بدنظمی سے نظام کی طرف ۔۲
صدیوں سے ہمارا معاشرہ اخلاقی،علمی اور فکری لحاظ سے تباہ ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی تک معاشرے کو تربیت،فن اور اخلاق کے شعبوں اشیاء اور واقعات میں ہم آہنگی جبری اور اضطراری ہوتی ہے،جبکہ انسانوں کا نظام ارادے پر موقوف ہوتا ہے،جس کا سب سے اہم سرچشمہ اللہ کا خوف اور خشیت ہے۔نظام امن و امان، اطمینان،معاشرتی ہم آہنگی اور روشن مستقبل کی امید سے عبارت ہے۔بدنظمی سے امن اور ہم آہنگی اور الجھے ہوئے معاملات سے روشن مستقبل کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔
بعض اوقات بظاہر یوں لگتا ہے کہ نظام محض ارادے اورعقل کا نتیجہ ہے، لیکن یہ درست نہیں،کیونکہ ایسی عقل جس نے روح کی اطاعت اختیار کی،نہ شر کی طرف التفات کی بیخ کنی کی اور نہ ہی اپنے اندر خیر کی طرف پائے جانے والے میلان کا رخ آسمان کی طرف پھیرا اکثر اوقات بدنظمی کا شکار ہو جاتی ہے۔
انسان کے سوا باقی کائنات میں نظام ابتدائے آفرینش سے قائم ہے۔ایٹموں کی حرکت کی ہم آہنگی،پھلوں کی تروتازگی،جاندار اور غیرجاندار اشیاء میں پائے جانے والا توازن اور انس، ہمارے دلوں میں شعروسخن کے جذبات پیداکرنے والے آسمان کے ستاروں کے اشارے، منظوم معانی کی چادر اوڑھے شاخیں،پتے اور پھول اور زندگی میں گردش کرتے روحانی انفاس یہ سب کے سب ہر جگہ اور ہر چیز پر راج کرتے سحرانگیز نظام کے مظاہر ہیں۔
اگر وجدان ایک لحظہ کے لیے بھی کتاب فطرت پر غوروفکر کرے تو وہ ہر جگہ سے نظام اور ہم آہنگی کو پھوٹتے ہوئے دیکھے گا اور حیرت انگیز جمال اور حقائق کا مشاہدہ کرے گا۔اس کے لیے زیادہ حساس ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔معمولی احساسات کا حامل دل بھی بجلی کی خوفناک گرج،پرندوں اور چڑیوں کے چہچہانے، مسحورکن پھلوں اور سحرانگیز آسمان کی روشنیوں میں ہر رنگ،صورت،آواز اور سانس کو لانہایت کے رنگ میں رنگے ہوئے شعر اور نغمے میں ڈھلتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔نہ جانے کائنات کے طبیعیاتی،کیمیائی،حیاتیاتی اور فضائی علوم میں ترقی کرنے والوں کو کن کن چیزوں کا مشاہدہ ہوتا ہوگا۔
سمندر کے پانی کے بہنے کی آواز سے لے کر ہمارے احساسات کی تاروں کو چھیڑنے والے وحشت ناک صحراؤں تک،ٹیلوں کے پرسکون وقار سے لے کر بلند وبالا پہاڑوں کی چوٹیوں تک اور سمندروں کی دائمی گونج سے لے کر آسمان میں لہلہانے والی لانہایت کی چادروں کی لطافت تک ہر چیز‘‘نظام! نظام! ’’پکار کر کائنات کی روح میں سرایت کیے ہوئے حقائق کی طرف ہماری توجہ مبذول کرا رہی ہے۔
ہر جگہ اور ہر چیز میں جاری نظام کے بعد زمین پر بدنظمی اور لاقانونیت کا دوردورہ کیسے ہوگیا؟زمین پر لاقانونیت اور اس کے بعد اباحیت ان لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوئی،جنہوں نے اپنی عقل کو اللہ تعالیٰ کے تابع نہیں بنایا،اپنی شرپسندانہ خواہشات کو قابو نہیں کیا اور بھلائی کے جذبات سے بہرہ مند نہیں ہوئے۔انسان ایک ایسی مخلوق ہے،جس کی خواہشات اور فطری کمزوریاں کسی بھی دوسری ذی روح مخلوق سے زیادہ ہیں۔اس کی ہر کمزوری مثلاً حرص، حسد، ناپسندیدگی، غصہ، شدت اور شہوت میں مختلف قوت کے حامل تخریبی رجحانات،بیکاری کے میلانات اور لاقانونیت کے بحرانوں کا ریڈائی پہلو پایا جاتا ہے۔اگر انسان اپنی ان بری خواہشات کو اچھی تربیت کے ذریعے قابو نہ کرے تو اس کے برے نتائج کے پنجوں میں گرفتار ہونے سے مفر ممکن نہیں، لیکن اچھی تربیت کے نتیجے میں اس کے انسانی احساسات میں بلندی پیدا ہو گی اور وہ خواہشات،غمی وخوشی، حق اور آزادی کے جذبات کے ذریعے اور دوسروں کے وجود کو تسلیم کر کے اپنے وجدان میں پنہاں عمرانی معاہدے کو قبول کرے گا۔
