جہاد،داخلی اورخارجی امن وسلامتی کی ضمانت
ہر قوم کے پاس کسی قدر طاقت ہوتی ہے۔ اگر وہ قوم اپنی طاقت و قوت کو بیرونی دشمنوں کے خلاف اور زمین پر حاکمیت کے لیے بطریق احسن استعمال نہ کرے تو اندرون ملک شورش بدامنی اور دشمنی شروع ہو جاتی ہے۔پھر خونِ آدمی ارزاں ہو جاتا ہے۔ہر روزلاشے اٹھتے ہیں ، گلیاں جنازوں سے بھری رہتی ہیں ۔اس طرح کی قوموں کے مرد ختم ہو جاتے ہیں ۔بیوائیں اور یتیم ہی بچتے ہیں یا پھر ایسی عورتیں جو اپنے شوہروں اور بچوں کا ماتم ہی کررہی ہوتی ہیں ۔کسی کو علاقے میں امن نصیب نہیں ہوتا۔شورش اور انتشار کی وجہ سے کسی کی عزت محفوظ نہیں ہوتی۔
ایسی قوم جس کے مقدر میں دنیا کی حکمرانی ہوتی ہے یا کم از کم دنیا میں اعتدال قائم کر نے کے لئے جس کو کردار اد اکرنا ہوتا ہے اس کے ہاں اندرونی فتنہ و فساد کی گنجائش نہیں ہوتی ۔اگر بیرونی دشمنوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے پر اتفاق ہوتو اندرونی مخالفتیں دم توڑ جاتی ہیں اور محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔یعنی اندرونی خلفشار اور داخلی دشمنی کو ختم کرنے کا یہ بھی ایک اچھا ذریعہ ہے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ہماری زندگی کا اصل مقصد اور بنیادی ہدف محض زمین پر حکمرانی برائے حکمرانی نہیں ہے اور نہ ہی اندرون ملک امن امان کا قیام ہے بلکہ یہ تو اصل اور بنیادی مقصد کے ذرائع ہیں ، جبکہ بنیادی مقصد یہ ہے کہ ساری کی ساری دنیا میں اللہ کا دین سربلند کیا جائے اور اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہم بحیثیت امت مضبوط تر ہوں فروعی کے اختلافات کو ختم کردیں اور حق کے راستے کی رکاوٹیں توڑدیں ۔یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ مسلمان کی حیثیت سے ہم اس لیے طاقتور ہونا چاہتے ہیں کہ اس طاقت کواللہ کے دین کے نفاذکے لیے استعمال کریں ۔مسلمان کے دل میں یہ با ت کبھی نہیں آنی چاہیے کہ وہ طاقت اس لیے جمع کرے گا تاکہ غلبہ، قوت، حکومت اور جبرکر کے اپنی بات دوسروں پر ٹھونسے۔
جو قومیں ذلت، پستی اور انحطاط میں گھری ہوں وہ کبھی اعلیٰ مقاصدحاصل نہیں کر سکتیں ۔ان مقاصد کو دوسروں تک منتقل کرناتو دور کی بات ہے۔ اگر خود قوم کمزوراور ذلیل ہو تو دوسرے ان کی بات کو قبول ہی کیسے کریں گے۔ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا لوہا منوائےں اور اپنی امت کو دوسروں کے سامنے اعلیٰ اور طاقتور ثابت کریں ۔اس لیے ہماری فوج کو جدید ترین اسلحہ سے لیس ہونا چاہیے۔ ہمارے تعلیمی اور تربیتی نظام میں اتنی طاقت ہونی چاہیے کہ نت نئی ایجادات کر سکیں ۔ہماری سیکوڑٹی فورسز اور پولیس میں اتنا رعب ہونا چاہیے کہ ساری دنیا کے ظالم اور دہشت گرد اس سے ڈرتے رہیں اوردنیا کے دیگر علاقوں کے حکمران اپنی اندرونی مشکلات اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے ہم سے مدد مانگیں ۔ہماری معاشی حالت اتنی مضبوط ہونی چاہیے کہ ہم ضرورت سے زیادہ اشیاءدوسرے ممالک کوبھیجیں ۔تب ہم عظیم مقصد کے حصول کے اہل ہوں گے اور زمین پر حکمرانی کی شرط پوری کر سکیں گے ۔ یہ حکمرانی جہاد کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتی۔
دنیا میں کسی بھی جگہ ظلم ہو رہا ہومسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ازالہ کی کوشش کرے۔کیونکہ مومن ہی دنیا میں توازن واعتدال قائم کر سکتا ہے۔اس لیے وہ اپنے قریب ترین علاقے سے جہاں وہ رہتا ہے جہاد شروع کرتا ہے اور پھر بتدریج اس دائرہ کو وسیع کرتا چلا جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ ساری دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اپنے حوصلے بلند رکھے ،بہترین وسائل سے فائدہ اٹھائے اور عمدہ منصوبہ بندی کرے۔
