جھوٹ اور الزامات کے مقابلے میں ضروری امور
سوال: قرآن کریم نے بتایا ہے کہ فرعون اور اس کے حاشیہ برداروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہا: ﴿إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ * يُرِيدُ أَنْ يُخْرِجَكُمْ مِنْ أَرْضِكُمْ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ﴾ (الاعراف: 110-109) (یہ بڑا ماہر جادوگر ہے۔ اس کا ارادہ یہ ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔ بھلا تمہاری کیا صلاح ہے) اس سے ان کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا اورامن و امان کی نشانی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ تہمت لگانا تھا کہ ان کا کوئی خاص خفیہ ایجنڈہ ہے اور یہ ان کے حکم کے خطرناک ہونے کو بیان کررہا ہے۔ آج بھی شر کے بعض مراکز تسلسل کے ساتھ جھوٹ اور الزامات تراشی کررہے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح فرعون اور اس کے حاشیہ برداروں نے کہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ اس زمانے کے ایمان والوں کے اچھے کاموں کے بارے میں اسی طرح کے شبہات پیدا کررہے ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیےمومنوں کے لیے کیا بات ضروری ہے؟
جواب: مومنوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے بنیادی اقدار کے مطابق ، ہنگامی حالات اور واقعات کے پیش نظر اپنے تصرفات کو تبدیل نہ کریں اور یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ ان کی عزت اس اسلوب سے ظاہر ہوتی ہےجو وہ بدترین ظلم و جور کے مقابلے میں اختیار کرتے ہیں اور ان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ صراط مستقیم پر ثابت قدم رہیں جیسے کہ وہ آزمائشوں اور مصائب کے اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں کرتے ہیں اور یہ ثابت قدمی اس درجے کی ہونی چاہیے کہ جو شخص ان کو سمجھنا اور پرکھنا چاہے اس کو کبھی بھی ایسا کوئی تناقض نہ مل سکے جو ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرسکتا ہو، ورنہ ان پر اعتماد ختم ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں ان کے لیے اپنی روح کے الہامات کو دوسروں تک پہنچانا ناممکن ہوجائے گا۔
طوفانی ہوائیں اور چنارکے مضبوط درخت
جی ہاں مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو پیش آنے والے واقعات کے مقابلے میں درختوں کے ان پتوں کی طرح نہ ہوجائے جن کو ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں بلکہ ہمیشہ ایک مضبوط اور غیر متزلزل موقف اپنائے۔ اسے ان درختوں کی مانند ہونا چاہیے جن کی جڑیں زمین کے اندر نہایت گہرائی میں چلی جاتی ہیں۔ علماء نباتات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ بعض ممالک میں ایسے درخت پائے جاتے ہیں جو جڑیں کمزور ہونے کی وجہ سے ذرا سی طوفانی ہوا یا مقدار سے تھوڑی زیادہ برف پڑنے کی وجہ سے اکھڑ جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات مٹی کی نرمی بھی ان درختوں کے گر پڑنے اور ٹوٹنے کے لیے کافی ہوجاتی ہے اور کسی خارجی سبب کی ضرورت نہیں رہتی جبکہ بعض ممالک میں ایسے درخت پائے جاتے ہیں کہ (شاید پانی کی تلاش میں) ان کی جڑیں زمین کے اندر کئی میٹر تک چلی جاتی ہیں۔ اس طرح وہ شدید طوفانی ہواؤں کے مقابلے میں بھی اپنی جگہ قائم و دائم رہتے ہیں اور مومن انسان کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔
