فانی وسائل کو دائمی جمالیات میں تبدیل کرنا
سوال: مومن کی دنیا کی جانب نظر کیسی ہونی چاہئے تاکہ وہ دنیوی زندگی کے فانی وسائل کو آخرت کی ابدی جمالیات میں تبدیل کر سکے؟
جواب: انسان کو ابدی زندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور اس کا ذہن ہمیشہ ابدی سعادت میں لگا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ دنیا کی اس کی فنا اور آخرت کی اس کی بقا کے مطابق قدر کرے۔ اگر ہمیں انسانی فطرت پر قابو ہوتا اور دینی احکام اس کی اجازت دیتے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم جب بھی آخرت ، اور اس کی بقا کے بارے میں سوچیں تو ہم کہیں گے: ’’ہم پر لازم ہے کہ دنیا سے تعلق بالکل کاٹ دیں اور اپنا رخ صرف آخرت کی جانب پھیر دیں‘‘ لیکن انسانی فطرت، بشری ضعف اور اس کی خواہشات ایسی بات کی اجازت نہیں دیتیں۔ اسی طرح قرآن وسنت کے انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے والے احکام نے بھی ایسے طرز زندگی کا فیصلہ نہیں کیا۔ اس لیے انسان کا فرض ہے کہ وہ ان قوانین سے روگردانی نہ کرے جو حق سبحانہ و تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھ دیئے ہیں اور اسے اپنے مستقبل اور ان امور کا ادراک ہونا چاہیے جو اس کے منتظر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اس رستے پر چلے جو قرآن کریم نے اس کے لیے مقرر کیا ہے اور اللہ نے جو کچھ اسے دے رکھا ہے اس کے ذریعے آخرت کو طلب کرے اور ا سے اپنی زندگی میں ترجیح دے مگر دنیا سے اپنے حصے کو بھی فراموش نہ کرے۔
اس بارے میں اپنی دنیوی خواہشات کو روٹی کا ٹکڑا یا ہڈی سمجھے جو اس کے سامنے پھینکی گئی ہے (ان نامناسب ا لفاظ کے استعمال پر معذرت)۔ اس طرح وہ دنیا کی خوبصورت جمالیات کے دھوکے میں پڑے بغیر اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے لیکن انسان کا دنیا و عقبیٰ اور ان میں موجود رنگوں اور نقوش کا پوری طرح ادراک حقیقی معرفت کا مرہون منت ہے۔ اس لیے جو شخص اپنے ایمان کو معرفت سے نہ سجا سکے، وہ مسلمان ہونے کے باوجود اس رستے کی جمالیات کی مشکلات کو نہیں سمجھ سکتا جو اسے ابدی زندگی تک پہنچاتا ہے۔ اس وجہ سے اسے اپنے رستے میں تھکاوٹ اور تکلیف کے سوا کوئی چیز نہیں ملتی۔
معرفت بذات خود سمندر کی تلاطم خیز موجوں کی طرح مختلف قسم کی محبت کو جنم دیتی ہے اور محبت انسان کی نظر محبوب حقیقی یعنی حق تعالیٰ شانہ کی طرف مبذول کراتی ہے اور اس کے ذریعے انسانی جذبات کی گدگدی سے نجات پاجاتا ہے اور اپنے نفس کی خواہشات اوران کے دباؤ کو کام میں نہ لاتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ دنیا جس قدربھی خوبصورت ہو جائے انسان پر لازم ہے کہ اس پر بھروسہ نہ کرے البتہ وہ واحد چیز جس کو دنیا میں انسان کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے وہ چاردانگ عالم میں اسم جلیل محمد ﷺ کو پھیلانا اوراسلام کی ضائع شدہ عزت کو اس طرح بلند کرنا ہے کہ وہ اونچے برجوں پرلہرانے والے پرچموں کی طرح ہوجائے۔
اگر ہمارے دل اس عظیم ہدف کے ساتھ نہ جڑے تو پھر دنیا میں باقی رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے اگر انسان اعلاء کلمۃ اللہ اور روح محمدی کو ساری انسانیت کی روح بنانے کو اپنا ہدف اور مقصد بنا لے تو پھر دنیا میں اس کے باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ حضرت نوح علیہ السلام کی طرح اس کی زندگی ساڑھے نو سو سال کیوں نہ ہوجائے بشرطیکہ وہ سید الانام ﷺ کا تعارف کرانے کی سعی کرتا رہے۔ اس کے مقابلے میں اگر زندگی ایسے بلند مقصد کے بغیر گزر رہی ہو تو پھر وہ دھوکے اور افلاس کے سوا کچھ نہیں۔
افسوس! ہمیں شہرت، عظمت اور جاہ و جلال سے دھوکہ دیا گیا !
