہ لیں تو پھر ہمارے متعلق یہ خیال کرنا کہ  ہم نے اسلام کو سمجھ لیا ہے یا اس کی دعوت دے رہے ہیں یا اس کی نمائندگی کر رہے ہیں سب غلط ہوگا۔

ان قواعد کے علاوہ جو امن اور تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں قرآن میں ایسی آیات موجود ہیں جن میں جرائم پیشہ لوگوں اور لاقانونیت اور دہشت پھیلانے والے لوگوں کے ساتھ نمٹنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے سزائیں، پابندیاں اور مکافات بھی موجود ہیں۔ لیکن ان آیات اور احادیث کے مضمون یا ان کے نفاذ کے متعلق اگر ہم ان حالات کا جائزہ نہ لیں، اگر ہم اصل کو  تفصیل سے یا مقصد کو  مطالبے  سےالگ نہ کریں، اگر ہم آیات نزول سے قبل اور بعد کے حالات کے بغیر تجزیہ کریں تو پھر ہم غلط نتیجہ پر ہی پہنچیں گے۔

میں کہہ سکتا ہوں اور کہتا بھی ہوں کہ محبت، امن، عفوو درگزر اور تحمل اسلام کی بنیادی چیز یں ہیں باقی سب واقعاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں  کے ابتدائی اہم مسائل پر ان کی اہمیت کے مطابق توجہ دی جائے۔ مثال کے طور پا جب خدا نے محبت کو اہمیت دی اور جب انسان کو اس نے بتایا ہے کہ وہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس سے محبت کرتے ہیں اور جب اس نے اپنے سب سے زیادہ پیارے بندے کو "حبیب اللہ" کا لقب دیا - وہ خود خدا سے پیار کرتا ہے اور خدا بھی اس سے پیار کرتا ہے - تو پھر ہمیں اس کو بنیادی اصول کے طور پر لینا چاہئے۔ منافقوں اور کافروں کے خلاف جہاد کرنا ثانوی چیزیں ہیں جو مخصوص حالات کی وجہ سے ضروری ہو جاتی ہیں۔ قواعد کچھ وجوہات اور حالات کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں جب وہ وجوہات نہ رہیں تو یہ قواعد  بھی نافذالعمل نہیں رہتے۔سزائےموت، ملک بدری اور جنگ جیسے قواعد کچھ   مخصوص وجوہات کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہاں جو بات ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے قواعد کو نرم الفاظ اور ملائم رویے سے دوسروں تک پہنچایا  جائے۔ اسی طرح امن، انصاف اور پائیداری اسلام میں ضروری ہے۔ جبکہ جنگ جو حالات کی ضمنی پیداوار ہوتے ہیں وہ کچھ شرائط پر منحصر ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے جو اس ماہیت سے صرف نظر کرے ثانوی قواعد و ضوابط کی وجوہات نہ جانے اور جو(ظاہریوں[1] کی طرح قرآن کو خام طریقے سے پڑھتے ہوئے) تشدد پسندی پر زور دے اس نے ان قواعد کو گویا سمجھا ہی نہیں نہ ہی انکی وجوہات و ذرائع کو جانا اور نہ اسلام کو سمجھا ہے۔

جب متعلقہ وجوہات ظاہر ہوتی ہے تو وہ قواعد جو ان کی وجہ سے ضروری قرار پاتے ہیں وہ فعال ہوجاتے ہیں۔مثال کے طور پر جب بیرونی دشمن ہم پر حملہ کرے گا تو ظاہر ہے ہم کونے میں بیٹھ کر  حملہ آوروں  کو تو یہ نہیں کہیں گے  "کتنا اچھا ہوا تم آگئے"

اس دنیا کو دیکھیں جس میں ہم رہ رہے ہیں، ایک اخبار میں تازہ ترین شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں56جگہوں میں 'خونریز جنگیں" ہو رہی ہیں۔ ابھی بھی آنسوؤں اور لہو کے سیلاب دنیا کے بہت سے خطوں میں بہہ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سی جنگوں میں کچھ ممالک جو جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں وہ دونوں جانب موجود ہیں۔ ایسی صورت میں جنگ کا انکارحقیقت کا انکار ہے اس وجہ سے جب کوئی ہمارے جمہوری حقوق اور آزادیوں کو چھیڑتا ہے تو ہمیں اپنا دفاع کرنا ہوگا اور جب ضرورت پڑے تو لڑنا ہوگا۔ لیکن جیسے میں نے پہلے کہا یہ ثانوی چیزیں ہیں اسلام کی بنیاد امن اور  انسانیت  کو محبت سے گلے لگانے پر ہے۔