مومن تو مخلوق پر رحیم و کریم ہوتا ہے اسی لیے کسی پر ظلم ہوتا دیکھ کروہ بے چین ہو جاتا ہے اور اسے ظلم سے چھٹکارا دلانے کے لیے کوشش شروع کر دیتا ہے۔ اس کی خاطر ہر قسم کی مصیبتیں اور مشقتیں برداشت کرتا ہے۔مومن بڑا بردبار ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ظلم کے بزور خاتمہ کے لیے دہشت گردی اور بدامنی کے خلاف وہ ایک خوفناک شیر کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس کے خاتمہ کے لیے ضرورت پڑنے پر جان تک دے دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ مومن کی اس صفت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
”اَعِزَّةٍ عَلَی الکٰفِرِینَ ۔ “ (المائدہ:۵۴)
”کافروں کے لیے انتہائی سخت ہیں ۔“
جب ضرورت پڑتی ہے تو مومن اپنی عزت و شرف کی حفاظت کے لئے مادی جہاد بھی کرتا ہے۔ملک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے خود بھی کھڑا ہوتا ہے،اپنے اہل خانہ کو بھی اور تمام گھر والوں ، بچوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں سمیت ملک اور وطن کو ہر قسم کے فتنوں اور یورشوں سے پاک کرنے کے لیے میدان میں کود پڑتا ہے۔
مومن اپنی ایمانی فراست کی وجہ سے خوب جانتا ہے کہ اگر آج ایسی دہشت گردی کو پھیلنے کا موقع دے دیا گیا جو انسانیت کی قیمت نہیں جانتی تو کل یہ ایک زہریلے سانپ کی طرح سارے جہاں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔اس طرح زوال وانحطاط اور ظلم کا ایسا دروازہ کھل جائے گا جس کا بند ہونا ممکن نہیں رہے گااور دہشت گرد مطالبات پر مطالبات منوانا شروع کردیں گے۔
اگر کسی دہشت گرد یا ظالم کا ایک مطالبہ قبول کر لیا گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خاموش ہو جائے گابلکہ مطالبات کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ وہ کئی چیزوں سے دست بردار ہونے پر مجبور کریں گے۔دہشت گرد ہمیں آئے روز مجبور کر سکتے ہیں کہ ہر چیز چھوڑدو۔یہ کام چھوڑ دو،یہ فیصلہ منسوخ کر دواور ہم دستبردار ہوتے رہے تو ایک روز ایسا بھی آسکتا ہے کہ وہ مطالبہ کر دیں کہ اپنی عزت و غیرت سے بھی دستبردار ہو جائیے ،اپنے وطن سے دستبردار ہو جائےے،اپنے مقدس مقامات سے دستبردار ہو جائے۔پھر یہ بات چیت تکلیف دہ ہو گی۔اس منظر نامے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلی سطح پر ہی دہشت گردوں کی بات نہ مانی جائے۔مومن کو چاہیے کہ انتہائی عرق ریزی سے گہری سوچ وفکر سے آغاز ہی میں فیصلہ کر لے کہ دہشت گردوں کا کوئی مطالبہ نہیں ماننااور اس فیصلہ پر مکمل طور پر ڈٹ جائے۔
اگر دہشت پسند ہڑتال کا اعلان کر دیں اور زبردستی دوکانیں بند کرائیں تو مومن کو چاہیے کہ اپنی دکان کھول دے۔اگرچہ دکان بند کرنے ہی میں بچنے کی ضمانت ہے لیکن اگر وہ دکان کھولے گا تو گویا اس نے بڑا جہاد کیااور ظلم کا ساتھ نہ دیا۔بلکہ ظالم کے منہ پر تھوکااور اگر وہ زبر دستی دوکان بند کرائیں اور دکاندار مزاحمت کرے تو گویا اس نے شہادت کا دروازہ اپنے لیے کھول لیا۔اگر اس طرح مارا بھی جائے گاتو شہید ہوگا۔رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا:
”مَن قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَھُوَ شَھِید “
”جو شخص اپنے ما ل کے دفاع میں مارا گیا وہ بھی شہید ہے۔“
اگر دہشت گرد تمہارے گھر کے دروازے پرکچھ مانگنے آئیں تو چاہے وہ انتہائی حقیر چیز ہی مانگیں انہیں مت دو۔اگر آج تم نے انہیں کچھ دے دیا تو آپ نے خود دروازہ کھو ل دیااور کل پھر وہ تمہا رے دروازے پر آئیں گے اوریہ آمد ورفت ختم نہ ہو گی یہاں تک کے تم سے سب کچھ لے جائیں گے۔پھر تم اس قدر تنگ ہو گے اور سوچو گے کاش پہلی بار ہی میں ان دہشت پسندوں کو کچھ نہ دیتااور تم چاہو گے کہ اس زندگی سے مر جاناہی بہتر ہے۔اس ذلت و مسکنت سے نکلنے کا واحد رستہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ذلت سے بچاﺅاوراپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ذلیل نہ کرو۔بلکہ ایسی زندگی پر ایسی موت کو ترجیح دوجو شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز کرے۔ دنیا کی اس چند روزہ زندگی سے شہادت تمہیں نکال کر آخرت کی ہمیشہ رہنے والی سعادت مندی کی زندگی عطا کرے گی۔
