جہاد۔شہادتِ حق
جہاد کی جہات میں سے ایک جہت فریضہ شہادت حق بھی ہے۔ جیسا کہ ہم عدالتی کارروائیوں میں سنتے ہیں کہ فلاں نے شہادت دی گواہی دی کسی چیز یاد دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے گواہی دی اور گواہی کی روشنی میں جج نے فیصلہ دے دیا۔اسی طرح مجاہد کفر والحاد کے مقدمہ میں پورے زور و شور سے با آواز بلند یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ موجود ہے۔ یہ آوازیں زمین و افلاک سنتے ہیں ۔یہی ان کی گواہی اور شہادت ہے۔قرآن کریم میں اس گواہی کو اس طرح پیش کیا گیا ہے:
” شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَ المَلٰٓئِکَةُ وَ اُولُواالعِلمِ قَآئِمًاِ بِالقِسطِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ العَزِیزُ الحَکِیمُ ۔“ (آل عمران ۔۱۸)
”اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔اور(یہی شہادت)فرشتوں اور سب اہل علم نے بھی دی ہے۔وہ انصاف پر قائم ہے۔اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی خدا نہیں ہے۔“
اس آےت مبارکہ میں پے درپے تین قسم کے گو اہو ں کاذکر ہے جو اپنے اندر بڑا گہرا مفہوم رکھتی ہیں ۔
۱۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ بذات خود اپنے وجود کی گواہی دے رہا ہے اور جو لوگ اس حقیقت کو اپنے شعور کی گہرائی کے ساتھ پا گئے ہیں وہی اس عظیم گواہی کو محسوس کر سکتے ہیں ۔قلم و قرطاس اس حقیقت کو ادا کرنے سے عاجز ہیں ۔
۲۔فرشتے بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ و احد و لاشریک ہے۔ فرشتے نورانی مخلوق ہیں ۔انکی فطرت ہی پاک صاف ہے۔ ہر قسم کے شائبہ سے پاک ہیں ۔ شیطان اس مخلوق میں تصرف نہیں کر سکتا اور ان کی نورانی فطرت نا قابل تغیر ہے وہ شیشے کی طرح شفاف و چمکدار ہیں اس قدر صاف کہ ان کے اند ر تجلیات ربانی نظر آتی ہیں اور محسوس ہوتی ہیں ۔
۳۔اہل علم بھی اللہ تعالیٰ کی موجود گی پر گواہ ہیں اور یہ تین قسم کی گواہیاں اللہ کے وجود کے اثبات کے لیے کافی ہیں اگرچہ ان کے علاوہ ساری دنیا ہی وجود باری تعالی ٰکا انکار کر دے۔
اگر ہم اس حقیقت کو اس کی عظمت اور جلال کے ساتھ محسوس کر لیں تو ہمیں اس پر کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں رہے گی۔یہی دلیل ہمارے لیے کافی وشافی ہے اسی طرح عالم بالا کے رہنے والوں کے لیے بھی دلیل ہے۔اور جو لوگ اندھے ہیں بہرے ہیں اس کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ کی نشا نیوں پر غور نہیں کرتے،ان نشانیوں کی صدا نہیں سنتے۔اللہ تعالیٰ کی عظیم حکمتوں سے معمور نشانیوں کے دیکھنے سے عاجز ہیں ،جو چہار دانگ عالم میں پھیلی ہیں تو ان کے لیے اہل علم کی گواہی کافی ہے۔
مجاہدین تو اللہ کے گواہ ہوتے ہیں اپنی بلند اور مترنم آواز میں منکرین کے سامنے یہ نعرہ بلند کرتے ہیں ہم اللہ کے گواہ ہیں ۔اللہ موجود ہے۔
یقینا تمام انبیاءو رسل بطر یق احسن اسی فریضہ شہادت حق کی ادائیگی کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے ۔خود قرآن کریم اس حقیقت کو واضح کر رہا ہے۔ارشاد ربانی ہے!
