عظیم محقق، مفکر اورعلامہ
ٍمحمد فتح اللہ گلین مشرقی ترکی کے شہر ارض رو م میں ہوئے ۔آپ ایک مذہبی سکالر ،مفکر ،ممتازایل قلم اورشاعر ہیں ۔ انہوں نے مذہبی علوم میں بہت سے قابل ذکر مسلم علماء اور روحانی پیشواؤں سے تربیت حاصل کی ۔گلین نے جدید معاشرتی اورطبعی علوم کے اصول وضوابط اورنظریات کا بھی عمیق مطالعہ کیا۔علم وفضل میں غیر معمولی مہارت اورذاتی مطالعہ میں ارتکاز کی بناپر وہ جلد ہی اپنے ہم عصروں سے آگے نکل گئے ۔1958ء میں زبردست امتحانی نتائج کے حصول کی وجہ سے انہیں ریاستی مبلغ کا اجازت نامہ دیا گیا اور جلد ہی ترکی کے تیسرے بڑے صوبے ازمیر میں ایک اہم عہدہ پر ترقی دے دی گئی ۔یہاں پر گلین نے اپنے خیالات کو واضع کرنا شروع کیااوراپنے سامعین کی تعداد میں اضافہ کیا۔اپنے مواغط اورتقاریر میں انہوں نے وقت کے اہم معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا۔ان کا بنیادی مقصد نو جوانوں کو اس بات پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ دانشمندانہ روحانیت اوراحتیاط کے ساتھ عقلی روشن خیالی اورشریف النفس سرگرمیوں میں ہم آہنگی پیداکریں ۔
گلین نے اپنے آپ کو صرف اندرونی شہروں میں تعلیم دینے تک محدود نہ رکھا، بلکہ انہوں نے اناطولیہ کے صوبوں میں سفر کیے اور نہ صرف مساجد بلکہ قصبوں کی مجالس اورقہوہ خانوں میں بھی خطابات کیے ۔اس سے ان کی رسائی مختلف طبقات کے عوامی نمائندوں تک ہوئی اوروہ تعلیم یافتہ طبقہ خصوصا طلبا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ ان کی رسمی یاغیر رسمی تقاریر کا موضوع اورمضمون صرف دینی سوالات تک محدود نہ رہا بلکہ انہوں نے تعلیم ،سائنس ، ڈاروں کے نظریات ۔معیشت اورمعاشرتی انصاف پر بھی گفتگو کی ۔موضوعات کی اتنی وسعت کے باوجودیہ ان کی تقاریر کا وصف او رگہرائی تھی کہ جس نے تعلیم یافتہ طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیااور ان کی توجہ اورتعظیم حاصل کی ۔
1981ء میں گلین رسمی تدریسی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے تو طلبا ء کی جوان نسل میں ایک نئی روح پھونک چکے تھے ۔خصوصا تعلیمی اصلاحات کے لیے 1960ء سے شروع ہونے والی ان کی کوششوں نے ان کو ترکی میں ہر دل عزیز اورقابل احترام شخصیت بنادیا۔1988ء سے لے کر 1991ء تک انہوں نے بہت سے اہم شہروں کی مشہور و معروف مساجد میںاعزازی خطیب کے طور پر خطبات کاسلسلہ جاری رکھا جب کہ معروف کانفرنسوں کی صورت میں اپنا پیغام پہنچانے کاسلسلہ نہ صرف ترکی بلکہ مغربی یورپ میں اب بھی جاری رکھاہواہے ۔
بنیادی افکار
اپنے خطبات اورتحریروں میں گلین نے اکیسویں صدی کا ایسا تصور پیش کیاہے جس میں ہم ایک ایسی ہمہ پہلو روحانی تبدیلی کا مشاہدہ کریں گے جو خوابیدہ اخلاقی اقدار میں ایک نئی روح پھونکے گی ۔یہ برداشت ،فہم و فراستاور بین الاقوامی تعاون کا دور ہوگا۔جوکہ تہذیبوں کے درمیان مکالمہ اورمشترکہ اقدار کی بناپر ایک مشترک معاشرتی تہذب کی طرف راہنمائی کرے گا۔تعلیم کے میدان میں انہوں نے بہت سے فلاحی ادارے بنانے میں سرپرستی کی ہے ۔جن کا مقصد نہ صرف ترکی کے اندر بلکہ ترکی کےباہر بھی رفاہ عامہ کے لیے کام کرنا ہے ۔انہوں نے عوام کو انفرادی اوراجتماعی طور پر اہم مسائل سے آگاہی کے لیے میڈیا خاص طور پر ٹیلی ویژن کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔
