غزوہ خندق(احزاب)
مدینہ سے تین میل جنوب میں آباد یہودی قبیلہ بنو نضیر بہ ظاہر تومسلمانوں کا حلیف تھا، تاہم درپردہ اس نے مشرکین مکہ اور منافقین مدینہ سے روابط قائم کررکھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اصول میزبانی اورباہمی معاہدات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے حضور صلى الله عليه و سلم کی جان لینے کی مذموم کوشش کی ، جس کے بعد آپ صلى الله عليه و سلم نے اہل یہود کویہاں سے نکل جانے کا حکم صادر کردیا۔بنو نضیر نے سفر کی تیاریاں شروع کردیں ، لیکن ئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے کہلا بھیجا کہ جنگ کی صورت میں میرے ساتھی تمھاری مدد کو آپہنچیں گے ، لہذا بنو نضیر نے کوچ کا ارادہ ترک کردیا۔
پھر جب مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کرلیا تونہ مشرکین نے ان کی مددکی اورنہ ہی منافقین نے۔اس کے بعد تو ان کے پاس جلا وطنی کے علاو ہ کوئی چارہ تھاہی نہیں اگرچہ انھیں جان ومال کے زیاں کا ااندیشہ تھا، تاہم حضور صلى الله عليه و سلم نے انھیں دس دن کی مہلت مرحمت فرمائی ،تاکہ وہ ہتھیاروں کے علاوہ ،اپنے خاندانوں سمیت جو کچھ لے جاسکتے ہوں ، لے جائیں ۔لہذا ان میں اکثر شام میں مقیم اپنے بھائی بندوں سے جاملے اور کچھ خیبر کی طرف چل دیے۔
احدسےلوٹتے وقت ابوسفیان مسلمانوں کواگلے سال بدرکے میدان میں ٹاکرے کاپیغام دے گیاتھا۔۱ چوں کہ مقررہ وقت پر وہ کسی نئے تصادم کی ہمت نہ پاتاتھا،لہذا خفت مٹانے کے لیے اس نے نعیم بن مسعود کو، جوابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے یہ افواہ پھیلانے کی غرض سے مدینہ روانہ کردیا کہ قریش زبردست جنگی تیاریوں میں مصروف ہیں اورانھوں نے اس قدر بڑی فوج جمع کرلی ہے کہ پورے عرب میں انھیں روکنے والا کوئی نہ ہوگا۔یہ خبر ملی تو آپ صلى الله عليه و سلم پندرہ سو جاں نثاروں کے ساتھ بدرکے میدان میں پہنچے ، لیکن ان کے مقابلے کے لیے وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ آٹھ دس دن کے انتظام کے باوجود قریش کا لشکر نہ پہنچا توآپ صلى الله عليه و سلم لوٹ آئے ۔ اس غزوہ کو بدر دوم یا بدر صغری کہا جاتاہے ۔
پانچ ہجری میں نبی کریمصلى الله عليه و سلم کواطلا ع ملی کہ [بنی غطفان کے دوصحرائی قبیلے ] بنو انمار [بنو محارب] اور بنو ثعلبہ مدینہ پر چڑھائی کاارادہ کررہے ہیں ۔ آپ صلى الله عليه و سلم چار سو جنگ جوؤں کے ساتھ [نجد میں ]ذات الرقاع کے مقام پر پہنچ گئے ۔ ان قبائل کو معلوم ہوا تو وہ راہ فرار اختیار کر گئے ، جس کے بعد آپ صلى الله عليه و سلم اپنے ساتھیوں سمیت واپس آگئے ۔ ۲
ایک مشر ک قبیلے بنو مصطلق کی طرف سے مسلمانوں پر حملے کی تیاریوں کی اطلاعات موصول ہونے پر آپ صلى الله عليه و سلم سات سو مجاہدین کے ساتھ [مدینہ سے سومیل دور جنوب مغرب کی طرف چشمہ مر یسیع کے مقام پر ]حملہ آور ہوئے اوربنو مصطلق کو شکست فاش سے دوچار کردیا۔ ۳
