دورِ فترت کیا ہے؟ کیا ہم دورِ فترت میں رہ رہے ہیں؟
دورِ فترت دو نبیوں کی بعثت کے درمیانی عرصے کو کہتے ہیں۔عام طور پر اس کا اطلاق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اور رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے کے دور پر ہوتا ہے۔اس دور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات مٹ گئیں اور ان کی لائی ہوئی روشنی رسول اللہ ﷺ کے دور تک نہ پہنچ سکی،جس کے نتیجے میں لوگ جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں رہے یا اس سے مراد وہ دور ہے،جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی روشنی اور رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی روشنی میں اتصال نہ ہو سکا،جس کے نتیجے میں ایک تاریک خلا وجود میں آیا،جسے دور فترت سے تعبیر کرتے ہیں اور اس دور کے لوگوں کو اہل فترت کہتے ہیں۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں،جن تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین کی خبر پہنچی نہ وہ ان کے انوار و اسرار سے استفادہ کر سکے اور نہ ہی وہ رسول اللہ ﷺ تک رسائی پا سکے۔علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر ایسے لوگوں نے بت پرستی کا ارتکاب نہ کیا تو اللہ تعالیٰ ان کی بخشش و مغفرت فرما دیں گے، گو انہیں معرفت الٰہیہ اور ایمان نہ بھی نصیب ہوا ہو،اسی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ کے والدین کی ان شاء اللہ مغفرت ہوجائے گی، کیونکہ وہ اہل فترت میں سے تھے۔
اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے والدین کے زندہ ہو کر آپ ﷺ پر ایمان لانے کے بارے میں ایک حدیث ہے، لیکن اصولِ حدیث کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف ہے، گو امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ جیسے امام اور مجدد اسی حدیث کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ کے والدین کی نجات اور مغفرت کے قائل تھے۔اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جب عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے والد حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تھا: ‘‘آپ بہتر ہیں یا آپ کے والد؟’’تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا:‘‘تمہارا اور میرا باپ جہنم میں ہے۔’’لیکن یہ جواب اسی وقت تک درست تھا،کیونکہ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے والدین کی قبروں پر جا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ انہیں میری امت میں قبول فرما لیں،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی دعا کو قبول فرمایا اور آپ کے والدین آپ ﷺ پر ایمان لا کر آپ کی امت میں شامل ہوگئے۔
درحقیقت اس حدیث کی بنیاد پر اس سوال کا جواب دینے کی چنداں ضرورت ہی نہیں،کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے محترم والدین میں سے کسی کے بھی بت پرستی میں مبتلا ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں۔تاریخی حقائق سے پتا چلتا ہے کہ اس دور میں دین ابراہیمی کے ماننے والے ایسے بہت سے موحدین موجود تھے،جنہوں نے بتوں کی پوجا نہیں کی تھی،مزید برآں وہ اہل فترت میں سے تھے اور اہل فترت اہل نجات ہیں۔جب اہل فترت نجات پانے والے ہیں تو رسول اللہ ﷺ کے والدین نجات سے کیسے محروم ہو سکتے ہیں؟