مشترکہ چیزوں کی طرف دعوت:

 مکالمہ پر آنے اور جاری رہنے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم دلچسپی کے ان امور کا جو دوسرے لوگوں کے درمیان مشترکہ ہیں بڑھایئں۔ ہمارا مخاطب چاہے یہودی ہو یا نصرانی، یہی طریقہ اپنانا چاہئے اور ان مسائل سے جو ہمارے درمیان تفرقہ پیدا کریں بچنا چاہئے۔ جیسا کہ مثال کے طور پر جب قرآن اہل کتاب سے مخاطب ہوتا ہے تو یوں کہتا ہے: "اے اہل کتاب آؤ ان مشترکہ باتوں کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہیں"۔ اور وہ باتیں کیا ہیں؟ "کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں" اس لئے کہ حقیقی آزادی یہ ہے کہ کسی دوسرے کی غلامی سے نکلا جایا جائے۔ جب کوئی خدا کا بندہ بن جاتا ہے تو وہ غیر کا بندہ بننے سے بچ جاتا ہے۔ تو آؤ اس معاملے میں ایک ہو جایئں۔ اور آگے ہے: "ہم  میں سے بعض دوسرے  بعض کو اپنا رب نہ بنائیں" (آل عمران:64) یہاں مراد یہ ہے کہ ہمارا ابتدائی مشترکہ نقطہ ہے کہ خدا پر ایمان لایئں۔ یہاں ابھی تک حضورﷺ کی رسالت کا ذکر نہیں ہے۔ دوسری آیت میں ہے: "ایمان والوں سے کہہ دو ، ان لوگوں کو معاف کر دیں جنہیں آخرت کی امید نہیں ہے"۔ یہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ جو لوگ آخرت یا بعث بعدالموت پر یقین نہی رکھتے انکو  معاف کر دیا جائے، اس لئے کہ خدا بندے کے عمل کے مطابق جزا دیتا ہے"۔(الجاثیۃ: 14) یعنی اگر کسی کو سزا دینی ہے تو خدا نے دینی ہے اور اس کے سوا یہ معاملہ کسی اور کا نہیں ہے۔

اس معاملے پر ایک اور واضح مثال خود حضورﷺ کی ذات اطہر ہے جنہین اللہ تعالی نے کچھ مجرم کفار کے خلاف بد دعا کرنے پر ہلکی تنبیہ کی تھی۔ چنانچہ روایت کے مطابق عرب بدوؤں کے ایک قبیلے نے آپﷺ سے درخواست کی کہ ان  کے یہاں قرآن پڑھانے کے لئے کچھ اساتذہ بھیجے جایئں۔ آپﷺ نے صحابہ کو بھیجا، لیکن بدوؤں نے گھات لگا کر انہیں بے دردی سے 'بئر معونہ'(جو ایک کنواں تھا) کے پاس شہید کر دیا۔ اس واقعے کے بعد رسول اللہ ﷺنے اللہ سے ان پر عذاب بھیجنے کی درخواست کی تو اللہ تعالی نے درج ذیل آیات نازل فرمائی:

"آپﷺ کو ان پر کوئی اختیار نہیں، چاہے وہ  (خدا) انکو معاف کردے یا انکو عذاب دے اس لئے کہ وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں"۔(آل عمران:128-127)

آج پوری دنیا میں لوگوں کو مذہب سے دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ میری رائے میں مذہب کی صحیح اقدار کے ساتھ نمائندگی کے معاملے کو آج جو اہمیت  ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔آج ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو نیک، خود تملک، ہوشیار ، مخلص اور صاف دل ہوں۔ ایسے لوگ جو چھپانے والے یا متکبر نہ ہوں اور دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے والے ہوں۔ جن کو دنیاوی اغراض نہ ہوں۔ اگر معاشرہ ان صفات کے حامل لوگوں کو تعلیم دے دے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ ایک بہت بہتر مستقبل آنے والا ہے۔