” رُسُلًا مُّبَشِّرِینَ وَ مُنذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّة بَعدَ الرُّسُلِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیزًا حَکِیمًا o لٰکِنِ اللّٰہُ یَشھَدُ بِمَآ اَنزَلَ اِلَیکَ اَنزَلَہ بِعِلمِہ وَ المَلٰٓئِکَةُ یَشھَدُونَ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیدًاo “ (النساء:ٍ۱۶۵۔۱۶۶)
”یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہر حال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے ۔ مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ اے نبی جو کچھ اس نے تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیاہے اور اس پر ملائکہ بھی گواہ ہیں ، اگرچہ اللہ کا گواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے ۔“
اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں نبی مبعوث کیے جو اپنی قوموں کو حق کا راستہ دکھاتے رہے اور ان کو اندھیروں سے اجالے میں لاتے رہے جبکہ سیدنا نبی آخر الزمان سرور دو عالم کو اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے لیے نبی بنا کر بھیجا جو بلا قید زمان و مکان دنیا کو حق کا راستہ دکھانے کے لیے تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
” یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرسَلٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیرًا“ (الاحزاب ۴۵)
”اے نبی ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہ بناکر ،بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔“
اس آےت میں یا ایھا النبی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔اور عربی زبان میں کسی عام لفظ کے ساتھ الف لام لگانے سے معرفہ بن جاتا ہے۔اور معرفہ سے مراد ایسا لفظ ہوتاہے جو عام نہیں ہے بلکہ معروف ہے۔اس لفظ سے ظاہر ہو تا ہے کہ آپ(صلى الله عليه و سلم) کی نبوت کو تمام مخلوقات جانتی ہے اس نبوت کا انکار ممکن نہیں آپ(صلى الله عليه و سلم) کی نبوت کا اقرار تو جمادات ،نباتات اور حیوانات بھی کرتے ہیں ۔(۲۳) تمام مخلوقات آپ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتی ہیں اس لیے آپ کی نبوت کا انکار ممکن نہیں اور پھر پتھر سے بھی سخت آدمی آپ کے آگے موم بن گئے۔یہ بات آپ کی نبوت کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔اسی آیت میں فرمایادہے ارسلناک۔یہاں ( ک )مخاطب کے لیے استعمال ہوا ہے۔اس سے نبی اکرم (صلى الله عليه و سلم)کا قرب خداوندی ظاہر ہوتا ہے۔اسکی رحمت کی طرف اس کا واضح اشارہ ہے۔اللہ اپنے نبی کو براہ راست مخاطب کر کے فرمارہا ہے کہ ہم نے تم کو بھیجا ہے۔ اس سے آگے لفظ ٬٬شاہد،،استعمال ہوا ہے ۔اس سے مرا د ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے کہہ رہا ہے کہ ہم نے آپ کو انسانیت کے لیے گواہ بنا کر بھیجا ہے تاکہ آپ انسانوں کو بتا دیں کہ میں موجودہوں ۔ ان کو میر ی پہچا ن بتائیں آپ میری طرف سے ان پر گواہ بن جائیں چاہے تمام عالم اس بات کو جھٹلا دے ، آپ میری موجودگی کا اعلان کر دیں نیزآپ شاہد اور گواہ ہیں پھر آپ کے بعد آنے والے آپ کے پیروکار بھی آپ کے طریق پر چلتے ہوئے فریضہ شہادت حق ادا کریں گے اور پوری انسانیت پر گواہ ہوں گے۔ان کی گواہی کی آپ تصدیق کریں گے ۔امت محمدی کی گواہی اور شہادت کی وجہ سے بعض سابقہ انبیاءکی گواہی کی ذمہ داری بھی یوم حشر کو ختم ہو جائے گی۔جیسا کہ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا روز قیامت نوح (علیہ سلام) کو بلایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ کیا آپ نے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا؟نوح (صلى الله عليه و سلم) کہیں گے ہاں ۔پھر ان کی قوم کو پکارا جائے گا کہ کیا اس نبی نے تم کو نبوت کا پیغام پہنچا دیا تھا؟تو وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کو ئی ڈرانے والا نہیں آیا۔فرماتے ہیں پھر نوح (علیہ سلام) سے کہا جائے گاکہ اپنے گواہ پیش کریں ۔وہ کہیں گے محمد اور اس کی امت۔اسی لیے تو فرمایا:
” وَ کَذٰ لِکَ جَعَلنٰکُم اُمَّةً وَّسَطًا ۔“(البقرہ:۱۴۳)
”اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنا یاہے۔“
فرمایا وسط کا مطلب ہے عدل پھر فرمایا لوگوں کو بلایا جائے گا اور وہ فریضہ نبوت کی ادائیگی کی گواہی دیں گے پھر میں تم پر گواہی دوں گا۔
- Created on .