ہر آن جہاد کے لیے تیار رہنا
مومنین کو ہر حال میں پیش آمدہ چیلنجوں کے مقابلہ کے لیے مکمل طور پر تیار رہنا ہو گا۔اپنی صحت اور جوانی کو اس راستہ کے لیے بچاکر رکھنا ہو گا۔اس عظیم مقصد کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کرنا ہوگا۔تاکہ نئے نئے حالات کامقابلہ کرتے ہوئے کسی قسم کی پریشانی کاسامنا نہ کرنا پڑے۔
قرآن کریم ہمیں اس بات کی ترغیب دے رہا ہے۔فرمایا:۔
وَ اَعِدُّوا لَھُم مَّا استَطَعتُم مِّن قُوَّةٍ وَّ مِن رِّبَاطِ الخَیلِ تُرھِبُونَ بِہ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُم وَ اٰخَرِینَ مِن دُونِھِم لَا تَعلَمُونَھُم اَللّٰہُ یَعلَمُھُم وَ مَا تُنفِقُوا مِن شَیئٍ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیکُم وَ اَنتُم لَا تُظلَمُون۔(الانفال:۶۰)
”اور تم لوگ جہاں تک تمہارابس چلے ،زیادہ سے زیادہ تیاربندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو، تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کواور ان دوسرے اعداءکوخوف زدہ کردو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پوراپورابدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گااور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہو گا۔“
نبی کریم(صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا:
”مَنِ احتَبَسَ فَرَساً فِی سَبِیلِ اللّٰہِ اِیمَاناً بِاللّٰہِ وَتَصدِیقاً بِوَعدِہِ فَاِنَّ شبِعَہُ وَرِیَّہُ وَرَوثَہُ وَبَولَہُ فِی مِیزَانِہِ یَومَ القِیَامَہِ“
”جس نے اللہ کے راستے میں اللہ پر ایمان لاتے ہوئے اس کے وعدے کی تصدیق کرتے ہوئے گھوڑا پالا تو اس کا چارہ، اس کا پانی، اس کی لید اور اس کاپیشاب بھی قیامت کے روز اس کے نامہ اعمال میں لکھاجائے گا۔“
کس قدر دلچسپ انداز میں اس حدیث شریف میں جہاد کی تیاری کی ترغیب دی گئی ہے۔ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نبی اکرم(صلى الله عليه و سلم) سے گھوڑوں کے بارے میں پوچھا تو آپ(صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا:
”اَلخَیلُ لِثَلاَثَةٍ : لِرَجُّلٍ اَجر، وَلِرَجُلٍ ستر ، وَعَلَی رَجُلٍ وِزر، فَامَّا الَّذِ¸ لَہُ اَجر فَرَجُل رَبَطَھَافِی سَبِیل اللّٰہِ، فَاطَالَ فِی مَرجٍ اورَوضَةٍ ، فَمَا اَصَابَت فِی طِیَلِھَا ذلِکَ مِنَ المَرجِ اوِ الرَّوضۃ کَانَت لَہُ حَسَنَات، وَلَواَنَّھَا قَطَعَت طِیَلَھَا، فَاستَنَّت شَرَفًا اَو شَرَفَینِ ، کَانَت اَروَاثُھَا وَآثَارُھَا حَسَنَاتٍ لَہُ ، وَلَو اَنَّھَامَرَّت بِنَھرٍ فَشَرِبَت مَنہُ وَلَم یُرِدان یَسقِیَھَا کَانَ ذَلِکَ حَسَنَاتٍ لَہُ ۔ وَرَجُل رَبَطَھَا فَخراً وَرِیَاً وَنِوَائً لَاَھلِ الاِسلاَمِ فَھِ¸ وِزر عَلَی ذلِکَ۔“