جب مسلمان مدینہ پہنچے تو اللہ تعالی نے منافقین کی طرف سے مہاجرین وانصارکے مابین پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو بے نقاب کردیا ۔سورۃ منفقون کی آیات میں ان کے تمام راز افشا کردیےگئے اوربتلا دیا گیا کہ منافقین کاباطن کس قدر کریہہ ہے ۔ (منفقون ۶۳ : ۱ تا ۱۱)
(اے محمد !) جب منافق لوگ تمھارے پاس آتے ہیں تو (از راہ نفاق) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بے شک اللہ کے پیغمبرہیں ۔اور اللہ جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے پیغمبر ہو، لیکن اللہ ظاہر کیے دیتاہے کہ منافق (دل سے اعتقاد نہ رکھنے کے لحاظ سے )جھوٹے ہیں ۔ انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنارکھا ہے اور اُن کے ذریعے سے (لوگو ں کو )راہ خدا سے روک رہے ہیں ۔کچھ شک نہیں کہ جوکام یہ
کرتے ہیں ، برے ہیں ۔یہ اس لیے کہ یہ (پہلے تو) ایمان لائے ، پھر کافر ہوگئے تو ان کےدلوں پر مہر لگادی گئی ، سو اب یہ سمجھتے ہی نہیں ۔اور جب تم ان (کے تناسب اعضا) کو دیکھتے ہو توان کے جسم تمھیں (کیاہی )اچھے معلوم ہوتے ہیں ۔ اورجب وہ گفتگو کرتے ہیں تو تم ان کی تقریر کوتوجہ سےسنتے ہو، گویا لکڑیاں ہیں ،جو دیواروں سے لگائی گئی ہیں۔ (بزدل ایسے کہ )ہر زور کی آواز کوسمجھیں (کہ )ان پر (بلاآئی )۔ یہ (تمھارے)دشمن ہیں ، ان سے بے خوف نہ رہنا ۔اللہ ان کو ہلاک کرے ، یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ، رسول اللہ تمھارے لیے مغفرت مانگیں توسرہلادیتے ہیں او رتم ان کو دیکھو کہ تکبر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں ۔تم ان کے لیے مغفرت مانگو یا نہ مانگو، ان کے حق میں برابر ہے ۔اللہ ان کو ہرگز نہ بخشے گا۔بے شک اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ۔یہی ہیں ؛جوکہتے ہیں کہ جولوگ رسول اللہ کے پاس (رہتے )ہیں ،ان پر(کچھ )خرچ نہ کرو،یہاں تک کہ یہ (خود بہ خود)بھاگ جائیں ، حالاں کہ آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں ، لیکن منافق نہیں سمجھتے ۔کہتے ہیں کہ اگر ہم لوٹ کرمدینے پہنچے تو عزت والے ذلیل لوگوں کووہاں سے نکال باہرکریں گے ، حالاں کہ عزت اللہ کی ہے اور اس کے رسول کی اورمومنوں کی ، لیکن منافق نہیں جانتے ۔
مومنو!تمھارامال اورولاد تم کو اللہ کی یادسے غافل نہ کردے اور جوایسا کرے گا تووہ خسارہ اٹھانے والے ہیں ۔اور جو(مال )ہم نے تم کودیاہے ،اس میں سے اس (وقت)سےپیش تر خرچ کرلوکہ تم میں سے کسی کی موت آجائے تو(اس وقت )کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار !تونے مجھے تھوڑی سی مہلت کیوں نہ دی ، تاکہ میں خیرات کرلیتا اورنیک لوگوں میں داخل ہوجاتا۔اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا۔اور جوکچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے خبردار ہے ۔