اہل کتاب کے ساتھ مکالمہ

مومنوں کے رویوں کا انحصار ان کے ایمان کے درجے پر ہوتا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اگر صحیح طریقے  سے پیغام دیا جائے تو مکالمہ سے ہم آہنگ ماحول، ہمارے ملک میں بھی اور باہر بھی جلد ظاہر ہوجائےگا۔ اس لئے باقی مضامین کی طرح ہمیں اس مسئلہ کو ایسے دیکھنا چاہئے، جیسے قرآن مجید اور سنت رسول میں بیان کیا گیا ہے۔ خداقرآن میں فرماتا ہے:

"یہ وہ کتاب ہے جسمیں کوئی شک نہیں۔ یہ ہدایت ہے متقی لوگوں کےلئے"۔( البقرۃ: 2)

پھر اس کے بعد ان متقی لوگوں کی صفات اس طرح بیان فرمائیں:

"وہ لوگ ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز قائم کرتےہیں، اور ہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو آپﷺ پر اترا ہے اور جوآپ سے پہلے اترا سب پر ایمان رکھتے ہیں اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں"(البقرۃ: 3،4)

 بڑے نرم اور مہذب انداز  سے قرآن پہلے انبیاء اور انکی کتابوں پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ بات قرآن کے بالکل شروع میں ذکر کی گئی ہے جس سے یہ میرے لئے اس وقت بڑی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے، جب میں عیسایئوں اور یہودیوں کے ساتھ مکالمہ کی بات کرتا ہوں۔ دوسری آیت میں خدا کا حکم ہے۔

"اور ان اہل کتاب سے بحث کرو تو اچھے طریقے سے کرو"۔(العنکبوت: 46)

اس آیت میں قران ہمیں سوچنے اور بات کرنے کے دوران مناسب رویہ کے اختیار کرنے کا طریقہ بتا رہا ہے۔ بدیع الزمان نے اس بات کو واضح کرتے ہوئے بہت ہی اہم بات کی ہے: "جو لوگ بات چیت میں اپنے دشمنوں کی شکست پر خوش ہوتے ہیں ان میں کوئی رحم نہیں ہے"۔ وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں "آپ کسی کو زیر کر کے کچھ حاصل نہیں کرتے اگر آپ ہار جایئں اور دوسرا جیت جائے تو گویا آپ  نے اپنی غلطی کو صحیح کردیا"

 دوسروں سے مباحثہ، خودی کی خاطر نہ کرنا چاہئے بلکہ سچ کو عیاں کرنے کے لئے کرنا چاہئے۔ اگر ہم سیاسی مباحثوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ اسکا مقصد صرف دوسروں کو نیچا دکھانا ہے اسکا کوئی مثبت نتیجہ نہیں ہوتا۔ جن نظریاتی مباحثوں میں سچ کو آشکار کرنا ہوتا ہے، ان میں باہمی افہام و تفہیم، عزت، انصاف کے ساتھ وفاداری جیسے اصولوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن کی روشنی میں مباحثہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اسکے لئے فضا سازگار ہو۔

درج بالا آیت (عنکبوت:64) کو مزید پڑھنے سے اس شرط  کا پتہ چلتا ہے: "مگر ان لوگوں کے ساتھ (نرمی والا رویہ نہ اپنائیں) جو کفر   کے ساتھ ظالم بھی ہوں"۔ ظلم کی تشریح ایک اور جگہ پر اس طرح کی گئی ہے: "یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو شامل نہیں کیا: وہی لوگ محفوظ ہیں اور یہی لوگ ہدایت پر ہیں"۔ (الانعام:82)

اس مذکورہ آیت کی حضورﷺ نے تشریح اس طرح فرمائی کہ خدا کے ساتھ شرک کرنا کفر کرنے کے مترادف ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس نے کائنات کی بے حرمتی کی۔ سب سے برا ظلم یہ ہے کہ اپنے ضمیر کی اس آواز کو جو خدا  کا اظہار کرتی ہے، دبا دیا جائے۔ ظلم کا یہ بھی مطلب ہے کہ دوسروں کے ساتھ زیادتی کیا جائے، ان کو دبایا جائے، اور اپنے نظریات ان پر تھوپے جائیں۔ اس لحاظ سے ظلم کے دو مطلب ہوئے شرک اور کفر  دونوں  بڑے گناہ ہیں۔ اوپر دی گئی تشریح کے مطابق ضروری نہیں کہ ہر مشرک یا کافر برائی کا مرتکب ہو۔ لیکن وہ لوگ جو دوسروں کو دبایئیں۔ جو برائیاں کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں۔ اور جو دوسروں کے حقوق اور خدا کے انصاف کو پامال کریں، ان کا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مقابلہ کرنا چاہئے ۔