اس کے مقابلے میں جو لوگ حالات کے مزاج کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں (خواہ وہ حالات ان کے حق میں ہوں یا ان کے خلاف) اور ایسے موقف پیش کرتے ہیں جو منفعت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ کچھ مدت کے بعد اپنی ساکھ لوگوں میں کھو دیتے ہیں اور وہ ان پر اعتبار نہیں کرتے۔ اس لیے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے اپنے موقف پر ثابت قدمی اور درست رستے کی پابندی ضروری ہے اور ایسا ہونا چاہیے کہ جس شخص نے بیس سال قبل تمہاری نبض دیکھی اور تمہاری آواز سنی ہو، آج بھی اگر وہ تمہاری نبض دیکھے اور دل کی دھڑکنوں کو سنے تو طرح طرح کی آزمائشوں ، امتحانات، مشکلات، سانحات یا دباؤ اور مشقتوں کاشکار ہونے کے باوجود اس کو وہی پرانی آواز سنائی دینی چاہیے۔
کیا ہمارے پاس انفعال، تاثر یا ہر کوئی جذبات نہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے احساسات اور جذبات انسان ہونے کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً ہمارے اندر کو تباہ کرسکتے ہیں لیکن ہم پر لازم ہے کہ ہم ان جذبات پر قابو پا ئیں اور ہمیشہ ان کو جائز دائرے کے اندر استعمال کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادے اور قدرت سے نوازہ ہے۔
مختلف جغرافیائی علاقوں میں حسن قبولیت کا راز
میں نے جو کچھ عرض کیا اسے یہاں ایک خاص مثال کے ذریعے واضح کرتا ہوں کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں کچھ نوجوان اپنے عنفوان شباب میں یونیورسٹیوں سے فارغ ہوئے اور دنیا کے مختلف اطراف میں پھیل گئے۔ یہاں آگے بڑھتے ہوئے میں یہ بھی کہوں گا ک مطلقاً تمام لوگوں کو پاک قرار دینا درست نہیں کیونکہ جب تک کوئی شخص ایسی وضع اور حالت میں نہ ہو جس پر تعریف کا سچ مچ مستحق ہو تو اس کے بارے میں ہم تعریف و توصیف کے جو الفاظ کہیں گے وہ اللہ تعالیٰ آخرت میں ہمارے منہ پر مار سکتا ہے۔ اس وجہ سے جب ہم کسی کے بارے میں خوش گمانی کا اظہار کریں تو اس میں توازن کو برقرار رکھیں ۔ پھر جس طرح ایسی قربانیوں سے اغماض واضح ناشکری اور سنگدلی ہے اسی طرح ان قربانیوں کے پیچھے منفی ارادوں کو تلاش کرنا بھی توازن میں خرابی اور واضح بدظنی ہے۔
اب واپس اپنے اصل موضوع کی جانب آتے ہیں کہ جن روحوں نے اپنے آپ کو وقف کریا ہے وہ بیس سال سے اپنے دل کے الہامات دوسر وں تک پہنچانے کے لیے دنیا کے مختلف علاقوں میں گئے ہیں اور اب بھی جا رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ بعض ممالک میں کچھ مشکلات بھی پیش آئیں، اب تک جن ممالک میں وہ گئے ہیں ان کی تعداد ایک سو ستر سے زیادہ ہے۔ اس لیے چند ممالک میں پیش آنے والی مشکلات کو زیادہ نہیں سمجھنا چاہیے اور مجھے اس بات کا یقین ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے دنیا کے مختلف گوشوں میں پہنچے ہیں وہاں ان کو صراط مستقیم پر قائم تصرفات اور مواقف کی وجہ سے حسن قبول ملا اور ان کو خوش آمدید کہا گیا۔ جی ہاں، جن لوگوں نے تسلسل کے ساتھ ان کی نبض دیکھی ان کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ نہیں بدلے تو وہ کہنے لگے کہ: ’’ہم ان لوگوں کو برسوں سے دیکھ اور سن رہے ہیں ۔ ہم نے ان کے ایجنڈے میں انسانوں کی خدمت کے سوا کوئی چیز نہیں دیکھی ۔ یہ لوگ صرف انسانی اقدار کا سانس لیتے ہیں۔‘‘