پس منظر
یہ غزوہ، بنو نضیر کے خلاف مہم کے بعد وقوع پذیر ہوا، جسے غداری کے باعث مدینہ سے نکال دیاگیاتھا اورجواپنے بھائی بندوں کے پاس خیبر میں جابسے تھے ۔
پانچ ہجری میں سلام بن ابی الحقیق اورحیی ابن اخطب سمیت یہودیوں کاایک گروہ [بنو نضیر اور]بنو وائل کے بہت سے افراد[کنانہ بن الربیع ،ہوذہ بن قیس،ابوعمار وغیرہ ]کے ساتھ مل کر مکہ روانہ ہوا۔اس نے قریش کو حضور صلى الله عليه و سلم کے خلاف خوب اکسایااورمکمل حمایت اورہر ممکن مددکی یقین دہانی کرائی ۔
یہاں سے یہ گروہ قبائل غطفان اورقیس ایلان کے پاس پہنچے اورانھیں بھی مسلمانوں سے جنگ کی صورت میں مکمل حمایت وامدا دکایقین دلایا۔ ۴
یہو دکی اس ساز باز کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑااتحاد معروض وجود میں آگیا۔ یہ اتحاد مشرکین مکہ ، وسطی عرب کےصحرائی قبائل ، مدینہ سے نکالے گئے فتنہ پر ور یہود ،مدینہ میں مقیم یہودی قبیلہ بنو قریظہ اورعبد اللہ ابن ابی کی قیادت میں منافقین مدینہ پر مشتمل تھا۔ آخر الذکردوگرہوں نے مدینہ میں سازشوں کاجال بچھایاہواتھا۔
جیسے ہی مخبرین کے ذریرے آپ صلى الله عليه و سلم کواطلاع ملی کہ دشمن ان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کررہاہے ، آپ صلى الله عليه و سلم نے حسب سابق صحابہ کی مجلس شوریٰ منعقدکی ،جس میں متفقہ طور پرمدینہ میں قلعہ بندہوکر مقابلہ کرنے کی تجویز منظور ہوئی ۔سلمان فارسی نے تجویز پیش کی کہ مدینہ کے گرد ایک خندق کھود دی جائے ۔ [ جو تسلیم کرلی گئی۔]
کھدائی کاکام چھ دن کی سخت مشقت کے بعد پایہ تکمیل کوپہنچا۔آپ صلى الله عليه و سلم نے دس دس آدمیوں پر مشتمل گروپوں کے مابین مقابلے کی فضا پیداکردی ۔ایک طرف مرحلہ کٹھن تھااو ردوسری جانب وقت محدود۔مستزادیہ کہ بھوک اورپیاس کی شدت
نے انھیں نڈھال کرکے رکھ دیا،تاہم صحابہ کرام پوری دل جمعی کے ساتھ مصروف کار رہے ۔بھوک کےاحساس کو کم کرنے کے لیے ہرایک نے پیٹ سے پتھر باندھا ہواتھا۔کھدائی کے ساتھ ساتھ وہ رجز یہ اشعار بھی گنگناتے جاتے تھے :
ہم وہ ہیں،جنھوں نے محمد صلى الله عليه و سلم نے اس با ت کی بیعت کی ہے کہ جب تک ہم زندہ رہیں گے ، جہاد کرتے رہیں گے ۔
اے اللہ !اگر توہمیں اس قابل نہ بناتا توہم ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتے تھے ، نہ ہم صدقہ دیتے اور نہ نماز پڑھتے ۔
اےاللہ!ہم پرتسکین عطافرما اوردشمن کے مقابلے میں ہمیں ثابت قدم رکھیو۔
انھوں نے ظلم کے ساتھ ہم پرچڑھاائی کی ہے ۔یہ لوگ ہمیں راہ حق سے بزور روک دیناچاہتے ہیں ،لیکن ہم ان کے آگے ہرگز سر نہیں جھکائیں گے ۔۵
حضور صلى الله عليه و سلم پیٹ پر دوپتھر باندھے ہوئےبہ ذات خود صحابہ کے ساتھ کھدانی کرنے میں مصروف تھے اور اپنے صحابہ کے رجز کاجواب دے رہے تھے :
