انبیائے کرام کی تعدادکتنی ہے؟اورکیامنصبِ نبوت پرصرف مردہی فائز ہوئے ہیں؟
زمین کے ہرخطے میں انبیائے کرام کی بعثت ہوئی ہے۔ ہمیں ان کی تعداد یقینی طور پر معلوم نہیں،لیکن کتب حدیث کی ایک روایت میں ایک لاکھ چوبیس ہزاراورایک دوسری روایت میں دولاکھ چوبیس ہزارانبیائے کرام کی بعثت کا ذکرملتاہے،لیکن ایسی تمام روایات پر اصولِ حدیث کی روشنی میں جرح و قدح موجودہے، تاہم انبیائے کرام کی تعدادایک لاکھ چوبیس ہزار ہو یا دولاکھ چوبیس ہزار، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی دور یا قوم کو انبیائے کرام کی تعلیمات سے محروم نہیں رکھا۔
انبیائے کرام کو صرف مخصوص علاقوں اورمعاشروں کی طرف ہی نہیں بھیجاگیا،بلکہ مختلف شہروں اور علاقوں میں ان کی بعثت ہوئی ہے۔ یہ بات قرآن کریم کی نصوص سے واضح طور پر ثابت ہے:﴿وَإِن مِّنْ أُمَّۃٍ إِلَّا خلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ﴾ (فاطر:۲۴)‘‘اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی خبردار کرنے والا نہ گزرا ہو۔’’اس صریح نص سے ثابت ہوتاہے کہ روئے زمین کے ہر معاشرے میں انبیائے کرام کی بعثت ہوئی ہے۔ایک دوسری آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولاً﴾ (الاسراء: ۱۵)‘‘اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔’’یعنی جس قوم کی طرف اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کونہ بھیجاہو، اسے عذاب نہیں دیتے، کیونکہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے شایاں نہیں : ﴿فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُ o وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ ﴾ (الزلزال: ۷۔۸)‘‘تو جس نے ذرا بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرا بھر برائی کی ہوگی و ہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتاہے کہ نیکی اور بدی کابدلہ ضرورملے گا،لیکن چونکہ جن لوگوں کی طرف انبیائے کرام کی بعثت نہ ہوئی ہو وہ بھلائی اوربرائی کے درمیان تمیز نہیں کر سکتے اس لیے ان کا محاسبہ ہو سکتاہے اورنہ ہی انہیں سزا دی جاسکتی ہے،تاہم چونکہ اللہ تعالیٰ ہربھلائی اوربرائی کا بدلہ دیں گے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ساری انسانیت کی طرف انبیائے کرام کومبعوث فرمایا۔اللہ تعالیٰ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿وَإِن مِّنْ أُمَّۃٍ إِلَّا خلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ﴾ (فاطر:۲۴)‘‘اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی خبردار کرنے والا نہ گزرا ہو۔’’منطقی اندازمیں باہم مربوط ان تین قوانین کی وضاحت کے بعد ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
بعض لوگوں کایہ خیال درست نہیں کہ انبیائے کرام کی بعثت صرف جزیرہ نمائے عرب میں ہی ہوئی،بلکہ مختلف زمانوں میں زمین کے ہرخطے میں انبیائے کرام کوبھیجاگیا۔صرف جزیرہ نمائے عرب میں انبیائے کرام کی بعثت کادعوی قرآنی نصوص کے معارض ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جزیرہ نمائے عرب میں مبعوث انبیائے کرام کی صحیح تعدادکاعلم ہے اورنہ ہی دنیاکے دوسرے خطوں کی طرف بھیجے گئے انبیاء کی تعدادمعلوم ہے۔ انبیائے کرام کی کل تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہو یا دولاکھ چوبیس ہزار، ہم ان میں سے صرف اٹھائیس انبیائے کرام کوجانتے ہیں،لیکن ان میں سے بھی تین کے بارے میں ہماری معلومات نامکمل ہیں اوران کے بارے میں سوالیہ نشانات موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی اکرم حضرت محمدﷺتک صرف اٹھائیس انبیائے کرام کے بارے میں بتایاہے اور ان میں سے بھی اکثر و بیشتر کی جائے بعثت کا ہمیں علم نہیں، مثلاًکہاجاتاہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی قبر‘‘جدہ’’نامی شہر میں ہے،لیکن یہ بات کس حد تک درست ہے ، ہمیں اس کاعلم نہیں۔جن روایات میں ‘‘جدہ’’میں حضرت آدم علیہ السلام کے اماں حوّا سے ملنے کاتذکرہ ہے، ان کی صحت بھی ثابت نہیں،لہٰذا ہمیں معلوم نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کہاں سے زندگی کاآغازکیااورکہاں فرائض نبوت سرانجام دیئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ہمیں کسی قدر زیادہ معلومات حاصل ہیں۔ وہ بابل اوراناطولیہ کے علاقے میں گھومنے پھرنے کے بعد شام چلے گئے۔حضرت لوط علیہ السلام کے بارے میں بھی خیال یہ ہے کہ انہوں نے بحیرۂ مردارکے گرد آباد اپنی قوم میں فرائض سرانجام دیئے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ‘‘مدین’’نامی شہرمیں مبعوث ہوئے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصرمیں پرورش پائی اورحضرت زکریاعلیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام بحرابیض متوسط کے علاقے میں رہے۔ممکن ہے وہ اناطولیہ بھی آئے ہوں، کیونکہ ‘‘افسس’’میں موجودآثارِقدیمہ اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت مریم علیہ السلام سے متعلق آثارِقدیمہ سے اس احتمال کی تائید ہوتی ہے، تاہم ان میں سے کوئی بھی روایت یقین اور پایۂ ثبوت کونہیں پہنچتی۔
اوپرذکرکردہ اٹھائیس انبیائے کرام کے سوا ہمیں کسی نبی کے مقام ولادت و نبوت کے بارے میں علم نہیں، لہٰذا اس بارے میں یقینی معلومات کا حصول ناممکن ہے،خصوصاًجبکہ ان کے مذاہب کے نشانات مٹ گئے ہیں اور تعلیمات ناپیدہوچکی ہیں۔
عیسائیت کو ہی لے لیجئے: نیکایا(Nicaea)شہرمیں منعقدہونے والی کونسل نے نصرانی عقیدے کو بدل کر اسے ایک نئے رخ پرڈال دیا،کیونکہ انہوں نے اس کے عقیدۂ توحید کو‘‘اقانیم ثلاثہ’’کے عقیدے میں بدل دیا،جس کے نتیجے میں عیسائیت اپنے ہی پیروکاروں کے ہاتھوں بدترین خیانت کاشکارہوگئی، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی کتاب کو بھی تحریف کا نشانہ بنایاگیا۔ جب خدائی کتاب میں انسانی تحریف شامل ہوگئی اور توحید کو تثلیث میں بدل دیا گیا توبعض لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو(نعوذباللہ)خداکابیٹاقراردے دیااوران کی والدہ حضرت مریم علیہ السلام کی طرف الوہیت کے وصف کومنسوب کیااوربعض دوسرے لوگوں نے یہ دعوی کیا کہ اللہ تعالیٰ جسم بن کران میں حلول کر گئے ہیں۔یہ گمراہی کی بدترین صورت ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ بت پرستانہ عیسائیت اوریونان کے بت پرستانہ عقائد اور زیوس اور افروڈائٹ نامی خداؤں کے درمیان کوئی بہت بڑافرق نہ رہا۔اپنی کتاب میں تحریف کرنے والوں نے اپنے مذہبی راہنماؤں کوایسے ہی خداؤں کادرجہ دے دیا، جیسے یونانیوں نے اپنے بڑے لوگوں کومعبودبنالیاتھا۔انسانی تاریخ میں ساری گمراہوےں کاآغاز اسی طرح ہواہے اورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔اگرقرآن کریم ہمیں یہ نہ بتاتاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے معززنبی اوران کی والدہ صدیقہ ہیں توہم بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کواسی نظرسے دیکھتے، جس نظر سے یونانی زیوس اور افروڈائٹ کو دیکھتے ہیں۔