ہم نے کہا کہ ایک سو ستر ممالک۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک سو ستر مختلف ثقافتی دلائل اور حق کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والے جو لوگ ان مقامات پر گئے ان کو ان ثقافتی دلائل کے بارے میں وہاں جانے سے قبل کوئی لیکچر دئیے جاسکے اور نہ ان کی خصوصیات کے بار ے میں کافی معلومات بہم پہنچائی جاسکیں لیکن وہ ایسے وسیع اور فہم رکھنے والے ضمیر کے مالک تھے جس میں ساری انسانیت سما سکتی تھی۔ یعنی وہ لوگ ایسے وسیع شعور کے پیچھے آرہے تھے جو یونس امرہ ، مولانا جلال الدین رومی، احمد یسوی اور حضرت بدیع الزمان نورسی جیسے حضرات کے پاس تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ حس اور شعور کیا تھا؟ وہ شعور یہ تھا کہ ساری انسانیت کو ساحل سلامتی تک پہنچایا جائے۔ پس اس احساس اور انسانی اقدار کے ساتھ مسلسل تعلق کی وجہ سے یہ لوگ جہاں بھی گئے ان کو حسن قبول ملا اور سب نے ان کو خوش آمدید کہا اور اللہ کے حکم اور اس کے فضل سے مخاطبین کے دلوں میں انہوں نے گھرکر لیا۔
دلوں پر اثر کرنے والے انفتاح کا دارو مدار ثابت قدمی پر ہے
انفتاح (دوسروں کے سامنے کھلنے) کے اس سفر کے دوران حاصل ہونے والے تجربات ،مہارتوں اور پروگراموں کو آج کئی دستاویزی فلموں کے ذریعے سکرین پر پیش کیا جارہا ہے اور ان لوگوں کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں جنہوں نے انسانی اقدار کی خدمت کے لیے ہجرت کی ہے لیکن ان پروگراموں اور فلموں میں سے کوئی بھی حقیقی انداز میں ان مشکل واقعات اور تجربات اور ان جذبات اور حساسات و افکار کو ان کی وسعت اور گہرائی کے ساتھ پیش نہیں کرسکتا جن سے گزر ہوا کیونکہ جن لوگوں نے اپنے آپ کو وقف کیا وہ اپنے رستے پر پوری سچائی اور اخلاص کے ساتھ بغیر کسی اجرت کی امید کے چلے۔یہاں تک کہ بعض اوقات ان لوگوں نے ان مقامات پر کئی کئی مہینے اس طرح گزارے کہ ان کو گزارے کے لیے بھی کوئی مال فراہم نہیں ہوسکا۔ یہ باتیں اس وقت پیش آئیں جب ترکی میں موجود ان رضاکاروں کے حالات اچھے نہیں تھے جو ان سے تعاون کرتے تھے۔ چنانچہ وہ تھوڑے سے مال سے اپنے کام چلاتے تھے جس سے صرف ان کی ضرورت بمشکل پوری ہوسکتی تھی۔ بعض اوقات انہوں نے ان ملکوں میں مزدوروں کی طرح کام بھی کئے اور اس طرح اپنے کام چلائے۔ اس کے بعد ان کے مخاطبین نے ان کے یہ سچے تصرفات دیکھے تو دل کی گہرائیوں سے ان کی تصدیق کی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو آج بھی ایمان، اخلاص، سچائی اور وفاداری پر ثابت قدم رکھے! کیونکہ ایسی تحریک کا تسلسل اس وقت شروع ہوا جب اس کا آغازسچائی، خلوص اور حقیقی وفاداری سے ہوا اور جو اس موقف کے ساتھ ثابت قدمی اور بلندی کے ساتھ جڑی ہوئی تھی کیونکہ بعض اوقات کسی نظام میں ہم آہنگی اور مسلسل یکسانیت (خدانخواستہ) ایک طرح کے اندھے پن کی طرف لے جاتی ہے اور کامیابی اور توفیق کبھی کبھار انسان کو غرور کی جانب لے جاتی ہے یا آرام پسندی اور سستی کا سبب بن جاتی ہے اور بعض اوقات انسان اپنے تصرفات اور ذاتی رویے کے نتیجے میں (ظاہری اسباب کے مطابق ) انجام پانے والے اچھے کاموں کو اپنی صلاحیتوں اور ذاتی ملکہ اور اپنی اعلی ذہانت اور حکیمانہ افکار کی جانب منسوب کرتا ہے جبکہ ان باتوں میں سے ہر بات ایک ایسے وائرس کی مانند ہے جو خاموشی کے ساتھ جسم کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور اگر ضروری تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو یہ بنیادی عمارت کو ڈھا سکتا ہے۔