افسوس کی بات ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اس دنیا میں بہت سے فریب خوردہ لوگ موجود ہیں جبکہ حقیقت میں کسی بھی شے کے بارے میں درست فیصلے تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک ہم اپنے ہاں اس کی اہمیت کی حد مقرر نہ کرلیں کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ انسان آخر تک پہنچ جائے اور اپنی مطلوبہ مراد نہ پا سکے تو اس وقت وہ صوفی شاعر شیخ ’’ غالب‘‘ کی طرح پکار اٹھے گا:
ہم دیار حبیب تک پہنچ گئے تو اس سے ملاقات نہ ہوسکی
ہم جنت میں بھی داخل ہوگئے مگر افسوس کے اس سے ملاقات نہ ہوسکی
مطلب یہ ہے کہ وہ انسان جو دنیا و عقبیٰ میں توازن برقرار نہیں رکھ سکتا وہ ہمیشہ مشکل میں گرفتار رہتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ دین کی خاطر کام کررہا ہے مگر جب وہ آخرت کی طرف کوچ کرتا ہے تو وہ اس حبیب یعنی اللہ تعالیٰ سے مل سکتا ہے اور نہ اسے دیکھ سکتا ہے جس کے گرد سارے دل اکٹھے ہوتے ہیں۔
کبھی کبھار انسان اپنے نیک اعمال سے بھی دھوکہ کھا سکتا ہے کیونکہ ان اعمال میں ریاکاری، شہرت، خود پسندی، فخر اور احترام حاصل کرنے کے جذبات شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح انسان کے وہ مثبت اعمال جن میں اس نے عمر بسر کی ہوتی ہے، منفی اعمال میں بدل جاتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ ایک حدیث میں فرماتے ہیں:’’ رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ ‘‘ (1) (بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو ان کے روزے سے بھوک اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں جن کو شب بیداری سے رت جگے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔)
اس بارے میں متعدد اور متنوع مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو راہ حق پر محنت کرتے ہیں مگر جب وہ دار آخرت پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی زیارت نہ کرسکےکیونکہ ان لوگوں نے اس رستے پر اپنے اعمال کو آلودہ کیا، سفر کے آداب کا خیال نہ رکھا اور جادۂ حق سے بھٹک گئے اور گرنے لگے اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ دنیا میں گرنے اور گمراہ ہونے والوں کا انجام کلی سقوط اور گرنا ہے (اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے) ۔ارشاد خداوندی ہے: ﴿إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلاَلٍ وَسُعُرٍ * يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ﴾ (القمر:48-47) (بیشک گنہگار لوگ گمراھی اور دیوانگی میں مبتلا ہیں۔ اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسیٹے جائیں گے ، کہا جائے گا لو اب آگ کا مزا چکھو) اس مقام پر حق تعالیٰ شانہ اس بیان سے اس جانب اشارہ فرمارہے ہیں کہ جو لوگ اپنی زندگی خواہشات ،شہوتوں اور لذتوں کے پیچھے پڑ کر گزارتے ہیں، ان کو منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں ڈالا جائے گا۔
جی ہاں، یہ لوگ اپنی خواہشات کے اسیر ہو گئے اور اپنے نفس کے غلام ہوگئے جس کے نتیجے میں ان کو اوندھے منہ گرنا پڑا۔ ان کو سفارش کرنے والوں کی سفارش کوئی کام نہ دے گی کیونکہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی حالت یوں بیان فرمائی ہے: ﴿فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ﴾ (المدثر:48) (تو سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ نفع نہ دے گی)۔