”گھوڑے تین قسم کے لوگو ں کے پاس ہوتے ہیں ۔ایک آدمی کے لئے یہ باعث اجر ہیں ،ایک کے لئے روزی کا ذریعہ،اور ایک کے لئے بوجھ اور مصیبت۔چنانچہ جس کے لئے باعث اجر ہے وہ شخص ہے جس نے گھوڑے کو اللہ کے لئے پالا۔وہ اس کے کھیتوں ،سبزہ زاروں اور باغوں میں رہا۔اس کے رہنے اور کھیت میں باندھنے کے علاقے میں وہ جتنے چکر کاٹتا رہا۔اس کے چرنے اور پھرنے اور اس کے گوبر اور لید کے بدلے اس کے لیے نیکیاں ہیں ۔اگرچہ اس گھوڑے نے پانی کی نہر سے گزرتے ہوئے خود ہی پانی پی لیا حالانکہ مالک نے اسے پانی پلانے کا ارادہ نہ کیا تھاپھر بھی اس کے لئے اجر ہے۔رہا وہ شخص جس کے لئے گھوڑا رکھنا بوجھ اور مصیبت ہے یہ وہ شخص ہے جس نے تکبر،فخر،دکھلاوے اور اہلِ اسلام کے ساتھ دشمنی کے لیے گھوڑا رکھا تو یہ گھوڑ ا اس کے لئے مصیبت ہے۔“
اس حدیث شریف میں گھوڑے کا ذکر ہو اہے کیونکہ اس زمانے میں گھوڑا ہی نقل و حرکت کا تیز ترین اور جنگ میں استعمال ہونے کابہترذریعہ تھا۔آج کے زمانے میں اسی پر قیاس کرتے ہوئے یہی بات گاڑیوں ،ٹینکوں اور جہازوں کے لئے کہی جاسکتی ہے۔یعنی ایک گاڑی ایسی ہے جو انسان کی آخرت کے لیے مصیبت ہے۔یعنی جسے وہ گناہوں اور فضولیات کے لئے استعمال کرتا ہے۔اور ایک گاڑی وہ ہے جو انسان نے اپنے استعمال کے لیے رکھی ہے۔یا اس سے روزی کماتا ہے اور اس میں سے اللہ کاحق ادا کرتا ہے۔اور ایک گاڑی وہ ہے جسے فی سبیل اللہ وقف کر دیا گیا ہے۔اس گاڑی پر گاڑی والا علماءاور واعظین کوایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا ہے۔وہاں دین کی تبلیغ و دعوت ہوتی ہے۔ایسی گاڑی میں ڈلنے والے ایندھن کا ایک ایک قطرہ،ایک ایک پیسہ جو اس پر خرچ ہوتا ہے،اس سے نکلنے والا دھواں اس سے نکلنے والی آوازیں ، اس کے ٹائروں سے لگنے والی مٹی اور گرد ہر چیز کے بدلے گاڑی والے کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔گویا یہ گاڑی چلتے ہوئے نیکیاں بنا رہی ہے۔اور نیکیوں کی فیکٹری کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس گا ڑی میں داخل ہونے والی ہر چیز، اس گاڑی سے نکلنے والی ہر چیز، اس گاڑی کے چلنے سے زمین پر پڑنے والے نشانات بھی ایک کام کر رہے ہیں یعنی نیکیاں پیدا کر رہے ہیں جومومن کے میزان میں جمع ہو رہی ہیں ۔
ہم ایسے گاڑی والے کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے احترام کرتے ہیں جس نے ایمان و قرآن کی خدمت کے لیے گاڑی وقف کی، دعوت حق کی ادئیگی کا بار اٹھایا۔وہ زبان حال سے کہتا ہے کہ میرا گاڑی خریدنے کا مقصد ہی دین حق کی اشاعت ہے۔یہ بات طے شدہ حقیقت ہے کہ یہ عظیم کام کا نقطہ آغاز ہے جو مستقبل میں اس گاڑی کے ذریعے سے انجام پذیر ہوں گے۔
- Created on .