ریاست اور معاشرےمیں تعلق کےبارےمیںچندباتیں
سوال: ہمارادینیعنی اسلام ایسے اصولوں سے بھرا ہوا ہے جو مکمل ’’توازن‘‘ کے ساتھ ز ندگی گزارنے کی ضمانت دیتے ہیں۔ اس بنیاد پر کیا آپ ریاست کے مرتبے اور معاشرے سے اس کے تعلق کی قیمت بیان کریں گے؟
جواب: انسانی تاریخ کے بعض مراحل میں ریاست کوواضح طورپر مقدس جاناگیا۔ مثلاً’’ رومی سلطنت‘‘ بعض ایسے راہبوں کی وجہ سے ’’مقدس رومی سلطنت‘‘ میں تبدیل ہو ئی جو دربارکے زیر اثر اور دباؤ میں تھے۔ تاریخ نے اس کو’’ تھیوکریسی‘‘ کے نمونے کے طورپر محفوظ کیا ہے۔(1)
مقدس رومی سلطنت میں حکومت کی بنیاد خدائی احکام پر نہیں تھی بلکہ اس کی بنیاد خود ساختہ قوانین کے ایسے مجموعے پر تھی جو اس زمانے کے حالات کے مطابق کچھ راہبوں کے اجتہاد کانتیجہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ریاست پرسیاسی تسلط راہبوں کے ایک گروہ کے ہاتھ میں تھا اور اس کا دارو مدارپادریوں کے اختیارات کوبلند کرنے پر تھا۔ اس سے’’تھیوکریسی‘‘ کی یاد تازہ ہوئی ہے جبکہ حالات بتاتے ہیں کہ اس کے بعد بھی تاریخ کے مختلف مراحل کے دوران ریاست کو مقدس مانا گیا یہاں تک کہ بعض لوگوں اور اداروں نے ریاست کو مختلف جغرافیائی خطوں میں صرف ریاست پرہونے والی تنقید کے رد عمل کے طورپر مقدس اور عظیم مان لیا بلکہ ایسے ممالک میں بھی جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
مثالی ریاست کا مقصد
اگرچہ اسلام میں مذکورہ بالا امور کوئی گنجائش نہیں مگر اس کے باوجود یہ ہو رہا ہے حالانکہ جوقوانین علماء اپنی خواہشات اور پسند کے مطابق بناتے ہیں، ان کی پابندی قطعاً لازم نہیں۔ اسی طرح وہ خدائی ’’حکم ‘‘ بھی نہیں۔۔۔ اورچونکہ اسلام میں کسی مقدس گروہ کا کوئی وجود نہیں اس لیے ’’مقدس ریاست ‘‘ کی سوچ کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔
علاوہ ازیں ریاست اسلامی طرز فکر کے مطابق مقصد نہیں بلکہ یہ ایک ذریعہ ہے جولوگوں کو دین دنیا کی سعادت حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے اور اس کی ذمہ داری ایسا مناسب ماحول اورزمین تیارکرنی ہے جس میں لوگ ایسی زندگی بسر کرسکیں جس میں اطمینان اور سعادت دارین کا حصول ممکن ہو۔ علاوہ ازیں جس نظام کوہم ’’ریاست ‘‘ کا نام دیتے ہیں وہ (نتیجے کے اعتبار سے)ایسے نظام کا نام ہے جولوگ آپس میں مل کربناتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ ریاست حق اور حقیقت کے اتنی قریب ہو گی جتنے اس کو تشکیل دینے والے ہوں گے اورا نہی کی نسبت سے حق اور حقیقت سے دور بھی ہوگی۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ہر ریاست ہمیشہ اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا نہ کرسکے، یا اس میں کوتاہی کرے جبکہ خلفائے راشدین کے زمانے کے علاوہ مختلف زمانوں میں ریاست نے غلطیاں کیں، امویوں سے کوتاہی ہوئی، عباسیوں نے کوتاہی کی، اسی طرح ایلخانیوں، قراخانیوں، زنگیوں، ایوبیوں اورسلجوقیوں نے بھی ریاست کی ذمہ داریوں میں غلطیاں کیں۔ ایسے میں اگرچہ عثمانی چار صدیوں تک ایک بہت بڑے جغرافیائی خطے میں امن و اطمینان کی باد نسیم چلنے کا سبب بنے مگر ان سے بھی بطور ریاست غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں۔
