دینی فکر وشعور میں گہرائی
سوال: دینی فکر و شعور میں گہرائی سے کیا مراد ہے اور اس اعلیٰ ہدف تک رسائی کیسے ممکن ہے؟
جواب: انسان میں اپنی فکرو شعور کا آغاز تلقین سے ہوتا ہے، اس کے بعد وہ اس کو تقلید کے ذریعے اپنا کر ا س پر قائم رہتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کے آغاز پر نظر ڈالیں اور واپس بچپن میں چلے جائیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی ہم سب کو بڑے سادہ طریقے سے دین کے بنیادی ارکان جیسے کلمہ، نماز، روزہ ، زکاۃ ، حج اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں، کتابوں، فرشتوں، آخرت اورتقدیر کی تلقین کی گئی ہے۔ ہم نے تقلید کے ذریعے ان باتوں کو لیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان باتوں کو مضبوطی سے تھام لیا۔
جمہور علماء مقلد کے ایمان اوراس ایمان پر دنیا و آخرت میں مرتب ہونے والے احکام کو درست قرار دیتے ہیں(1) لیکن تقلیدی ایمان کے ذریعے حاصل شدہ حقائق کو پختہ کرنا اور ان کو ٹھوس اور درست بنیاد فراہم کرنا اور اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے تاکہ مومن انکار اور گمراہی کے جھکڑوں کامقابلہ کرسکے کیونکہ تقلید شروع میں عارضی ذمہ اری تو ادا کرسکتی ہے مگر تقلید سے حاصل ہونے والے فوائد کی بقا اور پختگی تحقیق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مثلاً ہمارے والدین نے اللہ تعالیٰ کے وجود اور وحدانیت کے بارے میں بنیادی نظری معلومات تو ہمیں فراہم کردی ہیں مگر بعد میں ہمیں چاہیے کہ جب ’’اللہ ایک ہے ‘‘ کہا جائے تو اس بات کو محسوس کریں اور اس حقیقت کو کائنات کی ہر چیز بلکہ ہر تکوینی امر سے مستنبط کریں۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے تجربہ گاہوں میں ماہرین تحلیلات سے نتائج حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ پس اس بارے میں ایسے قوی، درست اور راسخ ایمان سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر زمین پر ریکٹر سکیل پر دس درجے کا زلزلہ آجائے تو بھی اس میں لرزش نہ ہو۔ یہ ایمان ایسا ہونا چاہیے کہ ایمان والا یوں کہہ سکے: ’’اگرچہ وہ پچاس بار بھی اس کے برعکس گمان کریں تو بھی حقیقت وہی ہے ، وہ نہیں جو ان کا گمان ہے۔ میں اس بار ے میں تو شک کرسکتا ہوں کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں لیکن ایمانی حقائق پر مجھے اتنا یقین ہے کہ اس میں ذرہ بھر شک و شبہ نہیں ہوسکتا!‘‘
تقلید سے نجات کے لیے کوشش اور سعی کی ضرورت ہے
اگر معاملہ یہی ہے تو پھر سب سے پہلے ہمیں ان اقدار کی حفاظت کرنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے ہم میں پیدا کئے ہیں اور یہ وہی دینی اقدار ہیں جوہم نے اپنے ثقافتی ماحول سے سیکھے ہیں جس میں ہماری پرورش ہوئی ہے یا جو ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے حاصل کئے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بار بار تسلسل کے ساتھ اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں ان اقدار کو کھو نہ دیں ۔ ان اقدار کو مضبوط بنیادوں پر پختہ کرنے کے لیے تسلسل کے ساتھ ان کی نگرانی ضروری ہے اور ایمان کے ارکان کو مضبوط اور راسخ کرنے کے لیے مسلسل سعی اور کوشش لازم ہے۔