اس لیے کیفیت اور منہج کو برقرار رکھنے کے لیے پوری پوری سنجیدگی سے کام لیا جائے اوراس کے ساتھ ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کے ساتھ گڑگڑائیں کہ :’’اے اللہ! اے دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر مضبوط فرما۔‘‘ اور اس کی خاطر دعا کو پابندی کریں اور یوں کہیں: ’’اے اللہ اے دلوں کو پھیرنے والے ، ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری پر مضبوط فرما۔‘‘ اور اس پر اصرار کریں تاکہ ہم پھسلنے اور فریب کھانے سے محفوظ رہیں اور غلطی اور گمراہی کے رستے سے بچ سکیں۔
نبوت کا مقام نبی اکرم حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوچکا ہے اس لیے آپ علیہ السلام کے بعد کسی کو نبوت اور رسالت کبھی بھی نہیں مل سکتی لیکن انسان کو چاہیے(بلکہ اس کے لیے ضروری ہے) کہ آپ علیہ السلام کے رستے ، آپ کی سنت اور آپ ﷺ کے نبوی منہج پر چلے اور سچائی، عصمت، عفت، حکمت اور اعلیٰ ذہانت کے ساتھ چلے اورنبوت کے مرتبے کی بالشت بالشت کے حساب سے پیروی کرے۔ ایسے میں امید ہے کہ اس انداز اور طریقے سے اختیار کئے جانے والے رستے کی برکت سے ہمارے بارے میں دوسروں کی جانب سے پیش کئے جانے والے غلط تجزیوں اور تحلیلات کا رستہ بند ہو جائے گا۔
اجرت کی امید غلامی ہے
ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر موقع پر اس بات کی وضاحت کریں کہ ہمیں اللہ کی خوشنودی کے علاوہ کسی شے کا انتظار نہیں اور اس بات کو اپنے افعال اور تصرفات سے ثابت کرنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے ایمان اور قرآن کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگ اپنی خدمات کے بدلے میں دنیوی چیزوں کی امید رکھیں گے تو ان کو اس خدمت کے مقابلے میں ملنے والی ہر شے کا بدلہ دینا ہو گا اور اپنے اس فعل کے ذریعے وہ اپنے رستے تنگ کردیں گے کیونکہ خواہش انسان کی آزادی میں کمی کرتی ہے۔
اس بنیاد پر ان روشن روحوں کو چاہیے کہ وہ ہرایسی خواہش سے دور ہو جائیں جو ان کی آزادی پر قدغن لگاتی ہو ا ور وہ کسی بھی قسم کے تعلقات اور پابندیوں میں نہ پھنسنے پر اصرار کریں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کی اپنے ملک کی سیاست میں اس رخ پر ایک آواز ہوتی ہے جس کو وہ ملک و قوم کے لیے مناسب سمجھتا ہے لیکن اس کا مطلب کسی بھی جماعت کے ساتھ بغیر کسی شرط اور قید کے تعلق رکھنا اور اس کاپابند ہونا نہیں۔ اس لیے یہ مبارک روحیں جب کوئی خاص سیاسی انتخاب کریں تو اپنا ارداہ کبھی بھی کسی سیاسی جماعت کے حوالے نہ کریں اور کبھی بھی اپنی ذاتی آزادی اور ارادے پر قدغن لگانے کی اجازت نہ دیں کیونکہ آزادی کی حفاظت کا راز صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی میں پوشیدہ ہے۔ اس وجہ سے جو شخص اپنے نفس کو اللہ کی بندگی کے حوالے کردے گا وہ بغیر کسی کمی کے حقیقی آزادی کا مالک بن جائے گا اور اپنے رب کی عبادت کے ذریعے بندوں کی بندگی سے چھٹکارا پائے گا ورنہ انسان اپنی آزادی کو تباہ و برباد کردے گا۔