انارکی سے نظام وجود میں نہیں آتا
اس مقام پر اس مسئلے کو عمومی قواعد کے مطابق افراط و تفریط سے ہٹ کر عمومی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ پس جس طرح اسلام ایک انسان کو بطور فرد لیتا ہے تو اس کے اچھے اعمال کی تعریف کرتا ہے اور ان پر اسے جزا دیتا ہے، اسے برائیوں سے منع کرتا ہے اور ان کی سزا اور انجام سے ڈراتا ہے لیکن وہ غلطیوں کے ارتکاب کی وجہ سے مکمل فنا کا حکم نہیں لگاتا۔ مثال کے طورپر مومن غلطی کرسکتا ہے ، گناہوں میں پڑسکتا ہے اور برے کام کرسکتا ہے لیکن اس سے وہ کافر ہو جاتا ہے اور نہ برے اعمال کی وجہ سے اسے دائرہ ایمان سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس وقت تک مومن رہے گا جب تک وہ ان باتوں کو حلال اورجائز نہ سمجھے گا البتہ وہ گناہوں کے حساب سے فاسق، فاجر یا ظالم مسلمان کہلائے گا۔ یہی حال ملک اور قوم کا بھی ہے کیونکہ یہ بھی ان افراد سے مل کر بنتی ہے جو غلط اور درست دونوں کام کرسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کبھی تو ریاست انتہائی اچھے اور خوبصورت کام کرے گی جس پر اسے مبارکباد دی جائے گی اور کبھی ایسی غلطیوں اور عیوب کی مرتکب ہو گی جن کی اصلاح اور درست کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس بارے میں ریاست بھی بالکل افراد کی طرح ہے۔
جب بھی کوئی ریاست حق ، قانون اور انصاف کا خیال رکھے گی تو اس کا احترام کیا جائے گا، اس کے کاموں سے اتفاق کیا جائے گا اور اسے تعاون ملے گا لیکن اگر وہ ظلم کرے اور کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کرے تو پھر اس پر اس وجہ سے سکوت اختیار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ’’ریاست مقد س ہے اور اس کا احترام ضروری ہے!‘‘جبکہ آئینی نظام اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے ظلم و جور سے باز رکھنے کے لیے کوشش کرنا ضروری ہے لیکن اس بارے میں انتہائی چوکس رہنے اور احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ معاشرے سے متعلق معاملات میں کسی غلطی کی اصلاح کی کوشش کرتے وقت اس امر کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس سے مزید غلطیوں کا رستہ نہ کھل جائے اور غلطیوں کا ایک دائرہ وجود میں نہ آجائے۔ اس لیے جس وقت ہم انتظامی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کریں تو ایسے اسباب سے اجتناب برتیں جن سے عمومی امن و امان خراب ہونے کا اندیشہ ہو کیونکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور کسی بھی ناجائز طریقے کو اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن امن و امان والا ہے ، وہ اطمینان اور سلامتی کا نمائندہ ہے اور وہ ہمیشہ قواعد و ضوابط کے دائرے میں کام کرتا اور جانتا ہے کہ انارکی سے نظام وجود میں نہیں آسکتا اور نظام کو قائم کرنے کے لیے خود نظام کی پاسداری کرنا ضروری ہے۔ اس لیے اگر آپ تربیت، نظام اور امن چاہتے ہو تو پھر نظام کو مضبوط کریں ، اس کی پابندی کریں اور کبھی بھی اس کے دائرے سے باہر نہ نکلیں۔