گلین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب کے لیے انصاف کا حصول معقول اورمناسب تعلیم پر منحصر ہے۔صرف اسی صور ت میں دوسروں کے حقوق کی حفاظت اوراحترام کامناسب فہم اور بردباری کا جذبہ پیداہوگا۔اس مقصد کے لیے انہوں نے سالہاسال سے معاشرے کے سرکردہ افراد اورراہنماؤں ،مضبوط صنعت کاروں اورچھوٹے کاروباری لوگوں کو اس بات پر ابھاراکہ وہ تعلیمی معیا ربڑھانے میں امدا دکریں ۔ان ذرائع سے حاصل ہونے والے عطیات سے تعلیمی رفاہی اداے اس قابل ہوئے کہ وہ ترکی میں اورترکی سے باہر بہت سے سکول قائم کریں۔
گلین کے مطابق جدید دنیا میں آپ ترغیب سے ہی دوسروں کو اپنے خیالات ماننے کے لیے قائل کرسکتے ہیں۔وہ بیان کرتے ہیں کہ جو لوگ اپنے خیالات زبردستی دوسروں پر ٹھونسنا چاہتے ہیں وہ عقلی طور پر دیوالیہ ہیں ۔لوگ ہمیشہ اپنے معاملات میں طریقہ کار کے انتخاب اوراپنی مذہبی وروحانی اقدار کے اظہارکے لیے آزادی چاہیں گے ۔وہ مدلل بیان کرتے ہیں کہ جمہوریت اپنے تمام تر نقائص کے باوجود اب واحد پائیدار سیاسی نظام ہے اور لوگوں کوچاہیے کہ وہ جمہوری اداروں کو جدید اور مستحکم بنانے کی کوششیں کریں ۔تاکہ ایک ایسا معاشرہ قائم کیاجاسکے جس میں انفرادی حقوق اورآزادی نہ صرف محفوظ ہوں بلکہ ان کا احترام کیاجاتاہو۔جہاں سب کے لیے مساوی مواقع ایک خواب کی طرح نہ ہوں۔
بین العقائد اوربین التہذیبی سرگرمیاں:
گلین نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سے اپنی تمام ترجدوجہد مختلف نظریات ،تہذیبوں ،مذاہب اوراقوام کے نمائندہ گروہوں کے درمیان گفت وشنید شروع کرنے پر مرکوز رکھی ہے۔یکم تا8دسمبر 1999کوکیپ ٹاؤن میں ہونے والے دنیا کے مذاہب کی مجلس قانون ساز میں انہوں نے اپنامقالہ بعنوان "بین العقائدمکالمے کی ضرورت"پڑھا۔جس میں وہ اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ "مکالمہ بہت ضروری ہے "۔اور یہ کہ لوگوں کے درمیان قومی وسیاسی سرحدوں کے باوجود اس سے کہیں زیادہ اشتراک موجود ہے جتناکہ وہ سمجھتے ہیں ۔
یہ سب کچھ بیان کرتے ہوئے گلین باہمی افہام وتفہیم بڑھانے کے لیے ایک پرخلوص مجلس مکالمہ کےقیام کو بہت اہم اورقیمتی قرار دیتے ہیں ۔اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے 1994ء میں صحافیوں اور مصنفین کی ایک فاؤنڈیشن کے قیام میں مددکی جس کا مقصد پوری انسانی معاشرے میں رواداری اورباہمی گفت وشنید کے عمل کا فروغ ہے اس کازندگی کے تقریبا تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد سے گرم جوشی سے استقبال کیاہے ۔اسی مقصد کے حصول کے لیے گلین نے نہ صرف ترکی بلکہ دنیا بھرکی نامور شخصیات سے ملاقاتیں کیں ۔گلین دنیاکے کئی نامور مذہبی رہنماؤں سے بھی مل کر مکالمے کے بارے میں گفت وشنید کرچکے ہیں اورانہوں نے اس حوالے سے کئی اقدام کیے ہیں ۔ ان راہنماؤں میں پوپ جان پال (دوئم)،مرحوم جان اوکونر ،نیویارک کے بشپ ، لی آن لیوی ،ہتک عزت کی مخالف تنظیم کےسابق سربراہ شامل ہیں ۔اس کے علاوہ ترکی میں بہت سی نامور شخصیات ان سے اکثر ملتی رہتی ہیں یہ اس مثال کی عملی تصویر ہے کہ مختلف عقائد کےلوگوں کے درمیان کیسے ایک مکالمہ شروع ہوسکتاہے۔