آپ کو دنیوی چیزوں کی امیدں سے بچنا چاہیے کیونکہ اعلیٰ مقاصد کے شہسواروں پر لازم ہے کہ (وہ اپنے نیک اعمال کے بدلے) کسی بھی چیزحتی کہ جنت کی بھی امید نہ رکھیں کیونکہ ان کو چاہیے کہ وہ جنت اللہ کے فضل سے مانگیں کیونکہ (بقول حضرت بدیع الزمان) بندگی کی ادائیگی آنے والی نعمتوں اور بدلوں کے حصول کے لیے نہیں بلکہ ان نعمتوں کی جزاؤں کا شکر ہے جو پہلے گزر چکی ہیں۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو تلاش کرے اور اس کے علاوہ ہر شے کو فنا کو خلود پر ترجیح دینے کے مترادف سمجھے۔
ان اچھے لوگوں کے ان اصولوں کے مطابق چلنے کے باوجود جن لوگوں کے پاس خاص وسائل ہیں اور مرض کی حد تک عظمت کے جنون میں مبتلا ہیں وہ ان کے رستے میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرسکتے ہیں اور شیطان کے اشارے اور بہکاوے سے اس مسئلے کو دینی رنگ د ے سکتے ہیں۔ وہ تمام وسائل کو اپنے ذاتی خزانے اور جیبیں بھرنے کے لیے ا ستعمال کرسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ پختہ ایمان والے نظر آتے ہیں بلکہ اپنی زندگی کا اکثر حصہ خانقاہوں اور تکیوں میں گزارتے ہیں وہ بھی اس طرح کے معمولی اور چھوٹے مفادات کے پیچھے جا سکتے ہیں۔ جی ہاں، جو لوگ اپنے پاس موجود چیزوں کے چلے جانے کے خوف سے عظمت کے جنون میں مبتلا ہیں، وہ کسی جگہ کبوتروں کے اجتماع کو بھی اپنے لیے خطرہ سمجھ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ساری توجہ اپنی ذاتی مصلحتوں اور مفادات پر مرکوز رکھی ۔ ان کے ذہن میں ایسے وسوسے آتے ہیں: ’’کیا ان لوگوں کو خاص مناصب اور چیزوں کا لالچ ہے؟‘‘
بدعنوان لوگوں کو اپنے ماحول میں نیک لوگ اچھے نہیں لگتے!
اس روحانی حالت کے نتیجے میں یہ لوگ ا یسے پاکیزہ اور شریف لوگوں کو نہیں دیکھنا چاہتے جو دنیا و مافیہا اور اپنے گردو پیش سے بالکل بے نیاز ہیں یہاں تک کہ ان کو ان کے وجود سے بھی تنگی ہوتی ہے۔ اس لیے جب وہ کوئی کام کرتے ہیں یا کوئی ماحول بناتے ہیں تو ان لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں جو انہی کی مزاج اور فکر کے مالک ہوتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ اپنے آپ کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کی ضروری کو سمجھتے ہیں کہ ان کے ارد گرد ہمیشہ ایسے لوگ ہوں جو انہی کی طرح سوچتے ہیں تاکہ ان کے عیوب ظاہر نہ ہوں اور دوسروں کے سامنے کبھی ان کی برائیوں کا بھانڈا نہ پھوڑدیں۔ چونکہ یہ لوگ اپنی چوری چکاریوں پر پردہ ڈالنا اور ان کو کبھی بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتے اس لیے ان کے لیے وہ ایسے لوگوں کو برداشت ہی نہیں کرسکتے جو عیب کو برا جانتے ہیں اور اس کو مسترد کرتے ہیں جبکہ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ“[1] (روحیں گروہ گروہ ہیں۔ اس میں سے جو ایک دوسرے کو جان لیتی ہیں وہ یکجا ہو جاتی ہیں اور جو ایک دوسرے کو نہیں پہچانتیں وہ مختلف ہو جاتی ہیں)۔
جی ہاں، گندے لوگ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو نہیں دیکھنا چاہتے جو عصمت و عفت کے ساتھ رہتے ہیں اور سچائی اور قربانی کی پابندی کرتے ہیں اور ہمیشہ اپنی پاکیزگی اور شفافیت کو برقرار رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود قرآن اور ایمان کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اس قسم کے ظلم کے مقابلے میں بھی صراط مستقیم سے روگردانی نہ کریں اور جس طرح وہ عقل، غصے اور شہوانی طاقت میں متوازن اور معتدل ہیں، اسی طرح ان پر لازم ہے کہ جب وہ دوسروں کے حسد، لالچ، بغض اور عناد کے خلاف لڑیں تو بھی اس توازن اور اعتدال کو برقرار رکھیں۔
