۔جہاد اورزندگی کو حقیرجاننے کاتعلق
زندگی سے بے رغبتی، عیش کوشی اور آرام طلبی چھوڑنے کا پہلا نتیجہ ہے اور جو شخص اپنی مکمل رضامندی اور مرضی سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہتا ہے اس کی آخری شرط ہے۔بلاشبہ جو لوگ زندگی کے عیش وآرام کو کم تر نہیں سمجھتے اور آخرت کو اس یقین کی آنکھ سے نہیں دیکھتے جیسے اس دنیا کو دیکھتے ہیں ، ان کے لیے جہاد کے میدا ن میں اس کے پورے تقاضوں کے ساتھ اترنا انتہائی مشکل ہے۔عہد نبوت سے اس کی مثالیں ملتی ہیں ۔
حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ احد کے روز جب لوگ رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم)سے ادھر ادھر چھٹ گئے تو پتہ نہیں چل رہا تھاکہ آپ کہاں ہیں ۔میں نے شہداءمیں دیکھا تو وہا ں آپ نہ تھے تو میں نے دل میں کہا کہ آپ سے بھاگنے کا تصور بھی نہیں ہو سکتاشہیدوں میں بھی نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اعمال کی وجہ سے ہمارے اوپر غضب کیا اور اپنے نبی کو اٹھا لیا ہے۔اب اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے کہ میں اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک کہ شہید نہ ہو جاﺅں ۔تومیں نے تلوار کی نیام توڑ ڈالی اور لوگوں کے اندر داخل ہو گیا تو اس وقت میں نے آپ(صلى الله عليه و سلم) کو لوگوں کے اندر دیکھاتومیر اغم ختم ہوا۔
ہمیں ہر صورت معاشرتی زندگی میں مصروف چاہیے لیکن جان نثارانہ جہا د کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ہمیں ہر حال میں ایسا جہاد کرنا ہے جس میں رضائے الٰہی کے علاوہ کوئی مقصد نہ ہو۔یعنی یہ شعار ہونا چاہیے کہ اللہ کی خوشنودی چاہیے۔”نہ تومیرے دل میں جنت کی رغبت ہے اور نہ جہنم کا ڈر۔“
ہماری آخری تمنا یہی ہوکہ ہمارا سب کچھ اس کے راستے میں قربان ہوجائے۔ہمیں وہی الفاظ کہنے چاہئیں جو ثابت بن وحاق نے احد میں اس وقت کہے تھے جب مسلمان انتہائی تشویش میں تھے: ”اے انصار کی جماعت میری طرف آﺅ، میری طرف آﺅ اگر محمد شہید ہو چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ تو زندہ ہے،اسے موت نہیں آئے گی،اپنے دین کی سربلندی کے لیے لڑو۔“ پھر ہمیں بھی چاہیے کہ اس طرح اس دنیا سے جائیں جس طرح وہ مسکراتے ہوئے روشن چہرے کے ساتھ احد کی پہاڑیوں سے جنت کی خوشبو سونگھتے ہوئے گئے۔
دنیا کو ہر لحاظ اور ہر پہلو سے حقیر سمجھنا اور دنیا و آخرت میں توازن و اعتدال قائم کرتے ہوئے ہردو کو اتنی ہی اہمیت دینا جتنی اہمیت ضروری ہے۔یہی مثالی زندگی ہے اور ایسی ہی زندگی مسلمانوں کو گزارنی چاہیے۔یعنی تمام امور اعتدال کے دائرے میں رہتے ہوئے انجام دینے چاہئیں ۔بنیادی طور پر یہ الاھم فالاھم (پہلے اہم تر پھر اہم) کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اولیٰ اور اہم کو پہلی ترجیح میں رکھناچاہیے اور دنیا اور آخرت دونوں کو ان کی حیثیت کے مطابق مکمل توازن اور اعتدال کے ساتھ اس قدر اہمیت دینی چاہیے جس قدر ہمارا دین بتاتا ہے ۔یعنی دنیا کا معیار اس کی قدر وقیمت کے مطابق مقرر کرنا اور آخرت کا معیاراس کی قدر و قیمت کے مطابق مقرر کرنا۔جو لوگ اس انداز کا توازن قائم کر سکتے ہیں انہیں کسی قسم کا ڈر یا تشویش نہیں ہوتی۔