اس قسم کے انجام بد سے بچنے کے لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی زندگی کے سب کاموں میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کو پیش نظر رکھیں کیونکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی شے کے ذریعے اپنے رب کے قریب ہونے کی کوشش کرے تاکہ اللہ تعالیٰ بھی اس کی جانب توجہ فرمائے۔ اس لیے اگر انسان کی اس دنیا کی زندگی حق سبحانہ و تعالیٰ کی تعظیم و توقیر اور تعریف سے بھری ہو تو آخرت میں اللہ تعالیٰ اس پر رحم وکرم فرمائے گا اور سخت ترین حالات میں اسے ذلت اور رسوائی سے نجات دے گا۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو جنتا ہو سکے اعمال صالحہ سے بھرنے کی کوشش کریں اور صاف نیت کے ساتھ اپنی کمی کوتاہی کو دور کریں کیونکہ نیت کے اندر ایسی برکات اور فیوضات ہیں جواس کمی کوتاہی کا توڑ کرتے ہیں اوران کا ایک قطرہ سمندروں اور دریاؤں کو بھر سکتا ہے۔اس وجہ سے انسان کو چاہیے کہ وہ ا پنے ارادوں کے دائرے کو وسیع کرے مثلاً و ہ یہ دعا کرے کہ: ’’اے اللہ مجھے اتنی فرصت اور وسائل نصیب فرما کہ میں کرہ ارضی کے مدار کو بدل سکوں اور اسم جلیل محمدی کا جھنڈا زمین کے مختلف گوشوں میں لہرا جائے‘‘ کیونکہ اس مسئلے کے بارے میں ایک قطرہ کی نیت پر اللہ تعالیٰ اتنا ثواب دے سکتا ہے کہ جو سمندروں کے برابر ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان ان کاموں کو پورا کرنے کے لیے سوچ سوچ کر اپنے آپ کو تھکا دے جن کو پورا کرنا ضروری ہے اور اس کا دماغ پھٹنے لگے اوراس کے بعد اور وہ ایسے مرحلے تک پہنچ جائے جواس کی طاقت اور وسائل سے ماورا ہو تو پھر اسے یہ کہتے ہوئے دعا کو اپنا شفیع بنانا چاہیے کہ : ’’اے اللہ میں اس کام کو پوراکرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہوں لیکن میری سکت یہاں تک ہے اور میں اس کام کو اس سے آگے نہیں پہنچا سکتا‘‘ تو اس وقت وہ ذات یوں گویا ہوگی جس کی قدرت، مشیت اور ارادے کی کوئی حد نہیں:’’اے میرے بندے، اس کام کو میں وہاں تک پہنچاؤ گا جہاں تک تو نہیں پہنچا سکا۔‘‘
جو دنیا کو پسند کرے گا، آخرت کو نہیں پائے گا!
ہم اس مسئلے کو شیخ محمد لطفی آفندی رحمہ اللہ کے اس کلام کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں:
کیا اللہ تعالیٰ اس سے محبت نہیں کرے گا جواس سے محبت کرتا ہے؟
کیا اس کو راضی نہیں کرے گا جو اس کی خوشنودی کے حصول کے لیے تگ و دو کرے گا؟
اگر تم اس کے در پر کھڑے ہو۔۔۔ اس پر روح، نفس اور احباب کو قربان کردو۔۔۔
اور اس کے امر پر عمل کرو، تو کیا وہ ثواب میں اضافہ نہیں کرے گا؟
اگر تم پانی کی طرح گرو اور تمہاری آنکھوں سے ایوب کی طرح آنسوؤں کی جھڑی لگ جائے۔۔۔
اور تمہارا دل عشق و آزمائش سے جل اٹھے، تو کیا رب ارض و سما تمہاری طرف متوجہ نہ ہوگا؟
کیونکہ یہ غم دکھ کی دوا ہے اور اللہ غمگین ہونے والوں سے محبت کرتا ہے
کیا واحدو یکتا کا فضل تمہارا حامی نہیں ہوا۔۔۔
کیونکہ یہ ہر دکھی اور غمگین کا مرہم ہے؟
یہ خلاصۂ کلام ہے
اگر انسان دنیا میں روحانی، حسی اور فکری معیت کو محسوس کرے گا تو آخرت میں حقیقی معیت کا لطف اٹھائے گا اور جو لوگ یہاں ایک ساتھ رہتے ہیں، وہاں بھی معیت کو پہنچ جائیں گے۔ اس لیے ہمیشہ اس معیت کو مضبوطی سے تھامیں اور اس سے چمٹ جائیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعا کریں کہ: ’’اے اللہ ہمیں اپنی معیت نصیب فرما، اپنے حبیب ﷺ کی معیت نصیب فرما۔‘‘