ہم (میں سے غالب اکثریت) مسلمان والدین کی اولاد ہیں، ہم نے ایسے ماحول میں تربیت پائی ہے جہاں اسلام کا غلبہ ہے، جہاں میناروں سے اذان کی آواز گونجتی ہے، جہاں مساجد میں خوبصورت آواز میں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے اور ان مساجد میں دینی وعظ و نصیحت کا اہتمام ہوتا ہے۔ ان سب چیزوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان تمام حقائق کو فطری سطح پر حاصل کرنے کی توفیق بخشی۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہمت پست نہ کریں اور ان اہم کامیابیوں کواضافے کے بغیر پہلی حالت پر نہ چھوڑیں بلکہ ہمیں چاہیے کہ ان کو بلندی کی جانب لے جانے کے لیے ہمیشہ سعی اور کوشش کریں جبکہ اس کے مخالف تصرفات اور الٹا برتاؤ نعمت کی ناشکری اور ان امانتوں کے ساتھ برائی ہوگی۔
جی ہاں، چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام امور اس کے عملی رخ کو حاصل کرنے کی ذمہ داری ہمارے ارادے پر ڈال دی ہے۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم اس امانت کے پیچھے اپنی پوری کوشش اور سعی کرڈالیں۔
یقین کے درجات اور تحقیق تک لے جانے والا رستہ
تقلید سے تحقیق کی جانب جانے والے رستے پر ’’علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین‘‘ کا مفہوم منشور کا کام کرسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم الیقین کا مطلب ہے تمام اشیاء اور واقعات کو روشن علم کے تابع کرکے ان کا تجزیہ کرنا اور تکوینی احکام پر غور و فکر کے ذریعے پوشیدہ حکمتوں اور مفاہیم کا استنباط کرنا اور اس رستے سے ایسی معرفت تک پہنچنا جو ایمان کے حقائق کو دلائل اور براہین سے ثابت کرسکے۔ اس انداز سے مطالعہ اور بحث و تحقیق تقلید کے رستے سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کو محفوظ کردے گی اور ملحدوں کے شکوک و شبہات اور وسوسوں وغیرہ سے ان حقائق کی حفاظت کرے گی جبکہ عین ا لیقین کا مطلب ہے جن معلومات کو ہم فطری طورپر مانتے ہیں ان کو دلائل اور براہین قاطعہ کے ذریعے براہ راست مشاہدہ کرنا یعنی انسان کے تمام لطائف کو ان حقائق پر گواہ بنانا۔
جی ہاں، آنکھ سے دیکھنا سوچ سے مختلف ہے۔ اس لیے جس شخص کو درست سوچ اور اس کے بعد سامنے کی چیز کے پیچھے دیکھنا نصیب ہوگا تو وہ اپنے ارد گرد کی فطری چیزوں کو ایک خاص نظر سے دیکھے گا یہاں تک کہ وہ ایک درخت سے دوسرے درخت تک اسے چومنے کے لیے دوڑے گا کیونکہ اسے ہر رخ پر اللہ تعالیٰ کے اسماء کی تجلیات میں سے ایک تجلی نظر آئے گی اور وہ سجدے میں گر پڑے گا اور جو لوگ عین الیقین کے مرتبے پر غوطہ خوری کرتے ہیں وہ ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی ہزاروں تجلیات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور بعض اوقات جذبے کی کیفیت میں آجاتے ہیں اور اپنے جذبات کو ’’نیازی مصری‘‘ کی طرح بیان کرتے ہیں:
میں نے سوچا کہ شاید ساری دنیا میں کوئی دوست باقی نہیں رہا
یہاں تک جب میں نے اپنے نفس سے الگ ہوا تو پتہ چلا کہ ہر شے دوست ہے
مطلب یہ ہے کہ جب انسان اپنے نفس سے الگ ہوجاتا ہے تو ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات نظر آتی ہیں تو وہ استغراق کی حالت میں اپنے آپ کو بھول جاتا ہے اور اس سمندر میں پگھل کر فنا ہوجاتاہے۔ ’’غوثی‘‘ کہتے ہیں:
جب تک میں میدان میں ہوں ،تو ظاہر نہیں ہوتا
اس لیے میرا غائب ہونا تیرے وجود کی شرط ہے
یعنی جب انسان اپنے وجود سے الگ ہوجاتا ہے اور اسے وجود حقیقی کے سامنے پگھلا دیتا ہے تو حق الیقین کے مرتبے کے دروازے کھولتا ہے۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا انسان اس معنی کے مطابق مکمل طورپر حق الیقین کامرتبہ حاصل کرسکتا ہے یا نہیں؟ حضر مجدد الف ثانی اپنی کتاب ’’مکتوبات‘‘ میں ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ بات دنیا میں ناممکن ہے جبکہ ایک اور مکتوب میں کہتے ہیں کہ ایک حد تک ممکن ہے۔ ان دونوں باتوں کو اس طرح یکجاکیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں بعض لوگوں کو حق الیقین کے مرتبے کا ظل مل سکتا ہے مگر اس کی حقیقت آخرت میں ظاہر ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت اس کی حکمت سے آگے ہوگی وہاں حق الیقین اپنی حقیقی شکل میں ظاہر ہوگا اورانسان کے مرتبے کے مطابق اس حقیقت کے تمام رخوں کا احساس دلائے گا۔