اگرساری دنیا بھی ان کے سروں پر ٹوٹ پڑے تو یہ پریشان نہیں ہوتے کیونکہ ڈر اور تشویش تو دنیا کی خواہشات اور لالچ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔جبکہ یہ لوگ تو اس دنیا کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ایسے شخص کو کوئی تشویش و غم نہیں ہوتا جو جانتا ہے کہ یہ دنیا اور اسکی مرغوبات فانی ہیں او رآخرت کی کامیابی اصل کامیابی ہوگی۔ اس لیے آخرت کے امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے۔آخرت کا شوق اور کشش کچھ کر گزرنے کی طاقت اور ہمت عطا کرتا ہے اور اس میں برکت ہوتی ہے۔
دیکھیے صحابہ کرام نے احد میں ۷۰ قیمتی جانیں قربان کیں اور کتنے ہی زخمی ہوئے۔اس کسمپرسی کے عالم میں مدینہ لوٹے کہ خود رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم)بھی سر میں چوٹ کی وجہ سے تکلیف میں تھے۔ تمام مجاہدین تھکے ماندے بیمار اور زخمی تھے۔کوئی بھی اسلحہ اٹھانے کی قوت نہ رکھتا تھا۔اسی اثناءمیں یہ خبر پھیل گئی کہ ابو سفیان اپنی فوج کے ساتھ ایک بار پھر مدینہ پر چڑھائی کے لیے آرہا ہے۔جیسے ہی یہ خبر پہنچی تو رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم)نے دشمن کو راستے ہی میں آڑے ہاتھوں لینے کے لیے یہ اعلان کرا دیاکہ صرف وہی مجاہدین جہاد کے لیے نکلیں جو کل ہمارے ساتھ احد میں موجود تھے۔اس انداز کے حکم کی حکمت اور نفاذکا اندازہ لگانا شاید ممکن نہ ہو۔ان تھکے ماندے مجاہدین میں سے کوئی تو ایسا تھا جس کا بازو نہیں تھا،کسی کی ٹانگ نہ تھی،کوئی پاﺅں ضائع کر چکا تھا۔لیکن کوئی ایک بھی غیر حاضر نہ تھا۔تمام لوگ اگلا حکم سننے کے لیے مجوزہ جگہ پر جمع ہو چکے تھے۔بعض تو گھسٹ گھسٹ کر پہنچے تھے۔اس لیے کہ جب بات جہاد کی ہو تو صحابی کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جوپیچھے ہٹنے والا یا بزدل ہو حالانکہ ان کے جسم زخموں سے چور تھے۔ان کی طاقت جواب دے رہی تھی لیکن ان کے روحیں زندہ تھیں اور شوق کے پروں کے ساتھ اڑ کے دشمنوں تک پہنچنے کے لیے بے چین تھیں ۔قرآن کریم ان حالات کی اس طرح تصویر کشی کرتا ہے:
اَلَّذِینَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَد جَمَعُوا لَکُم فَاخشَوھُم فَزَادَھُم اِیمَانًا وَّ قَالُوا حَسبُنَا اللّٰہُ وَ نِعمَ الوَکِیلُ ۔ (آل عمران:۱۷۳)
جن سے لوگوں نے کہاکہ :”تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں ، ان سے ڈرو“تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ: ”ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔“
اس اعلان کا دشمنوں پر اس قدر رعب طاری ہوا کہ وہ الٹے پاﺅں واپس پلٹ گئے،انہوں نے سمجھا کہ مسلمان ایک نئی تازہ دم فوج اور بھرپور کمک کے ساتھ راستے ہی میں مقابلے کے لیے آرہے ہیں ۔ اس طرح زخموں سے چور شیروں نے دنیا کی تاریخ میں بہادری کی داستان سنہری لفظوں میں رقم کی اور دوسرے روز مسلمان فاتحانہ انداز میں احد کے میدان میں تھے۔ مسلمان تو ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔اگر شہید ہوجائے تو کامیاب ہو گیااگر غالب آگیا تو کامیاب۔یہاں میں دور حاضر کا ایک ایسا واقعہ بیا ن کرتا ہوں جو میں نے خود دیکھا ہے۔