ان اہل کتاب کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے جو زیادتی نہیں کرتے ہمیں کوئی اختیار نہیں کہ ان کے ساتھ بدسلوکی  کریں یا ان کی بربادی کا سوچیں۔ اس طرح کا رویہ غیر اسلامی ہے اور اسلام کے اصول و  ضوابط کے خلاف ہے۔ ایک اور جگہ پر قرآن میں ہے:

"خدا تمہیں ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نےآپ سے دین کے متعلق جنگ نہیں کی نہ آپ کو آپ کے گھر سے نکالا، اس بات سے نہیں روکتا کہ انکے ساتھ نیکی کرو اور انصاف والا معاملہ کرو"۔ (المتحنۃ: 8)

        یہ آیت ایک مہاجر صحابیہ حضرت اسماءؓ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے آپؑ سے پوچھا کہ انکی مشرک ماں انہیں ملنے مکہ سے آرہی ہے، تو کیا میں ان سے ملوں یا نہیں؟ اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی ملاقات بالکل قابل قبول ہے اور یہ کہ اسماء کو اپنی والدہ کے ساتھ نرم دل رہنا چاہیے۔ میں یہ بات آپ لوگوں پر چھوڑتا ہوں کہ بتایئں کہ ان لوگوں کے ساتھ جو خدا، قیامت اور رسولوں پر ایمان رکھتے ہوں کیسا معاملہ رکھنا چاہئے۔

قرآن کی سینکڑوں آیات سماجی مکاملہ اور تحمل کے متعلق ہیں لیکن ہمیں اپنے تحمل میں توازن قائم رکھنا چاہئے۔ کوبرا سانپ کے ساتھ رحم کا مطلب ہے ان لوگوں کے ساتھ زیادتی جنہیں اس نے ڈسا ہے۔  یہ دعوی کرنا کہ "انسان پرستی" خدا کی رحمت سے بھی زیادہ مہربان ہے یہ مہربانی کےساتھ ناانصافی ہے اور دوسروں کے حقوق کی پامالی ہے۔ حقیقت میں بعض جگہوں کو چھوڑ کر قرآن اور سنت ہمیشہ تحمل کی بات کرتے ہیں۔ اس تحمل کے سائبان کا سایہ نہ صرف اہل کتاب کو بھی شامل ہے بلکہ ایک طرح سے سب لوگوں کو محیط ہے۔

کھیل اور مکالمہ کا طریقہ کار

یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت، امن، مکاملہ اور تحمل کے نظریات پھیل چکے ہیں۔ اور دنیا بھر میں مواصلاتی رابطوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ ان نظریات کو مزید پھیلانے اور ہر ایک کو ان سے مستفید ہونے کے لئے ہر ایک پر انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اس حوالے سے ایک اہم ذریعہ طاقت اور  مواصلات کا طریقہ، جو بغیر کسی شک کے معاشرے کو متاثر کر سکتا ہے، وہ کھیل ہے۔ کھیلوں کے پروگرام بلکہ ہر وہ چیز جو  کھیل سے متعلق ہو ،وہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک فورا پھیل جاتی ہے۔ یقیناً  نظریات کو پھیلانے  کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں لیکن یہ ذریعہ اختیار کر کے ہم مکالمہ اور تحمل کے نظریات پھیلانے میں مدد لے سکتے ہیں۔ ایسے نظریات جو ہمارے ایمان میں اتنے ضروری ہیں کہ وہ ہر ایک کو بتائے جائیں۔ انکو ان ذرائع  سے ہمارے بارے اپنے لوگوں اور انسانیت کے فائدے کے لئے پھیلا جا سکتا ہے۔