لیکن انسان کو انسان‘‘بالقوۃ’’سے (۲۶) انسان‘‘بالفعل’’کے درجے تک لے جانے والی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ لاہوتی افق اور وہبی محور کی حامل ہو،یعنی وہ ہماری ذاتی ثقافت کو ہمارے ہی باغات کے پھلوں اور ہمارے ہی حقائق کی جڑوں کے عرق سے غذا فراہم کرے،تاکہ اسے اجتماعی ضمیر اور تاریخی شعور رد نہ کرے۔یہ عمرانی معاہدہ حقوق اور آزادیوں کے دائرے میں زمانے کے تقاضوں کے مطابق عمدہ ترین طریقے سے پایۂ تکمیل کو پہنچنا چاہیے،تاکہ وہ معاشرے کے مختلف طبقات کے تصادم کے نتیجے میں تضاد سے وجود میں آنے والی غیرجانبداری کے فاسد دائرے میں پھنس کر اپنی قوت،شدت اور قدروقیمت نہ کھو بیٹھیں۔ یہاں معاہدے سے کوئی ایسی معاشرتی دستاویز مراد نہیں،جس پر دوسرا فریق اپنی رضامندی کی مہر ثبت کرے،بلکہ انسانی اقدار کا احساس رکھنے والے باضمیر لوگوں کا حق اور آزادی کے تصورات کے احترام اور حقیقت پسندی کے بارے میں باہمی معاہدہ کرنا مقصود ہے۔
فرد کی قلبی تربیت اور روحانی وسعت اور اس کے ایمان اور معتقدات کا اس کی فطرت ثانیہ بننا اس معاہدے کی حدود اور دائرہ کار کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔اس طریقے سے وجدانی معاہدہ اس کے انسانی مقام کے مساوی قرار پاتا ہے۔جس معاشرے کے افراد جسم پرستی کی حدود سے نکل کر قلبی اور روحانی زندگی گزارنے لگتے ہیں وہ ایک منظم معاشرے کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔یہ نظام تسلسل اورمستقبل کے بارے میں پرامیدی سے متصف ہوتا ہے،کیونکہ وہ ساری کائنات میں پائی جانے والی ہم آہنگی کا ہی ایک پہلو ہوتا ہے۔
عالم اسلام میں ریاست کی حیثیت جہاز کے کپتان کی سی ہوتی ہے۔وہ اخلاق و فضائل کی تعلیم دینے والے مختلف اجزاء پرمشتمل ایک کل کے اہم ترین حیات افروز مراکز کی قیادت کر رہی ہوتی ہے۔ایسے کپتان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ماتحت افراد سے بہترین انداز سے استفادہ کرے،ان کی صلاحیتیوں کا اندازہ لگائے اور انہیں کائنات کے نظام سے ہم آہنگ بنا کر حوادث زمانہ سے ٹکراؤ پیدا کئے بغیر منزل تک پہنچا دے۔ فضائل سے محروم اور اخلاقیات سے عاری افراد اور گروہوں کے ذریعے اچھے معاشرے اور ترقی یافتہ ریاست کا وجود میں آنا ممکن نہیں،نیز مختلف قسم کی بیماریوں کے شکار اور لاقانونیت سے متصف لوگوں سے روشن مستقبل کی امید رکھنا محض خودفریبی ہے۔نام اور صورتیں کچھ بھی ہوں اپنے سیاہ نصیبے کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے ایسے انسانوں سے نظام اور امن کے نام کی کسی چیز کے حصول کی امید وہم کے سواکچھ نہیں،جبکہ ایسے لوگوں سے ریاست و اقتدار کا منتظر رہنا تو بالکل بے بنیاد اور جھوٹی تسلی ہے۔ریاست اور اقتدار ایسی بلند فکر کا عزم کیے بغیر قائم نہیں ہو سکتا،جو اسے معاشرے میں زندگی عطا کرے اور اسے غذا مہیا کرے،نیز اس کے لیے ہر چیز کو اس کے سبب سے ایسے وابستہ کرنا ضروری ہے جیسے چرخے کے دھاگے اس کے گرد لپٹے ہوتے ہیں،حاصل یہ کہ ہرتحریک اور جدوجہد میں ‘‘واحد احد’’ کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
ہرفرد اور حیاتیاتی اکائی کو امت مسلمہ کو بلندیوں تک پہنچانے کو مقصد بنا کر تیاری اور منصوبہ بندی کرنی چاہیے،تاکہ افراد سے وابستہ معمولی نوعیت کے مفادات عمومی ہم آہنگی کو نقصان نہ پہنچائیں اور انسانی گروہ سمندر کی ان لہروں کی طرح متموج نہ ہوں،جو ایک دوسرے سے ٹکراکر بکھر جاتی ہیں۔گزشتہ زمانے میں زندگی میں اسلامی روح کی فوقیت کی وجہ سے یہ ہدف بہترین انداز سے مقرر کیا گیا تھا،چنانچہ افراد اور معاشرے کو تشکیل دینے والی اکائیوں کو نظام کی بنیاد اور اساس قرار دے کر بلندیوں کی طرف یوں سفر کیا جاتا رہا جیسے کہ یہ زندگی کاایک فطری عمل ہو۔
نظام سے متعلق اپنے تصورات پر نظرثانی کرنا،اپنے اس ایمان کی تجدید کرتے رہنا کہ ہمارا ارادہ ہی کائنات میں کارفرما ہم آہنگی کو انسانی معاشرے کی طرف منتقل کرے گا اور بین الاقوامی توازن کو اس مدار میں لانا معاصر نسل کی طرف سے آنے والے دور کوپیش کیاجانے والا سب سے قیمتی تحفہ ہے۔ میںسمجھتاہوں کہ اگر ہم اپنے عزم کی تجدیدکریں،اللہ کے ہاں اپنے مقام کو جانچیں، اپنے ملی اہداف کاتعین کریں،مضبوط تزویراتی اور سیاسی حکمت عملیاں وضع کریں اور دستیاب وسائل کو کام میں لائیں تو ہم اس اہم ذمہ داری کو بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔
- Created on .