بہت سے مذاہب کو انسانوں نے تبدیل اورمسخ کردیا،جس کے نتیجے میں ان کی الہامی تعلیمات مٹ گئیں، لہٰذاکسی مخصوص علاقے یامعاشرے کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں کسی نبی کی بعثت ہوئی یا نہیں۔ممکن ہے کنفیوشس نبی ہو، لیکن اس بارے میںیقین سے کچھ نہیں کہاجا سکتا۔مذاہب کی تاریخ اس بارے میں ناکافی معلومات فراہم کرتی ہے اورجو معلومات موجودہیں وہ غیرمربوط ہیں، تاہم تاریخ سے اتناضرورپتا چلتاہے کہ کنفیوشس اور بدھا کسی دورمیں گزرے ہیں، انہوں نے دومذاہب کو متعارف کرایااوربہت سے لوگ ان کے پیروکاربنے۔ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان مذاہب میں بہت سے انحرافات اورغلطیاں موجودہیں اور وہ فطرتِ سلیمہ اورسنت الہٰیہ سے ہٹے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان میں گائے کی عبادت، خودسوزی،چھ چھ ماہ تک روزے رکھنے اوراس دوران جنگلوں میں نکل جانے ایسے تصورات موجود ہیں۔ ان وجوہ کی بنا پر انہیں دین کی حیثیت سے قبول نہیں کیاجاسکتا۔ممکن ہے کسی دورمیں وہ سچے مذاہب رہے ہوں،لیکن بعد میں عیسائیت کی طرح تحریف کاشکارہوگئے ہوں۔
اگرمسلمان اپنے دین کے سرچشموں کی حفاظت کے بارے میں انتہائی حساس نہ ہوتے اوراس کا اہتمام نہ کرتے تودین اسلام کا بھی یہی انجام ہوتا، تاہم دورحاضراورماضی میں اس قسم کی کوششوں کا بالکلیہ انکاربھی نہیں کیاجاسکتا۔بعض مسلمان دانستہ یانادانستہ تاویل و تلفیق کے ذریعے اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، مثلاًکسی شخص کایہ خیال کہ شراب نوشی اورزناکاری کے ارتکاب کے باوجود وہ صحیح معنوں میں مسلمان رہ سکتاہے، عملی زندگی میں تحریف کی واضح مثال ہے۔چوری، جوئے اورسودخوری کی بھی یہی مثال ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کنفیوشس نبی تھا،کیونکہ غیرنبی کونبی کہناایسے ہی کفرہے، جیسے کسی نبی کی نبوت کا انکار کرناکفرہے۔یہی بات یورپ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے، لیکن اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کااجاسکتاہے۔
سقراط کے بارے میں بھی مختلف آراء ملتی ہیں، لیکن ہم تک اس کی زندگی کے بارے میں پوری معلومات نہیں پہنچیں۔وہ یہودی فکرسے متاثرفلسفی تھا یا کسی اور قسم کے افکار کا حامل تھا، یقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتا۔بعض مفکرین کی رائے میں وہ یہودی فکر سے متاثرتھا،لیکن تاریخی دستاویزات سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔افلاطون کے بقول سقراط اپنے بارے میں خود لکھتا ہے: ‘‘میرے سامنے بعض اشیاء ظاہرہوتی ہیں(ممکن ہے وہ خیالات ہوں)اورمجھے انسانیت کی راہنمائی کے لیے بعض باتیں الہام کرتی ہیں۔ مجھے بچپن سے ہی علم تھاکہ مجھے خداکی طرف انسانیت کی راہنمائی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔’’چونکہ اس کے کلام میں کچھ نہ کچھ سچائی پائی جاتی ہے ، اس لیے اسے عقل وفلسفہ سے قریب تریورپی معاشرے کانبی کہاجاسکتاہے،لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم سقراط کو نبی نہیں کہتے،کیونکہ اگروہ نبی نہ ہوا توہمارا یہ کہنا کفر کہلائے گا، تاہم یہ کہاجاسکتاہے کہ اس کانبی ہونامحتمل ہے۔
اگرچہ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار یا دولاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام مبعوث ہوئے، لیکن ہمیں چارانبیائے کرام کے سواکسی نبی کی جائے بعثت کاعلم نہیں، صادق و امین حضرت محمدﷺنے ہمیں بتایاہے کہ انبیائے کرام کی بعثت ہرخطے میں ہوئی ہے۔ اپنے سچے نبی کی احادیث کی روشنی میں ہم زمین کے مختلف خطوں میں انبیائے کرام کی بعثت کی بعض علامات کی طرف اشارہ کریں گے،اگرچہ ہمیں ان کی یقینی تعداد اورجائے بعثت کاعلم نہیں۔