 مثال کے طور پر فٹ بال کے میچ میں صرف ہونے والے۹۰ منٹ بڑے اچھے طریقے سے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ جہاں ایک طرف، اطراف میں بیٹھے ناظرین کھیل سے لطف اندوز ہوں گے، وہاں انکو اچھی باتیں بھی بغیر اعتراض کے دکھائی جا سکتی ہیں۔ ان 90 منٹ کو اس طرح استعمال کرنا ضروری ہے۔ مچال کے طور پر جیسا کہ پہلے میچوں میں ہوتا تھا کہ فاتحین شکست خوردہ کھلاڑیوں کے قریب جا کر  گلے لگاتے، ہاتھ ملاتے اور کھیل کا جذبہ باقی لوگوں میں منتقل کرتے تھے۔ اس طرح کا رویہ شائقین سے بھی کروایا جا سکتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کو اہم سبق مل سکتا ہے جو بینچ  جلاتے ،  دوسروں کو گالیاں نکالتے، حتی کہ مسلح ہو کر دوسروں پر حملہ کرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ انکے لئے ضروری ہے کہ کھیل کے شعبے کو ایسی روشنی میں دیکھیں جس سے اچھے احساسات و خیالات پیدا ہوں۔ اگرچہ آج کے شائقین اس حقیقت کو اچھا نہیں سمجھتے کہ کھلاڑی سٹیڈیم سے نکلنے سے پہلے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں لیکن ایک وقت ایسا آئے گا جب کھلاڑی، سٹیڈیم سے نفرت اور  کینہ پروری کے حلقوں کو توڑ یا کم ازکم بے اثر  کر دیں گے۔ اس وقت دنیا اس لمحےکا شدت سے انتظار کر رہی ہے۔

اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر کچھ لوگ تصادم چاہتے ہیں اور انہوں نے تصادم کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ وہ مکالمہ یا انسانی رشتوں میں بہتری نہیں چاہتے۔ اس وجہ سے ہمیں بڑی احتیاط سے چلنا ہوگا۔ ہر کام میں کچھ معنویت ہونی چاہئے خلوص کی طلب ہونی چاہئے اور عقلیت اور اچھا فیصلہ ہماری ترجیح ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ ہر شعبے کو اس کا ضروری مقام ملنا چاہئے اور اسے اسی طرح مناسب رویہ اپنانا چاہئے۔ مسجد کا امام تو اپنی آواز اٹھا رہا ہے لیکن فلمی ستارہ، اداکار، ادیب اس طرح کام نہیں کر رہا۔ ایک اداکار کی توجہ اپنی جسمانی زبان اور اداکاری کی صلاحیتوں پر مرکوز ہے، جبکہ ادیب لکھنے کے انداز اور نظریات کر قلمبند کر کے کام کرنے میں مصروف ہے۔ اس کو اسی طرح ہونا چاہئے ورنہ پیغام کا اثر اور اس کی تاثیر آہستہ آہستہ  ختم ہوجائے گی اور اس میں کوئی فائدہ نہ رہے گا۔ یہ چیز کھیل کےلئے بھی ہے ایک اتھلیٹ کو اپنے صلاحیتیں کامیابی، اچھے سلوک اورمثالی طرز حیات سے عیاں کرنی چاہئے ۔

بد قسمتی سے آج کچھ اقدار کی اہمیت کا اندازہ نہین کیا جاتا۔ لوگوں کو مذہب کی، اور اس امن و تحفظ کی جو مذہب سکھاتا ہے اورما بعد الموت ضمانت دیتا ہے بنسبت روٹی پانی سے زیادہ ضرورت ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ جب حقائق اچھی طرح واضح ہو جائیں گے تو اس معاملے میں ابہام ختم ہوجائیں گے۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اسلام کے نام پر بہت کچھ کرنا چاپتے ہیں، لیکن جب اس اہم موضوع کو خام طریقے سے دیکھا جاتا ہےتو بجائے محبت کے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور لوگوں کے درمیاں غیر حل شدہ مسائل نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن جس چیز کی توقع کی جا رہی ہیں اور جسکی ضرورت ہے وہ اسلام ہے، جسے لوگوں کے بیچ پل یا راستہ بننا ہے اور ایسے عوامل پیدا کرنے ہیں جن سے آپس کے مسائل ختم ہوں۔

اگر ہم نے اپنے ان لوگوں کو جواب نہ دیا  جو اپنے ہاتھ پھیلائے، محبت اور عزت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو ہم غیر محبوب ہو جایئں گے۔ اصل میں ہم کچھ نا پسند یدہ  منفی رجحانات کو جنم دیں گے۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سماجی مکالمہ اور تحمل میں ایک اہم عامل کی طرح کھیل کو بھی استعمال کیا  جا سکتا ہے بشرطیکہ سوچ سمجھ کر اچھے انداز میں کیا جائے۔


[1]   ظاہری قران و حدیث کو صرف انکے ظاہری مطلب سے لیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اس میں حکمت اور صحیح ادراک کیا ہے۔ ان کی تعداد  بہت کم ہے۔

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