اے اللہ!اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے ،لہذا مہاجرین وانصار کو بخش دے ۔ ۶
واقعات:
اتحادی لشکراس زعم میں مدینہ ی طرف رواں دواں تھا کہ کھلے میدان میں جنگ کرتے ہوئے مسلمانوں کو نیست ونابود کردیں گے،تاہم جب انھیں حضور صلى الله عليه و سلم کی نئی حکمت عملی کا سامنا کرنا پڑا تووہ بوکھلا گئے ۔بیس ہزار کالشکر خند ق کے نزدیک خیمہ زن ہوا۔ دوسری طرف اہل مدینہ کی افرادی قوت تین ہزار سے زیادہ نہ تھی، جب کہ یہو د کے قبیلے بنو قریظہ اور منافقین بھی پریشانی کاباعث بنے ہوئے تھے ، کیوں کہ درپردہ ان کی ہم دردیاں مشرکین کے ساتھ تھیں ۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہےکہ جیسے ہی منافقین کی دشمن پر نگاہ پڑی ، وہ ذہنی طور پر شکست کے لیے تیارہوگئے ۔ (احزاب ۳۳ : ۱ تا۲۰)
اورجب منافق ۱وروہ لوگ ،جن کے دلوں میں بیماری ہے ، کہنے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول نے تو ہم سے محض دھوکے کاوعدہ کیا تھا ۔ اورجب ان میں سے ایک جماعت کہتی تھی کہ اے اہل مدینہ !(یہاں )تمھارے (ٹھہرنے کا)مقام نہیں تولوٹ چلو اورایک گروہ ان میں سے پیغمبر سے اجازت مانگنے اورکہنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں ، حالاں کہ وہ کھلے نہیں تھے ۔وہ تو صرف بھاگنا چاہتے تھے ۔اور اگر فوجیں اطراف مدینہ سے ان پر آداخل ہوں ، پھر ان سے خانہ جنگی کے لیے کہاجائے تو (فورا) کرنے لگیں اوراس کے لیے بہت کم توقف کریں ۔حالاں کہ پہلے اللہ سے اقرار کرچکے تھے کہ پیٹھ نہیں پھیریں گے ۔ اور اللہ سے (جو )اقرار (کیاجاتاہے ،اس )کی ضرور پرسش ہوگی ۔کہہ دو کہ اگرتم مرنے یا مارے جانے سے بھاگتے ہو تو بھاگنا تم کو فائدہ نہیں دے گااوراس وقت تم بہت ہی کم فائدہ اٹھاؤ گے ۔کہہ دو کہ اگر اللہ تمھارے ساتھ برائی کاارادہ کرے تو کون تم کو اس سے بچا سکتاہے ،یااگر تم پر مہربانی کرنی چاہے (توکون اس کوہٹا سکتاہے )اور یہ لوگ اللہ کے سواکسی کونہ اپنا دوست پائیں گے اورنہ مددگار ۔اللہ تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتاہے ،جو (لوگوں کو ) منع کرتے ہیں اوراپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آ،اورلڑائی میں نہیں آتے ،مگرکم ۔(یہ اس لیے کہ)تمھارے بارے میں بخل کرتے ہیں ۔پھر جب ڈر (کاوقت )آئے توتم ان کو دیکھو وہ تمھاری طرف دیکھ رہے ہیں (اور)ان کی آنکھیں (اسی طرح )پھر رہی ہیں ،جیسے کسی کوموت سے غشی آ رہی ہو۔پھرجب خوف جاتا رہے توتیز زبانوں کے ساتھ تمھارے بارے میں زبان درازی کریں اورمال میں بخل کریں ۔ یہ لوگ (حقیقت میں )ایمان لائے ہی تھے تواللہ نے ان کے اعمال برباد کردیے ۔اوریہ اللہ کوآسان تھا۔(خوف کے سبب )خیال کرتے ہیں کہ فوجیں نہیں گئیں اوراگر لشکر آجائیں توتمنا کریں کہ (کاش )گنواروں میں جارہیں (اور )تمھاری خبر پوچھا کریں اور اگر تمھارے درمیان ہوں تو لڑائی نہ کریں ، مگر کم ۔