آج جو بھی انارکی ،لاقانونیت،طوائف الملوکی اور دہشت گردی ہمارے ملک میں ہے یہ دراصل باہر سے دشمن کی پھیلائی ہوئی ہے۔سامراجی قوتیں چاہتی ہیں کہ اس جنت نظیر ملک کو جہنم بنا دیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔لاقانونیت اور دہشت پسند اختلافات اور بد امنی کے بیج بو کر ملک کو نو آبادی میں تبدیل کردیا جائے لیکن یہ تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں البتہ بیرونی طاقتیں یہی چاہتی ہیں ۔ وہ تو چاہتی ہیں کہ اس ملک پر قبضہ کیا جائے۔نو آبادی بنا کر اس کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جائے اور جو دہشت پسند بد نظمی پھیلا رہے ہیں ، یہ سب انہیں سامراجی قوتوں کے ایجنٹ ہیں (یہاں دہشت گرد سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جنہیں امریکہ ، مغربی طاقتیں اور مغربی میڈیا دہشت گرد کہتا ہے۔)
اللہ کے حکم سے یہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔اور ان کی بری چال خود ان کو لے ڈوبے گی۔
یا درکھنا چاہیے کہ دہشت گردوں اور بد نظمی پھیلانے والوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی صورت میں ہم اپنے ہدف سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں ۔
سامراجی قوتیں بھی تو یہی چاہتی ہیں ۔انہیں خطرہ ہے کہ ایسے دن نہ آجائیں کہ جب مسلمانوں کی قوت و شوکت ایک بار پھر لوٹ آئے۔جب ایسا ہو گا تو دہشت گرد ایسے بھاگیں گے جیسے جنگلی گدھے شیروں سے بھاگتے ہیں جیساکہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔ (سورة المدثر:۵۰۔۵۱)
ایک اور بات انتہائی ضروری ہے کہ مسلمان کو اگر جہاد کرنے یا بدامنی کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہو تو ملکی فوج کے ساتھ مل کر یہ کام کرے۔کسی بھی ظلم اور بیرونی یا اندرونی یورش کا خاتمہ کرنے کے لیے اسے ملکی سکیورٹی فورسزکے ساتھ مل کر کوشش کرنا چاہیے۔یہ اس پر واجب ہے ۔اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ اس کو بھرتی کرے اور اس سے کا م لے۔یہ کام حکومت کے کام میں اس کی مدد شمار ہو گا۔اگر کوئی حکومتی سطح سے ہٹ کر ازخود یہ کام کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گاکہ اس نے ایک انارکی کو مٹانے کے لیے دوسری انارکی پیدا کر لی۔مومنین کو ایسی نازک صورت حال کا ادراک کرنا چاہیے۔دہشت پسندی اور لاقانونیت کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس کوجڑوں سے ختم کرنا ہے۔
بعض اوقات خود حکومتیں اور ملک بدامنی اور دہشت گردی کا سبب بنتے ہیں اور دیگر ممالک میں انارکی پھیلاتے ہیں ۔جیسے امریکہ،روس اور چین بیرونی دنیا کے ساتھ کر رہے ہیں ۔اس طرح کے حالات میں مومن کو چاہیے کہ حتی المقدور کوشش کرے اور ہر قسم کی ممکنہ طاقت جمع کر ے اور اس بیرونی دہشت گردی اور شدت پسندی کا مقابلہ کرے ۔جب ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اب ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں جاچکا ہے۔اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو امت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ جہاد کے لیے اٹھ کھڑا ہو اور بہادری و شجاعت کی بے مثال داستانیں رقم کرے ۔اللہ کرے ہمارے شہر، ہمارے ملک اور ہمارے گھر اس قسم کی آفات سے محفوظ رہیں ۔اگر اس قسم کے حالات پیدا ہو جائیں تو پھر اس ماحول سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ڈھونڈنا چاہیے بلکہ استعمار کو باہر نکالنے کے لیے ذلت کی زندگی کی بجائے عزت کی موت کو ترجیح دینی چاہیے۔موت سے ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔تاکہ بیرونی طاقتوں اور دہشت گرد ممالک کو پتہ چل جائے کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو زیر کرنا آسان نہیں ہے۔جہاد سے فرار اور اپنے وطن کو دشمنوں کے ہاتھوں میں دے کر بھاگ جاناانتہائی ذلت و اہانت اور گھٹیا فعل ہے۔مومن تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔مومن ذلت و پستی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتا ہے۔قرآن کریم مومنوں کو عزت و تکریم کا راستہ دکھاتا ہے اور اگر کمزوری و مسکنت اس قدربڑھ جائے کہ ظلم وستم برداشت سے باہر ہو جائے اور مقابلہ کی سکت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ خود دعا سکھاتا ہے۔فرمایا۔
