سرورکونین (صلى الله عليه و سلم)
زندگی سے بے رغبتی، عیش کوشی اور آرام طلبی چھوڑنے کا پہلا نتیجہ ہے اور جو شخص اپنی مکمل رضامندی اور مرضی سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہتا ہے اس کی آخری شرط ہے۔بلاشبہ جو لوگ زندگی کے عیش وآرام کو کم تر نہیں سمجھتے اور آخرت کو اس یقین کی آنکھ سے نہیں دیکھتے جیسے اس دنیا کو دیکھتے ہیں ، ان کے لیے جہاد کے میدا ن میں اس کے پورے تقاضوں کے ساتھ اترنا انتہائی مشکل ہے۔عہد نبوت سے اس کی مثالیں ملتی ہیں ۔
نبی آخر الزمان (صلى الله عليه و سلم) سردار انبیاءہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے اوپر تمام قسم کی نعمتوں کو تمام کر دیا۔ولادت سے لے کر وفات تک اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم آپ کے ساتھ تھا۔آپ کو وہ خصوصیا ت دی گئیں جو مخلوق میں سے کسی کو نہ دی گئیں ۔آپ علم حمد کے حامل ہیں ، آپ کو ہر قسم کے گناہوں اور خطاﺅں سے محفوظ کر دیا گیا۔آپ کی تمام اگلی پچھلی تقصیرات معاف کر دی گئیں ۔یعنی نہ تو آپ نے نبوت ملنے سے پہلے کوئی گناہ کیااور نہ نبوت ملنے کے بعد۔آپ اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین پیغمبر ہیں ۔دنیوی اور اخروی فضائل و مراتب میں سے کوئی مرتبہ یا فضیلت ایسی نہیں جو آپ کو عطا نہ کر دی گئی ہو۔اس کے باوجود آپ اپنی خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”وَالَّذِی نَفسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ! لَوَدِدتُ اَنِّی اَغزُو فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَاُقتَلُ ثُمَّ اَغزُو فَاُقتَلُ ثُمَّ اَغزُو فَاُقتَلُ“
”اس ذات کی قسم جس کہ قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے، میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں لڑوں اور قتل کیا جاﺅں ،پھر لڑوں اور قتل کیا جاﺅں ،پھر لڑوں اور قتل کیا جاﺅں ۔“
رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کس بات کی تمنا کر رہے ہیں ،تمام جہانوں کے سردار کو شہادت کی کیا ضرورت ہے؟کیوں وہ شہادت چاہتے ہیں ، کیوں اپنے پاک خون کو راہ خدا میں بہانا چاہتے ہیں ۔آپ کو سرداری کا ایسا تاج پہنا دیا گیا کہ آپ کی وجہ سے یہ جہاں وجود میں آئے،ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”لَولَاکَ لَولاکَ لَمَا خَلقَتُ الافَلَاکَ“
”اگر تم نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا۔“
آپ شہادت کو پسند کرتے تھے۔ اللہ سے شہادت مانگتے تھے،کیونکہ شہادت روز محشر تمام مشکلات کو حل کر دے گی۔اس بڑے یوم حساب میں ممتاز مقام عطاکرے گی۔آپ (صلى الله عليه و سلم) خود اس وقت کا نقشہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں جب تمام لوگ حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا”جب تمام لوگ روز محشر حساب کے لیے کھڑے ہونگے تو ایک قوم آئے گی جن کے کندھوں پر خون آلود تلواریں لٹک رہی ہوں گی وہ جنت کے دروازے پر بھیڑکیے ہوں گے۔پوچھا جائے گا یہ کون لوگ ہیں ؟ جواب ملے گا۔شہداءہیں جو زندہ تھے اور انہیں رزق مہیا کیا جارہا تھا۔“
اور رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا۔ ”میں پسند کرتا ہوں کے اللہ کی راہ میں قتل کیا جاﺅں ،پھر زندہ کیا جاﺅں ۔“
بڑی تعداد میں ایسے انبیاءبھی گزرے ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا،جنگ کا لباس زیب تن کیا،زخمی ہوئے ،شہادت کے مراتب پر فائز ہوئے حالانکہ وہ نبی تھے۔جب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) کو ہر نعمت اورفضیلت عطا کی گئی توشہادت کی یہ فضیلت بھی ان کو عطا ہونی چاہیے۔تو ہم دیکھتے ہیں کہ خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت نے آپ کوکھانے کی دعوت دی لیکن اس نے کھانے میں زہر ملادیا اور اس زہر کا آپ کی صحت پر بہت برااثرپڑا۔
بعض تاریخ نگار لکھتے ہیں کہ آپ کی وفات کا سبب بھی یہی زہر تھا۔اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ شہید ہوئے۔ پھر نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) دورانِ جنگ شہید ہونے کی تمنا رکھتے تھے لیکن دورانِ جنگ شہید ہونے کاظاہری مطلب یہ ہوتا ہے کہ دشمن نے اس شخص پر غلبہ پا لیاجس کو مار دیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گاتاکہ امت میں اختلافات نہ واقع ہوں ۔دوسری جانب اللہ تعالیٰ نے شہادت کی دعا بھی قبول فرمالی۔
- Created on .