یہ ایسی صورت حال تھی کہ اگر دشمن شہر میں داخل ہوجاتاتویہ لوگ انھیں خوش آمدید کہتے ۔
غزوہ خندق کے دوران ایک بار پھر ان پر حضورصلى الله عليه و سلم کی فراست اورجنگی حکمت عملی کی دھاک بیٹھ گئی ۔حضور صلى الله عليه و سلم نے انھیں شہر کے اندر رہنے پرپابندکر دیا، تاکہ بنو قریظہ کے ممکنہ حملے کی صورت میں وہ اپنے گھر کی حفاظت کرسکیں ۔جنگ کا مشکل ترین لمحہ وہ تھا، جب بنو قریظہ نے مسلمان خواتین کی حفاظت کے لیے کیے گئے انتظامات کے بارے میں جاننے کی غرض سے ایک جاسوس بھیجا ،تاہم حضور صلى الله عليه و سلم کی پھوپھی صفیہ نے اسے قتل کردیا تووہ اس طرف سے بھی مایوس ہوگئے ۔ ۷
جنگ کے دوران تیروں اورپتھروں کاتبادلہ ہوتارہا، انھیں لمحات میں حضور صلى الله عليه و سلم نے جنگی چال کے طور پر دشمن کی صفوں میں ابتری پھیلانے اوران کے باہمی اتحاد کوپارہ پارہ کرنے کی غرض سے سرداران بنو غطفان سے رابطہ کیا، انھیں سلامتی کی پیش کش کی اورترغیب دی کہ وہ جنگ سے دست برادر ہوجائیں ۔ بنو غطفان کے ایک اہم سردار نعیم بن مسعود ،جوجنگ سے انتشار پھیلانے کی غرض سے مدینہ آچکے تھے ، مسلمان ہوگئے (رضی اللہ تعالی عنہ )۔ اگر دوران جنگ انھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، تاہم حضور صلى الله عليه و سلم نے بن وقریظہ میں پھوٹ ڈالنے کے لیے ان سے امرکو پوشیدہ رکھنے کی ہدایت کی ۔ نعیم بن مسعود نے بنو یظہ کو سمجھایاکہ تمھیں قریش کا ساتھ فورا چھوڑ دینا چاہیے اوراس وقت تک ان کی مددسے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے، جب تک وہ اپنے چند آدمی آپ کی تحویل میں نہ دے دیں ۔ دوسری طرف انھوں نے قریش سے کہا کہ بنو قریظہ تم سے کیے گئے عہد پر قائم نہیں رہے ، بلکہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ تمھارے کچھ آدمی پر غمال بنالیں، تاکہ اہل مدینہ سے شکست کی صورت میں تمھیں اپنی امداد پر مجبور کرسکیں ۔نعیم کی یہ چال کام یاب رہی ،جس کے بعد یہ اتحاد پارہ پارہ ہوگیا ۔ ۸
حضو رصلى الله عليه و سلم نے خندق میں ایک مقام پر تنگ سی پٹی چھوڑنے کی ہدایت کی تھی ، آپ صلى الله عليه و سلم کو یقین تھاکہ قریش کےشہ سوار خندق کو اسی پٹی سے پار کرنے کی کوشش کریں گے ، چناں چہ ایساہی ہوا ۔قریش کے چند معروف جنگ جوؤں نے خندق پار کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کو مبارزت کے لیے للکارا ۔قریش کے ان شہ سواروں میں عمروبن عبدودم عکرمہ بن ابوجہل ،ہیرہ ب ابی وہب ،ضرار بن خطاب اورنوفل بن عبد اللہ شامل تھے ۔