جب مانگو تو اللہ ہی سے مانگو، تیری امید کبھی ختم نہ ہوگی
اہل تحقیق نے یقین کے ان مراتب کی مثالیں بیان کی ہیں جن کو ہم نے مختصر طورپر بیان کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً بعض حضرات فرماتے ہیں کہ انسان کو فطری طورپر معلوم ہونا کہ آگ جلاتی اور کھانا پکاتی ہے، اپنے ماحول کو روشن کرتی ہے اور اس کے شعلے ہوتے ہیں اور پھر اس کی تصدیق علم الیقین کہلاتا ہے۔ اس کے بعد جب انسان انگیٹھی میں آگ کو روشن دیکھتا ہے اور اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے کہ وہ حرارت کا سرچشمہ ہے اور اپنے ماحول کو روشن کرتی ہے تو یہ عین الیقین ہے۔ حق الیقین کے درجے کو زیادہ قابل فہم بنانے کے لیے انہوں نے یہ مثال بیان کی ہے کہ آگ میں پڑا ہوا چمٹا اس قدر سرخ ہوجائے کہ اس میں اور آگ میں تمیز نہ ہوسکے۔ اس آخری درجے میں حقیقی طورپر میرا اور آپ کا کوئی وجود نہیں کیونکہ اللہ کے سوا کوئی بھی وجود حقیقی نہیں۔ اس مقام پر انسان کو ’’میں‘‘ کہنے میں شرم آتی ہے اور وہ صرف ’’وہ‘‘ کہتا ہے اور اپنی زندگی کی سانسیں بھی اس سے لیتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو ہمیشہ ایک مرتبے سے دوسرے مرتبے تک بلند ہونے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہر گفتگو کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں گفتگو بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس پر یہ لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ہر روز نئی سیکھی چیزوں کے ذریعے یاد کرے۔ ہمیں ہر روز یوں کہنا چاہیے: ’’اللہ کا شکر ہے۔ آج ہم نے دوبارہ اپنے رب کو پہچانا اور اپنے رسول ﷺ کو ایک بار پھریاد کیا اور آپ علیہ السلام کی محبت کو دل میں محسوس کیا اور ہم نے کہا: ’’ہماری جان آپ پر فدا!‘‘ اور اس میٹھی مجلس میں شامل ہونے کے شوق میں ایک بار پھر دل تڑپ اٹھا‘‘۔
اس طرح انسان اپنی زندگی کے سيكنڈوں کو سالوں میں بدل سکتا ہے۔ جی ہاں انسان کے یہ خوبصورت لمحات اور ان تک پہنچنے کی کوشش اور ان باتوں کو ہمیشہ ذہن میں تروتازہ رکھنا اور اس کی زندگی کے سیکنڈوں بلکہ ان سے بھی کم وقت کو عبادت کے حکم میں کردے گا اور اس کو ابدی بنا دے گا ۔ چونکہ انسان اپنے آپ کو ابدیت اور ابدی ذات کے مشاہدے کے لائق سمجھتا ہے اس لیے یہ چیز ان باتوں سے جڑے رہنے سے حاصل ہوسکتی ہے جن کا تذکرہ ہم نے ابھی ابھی کیا۔
اے اللہ تو اس بارے میں ہم پر احسان فرما اور اس کو ہمارا رفیق بنا دے کیونکہ تجھ سے سوال کرنے والے کبھی ناامید نہیں ہوتے۔
اگر ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کریں گے تو بے شک وہ ہماری تمام ضروریات کو فوری طور پر یا بعد میں عنایت فرما دے گا۔ حضرت لطفی آفندی نے اس بات کو نہایت سادہ اور سلیس اسلوب میں یوں بیان کردیا ہے:
اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرو گے تو کیا وہ تم سے محبت نہیں کرے گا؟
اگر تم اس کی خوشنودی کی تلاش میں دوڑو گے تو کیا وہ تمہیں راضی نہیں کرے گا؟
اگر تم اس کے در پر کھڑے ہو جاؤ ، اس پر اپنی جان نفس اور دوستوں کو فدا کردو
اور اس کا حکم بجا لاؤ، تو کیا وہ تمہیں اجر جبریل نہیں دے گا؟
(1) التفتاز انی ، شرح المقاصد:264/2
- Created on .