جیسا کہ ہم پہلے بھی اس طرف اشارہ کر چکے کہ اللہ اس دور کے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے چچا زید بن عمرو اور ورقہ بن نوفل جیسے موحدین کے ایمان کو ضائع نہیں فرمائیں گے۔یہ لوگ دل سے اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ممکن ہے وہ لفظ‘‘اللہ’’سے ناآشنا ہوں،اس لیے وہ‘‘یااللہ’’نہ پکار سکے ہوں،لیکن وہ ایک معبود کے وجود پر ایمان رکھتے تھے اور اسی سے دعا مانگتے تھے،یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے کچھ عرصہ پہلے فضاسازگار ہوگئی تھی اور حساس طبیعتیں رحمت الٰہیہ کے نزول کے قرب کو محسوس کر رہی تھیں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو اس کی بشارت سنا رہی تھیں۔ہمیں امید ہے کہ شفاعت کبری کا حق رکھنے والے ہمارے رسول ﷺ اپنی آمد کا ذوق و شوق اور بے صبری سے انتظار کرنے والوں کو نہیں بھولیں گے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے سایۂ رحمت میں لے لیں گے، نیز ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اس دور میں بت پرستی سے دور رہنے والے دیگر افراد بھی نجات پائیں گے۔
یہ تو اس سوال کا دینی پہلو ہے،لیکن اس کا ایک پہلو دور حاضر سے بھی متعلق ہے اور میرے خیال میں سوال سے مقصود یہی دوسرا پہلو ہے۔
اگر ہم علم کلام کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو ان کی رو سے دور حاضر کے لوگوں پر اہل فترت کا اطلاق کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے،تاہم مکمل تحقیق کے بغیر یقینی حکم صادر کرنا جہاں اہل السنت والجماعت کے مزاج کے خلاف ہے،وہیں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے عدم احترام کے بھی مترادف ہے۔
ہمارے اس دور میں بہت سے علاقوں میں اسلام کی شمع بجھ چکی ہے، دلوں سے اللہ اور اس کے رسول کا نام مٹ چکا ہے اور سائنس کو خالق کائنات کے انکار کے لیے غلط طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔بجائے اس کے کہ علم و عرفان کے اس دور میں خدا کے دین کا بول بالا اور معرفت الٰہیہ کا دور دورہ ہو،کفر کے بدنما چہرے کو نمایاں کیا جا رہا ہے اور سائنس اور فلسفے کو وصول الی اللہ کی اساس کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے ایمان کے قلعے کو گرا کر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کے لیے بطور ہتھیار کے استعمال کیا جا رہا ہے۔کفر و گمراہی کے اس پرآشوب دور میں بہت سے نوجوان مسجدوں کا راستہ تک بھول چکے ہیں۔
علمیمحافل پر متمکن لوگوں نے اپنی نظریں اپنی قابل فخر تاریخ سے پھیر کر مغرب پر مرکوز کر رکھی ہیں۔ان میں سے بعض نے دور حاضر کے انسان کا ایمان نظریہ ارتقا سے خراب کیا ہے،بعض نے فرائیڈ کے نظریات کی روشنی میں امت کے افکار و اذہان کو جنسی خواہشات سے جوڑ کر پراگندہ کیا ہے اور تمام مسائل کا حل جنسی اور شہوانی پہلو سے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے،نیز بعضوں نے لاقانونیت پسندانہ رجحانات پھیلا کر قوم کو تباہ کر دیا ہے۔یہ رجحانات ہماری قوم اور ہمسایہ قوموں کو فکری طور پر تباہ اور مسموم کر کے انہیں اپنی اساس اور شناخت سے دور کر رہے ہیں۔بہت سے اخبارات، رسائل اور کتابیں ملک کے طول و عرض میں سالہا سال سے اس قسم کے رجحانات پھیلا رہی ہیں، لہذا دور حاضر کے انسان کو بالکلیہ زمانۂ فترت سے خارج سمجھنا ممکن نہیں، ورنہ ہمارا اپنے گرد و پیش کے حقائق سے صرف نظر کرنا لازم آئے گا۔میں یہاں اپنی نسل کے روحانی افلاس کے اظہار کے لیے دور حاضر ہی کے ایک واقعے کا تذکرہ کرنا مناسب خیال کرتا ہوں۔
ہمارا ایک بھائی نوجوانوں کے ساتھ کسی محفل میں دین کے عالی حقائق کی وضاحت کر رہا تھا کہ روئے سخن حالات حاضرہ کی طرف پھر گیا اور اشتراکی دنیا میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کے آئندہ کے شیطانی منصوبوں کا تذکرہ چل نکلا،جسے سن کر ایک نوجوان کی غیرت کو جوش آیا اور وہ کہنے لگا:’’چونکہ کمیونسٹ قاتل اور مجرم ہیں،اس لیے ہمارے ملک میں جتنے بھی کمیونسٹ ہیں انہیں قتل کر دینا چاہیے۔‘‘لیکن کمرے کے ایک گوشے میں بیٹھ کر اس محفل کی گفتگو کو ذوق و شوق سے سننے والے ایک نوجوان جس نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسی مبارک فضا میں سانس لیا تھا، نے اسے اسی جوش و جذبے سے جواب دیا:’’اے دوست!آپ قتل و غارت کی بات کر رہے ہیں۔اگر آپ اپنے عزائم پر کل تک عمل کر چکے ہوتے تو میں بدقسمت اس کی بھینٹ چڑھ چکا ہوتا،کیونکہ کل تک میں بھی انہی میں شامل تھا،لیکن آج آپ مجھے نوجوانوں کے اس مبارک گروہ میں دیکھ رہے ہیں۔