جب ہمارے ملک میں بدامنی اور بربریت عروج پر تھی،فتنہ پرور اور ملک دشمن عناصر راہ سے گزرتی گاڑیوں کو پکڑتے اور ان کو فوج اور پولیس کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان دشمنوں نے ایک راہ گزرتے ٹرک کوروکا تاکہ اس کو فوج کے خلاف استعمال کر سکیں لیکن ٹرک ڈرائیور(معلوم نہیں اس میں کس قدر قوت ایمانی تھی) ہاتھ میں ایک مضبوط ڈنڈا لیے نیچے اترا اور بیس کے لگ بھگ دشمنوں کو تتر بتر کر دیا۔
مسلمان بالکل اسی طرح اپنے عزت و وقار اور شرف کی حفاظت کرتا ہے جیسے اس ٹرک ڈرائیور نے اپنے مال، عزت اور شر ف کو بچانے کے لیے مجبوراً بیس کے لگ بھگ لوگوں پر حملہ کر دیا۔مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ دشمنوں کے ساتھ کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔اور دشمنوں کے سامنے کبھی ہتھیار نہیں ڈالنا چاہئیں ۔نہ ہی ان کے خوف سے گھر میں بیٹھے رہنا چاہیے۔مسلمان کو چاہیے کہ خیر و بھلائی کے کاموں میں تعاون کرے اور حق کا ساتھ دے۔
میں غلط قسم کی وضاحت اور تاویل کی بجائے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ میں کسی سے یہ مطالبہ نہیں کر رہا ہوں کہ اسلحہ سے لیس ہو کر گلیوں میں ، بازاروں میں پھیل جاﺅ،میں تو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مومن کے اندر ڈر اور خوف کبھی نہیں آسکتا۔اس کی مثال دی جائے تو سیدنا زبیر(صلى الله عليه و سلم) بن عوام کی مثال سے زیادہ بہتر مثال نہیں دی جاسکتی۔
ایک روز مکہ کی گلیوں میں ایک حیرت انگیز خبر گردش کر رہی تھی اور لوگ اس خبر پر انگشت بدنداں تھے۔کوئی بھی تبصرہ کرنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔خبر یہ تھی کہ محمد کو قتل کر دیا گیا۔ایک بچہ جس کی عمر بارہ سال سے بھی کم تھی اپنے ہاتھوں میں تلوار گھسیٹتے ہوئے کبھی گلی کی ایک نکڑ پر جاتاکبھی دوسری نکڑ پر۔یہ بچہ آپ (صلى الله عليه و سلم) کی پھوپھی صفیہ کا بیٹا زبیر(صلى الله عليه و سلم) بن عوام تھا۔جو بعد میں حواری رسول کے لقب سے مشہور ہوا۔خود آپ(صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا:”بلا شبہ ہر نبی کا حواری ہوتاہے اور میرا حواری زبیر ہے۔“
وہ دیوانوں کی طرح گلیوں میں پھر رہے تھے۔کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ بچہ آخر کیا چاہتا ہے۔اس اثناءمیں سامنے سے نبی اکرم(صلى الله عليه و سلم) کو آتے ہوئے دیکھا اور آپ (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا زبیر کہا ں کا ارادہ ہے؟زبیر اچانک رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔وہ تو سمجھ رہے تھے کہ رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کو شہید کر دیا گیا ہے۔تو زبیر نے کہا کہ میں اس شخص کو قتل کرنے جارہا ہوں جو آپکے قتل کے درپے ہے۔رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا تم اس کو کیسے قتل کرو گے جو مجھے قتل کرنے کا ارادہ کر رہا ہے۔زبیر کم سنی کی وجہ سے ایک ہاتھ میں تلوار نہیں اٹھاسکتے تھے۔اس لیے دونوں ہاتھوں سے بمشکل تلوار اوپر اٹھا کر کہنے لگے:اس تلوار کے ساتھ یا رسول اللہ۔زبیر وہ تلوار اٹھا کر شہر کی گلیوں میں گھومتے رہے جسے وہ اٹھا بھی نہ سکتے تھے۔اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ ایسی زندگی کی کوئی قیمت نہیں جو رسول اللہ پر قربان نہ ہو جائے،آپ کے بعد زندہ رہنے کا کیا فائدہ۔