رات دن اپنے آپ کو مصروف رکھیں اور ہمیشہ اس کا ذکر کریں تاکہ جب آپ آخرت کی طرف کوچ کریں تو یہ معیت آپ کا نصیب ہو کیونکہ اگر تم یہاں اس کی معیت کے ساتھ داخل ہوگئے تو وہاں تمہارے لیے حیران کن چیزیں ہیں۔ یہاں تک کہ تم اس جھوٹی اور دھوکے باز دنیا کو بھول جاؤ گے جو تم اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو لیکن افسوس کی بات ہے! ہمارے زمانے میں عقلیں بگڑ گئی ہیں، افکار اور احساسات پراگندہ ہوگئے ہیں اور لوگ دنیا کی زندگی کے بارے میں ابدی زندگی اورابدی ذات سے زیادہ سوچتے ہیں۔
اگر آپ صالحین کے کلام کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ دنیا سے کس قدر تنگ اور تکلیف میں تھے۔ مثلاً ’’یونس امرہ‘‘ کہتے ہیں:
میں اپنے ظالم نفس کے سامنے عاجز ہوں
کیونکہ یہ ظالم دنیا کی لذتوں سے سیر نہیں ہوتا
غفلت نے میری انکھوں کو ڈھانپ لیا ہے
عمر کٹ رہی ہے اور نفس کو پتہ ہی نہیں
یا اللہ کیا تو اسے ’’مسلمان ‘‘سمجھے گا؟
جس کے اوپر غفلت کی عباء ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا ہے؟
وہ کماتا رہتا ہے اور پھر کمائی کو فضول ضائع کردیتا ہے
اور اس کانفس ایک پیسہ بھی راہ راست پر خرچ کرنا گوارہ نہیں کرتا
اے اللہ ، میری آنکھوں سے غفلت اور دھند کو دور فرما
اس دن میرے چہرے کو سیاہ نہ کر جب چہرے کالے ہوں گےاور عقلیں کانپ اٹھیں گی
یونس کہتا ہے، میری بات سنواگرچہ وہ عجیب کیوں نہ ہو
جو شخص دنیا کو پسند کرے گا، اسے آخرت سے کچھ نہ ملے گا۔
جی ہاں، میں حبیب کو دیکھنے اور اس کی ملاقات کی تیاری کرنی چاہیے، وہاں عشق کی کوئی چٹھی گم نہ ہو گی جو تم نے لکھی ہوگی اورجب تم وہاں پہنچو گے تو کہا جائے گا: یہ ہیں وہ چٹھیاں جو تمہاری طرف سے ہمیں موصول ہوتی ر ہیں۔ جیسے ک شاعر نسیمی کہتا ہے:
حق تعالیٰ کی جانب س مجھے یہ صدا آئی
آ جا اے عاشق تو محرم اور قابل تعریف ہے
یہ محارم اور قریبی لوگوں کا مقام ہے
جبکہ ہم نے تجھے بھلائی اور وفا کا اہل پایا
آخرت میں انسان کی اس مدح و ثنا کے مقابلے میں دنیا کی تعریف و توصیف کی کیا حقیقت ہے۔ استنبول اس سلطان فاتح کے ہاتھوں فتح ہوا ہے کہ ’’ اگر میری ہزار روحیں ہو تو بھی اس پر قربان کردوں‘‘ لیکن اس فتح کی اس سلطنت کے مقابلے میں کیا قیمت ہے جو اللہ تعالیٰ آخرت عطا میں عطا فرمائے گا؟ کیونکہ یہ سب چیزیں سورج کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جو شخص یہاں اپنے راس المال سے دنیا کمائے گا، اس کے پاس آخرت کمانے کے لیے کوئی راس المال باقی نہ بچے گا اور وہ خالی ہاتھ وہاں جائے گا لیکن جو شخص اپنے وسائل کو آخرت کے حصول کے لیے استعمال کرے گا، وہ جب وہاں جائے گاتو اسے بہت سی حیران کن چیزیں نصیب ہوں گی۔
سورۃ القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کی جانب اشارہ کرنے کے بعد اس عاقبت کو بیان فرمایا ہے جو دونوں فریقوں کی منتظر ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ * وَتَذَرُونَ الآخِرَةَ * وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ * إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ * وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ * تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ﴾ (القیامہ:25-20) (مگر لوگو تم دنیا کو دوست رکھتے ہو۔ اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔ اس روز بعض چہرے رونقدار ہوں گے۔ اپنے پروردگار کی طرف نظر کئے ہوں گے۔ اور بہت سے چہرے اس دن اداس ہوں گے۔ خیال کریں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ معاملہ کیا جائے گا)۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس دن ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے جن کے چہرے تروتازہ ہوں گے!
(1) سنن ابن ماجہ، الصیام:21، مسنداحمد بن حنبل:445/14
- Created on .