پہلی علامت ریاض یونیورسٹی کے ریاضیات کے پروفیسرعادل زینل کی پیش کردہ ہے۔عادل زینل عراق کے شہر کرکوک کے رہنے والے ہیں اورانہوں نے ریاستہائے متحدہ امریکا سے تعلیم حاصل کی ہے ۔انہوں نے مجھے بتایاہے کہ جب میں ریاستہائے متحدہ امریکا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہاتھاتو میں وہاں کے اصل باشندوں اورسیاہ فام لوگوں سے میل جول رکھتاتھا۔مجھے ان قبائل کے دینی شعائر میں اپنے بنیادی عقائد کی جھلک محسوس ہوتی تھی، مثلاًمیں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سناکہ چونکہ اگر دو معبودہوتے توکائنات کا نظام درہم برہم ہوجاتا، اس لیے اللہ کاکوئی شریک نہیں ہے۔ان کی یہ بات درج ذیل آیت مبارکہ سے مطابقت رکھتی ہے: ﴿لَوْ کَانَ فِیْہِمَا آلِہَۃٌ إِلَّا اللَّہُ لَفَسَدَتَا﴾ (الأنبیاء: ۲۲)‘‘اگر آسمان وزمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین وآسمان درہم برہم ہو جاتے۔‘‘
اگرکسی نبی نے انہیں یہ بات نہ بتائی ہوتی توان سیاہ فام لوگوں کے لیے اس حقیقت تک رسائی ممکن نہ ہوتی۔ان سیاہ فام لوگوں کویہ کہتے ہوئے بھی سناگیا:‘‘اللہ ایک ہے۔اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے پیداہواہے ۔’’اس حقیقت تک کسی عالی دماغ شخص کی رسائی ہی ہوسکتی ہے،کیونکہ ولادت انسانیت کاخاصہ ہے اوراس کی ضرورت اسے ہی پیش آتی ہے جو اس کا محتاج ہوتاہے،جبکہ اللہ تعالیٰ کواس کی کوئی ضرورت نہیں۔اگرکسی نبی نے انہیں ان باتوں کی تعلیم نہیں دی توانہیں ان باتوں کا ادراک کیسے ہوا؟لہٰذا صرف متمدن اورتعلیم یافتہ قوموں میں پائے جانے والے اعلیٰ اور عمیق عقائد کا ایسے غیرمتمدن قبائل میں از خود پایاجاناناممکن ہے، جو ابھی تک آگ کے الاؤ کے گرد رقص کرتے اورعمررسیدہ افراد کو ذبح کر کے کھاجاتے ہیں۔ اس کی صرف ایک ہی توجیہہ ممکن ہے کہ کسی نہ کسی نبی کے واسطے سے انہیں ان حقائق کاعلم ہواہے۔
ایک بے دین منکرِ خدا ڈاکٹرمصطفی محمود آج کے فیشن کے مطابق مادہ پرستانہ فلسفہ کے داعی تھے، لیکن جب انہوں نے اسلام کاقریب سے گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیاتوان کا نقطہ نظر یکسر بدل گیا۔یہ مفکر افریقہ کے اپنے ایک سفر کی رودادلکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب وہ ماوماو اورنیام نیام نامی قبائل کے پاس پہنچے توانہوں نے ان سے ان کے عقیدے کے بارے میں دریافت کیا۔اس کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ ہم آسمان میں موجود ایک ایسے معبود پر ایمان رکھتے ہیں،جوزمین کانظام چلاتاہے۔اگرچہ اللہ تعالیٰ آسمان وغیرہ کسی مکان میں نہیں سماتے، لیکن جیساکہ آیت مبارکہ:﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾ (طہ: ۵)‘‘یعنی رحمان جو عرش پر جلوہ افروز ہوا۔’’سے معلوم ہوتاہے خدائی احکام و اوامرآسمان سے اترتے ہیں،اسی لیے ہم دعاکے وقت ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔ڈاکٹرمصطفی محمود مزید لکھتے ہیں:‘‘میں نے انہیں سورت اخلاص سے ملتے جلتے مفہوم پرایمان رکھتے اورتذکرہ کرتے ہوئے دیکھاہے۔ان کا ایمان ہے کہ ہرچیزاللہ تعالیٰ کی محتاج ہے،لیکن اللہ تعالیٰ کسی چیزکے محتاج نہیں ہیں۔ان کاکوئی ماں باپ ہے اورنہ ہی کوئی ہمسر و شبیہ ۔’’