اس معاملے کو اگر اس رخ سے دیکھیں تو ایمان والے دل کا فرض ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں وہ ہمیشہ نظام اور انتظام سے تعاون کرے اور امن اور استحکام کی خاطر اس حکومت سے ہر طرح کا تعاون کرے جس سے اس کا تعلق ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ ان شر پسند لوگوں کا رستہ کاٹے جو ریاست کو نقصان پہنچانے، اسے کمزور کرنے اور بعض چیزیں چھیننے کے لیے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کیونکہ اگر ملک میں انارکی پھیلے گی اور ہر طرف بے چینی اور اضطراب پھیل جائے گا تو سب نقصان اٹھائیں گے اور انارکی کا سیلاب سب کو بہا لے جائے گا اور پھر ریاست رہے گی اور نہ قوم (اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے) اور اس کے بعد آپ دو بارہ ان تخریب کاروں کا مقابلہ کبھی نہ کرسکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگرچہ آپ کے پاس زیادہ روشن خیالات اور ریاست کے فائدے میں زیادہ اچھے منصوبے ہوں تو بھی ان کچی بنیادوں پر ان کو بروئے کار نہ لا سکو گے ۔ اس لیے اگر آپ کمال کے رستے پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو فوراً اس نقطے سے آغاز کریں جو بہتری کے قریب ہے کیونکہ انارکی پھیل جانے کے بعد اس کے ہدف تک پہنچنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کمال تک رسائی اور سب سے اچھی بات کا حصول ایک تدریجی عمل ہے کیونکہ کمال تک آدمی ایک ایک قدم کرکے پہنچتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا قدم اور اس کے بعد زیادہ مکمل قدم اور اس طرح باری باری آخر تک۔۔۔ اس بنیاد پر مومن کا شعار یہ ہونا چاہئے کہ وہ ریاست کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے اس کی مدد کرے اور اس کے ساتھ کھڑا ہو اور اگر بہتر مستقبل کے لیے اس کے پاس کوئی منصوبہ ہو تو اسے ریاست کے لوگوں کے علم میں لائے۔
کیا ریاست ہمارے خلاف ہے؟
ہوسکتا ہے کہ آپ کہیں کہ:’’سرکاری اداروں میں ایسے لوگ موجو د ہیں جو انتہائی فائدہ مند اور مثبت تحریکوں کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور سب سے زیادہ اخلاص اور پر امن دمات سے بھی بغض رکھتے ہیں!‘‘ لیکن میں ذاتی طورپر یہ نہیں سمجھتا کہ ریاست جو ادارے تشکیل دیتی ہے وہ ہمارے خلاف یا فلاں یا فلاں کے خلاف ہیں ۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ بعض اداروں میں ایسے افراد موجود ہوں جو ایسے کام کرتے ہیں جو وہ نہیں جانتے اور ہمیشہ آواز بلند کرکے چیختے چلاتے ہیں، ان کا شور شرابا ان کے کاموں اور کارکردگی سے آگے بڑھ جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بس وہی ریاست ہیں لیکن ریاست آپ کے خلاف نہیں بلکہ یہ مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ ہے جس نے ریاست کا بھیس بدل کر عوام کو دھوکہ دیا ہے۔ اس لیے کسی انتہائی اہم ادارے کو یوں سمجھنا کہ وہ آپ کے خلاف ہے بہت بڑی غلطی ہے اور اس غلطی کی بنیاد پر اس ادارے کی برائی کرنا اور اس کی بدنامی کرنا دوسری بڑی غلطی ہوگی۔