عددی برتری اورجنگی صلاحیت کے نشے میں سرشار عمروبن عبدود ،علی کے روبہ رو گھوڑے پرسے کود پڑا،جنھیں حضور صلى الله عليه و سلم نے اس کے مقابلے کاحکم دیاہواتھا۔ عمر و برق رفتاری سے لپکا اورتلوار کا وارکیا، جسے اگرچہ علی نے اپنے سر پر روک لیا، تاہم وہ سپرکو کاٹتے ہوئے آپ کی پیشانی پر زخم کا نشان چھوڑ گئی ۔اس کے جواب میں آپ دشمن کے پیچھے آندھی کی طرح لپکے ، حتی کہ غبارنے دونوں کوگھیرلیا۔پھر نعرہ تکبیر سناگیا اور علی نے دشمن کو وہیں ڈھیر کردیا ۔۹ ضرار،ہبیرہ اورنوگل بھی علی کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے ۔۱۰ قریش کے دیگر جنگ جوؤں اورجرنیلوں کی طرف سے خندق عبو رکرنے کی کوششیں بھی بری طرح ناکام بنادی گئی ۔
محاصرہ تقریبا ستائیس روز تک جاری رہا، جس دوران مسلمانوں کو بھوک اور سردی کی شدت، پتھروں اورتیروں کی بارش، خندق پارکرنے کی کوششوں اورشہر کی بے یقین صورت حال کاسامنا کرنا پڑا۔ اس واقعے سے متعلق قرآن مجید میں ارشادباری تعالی ہے: (احزاب ۳۳ : ۱ تا ۱۳)
جب وہ تمھارے اوپراورنیچے کی طرف سے تم پر (چڑھ)آئے اورجب آنکھیں پھر گئیں اوردل (مارے دہشت کے )گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے ، وہاں مومن آزمائے گئے اور سخت طو ر پر ہلائے گئے ۔اور جب منافق اوروہ لوگ، جن کے دلوں میں بیماری ہے ،کہنے لگے کہ اللہ اوراس کے رسول نے توہم سے محض دھوکے کا وعدہ کیاتھا۔اورجب ان میں سے ایک جماعت کہتی تھی کہ اہل مدینہ (یہاں )تمھارے (ٹھہرنے کا)مقام نہیں ٹو لوٹ چلواورایک گروہ ان میں سے پیغمبر سے اجازت مانگنے لگاکہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں ، حالاں کہ وہ کھلے نہیں تھے ، وہ تو صرف بھاگنا چاہتے تھے ۔
چارہفتوں کی سرتوڑ کوششوں کے بعد ، جس دوران دشمن اپنی ناکامی کودیکھتے ہوئے بہت مایوس ہوااورمسلمانوں نے ثابت قدمی اوروفاشعاری کاثبوت دیا،مشرکین پر خوف ناک برفانی آندھی کاعذاب نازل ہوا۔ قریش کے خیمے اکھڑ گئے م چولھے الٹ گئے ، ریت اور بارش نے ان کے چہرے بگاڑ دیے اوروہ اس بدشگونی سے نہایت بددل ہوگئے ،وہ پہلے ہی یہاں سے نکل گئے بھاگنے کو تیار ہوچکے تھے ۔حذیفہ یمنی کو حضور صلى الله عليه و سلم نے دشمن کی سرگرمیوں کیخر لانےکوبھیجا ،انھوںنےابوسفیان کو کہتے سنا۔ 'چلو،واپس چلتے ہیں ۔' ۱۱ یوں مسلمان اللہ کی نصرت سے فیض یاب ہوکر فتح وکامرانی سے سرفراز ہوگئے : (احزاب ۳۳ : ۹)
مومنو!اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو، جو (اس نے )تم پر (اس وقت )کی ،جب فوجیں تم پر (حملہ کرنے کو)آئیں تو ہم نے ان پرہوابھیجی اورایسے لشکر (نازل کیے ) جن کوتم دیکھ نہیں سکتے تھے ۔اورجوکام تم کرتے ہو، اللہ ان کو دیکھ رہاہے۔
کھدائی کے دوران صحابہ سے ایک چٹان کاٹے نہیں کٹتی تھی ، لہذا یہ معاملہ حضور صلى الله عليه و سلم کی خدمت میں پیش کیاگیا۔آپ صلى الله عليه و سلم نےکدال ہاتھ میں لی ، ایک ضرب لگائی اور چٹان کو توڑ کےرکھ دی۔ ضرب لگنےسے ایک چمک پیداہوئی تو آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا۔ 'مجھے ملک شام کی کنجیاں دے دی گئیں ہیں ۔میرے صحابہ اسے فتح کرلیں گے ۔' آپصلى الله عليه و سلم نے دوسری ضرب لگائی تو دوبارہ روشنی نمودار ہوئی ، آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا۔ ' مجھے ملک روم کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں ۔میرے صحابہ اسے فتح کرلیں گے ۔' ۱۲