پوپ جان پال (دوئم )سے 1998ء میں ویٹی کن میں ایک ملاقات کے دوران گلین نے تجویز کیاکہ مشرقی وسطی میں تنارعہ ختم کرنے کے لیے اس سرزمین پر مشترکہ کوششوں سے مستحکم اقدام کی ضرورت ہے ۔یہی وہ جگہ ہے جہاں سے دنیا کے تینوں مذاہب کاآغاز ہوا۔اپنی تجویز میں انہوں نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیاکہ سائنس اور مذہب درحقیقت ایک ہی سچائی کے دوپہلو ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ،"انسان نے وقت بوقت سائنس کے نام پر مذہب کا اور مذہب کے نام پر سائنس کا انکار کیاہے ۔اوریہ دلیل پیش کی ہے کہ دونوں متصادم نقطہ نظر پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ تمام علوم خدا کی طرف سے ہیں اور مزہب بھی خدا کا ہے پھر دونوں کیسے متصادم ہوسکتے ہیں ؟اس مقصد کے حصول کے لیے ہماری مشترکہ کوششیں ایک بین المذاہب مکالمہ کی طرف راہنمائی کرتی ہیں تاکہ لوگوں کے درمیان بہتر افہام وتفہیم اوربردباری کی فضا قائم ہوسکے ۔"
گلین نے 11ستمبر کو امریکہ پر دہشت گردی کے حملہ کے بارے میں اعلان لاتعلقی جاری کرتے ہوئے اس حملہ کو دنیا کے امن پر بہت بڑا حملہ قراردیا۔جس سے اہل ایمان کی نیک نامی ہرایک ناجا ئر دھبہ لگا۔انہوں نے کہا ۔ "دہشت گردی کوکبھی بھی اسلام کے نام پر یااسلامی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا۔ایک دہشت گرد مسلمان نہیں ہوسکتااورایک مسلمان دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ ایک مسلم صرف امن ،رفاہ عامہ اورحوشحالی کانمائندہ اورعلامت ہوسکتاہے۔"
گلین کی دنیا بھر میں امن کے لیے کوششوں کی گونج مذاکروں میں سنی گئی ہے ۔ایک مذاکرہ بعنوان "پر امن ہیروز،مجلس مذاکرہ "یونیورسٹی آف ٹیکساس ،آسٹن کے زیر اہتمام11تا 13اپریل 2003ء کوہوا۔جس میں انسانی تاریخ کے گذشتہ 5000سالوں میں امن کے داعیوں کی فہرست تیار کی گئی ،گلین کاتذکرہ عصر حاضر میں امن کے ہیروز کی اس فہرست میں کیاگیاہے جس میں مختلف کلچرز اورادوار کے لوگوں کے نام شامل ہیں ۔
گلین بہت سے رسائل اورجرائد کے لیے مضامین اورمقالے لکھتے ہیں ۔وہ ترکی کے سرکردہ معروف اورروحانی نظریات کے جرائدSizinti, Yeni Umit, The FountainاورYagmurکے لیے ادارےے لکھتے ہیں۔
انہوں نے 40سے زائد کتب اورسینکڑوں مضامین لکھے ہیں۔نیز ہزاروں آڈیو اورویڈیو کیسٹیں ریکارڈ کروائی ہیں۔ انہوں نے سماجی اور مذہبی مسائل پر بے شمار تقاریر کی ہیں ترکی میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ان کی کئی کتب کا انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔جن میں درج ذیل شامل ہیں ۔
ان کی کئی کتب کا ترجمہ جرمن ،روسی ،البانوی ،جاپانی ،انڈونیشیائی اورہسپانوی زبانوں میں بھی ہوچکاہے ۔
گلین کی تعلیمات سے وابستہ تعلیمی اوقاف نے ترکی میں ،ترکی سے باہر اوراس کے علاوہ پاکستان میں بھی ان گنت غیر منافع بخش رضاکارنہ تنظیمیں ،خیراتی ادارے اورانجمنیں بنائی ہیں جوکئی وظائف فراہم کرنے کی کفیل ہیں۔
اگرچہ گلین ایک جانی پہچانی عوامی شخصیت ہیں لیکن وہ ہمیشہ روایتی سیاست میں حصہ لینے سے دوررہے ،گلین کے مداہوں میں مشہورصحافی ،مذہبی سکالر،ناصع،شاعر،مصنف ،،ایک عظیم مفکر اورایساروحانی رہبر سمجھتے ہیں جس نے اپنی زندگی معاشرے کی تمام تکالیف کاحل تلاش کرنے اورروحانی ضروریات پوری کرنے کے لیے وقف کردی ہے ۔وہ اس کی مددسے پروان چڑھنے والی تحریک کوایسی تحریک سمجھتے ہیں جو تعلیم کے لیے وقف ہے۔لیکن یہ دماغ کے ساتھ ساتھ دل اور روح کی بھی تعلیم ہے۔جس کا مقصد بنی نوع انسان کی حیات نو اورقوت کی بحالی ہے ۔تاکہ وہ مطلوبہ اہلیت حاصل کرلیں اوردوسروں کوفائدہ مند اشیاء اوربہتر ین خدمات فراہم کرسکیں ۔
- Created on .