دوسری طرف ریاست کے وہ لوگ جو اپنے ملک اور قوم سے محبت کرتے ہیں اور عالمی قانون کے دائرے میں کام کرتے ہیں، وہ آپ کے کسی بھی اچھے کام کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ وہ اس کی حوصلہ افزائی اور مدد کرتے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ (اللہ کا شکر ہے) ہم ایسے لوگ ہیں جن کے دل قوم کی محبت میں دھڑکتے ہیں اور اپنی قوم اور ساری انسانیت کی خدمت کے علاوہ کسی شے کے بارے میں نہیں سوچتے جبکہ جو لوگ ہمارے خلاف الزام تراشی اور جھوٹے دعوے کرتے ہیں وہ آئیں اور اگر سچے ہیں تو ان الزامات کو ثابت کریں۔۔۔ ثابت کریں کہ ہمیں کسی مفاد کی تلاش ہے۔ اس وقت ہم کوہ قاف کے پیچھے چلے جائیں گے اور وہاں رہیں گے اور وہ ہم سے نجات پا لیں گے لیکن کوئی بھی آدمی کبھی بھی ان الزامات کو ثابت نہیں کرسکے گا کیونکہ ہم ذرہ بھر بھی کسی مفاد یا ذاتی منفعت کی تلاش میں نہیں جبکہ اللہ کی رضا کے علاوہ کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں جس کی ہم تمنا کریں اور اس رضا کے حصول کے لیے بھی ہم نے اعلاء کلمۃ اللہ کے علاوہ کسی اور طریقے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جو چار دانگ عالم میں جھنڈے کی طرح لہرا رہا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہونی چاہیے اور اسے پوری دنیا سن لے کہ اللہ کا شکر ہے ہم صاف ہیں اور ہماری پیشانیاں پاک ہیں اور (اللہ کے حکم سے) ہم اپنی قوم اور انسانیت کی خدمت کے رستے پر چلتے ہوئے اس بات کے علاوہ کسی شے سے راضی ہوئے ہیں اور نہ کبھی ہوں گے کہ حق تعالیٰ شانہ اپنا کرم فرمائے اور ہم سے فرما دے کہ ’’میں تم سے راضی ہوں۔‘‘ اس رخ سے اس رستے میں روڑے اٹکانا اور اس سفر کے پہیوں میں چھڑیاں پھنسانا قطعاً قبول نہیں اور اگر ریاست میں کچھ ایسے مریض اذہان والے لوگ موجود ہیں جو بعض سفلی خواہشات اور احساسات کے اثر کی وجہ سے ساری اچھی باتوں کو اپنی ملکیت کی طرح سمجھتے ہیں اور یوں سوچتے ہیں کہ:’’فلاں کون ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر ایسے ایسے کام انجام دیتا ہے؟ دنیا میں کسی بھی جگہ جو کامیابیاں حاصل کی جاتی ہیں وہ سب ہماری طرف منسوب ہونی چاہئیں اور ان کو صرف ہمارے کاموں اور نشانیوں کے طورپر پیش کیا جانا چاہیے‘‘ اور یہ لوگ دوسروں کی اچھائیاں اور خوبیاں برداشت نہیں کرسکتے تو یہ لوگ تنگ دل اور حاسد ہیں۔ اس طرح یہ بات درست اور صحیح نہیں ہے کہ حکمرانوں میں سے معمولی سی اقلیت کے الزامات اور بدنام کرنے کی مہم اور گندا موقف اختیار کرنے کی وجہ سے عظیم ریاست کے ادارے کے بارے میں منفی افکار دل میں لائے جائیں۔
الزامات اور پردیس