زندگی سے بے رغبتی کی ایک مثال جنگ یمامہ میں بھی منفرد مقام رکھتی ہے۔جو شخص آخرت ہی کو ترجیح دیتا ہے وہی یہ منظر دکھا سکتا ہے۔حضرت عمار بن یا سر بوڑھے ہو چکے تھے لیکن میدانِ جنگ سے پیچھے رہنے کے لئے کبھی یہ نہ کہتے تھے کہ میں تو بوڑھا ہوں ۔جنگ نہ بھی کروں تو کوئی حرج نہیں ۔جنگ اپنی شدت سے گرم تھی، ہر طرف چیخ و پکار تھی،مسلمانوں میں انتشار اور سستی آچکی تھی، لوگ دائیں بائیں بھاگ رہے تھے،اسی اثناءمیں لوگوں کے کانوں میں ایک ایسی آواز پڑی جسے سب لوگ جانتے تھے، ہر کوئی اس آواز سے واقف تھا۔وہ عمار بن یاسر تھے جو کہہ رہے تھے مسلمانو! کیا تم جنت سے بھاگ رہے ہو؟ میں عمار بن یاسرہوں ۔
حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں میں نے یمامہ کے روز دیکھا کہ عمار بن یاسر ایک چٹان پر کھڑے با آواز بلند پکار رہے ہیں ”اے مسلمانو کیا تم جنت سے بھاگ رہے ہومیں عمار بن یاسر ہوں میری طرف آﺅ۔“عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ان کا ایک کان کٹ کر لٹک رہا تھا اور وہ مردانہ وار لڑ رہے تھے۔
ہرقل کے سپہ سالار نے اس سے سچ ہی کہا تھا: اے بادشاہ ہم ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کی سکت نہیں رکھتے جو موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جس طرح ہم زندگی کواور وہ آخرت سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جیسے ہم دنیا سے محبت کرتے ہیں ۔
عمار جس چیز کے شوق کے لیے یمامہ میں بہادری کے جوہر دکھا رہے تھے وہ حاصل نہ ہو سکی،اس لیے کے رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے ان سے فرمایا تھا کہ ”تم سب سے آخر میں جو چیز پیو گے وہ دودھ ہو گا۔“عمارنے اس دودھ کے گھونٹ کے لیے کئی جنگیں لڑیں ، موتہ، یرموک اور یمامہ میں حصہ لیا۔پیرانہ سالی میں بھی جنگ کے بعد جنگ لڑتے، لیکن کسی جنگ میں انہیں شہادت نصیب نہ ہوئی۔یہاں تک کہ جنگ صدمیں آپ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور اس وقت عمار کی عمر نوے برس سے زیادہ تھی۔ان کے سر میں کوئی بال بھی سیاہ نہ تھا۔گویا کہ ایک نور ہے جو سر پر پھیلاہواہے۔شام تک مسلسل لڑتے رہے،شام کو انہوں نے ساتھیوں سے کہا کچھ پینے کے لیے دیں ۔انہوں نے دودھ کاپیالہ پیش کر دیا۔جیسے ہی دودھ کا پیالہ دیکھا تو اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہا عمار یہ تیرا آخری رزق ہے کیونکہ رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے یہ پیشین گوئی کی تھی۔تھوڑی ہی دیر بعد لوگوں نے دیکھا کہ ایک سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ساتھ دوسراسورج بھی غروب ہو گیا۔لیکن یہ سورج اب جنت کی وادیوں میں طلوع ہو گا۔عمار موت کو جانتے ہی نہ تھے اس لیے کہ ان کا ایمان تھا کہ موت کا وقت مقرر ہے۔نہ یہ پہلے آسکتی ہے اور نہ یہ ٹل سکتی ہے۔قرآن کریم بھی اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