جنگ خند ق قریش کی طرف سے اسلام اورمسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی آخری کوشش تھی ۔قریش کی جانب سے جنگ سے دست برداری،ہزیمت اور ذلت ورسوائی کے پیش نظر حضور صلى الله عليه و سلم نے اعلان کیاکہ آج کے بعد ہم پیش قدمی کریں گے ۔اب ہمارا دشمن ہم پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرسکے گا۔ ۱۳
حضور صلى الله عليه و سلم غزوہ خندق سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ جبریل علیہ السلام تشریف لائے اورعرض کیا۔ '[کیا آپ صلى الله عليه و سلم نے ہتھیارا رکھ دیے ،حالاں کہ]میں نے ابھی اپنےہتھیا رنہیں اتارے اورمیں بنو قریظہ ہکیطرف جا رہاہوں ۔' ۱۴
لہذا حضور صلى الله عليه و سلم بنوقریظہ کی طرف متوجہ ہوئے ۔انھوں نے حضور صلى الله عليه و سلم سے کیے گئے وعدوں سے انحراف کیااور مسلمانوں کے خلاف قریش سے مل گئے ۔انھوں نے بنو نضیر کے کئی سرداروں کو پناہ بھی دی ، مثلاحیی ابن اخطب ، جسے مدینہ بدر کردی اگیا تھااورمسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہاتھا۔
حضور صلى الله عليه و سلم نے صحابہ کرام کو بنو قریظہ کی طرف چلنے کاحکم دیااوران کے قلعوں کے سامنے خیمے لگا دیے ۔اگر بنو قریظہ آپ صلى الله عليه و سلم سے معافی اوردرگز ر کا خواست گار ہوتا تو ّپ صلى الله عليه و سلم انھیں معاف فرمادیتے ، لیکن انھوں نے مزاحمت کو ترجیح دی ۔رسول اکرم صلى الله عليه و سلم نے پچیس روز تک ان کامحاصرہ کیے رکھا۔بالآخر انھوں نے حضور صلى الله عليه و سلم کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اورمعاہدہ طے پایا کہ وہ سعد بن معاذ کے فیصلے کو قبول کرلیں گے ،جنھوں نے توراہ کی روسے ان کے قتل کافیصلہ سنایا۔اس طرح بنو قریظہ کی سازشوں اورمدینہ میں یہود کی موجودگی کاخاتمہ ہوگیا۔ ۱۵
سعد بن معاذ انصا رکے سرداروں میں سے تھے ۔غزوہ خندق میں وہ شدیدزخمی ہوگئے تھے اوردعا کیاکرتے تھے ۔ 'اے اللہ!اگر میں حضور صلى الله عليه و سلم کی معیت میں دوبارہ جہاد کے قابل ہوں تومجھے زندگی عطا فرما،بہ صورت دیگر میں موت کے لیے تیار ہوں۔' چناں چہ یہود کی سازشوں کے خاتمہ کے بعد جلدہی ان کا انتقال ہوگیا۔ ۱۶
صلح حدیبیہ چھے ہجری کااہم ترین واقعہ ہے ، جسے قرآن نے 'فتح مبین ' کانام دیا ہے ۔ مختصر عرصے کے دوران فتح مکہ اور فروغ اسلام کو سمجھنے میں اس صلح کی بہت اہمیت ہے اوراسی سے حضور صلى الله عليه و سلم کی فقید المثال جنگی مہارت، قائدانہ صلاحیت اورسیاسی تدبر کا ثبوت ملتاہے۔اس سلسلے میں آخری باب میں بحث کی جائے گی ۔
- Created on .