اذن جہاد
ہجرت کے بعد دوسال کے اندر آپ صلى الله عليه و سلم نے کم وبیش بیس دستے روانہ کیے ۔ ان مہمات کا مقصد تجارتی راستوں پر غلبہ حاصل کرنااور مشرکین مکہ کے احساس برتری کو کچل دیناتھا۔مزید فائدہ یہ ہوا کہ عرب قبائل اسلام کی قوت کو تسلیم کرنے لگے اور آپ صلى الله عليه و سلم کی حمایت پر تیار ہوگئے ،ان مہمات میں سوائے ایک تصادم کے نہ تو کسی کو قتل کیاگیا اورنہ زخمی ۔انھوں نے نہ توکسی قافلہ کو لوٹا اور نہ کسی شخص کامال غضب کیا۔ ان کے اس رویے سے یہ احساس اجاگرہوا کہ اسلام سلامتی کاضامن ہے ۔
حضور صلى الله عليه و سلم نے جاسوسی کاایک منصوبہ تشکیل دیاتھا،جس کا مقصد بالعموم ملک اور بالخصوص مکہ میں ہونے والی سرگرمیوں سے باخبررہناتھا۔یہ نظام اس قدر خفیہ تھا کہ مدینہ میں آپ صلى الله عليه و سلم کے ساتھی بھی اس سے بے خبرتھے ،مثلاآپ صلى الله عليه و سلم کے چچا عباس اس مقصد کے حصول کے لیے مکہ میں قیام پذیرہوئے ۔جب آپ صلى الله عليه و سلم نے جنگی حکمت عملی کے تحت منصوبہ بندی وضع کی تونہ کسی کو آپ صلى الله عليه و سلم کے ارادوں کےبارے میں علم تھااورنہ اس بات سے کہ انھیں کہاں جاناہے۶۔ سوائے ان اصحاب کے،جنھیں آپ صلى الله عليه و سلم نے مجاہدین کے ساتھ محاذ جنگ پرپیغام رسانی کے لیے بھیجا ہوا تھا،ایک قاصد ایک خبر لے کر ایک مقرر مقام پرجاتا،وہاں موجود دوسرامنتظر شخص اس خبر کو اگلی منزل تک لے جانے کے لیے تیار کھڑاہوتا۔اس طرح آپ صلى الله عليه و سلم کو اپنی مہمات کے بارے میں اطلاعات ممکنہ حدتک کم وقت میں موصول ہوجاتیں۔
غزوہ بدر تک فوجی دستے فقط مہاجرین پر مشتمل تھے ۔پہلی بات تویہ تھی کہ قریش نے خود ہی مہاجرین سے جنگ شروع کررکھی تھی ،انھیں گوارانہ تھاکہ بے سروسامانی کی حالت میں مکہ سے نکالے گئے مسلمان مدینہ میں پرسکون زندگی بسر کریں؛ دوسرے یہ کہ انصار حضورصلى الله عليه و سلم کےساتھ وفاداری کی قسم کھاچکے تھے اور توقع تھی کہ جہاد کی صورت میں وہ بھرپور کردار اداکریں گے ۔
کمانڈروں کے انتخاب میں حضورصلى الله عليه و سلم کی جنگی فراست کابہ خوبی علم ہوجاتاہے ۔ پہلی فوجی مہم کی قیادت شجاعت وبہادری کے پیکر،موقع شناس ،قوت فیصلہ کے مالک اوراعلی انتظامی صلاحیتوں سے بہرہ مند اپنے چچا حمزہ کو سونپی ۔جب تک دیگرمسلمان آپ صلى الله عليه و سلم کے خیالات اورآرا کی گہرائی سے شناسا نہ ہوگئے،آپ صلى الله عليه و سلم اس قسم کی مہمات کے لیے اپنے قریبی عزیزوں کومامور کرتے رہے ۔اب جب کہ مسلمانوں کو اپنی طاقت کے مظاہر ے کاموقع ملاتھا،نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے اگلی صفوں میں اپنی قریبی اعزہ کو تعینات اور صحابہ کو اس فیصلے کے پس پردہ محرکات کابہ خوبی علم تھا۔واضح رہے کہ یہ تمام لوگ اپنے عہدے کے اعتبارسے موزوں ترین اور صلاحیتوں کے حوالے سے ممتاز تھے اور انھوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی جانیں وقف کررکھی تھیں ۔
حمزہ غزوہ احد میں بیس کفار کو واصل جہنم کرنے بعد شہید ہوئے ۔عبیدہ بن حارث غزوہ بدرمیں زخمی ہوئےاور بعدازاں انھیں زخموں کی وجہ سے شہادت کے مرتبے پرفائز ہوگئے ۔اپنے انتقال سے پہلےانھوں نے حضور صلى الله عليه و سلمسے دریافت کیا۔ 'یارسول اللہ!میں میدان جنگ میں کام نہیں آیا،کیااس صورت میں بھی میرا شمارشہدا میں ہوگا؟'۷
حمزہ آپ صلى الله عليه و سلم کے چچا تھے توعبیدہ بن حارث بن مطلب آپ صلى الله عليه و سلم کے عم زاد۔نخلہ کی مہم کے سالار آپ صلى الله عليه و سلم کے پھوپھی زاد عبداللہ بن جحش نے اُحد کے دوسرے مرحلے میں جرات وشجاعت اورجاں بازی کی تاب ناک مثالیں قائم کیں ۔اسی غزوہ میں عبد اللہ بن جحش ،سعد بن ابی وقاص کے پاس آئےاور کہا۔'آؤ،تم دعا مانگو،میں آمین کہوں گا؛اسی طرح میں دعاکروں گاتوتم آمیں کہنا۔' سعد نے اللہ کے حضور التجاکی ۔ 'اے اللہ !جنگ میں میرا مقابلہ کسی طاقت ور دشمن سے ہواور میں اس پر غلبہ پالوں ۔' عبداللہ نے کہا۔ 'آمین'۔ پھر خود دعاکرنے لگے ۔ 'اے اللہ!میرا ٹکراؤ بھی کسی طاقت ور دشمن سے ہو، جومجھ پر غالب آجائے اورمجھے قتل کردے ، پھروہ میرے کان ،ناک اورہونٹ کاٹ لے ،تاکہ میں ایسی حالت میں تیرے حضور پیش کیاجاؤں ۔الہی !تو مجھ سے دریافت کرے :اے عبداللہ!تیرے کان ،ناک اور ہونٹ کدھرگئے ؟تو میں عرض کروں :الہی !گناہوں کی گٹھری اٹھاتے ہوئے تیرے حضور پیش ہوتے ہوئے مجھے حیاآتی تھی،لہذا یہ سب کچھ میں نے تیرے محبوب صلى الله عليه و سلم کی محبت میں قربان کردیاہے۔' جب جنگ ختم ہوئی توعبد اللہ کی نعش میدان میں اس حالت میں پڑی تھی کہ آپ کے کان ،ناک اور ہونٹ کٹے ہوئے تھے اور پیٹ نیزے سے چاک کردیاگیاتھا۔۸
مذکورہ بالا دستوں نے کفار مکہ کی صفوں میں اضطراب پیداکردیااورانھوں نے ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک ہزار جنگ جوؤں پر مشتمل لشکر تیارکیا اورمدینہ سے نوے میل جنوب میں بدر کے مقام کی طرف کوچ کیا۔
- Created on .