” وَمَا کَانَ لِنَفسٍ اَن تَمُوتَ اِلَّا بِاِذنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مَُّجَّلًاط وَمَن یُّرِد ثَوَابَ الدُّنیَا نُتِہ مِنھَا وَمَن یُّرِد ثَوَابَ الاٰخِرَةِ نُتِہ مِنھَاج وَسَنَجزِی الشّٰکِرِینَ۔“(آل عمران:۱۴۵)
”کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مر سکتا۔موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔جو شخص ثوابِ دنیا کے ارادے سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا میں سے دیں گے، اور جو ثوابِ آخرت کے ارادے سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا۔اور شکر کرنے والوں کو ہم ان کی جزاضرور عطا کریں گے۔“
اللہ نے ہر ذی روح کی موت کا پیدائش کے ساتھ ہی ایک وقت مقرر کیا ہے اور موت اسی وقت مقررہ پر آتی ہے۔سیدنا عمر ؓ کئی جنگوں میں بھرپور شرکت کے باوجود جب شہید ہوئے تو لوگوں کو نماز پڑھاتے ہوئے کافر نے خنجر کے وار کر کے شہید کر دیا۔حضرت خالد بن ولید کے جسم میں ایک درہم کے برابر کوئی حصہ ایسا نہ تھاجہاں تلوار،تیر یا نیزے وغیرہ کا زخم نہ ہو لیکن آپ شہید نہ ہوئے اور گھر کے اندر بستر پر اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کی۔
میں یہ بات سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کے رب جلیل نے موت کے لیے جو وقت مقرر کیا ہے اس سے نہ تو لحظہ بھر پہلے موت آ سکتی ہے اور نہ بعد میں ۔ہم اس وقت مقررہ پر مریں گے جو اللہ نے لکھ دیا ہے۔اس کی اجازت اور حکم کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔جب موت آجائے تو اس سے کوئی بچا نہیں سکتا۔اوراگر نہ آئی ہو تو کوئی مار نہیں سکتا۔جو لوگ موت کے پیچھے بھاگتے ہیں وہ موت نہیں پاتے اور جو موت سے بھاگتے ہیں بچ نہیں سکتے کیونکہ موت وقت مقررہ پر آتی ہے۔اس لیے ڈر کر زندگی گزارنے کی بجائے عزت کی زندگی گزارنی چاہیے۔مسلمان کی موت بھی اس طرح دین کی خدمت کرتی ہے جیسے اس کی زندگی دین کی خدمت کے لیے ہوتی ہے، کیونکہ مسلمان کی موت بعد میں آنے والوں کے لیے پیغام حیات ہوتی ہے۔بلکہ ہر دیکھنے اور سننے والے کے لیے اس کی موت میں سبق ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ہم سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کونہیں بھولے اور کبھی بھول بھی نہیں سکتے۔ہم اس عظیم قربانی دینے والے کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کے خون سے فرشتوں نے آسمان پر لکھا تھا ”اللہ کا شیر“اس لیے کہ وہ جسم کے ٹکڑے ہونے کے باوجود آقائے دو عالم کے سامنے ڈھال بنے رہے۔آنے والے لوگوں کو یقین ہو گیا اور بعض نے تجزیہ بھی کیا کہ سیدنا حمزہ کی روحانی طاقت اور جذبہ و اخلاص اگر پیدا کر لیا جائے تو کامیابی ہی کامیابی ہے۔وہ ہر وقت ہمارے درمیان موجود ہیں ،وہ زندہ ہیں ، ان کا ذکر خیر ہر مجلس میں ہوتا ہے لیکن دل کی آنکھیں کھلی رکھنے والے ہی ان کی زندگی کا شعور رکھتے ہیں ۔انہوں نے اپنے نبی کی خاطر اپنے آپ کو قربان کر دیا۔یہ سعادت ،خوش بختی اور عظیم مرتبہ ان کے بعد ہر اس شخص کو ملتا رہااور ملتارہے گا جواس دین پر ایمان لایا اور اسکی خدمت کی خاطراپنا سب کچھ لٹا دیا۔اس دین کی عزت اورغلبہ کے لیے اپنی جان تک قربان کر دی۔
- Created on .