میں نے کل سے آج تک گویا صرف ایک دن میں زمین و آسمان جتنی مسافت طے کی ہے۔میں بقسم کہتا ہوں کہ جن لوگوں کے لیے آپ ‘‘مخالفوں’’ اور ‘‘دشمنوں’’ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں،ان میں میرے جیسے ہزاروں لوگ نجات کے منتظر ہیں۔وہ تھپڑ کے نہیں بلکہ محبت و شفقت کے منتظر ہیں۔اگر آپ ان کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے تو وہ بھی آپ جیسے بن جائیں گے۔اصل ذمہ داری قتل کرنا ہے یا زندگی بخشنا؟’’ان پرخلوص اور سچے الفاظ کا حاضرین پر اس قدر اثر ہوا کہ بعض کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔
یہ وہ نسل ہے جو ہمارے سامنے ہے اور جس کی گمراہی دیکھ کر ہمیں رونا آتا ہے۔ان کی بڑی تعداد بے قصور ہے،کیونکہ وہ صرف اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ وہ حق کو نہ پہچان سکے۔میرے خیال میں انہیں اہل فترت میں شمار نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے منافی ہوگا۔ بخاری اور مسلم میں درج ذیل واقعہ بیان ہوا ہے:‘‘ایک دفعہ کچھ قیدی لائے گئے،جن میں ایک عورت بھی تھی۔وہ عورت دائیں بائیں دوڑتی پھرتی تھی اور کوئی بھی بچہ دیکھتی تو اسے اپنی گود میں اٹھا لیتی،لیکن جب وہ دیکھتی کہ جس بچے کی اسے تلاش تھی یہ وہ بچہ نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر دوبارہ تلاش شروع کر دیتی تھی۔رسول اللہ ﷺ پرنم آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ آخرکار اس عورت کو اپنا بچہ مل گیا اور اس نے شدید محبت سے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کی طرف اشارہ کر کے اپنے اردگرد موجود صحابہ کرام سے پوچھا:‘‘کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک دے گی؟’’صحابہ نے عرض کی:‘‘ہمارا نہیں خیال کہ اگر اس کے بس میں ہو تو وہ ایسا کرے گی۔’’اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس عورت کے اپنے بچے پر رحم کرنے کی بہ نسبت زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔’’(1)
لہٰذا ہمیں زیادہ مبنی بر تسامح سوچ رکھنی چاہیے،لیکن اس سے کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم رحمت الٰہیہ سے زیادہ جھوٹی رحمت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں یا اپنے آپ کو جنت کے ٹکٹ بانٹنے والے سمجھتے ہیں،ایسی بات ہرگز نہیں،تاہم ہم اہل السنت والجماعت کے زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں،جس کا حدیث قدسی‘‘میری رحمت میرے غضب پر حاوی ہے۔’’ (2) پر ایمان ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے،جس کا تعلق ہم سے ہے۔ہم اپنے نوجوانوں کے سامنے صحیح انداز سے حقائق پیش نہیں کر سکے۔ہم نے نہ صرف مسلمان بلکہ ساری دنیا کے نوجوانوں کو نظر انداز کر رکھا ہے،حالانکہ وہ ہمارے پاس موجود پیغام کے ہوا اور پانی سے زیادہ محتاج ہیں۔جب ہم اپنی حالت کا مختصر سی مدت میں دنیا بھر میں ہدایت کی مشعل لے کر پھرنے والے صحابہ کرام کی حالت اور ان کے بعد آنے والے تابعین کی جدوجہد کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو ہماری سستی،کاہلی اور جمود واضح نظر آتا ہے۔ہدایت اور روشنی کے محتاج دلوں کی تلاش صحابہ کرام اور تابعین کی نہ صرف عادت تھی،بلکہ انہوں نے اس روشنی کو ساری انسانیت تک پہنچانے کو اپنا مقصد زیست بنا رکھا تھا۔
ساری دنیا کو ہماری ضرورت ہے۔ان کی پکار پر لبیک کہنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔اس مسئلے کا یہ پہلو ہم سے متعلق ہے۔ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے:‘‘کیا ہم نے مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس ذمہ داری کو ادا کیا ہے؟’’ اگر ہم نے اسے ادا نہیں کیا تو ہمیں بہت سے سوالوں کا جواب اور بہت سی باتوں کا حساب دینا ہوگا۔
(1) البخاری، الادب؛ مسلم، التوبۃ.
(2) البخاری، التوحید؛ مسلم، التوبۃ
- Created on .