غیر متوازن لوگوں کے مقابلے میں بھی توازن کی پابندی
حقیقی مہارت یہ ہے کہ جو لوگ توازن کھو چکے ہیں ان کے مقابلے میں بھی توازن کو برقرار رکھا جائے۔ مثلاً ہوسکتا ہے کہ کوئی آدمی بغض اور حسد کی وجہ سے آپ پر ظلم کرے۔ وہ اس خوف سے بھی تمہارے خلاف بھڑک سکتے ہیں کہ کہیں مستقبل میں اپنے ہاتھ میں موجود وسائل اور سہولیات سے محروم نہ ہوجائیں۔ اس مقام پر یہ بات نہایت اہم ہے کہ ان کے فعل کا جواب ویسے ہی فعل سے نہ دیا جائے بلکہ ذہن میں اس طرح کی منفی باتوں کو آنے ہی نہ دیا جائے ۔ ایسے خیالات کو اعصابی نظام کے خلیوں میں پہنچنے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔ ان خیالات کو اپنی اسی حالت میں واپس کرنا ضروری ہے ۔ جب لوگ آپ سے محبت اور آپ کا احترام کریں تو اس وقت ان کا احترام کرنے کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ آدمی یہ بات کہنے کی سکت رکھتا ہو کہ:’’اے اللہ ان لوگوں کو خوشیاں نصیب فرما جو میری خوشی نہیں چاہتے اوران لوگوں کی بھی مرادیں بر لا جو میری مرادوں کو پورا ہوتا نہیں دیکھ نہیں سکتے۔‘‘ یہ بات ان لوگوں کے بارے میں بھی ہونی چاہئے جو تمہیں قبول نہیں کرتے اور تمہارے وجود سے تنگ ہیں۔ ہماری اس دنیا میں جس میں توازن اس قدر خراب ہے، اس میں توازن اور اعتدال نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
یہ آیت کریمہ: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾ (المائدہ:۸)(اے ایمان والو ، اللہ کے لئے انصاف کی گواہی دینے کے لئے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور کچھ لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف ہی نہ کرو۔ انصاف کیا کرو یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے اعمال سے خبردار ہے۔) مکی دور میں نازل ہوئی ہے کیونکہ اس وقت ظلم و ستم کی کوئی ایسی قسم باقی نہیں رہی جس کا ارتکاب نبی کریمﷺ اور مومنین کے خلاف نہ کیا گیاہو جبکہ اس آیت میں مومنوں کو صبر کا حکم دیا گیا اور یہ حکم ہوا کہ ان کے دل میں ان تمام واقعات کی گنجائش ہونی چاہیے اور وہ ترکی بہ ترکی جواب نہ دیں۔ اس لیے یہ بات ضروری ہے کہ مسلمان غلط تصرفات اور برے برتاؤ کی وجہ سے حق اور انصاف سے منہ نہ موڑیں کیونکہ دوسروں کا ظلم وجور آپ کے لیے ان پر ظلم کو کبھی جائز قرار نہیں دیتا کیونکہ تم مسلمانوں سے ہمیشہ عدل مطلوب ہے۔
اگر تمہارے خلاف بدنامی اور الزام تراشی کی کوئی مہم شروع کی جائے ، ہمیشہ تمہارے خلاف مظالم کئے جائیں اور صبح و شام تمہارے خلاف جھوٹ اور الزام تراشی کی جائے، توایسی صورت حال میں حالات کے مطابق آپ اس معاملے کی وضاحت، تصحیح یا تکذیب کرسکتے ہیں۔ اسی طرح بدلے کا حق بھی استعمال کرسکتے ہیں لیکن یہ حقوق استعمال کرتے ہوئے بھی ہمیں ان چیزوں کی پابندی کرنی چاہیے جو ہماری شخصیت اور ہماری خاص خصوصیات ہم پر لاگو کرتی ہیں اور وہ بھی ایسے انداز سے جو ہمارے لئے مناسب ہے کیونکہ سچی بات یہ ہے کہ: ﴿كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ﴾ (الاسراء:84)(ہر شخص اپنے طریق کے مظابق عمل کرتا ہے) اور ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی مخصوص شناخت کے تقاضوں کے مطابق کام کریں۔
[1] صحيح البخاري، الأنبياء، 2؛ صحيح مسلم، البر والصلة والآداب، 159.
- Created on .