سوال: (بعض دیندار لوگوں کی جانب سے شدید اور دردناک تنقید کے باوجود) اگر حکومت اور اس کے کارندوں کے بارے میں آپ کی رائے یہ ہے تو پھر آپ اپنے اوپر لگائے جانے والے اس الزام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں کہ آپ ’’ریاست کو تقسیم کرنے کی کوشش کرنے والے انسان ہیں؟‘‘ جواب: اس بارے میں ، میں پہلا مظلوم انسان ہوں اور نہ آخری انسان ہوں گا کیونکہ تاریخ انسانی ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ مثال کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام کو دیکھ لیجیے کہ انہوں نے خشکی پر اپنی قوم کی جانب سے دی جانے والی تکالیف کے بعد ایک خوفناک اور ہولناک بحری سفر شروع کرنے پر صبرکرلیا اور جب خشکی میں ان کے سفر کی راہ روک دی گئی تو انہوں نے سمندر میں سفر جاری رکھا اور اس ملک کو چھوڑ دیا جہاں پرورش پائی تھی اور اللہ کی قضا و قدر پر راضی ہو کر ایک پہاڑ کی چوٹی پر ٹھہر گئے۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی مقدس ہجرت کے کئی مراحل مسلسل پیش آئے اور اس دوران آپ بابل، حجاز اور کنعان تشریف لے گئے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دودھ پیتا بچہ ہوتے ہوئے اپنی والدہ کے گھر سے فرعون کے محل کی جانب ہجرت فرمائی اس کے بعد مصر اور ایکہ(مدین) کے درمیان سفر کرتے رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ مریم عذرا کی گود میں سفر کا آغاز کیا اور آپ بھی ان تمام باتوں سے گزرے جہاں سے پہلے انبیاء کرام گزرے تھے جبکہ بعض انبیاء جیسے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہماالسلام کے لیے ہجرت مشکل ہو گئی اور اس کے وسائل مہیا نہ ہو سکے چنانچہ دونوں پکڑے گئے اور مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے جبکہ آنحضرت ﷺ نے ہجرت مقدسہ کا وقت آنے پر مکہ مکرمہ کو چھوڑا (جبکہ ہجرت دیگر انبیاء اور آنحضرتمحمد ﷺ کے درمیان قدر مشترک ہے)تو پیچھے مڑ کر دیکھا اور اپنے وطن مکہ کی سرزمین پر الوداعی نظر ڈالی اور فرمایا: ’’أَمَا وَاللَّهِ لأَخْرُجُ مِنْكِ وَإِنِّي لأَعْلَمُ أَنَّكِ أَحَبُّ بِلادِ اللَّهِ إِلَيَّ وَأَكْرَمُهُ عَلَى اللَّهِ؛ وَلَوْلا أَنَّ أَهْلَكِ أَخْرَجُونِي مَا خَرَجْتُ“(بخدا میں تجھ سے نکل رہا ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ تو (اللہ) کے ہاں سب سے محبوب اور افضل جگہ ہے اگر تیرے باشندے مجھے یہاں سے نہ نکالتے تو میں کبھی نہ نکلتا۔) (2)اور اس کے بعد غمگین ہو کر بلاد ہجرت کی جانب سفر جاری رکھا۔۔۔
جی ہاں، اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے سفر کرنے والے لوگ درد والم اور آزمائش سے ایک لمحہ کے لیے بھی خالی نہیں رہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے
بد سلوکی کی گئی۔ آپ کو جیل میں ڈالا گیا چنانچہ درد و کرب میں رہے۔۔۔ حضرت امام احمد بن حنبل کو کئی برسوں تک اس طرح ایذاؤں کا نشانہ بنایا گیا کہ گویا وہ کوئی حقیر سے آدمی ہیں، انتہائی خسیس اذیتوں میں سے بھی کوئی ایذا ایسی نہیں رہی جو آپ کو نہ پہنچائی گئی ہو۔۔۔ امام سرخسی کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی مشہور کتاب ’’المبسوط‘‘ اس کنوئیں کی تہہ میں لکھیں جہاں وہ قید تھے۔۔۔ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے اپنے آپ کو پیش آنے والی تکالیف، اذیتوں اور مصیبتوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’میں نے تقریباً اسّی سال سے کچھ اوپر زندگی میں دنیا کی لذتوں میں سے کوئی لذت نہیں چکھی، میں نے اپنی زندگی جنگ کے میدانوں اور قیدخانوں یا ملک کی جیلوں اور عدالتوں میں گزاری ، مصیبتوں اور درد و الم کی کوئی ایسی قسم نہیں رہ گی جو میں نے نہ چکھی ہو۔ فوجی عدالتوں میں مجھ سے مجرموں جیسا سلوک کیا گیا۔ مجھے بے وطن لوگوں کی طرح ملک کے کونے کونے میں جلا وطن کیا گیا اور کئی کئی ماہ تک قید تنہائی میں لوگوں سے ملنے سے محروم رہا۔ کئی بار مجھے زہر دی گئی اور طرح طرح سے توہین کی گئی۔‘‘(3)
اس طرح، تکالیف، اذیتیں، جلا وطنی۔۔۔ یہ ان لوگوں کے درمیان قدر مشترک ہے جو تبلیغ اور حق اور عدل کی نمائندگی کرتے ہیں اور آج میں جس ظلم کے تلے پس رہا ہوں یہ تقریباً اس ظلم جیسا ہے جس کا ہمارے تمام اسلاف شکار رہے۔ یہاں بعض کم فہموں اور جعلسازی اور تحریف میں ماہر لوگوں کے لیے ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں اپنے آپ کو ان انبیاء کرام اور اولیائے عظام کے مرتبے پر نہیں سمجھتا جن کا میں نے ابھی تذکرہ کیا۔میں نے صرف ان کے نام لے کر ان کی تکالیف کا تذکرہ کیا ہے کیونکہ وہ ہر مومن کے لیے رہبر و رہنما اور نمونہ ہیں اور ان کے رستے کی پیروی اور نقش قدم پر چلنے کی کوشش ہماری کامیابی اور نجات کا ذریعہ ہے۔
میں ایک معمولی آدمی ہوں، مجھے اپنی کمزوری اور ناتوانی اچھی طرح معلوم ہے۔ اس لیے فطری بات ہے کہ میں بعض الزامات سے بہت زیادہ غم کے ساتھ متاثر ہوتا ہوں اور میری روح ان کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ایک مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اختیار کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے خطاکار، گنہگار اور نافرمان بندوں پر بھی لطف و کرم فرماتا ،ان کو رزق دیتا اور ان کو کھلاتااور پلاتا ہے۔ بندہ مومن پر لازم ہے کہ وہ دوسروں کی جانب اسی زاویے سے دیکھے اور ان کے قریب ہو جائے۔ اسے چاہیے کہ جب مظالم اور جور و جبر کے آگے بے بس اور لاچارہو جائے تو اپنے دشمنوں اور مخالفین کے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے اور یہ کہتے ہوئے اس کی پناہ میںآجائے کہ:’’اے اللہ جو لوگ اہل ایمان سے دشمنی کرتے اور ان سے بغض رکھتے ہیں، ان کا معاملہ میں تیرے حوالے کرتا ہوں۔‘‘ اور اس پر لازم ہے کہ کسی بھی پروا کئے بغیر کسی کے ساتھ اپنے عقل و دل کو مصروف کئے بغیر اپنے فرائض پورے کرتا رہے اور الف کی طرح سیدھا کھڑا ہو کر اپنے درست رستے پر سفر جاریرکھے۔
[1]تھیوکریسی،:ایکایسامذہبہے جو دینینظرئےکیبنیادکوکسیجماعتکیسیاسیبالادستیکیدلیل بناتا ہے اور اسیکاایکحصہحکومتمیں’’خدائی حق‘‘ ہے جس کا مطلب ہےکہاللہتعالیٰحکومتکاسرچشمہ اور حاکمزمینپراللہتعالیٰکاسایہہےجبکہتھیوکریسیکیعمارت نسل پرکھڑیکیجاتیہے۔
[2] مصنّف عبد الرزاق، 26/5؛ مسند الإمام أحمد، 13/31؛ أبو يعلى الموصلي؛ المسند، 69/5.
[3] سعيد النورسي: السيرة الذاتية، ص 491.
- Created on .