وَ مَا لَکُم لَا تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ وَ المُستَضعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الوِلدَانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَآ اَخرِجنَا مِن ھٰذِہِ القَریَةِ الظَّالِمِ اَھلُھَاوَ اجعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیًّا وَّ اجعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیرًا ۔(النساء:۵۷)
”آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں ،عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑوجو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں ،اور اپنی طرف سے ہماراکوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔“
اس دعا میں سکھایا گیا ہے کہ اگر کسی ملک میں مسلمانوں کی حالت اس قدر نا گفتہ بہ ہو جائے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو تووہاں سے نکل جانے کی دعا بھی کرنی چاہیے اور ہجرت بھی کر لینی چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وطن سے ہی دستبرداری کر لی جائے بلکہ وطن پھر بھی مسلمانوں کا ہے۔گھر مسلمانوں کے ہیں مال و اسباب مسلمانوں کا ہے دشمنوں کا نہیں ۔ سب کچھ کے باوجود اس لیے ضروری ہے کہ ذلت و پستی کی زندگی گزارنا مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔حالات ایسے ہیں کہ کم تر انسانی حقوق سے بھی مسلمان محروم ہیں ۔ان کے تمام مال وا سباب اور تجارت پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ان کے مقدس مقامات اور آزادی تک چھین لی گئی ہے۔اِن حالات سے مسلمانوں کونکالنا از حد ضروری ہے ۔
اگر ایسا تکلیف دہ ماحول پیدا ہو جائے تو قرآن کریم ہمیں یہ سبق دیتاہے”
وَ مَا لَکُم لَا تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ
”تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں لڑتے نہیں ۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ مومنین کو کس قدر جھنجھوڑکر مخاطب کر رہاہے کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ۔ اس قدر جذباتی اور سخت انداز ہے کہ مومن کے لئے فوری اٹھ کھڑے ہونے کے سوا چارہ نہیں ۔
ہم نے حق کی قدر کرنے کا حق ادا نہیں کیا۔ہم نے قرآن کا کماحقہ جواب نہیں دیا۔ہم نے ساری دنیا میں پرچم الٰہی کو لہرانے کے لیے اپنی صلاحیتیں استعمال نہیں کیں ۔اس لیے ہمارے رشتے کاٹ دیے گئے۔ ہم تتر بتر ہو گئے۔اور ہمارے حالات دگر گوں ہو گئے۔ہمارے دشمن بھوکے کتوں کی طرح ہمارے اوپر جھپٹ رہے ہیں اور ہم ان سے بچتے پھر رہے ہیں اور وہ ایک ایک کر کے ہمیں نوچ رہے ہیں ۔
میں بڑے افسوس سے کہتاہوں کہ پورے عالم اسلام کا یہی حال ہے۔گویا مسئلے کا کوئی حل ہی نہیں ہے۔ہمیں اکیلا کر دیا گیا ہے۔ہمارے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں ۔ہر گز نہیں ، ہر گز نہیں ۔اگر مومن کو آگے پیچھے، دائیں بائیں سے ظلمت نے گھیر لیا ہے تو اسے چاہیے کے اپنے نور کو تلاش کرے اورچاروں طرف اس نور کو پھیلا دے اور اللہ اور اس کے رسول سے تعلق مضبوط کرے اور تمام عالم کو روشن کر دے اور اپنے مخصوص علاقے کو بھی نور مومن سے منور کر دے۔
مومن کے لیے بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنی وہ کوشش اور جدوجہد کرتا ہے۔جس قدر پسینہ بہائے گااور برآمد ہونے والی یورش و شورش ہویا ان تمام اسباب کی بنا پر مسلمانوں پر آزمائش اور مصیبت آگئی ہو،ہر قسم کی بیماری کا علاج صرف اور صرف مادی و معنوی جہاد ہی میں مضمر ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاد ہماری داخلی وخارجی سلامتی کا ضامن ہے۔جہاں جہاد نہیں وہاں امن و سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں ۔
- Created on .