وہ ایک اورقبیلے کے پاس گئے توکیادیکھتے ہیں کہ اگرچہ وہ ابھی تک بیماروں اورعمررسیدہ افراد کو ذبح کرکے کھاجاتے ہیں، لیکن اس کے باوجوداللہ کے بارے میں ان کاعقیدہ قرآن کے عقیدۂ توحید سے ملتاجلتاہے۔‘‘اگریہ عقائدان تک کسی نبی کے ذریعے سے نہ پہنچتے توان کے لیے ان تک پہنچناناممکن ہوتا، لہٰذآغاز میں کسی نہ کسی نبی نے اس عقیدے کی تبلیغ و اشاعت کی ہوگی،جوباپ دادا سے اولاد کی طرف منتقل ہوتے ہوئے دورِحاضر تک پہنچ گیا۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کریم اورتاریخی حقائق اس طرف مشیرہیں کہ زمین کے ہرخطے میں انبیائے کرام مبعوث ہوئے ہیں،گو ہمیں ان کی تعدادکایقینی طورپرعلم نہیں۔
جہاں تک خواتین کے نبی کی حیثیت سے مبعوث ہونے کاتعلق ہے توعلمائے اہل السنت والجماعت اورجمہور محدثین کسی خاتون کے نبی کی حیثیت سے مبعوث ہونے کے قائل نہیں اورحضرت مریم علیہا السلام اورحضرت آسیہ علیہا السلام کی نبوت سے متعلق وارد احادیث شاذ اور ضعیف ہیں۔حاصل یہ کہ عورتوں کی نبوت کے بارے میں کوئی یقینی حکم نہیں لگایا جا سکتا، نیز کسی عورت کا نبی نہ ہوناکوئی عیب کی بات نہیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق مثبت اورمنفی کی بنیادپر کی ہے۔ایک جیسی اشیاء میں تنافر پایا جاتاہے۔اگرایٹم میں اس کے اجزاء کو یکجہت رکھنے والی غیرمعمولی طاقت نہ ہوتی تو اس کے ایک جیسے اجزاء میں تنافرپایاجاتا۔ایٹم سے لے کرکہکشاؤں تک ہرچیزمیں یہ قانون جاری ہے۔چونکہ چھوٹے چھوٹے ذرات سے ترکیب پانے والاحضرت انسان عالم صغیر(ایٹم)اورعالم کبیر(کائنات)کے درمیان حلقۂ وسط کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے اس پربھی یہی قانون جاری ہوتاہے، دوسرے لفظوں میں اس کے بھی ایک دوسرے سے مختلف جوڑے ہونے چاہئیں، تاکہ ان میں ایک دوسرے کی طرف کشش پیداہو۔ ان میں سے ایک میں ضعف اوردوسرے میں قوت کاہوناہی ان کے درمیان محبت کے پائے جانے اور خاندان کے تشکیل پانے کاسبب ہے۔
آج عورتوں کے مردوں جیسے طوراطوارسیکھنے کانتیجہ مسخرہ پن اور مشکلات کے سواکچھ نہیں نکلتا۔عورت کو نسوانیت سے نکال کرمردوں جیسے طوراطوارسکھانے کانتیجہ یہ نکلاہے کہ عورت مردسے الجھنے لگی ہے، جس کے نتیجے میں خاندان اپنے سربراہ اوراطمینان دونوں سے محروم اوربچے خاندانی ماحول سے دورہوگئے، کیونکہ ان کے والدین انہیں نرسری ہومزکے حوالے کر کے خود خواہشات کے پیچھے دوڑنے لگے ہیں۔
عورتوں کے بارے میں اس عمومی خدائی قانون سے عورتوں کی نبوت کے معاملے پر بھی روشنی پڑتی ہے، نیزعورتوں سے ولادت کامعاملہ بھی وابستہ ہے ۔اگر یہی صورتحال مردوں کو پیش آتی تو وہ بھی نبی بننے کی اہلیت سے محروم ہوجاتے، کیونکہ ایسی صورت میں ماہواری کی وجہ سے ہر ماہ تقریباً ایک ہفتہ فرائض نبوت وامامت اورصوم وصلوۃ کی ادائیگی نہ کرسکتے۔نفاس کی مدت اس پر مستزادہے، نیزحمل کے ایام میں نبوت کی ذمہ داری ادا کرنامشکل ہوتا، کیونکہ اگر بچہ گود یا پیٹ میں ہو توجنگوں میں شرکت محال اور عسکری وانتظامی منصوبہ سازی دشوارہوتی ہے، جبکہ نبی کے لیے جنگ کی صف اول میں شریک ہوناضروری ہوتاہے۔
ان وجوہ کی بناپرعورت کا نبی ہونامحال ہے،نیزانہی جسمانی موانع کے وجہ سے عورت کی عبادت ناقص ہوتی ہے، کیونکہ ماں ہونے کی حیثیت سے عورت کو بچے جننے اوران کی تربیت کرناپڑتی ہے، جبکہ نبی کی شخصیت ایک قابل تقلیدمرشد،امام اورقائدکی ہوتی ہے،تاہم عورتوں کے مسائل کے بارے میں نبی کی ازواجِ مطہرات تعلیم وتبلیغ کاسرچشمہ ہوتی ہیں۔
- Created on .