ملک الموت ایک ہی لحظہ میں بہت سے مرنے والوں کی جانیں تنہا کیسے قبض کرتاہے؟
اس سوال سے پتا چلتا ہے کہ انسانی معیارات کیسے انسان کو دھوکا دیتے ہیں۔ جس طرح فرشتوں کوانسانوں جیساسمجھناغلط ہے، اسی طرح جسم میں روح کے اثرات اور وظائف کے بارے میں تحقیق کرنابھی فضول ہے، لہٰذا اس سوال کا جواب دینے سے پہلے‘‘تعبیرکی غلطی’’ (Terminological Error)کی وضاحت ضروری ہے، دوسرے لفظوں میں پہلے اس سوال میں انحراف کے نقاط کی نشاندہی کی جائے گی اورپھرجواب دیاجائے گا۔
چونکہ فرشتوں کاتعلق ایک دوسرے عالم سے ہے، اس لیے ان کی فطرت، ماہیت اور وظائف مکمل طورپرہمارے عالم سے مختلف ہیں،یہی وجہ ہے کہ ان کے مخصوص عالم کوپیش نظررکھے بغیراور ان کی ماہیت و وظائف پر غورکیے بغیر کوئی بات کہنادرست نہ ہو گا، لہٰذا پہلے اس پہلوسے انہیں جاننا ضروری ہے۔
ملائکہ کالفظ‘‘مَلک’’ بمعنی قوت یا‘‘ مَلَک’’ بمعنی پیامبرسے ماخوذہے۔پہلے اشتقاق کے لحاظ سے اس کے معنی ‘‘بہت زیادہ طاقتور’’کے ہوں گے اور دوسرے اشتقاق کے لحاظ سے اس کے معنی‘‘اللہ تعالیٰ کے احکامات کومنتقل کرنے والے پیامبر’’کے ہوں گے۔ان امتیازی اوصاف کا اللہ تعالیٰ کے پیداکردہ تمام فرشتوں میں بالعموم اور وحی الٰہی پہنچانے والے فرشتوں میں بالخصوص پایا جانا ناگزیر ہے۔موت و حیات کے معاملات کی نگرانی کرنے والے فرشتوں سے لے کر حملۃالعرش اورملائے اعلیٰ میں موجودفرشتوں تک یہ آسمانی مخلوق ،مخلوقِ خداکی نگہبانی اور دیگر فرائض کی انجام دہی پرمامورہے۔
عالم اکبر(کائنات)سے لے کرعالم اصغر(ایٹم) تک میں ہونے والی تمام تبدیلیاں اورتغیرات اس عالی مقام اورممتازمخلوق کے زیرنگرانی وقوع پذیرہوتے ہیں، نیز یہ طاقتور اور امانت دار مخلوق اللہ تعالیٰ کی صفت کلام سے پھوٹنے والے شرائع اوراحکام خداوندی کوپہنچانے کے فرائض بھی سرانجام دیتی ہے۔اگرہم کائناتی سطح پرجاذبیت اورتنافرکے قوانین سے لے کر نیوکلیس کے گرد الیکٹرانز کی منظم گردش کے حیرت انگیزاورمشکل فرائض کوپیش نظررکھیں تو ہمیں اس مخلوق کی طاقت اورامانت داری کااندازہ ہوسکتاہے۔
فرشتوں کے فرائض و وظائف بہت زیادہ اورمختلف انواع کے ہیں۔ کسی بھی واقعے کا ان کے فرائض سے خارج ہوناناقابل تصورہے۔ان کی نگرانی کے بغیربارش کاکوئی قطرہ برستاہے اورنہ ہی بجلی کی کوئی کوندچمکتی ہے۔کائنات کے تمام قوانین فطرت شعوروادراک کی مالک ان قوتوں کے واسطے سے کام کرتے ہیں اوران میں سے ہرایک مالک المالک حق سبحانہ وتعالیٰ کی عطاکردہ قابلیت وصلاحیت کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیتی ہے، نیز اشرف المخلوقات حضرت انسان کے کردار کو سنوارنے،منظم کرنے اورصحیح رخ پرڈالنے کے لیے انہی کے واسطے سے الہام اور وحی کا نزول ہوتا ہے۔
لہٰذاخالق ومخلوق کے درمیان واسطہ بننے اورایٹم سے لے کرکہکشاؤں تک بہت سی اہم ذمہ داریاں سرانجام دینے کے لیے فرشتوں کوجوعظیم ملکوتی{qluetip title=[(1)]}(1) ملکوتی:جس کاتعلق اشیاء کی اصل حقیقت وماہیت کے ساتھ ہوتاہے۔یہ وہ عالم ہے،جہاں الوہی اسرار اور حکومت کو مکمل حاکمیت اورقوتِ تاثیرحاصل ہوتی ہے۔{/qluetip} طاقت اور قوت عطاکی گئی ہے، اگر اسے پیش نظررکھیں تو انہیں انسان سے تشبیہ دینااورانسانوں کو پیش آنے والی رکاوٹوں کو فرشتوں کی راہ میں حائل سمجھنا جہالت اور فکر و خیال کی کجی کانتیجہ قرار دیا جانا چاہیے ۔ اگرانسان کے قابل تحلیل جسم کی طرح فرشتوں کے جسم بھی مادی ہوتے اور دیگر تمام جانداروں کی طرح وہ بھی زمانے کے تابع ہوتے توہم ان کے بارے میں انسانی معیار کو استعمال کرنے میں حق بجانب ہوتے، لیکن چونکہ ان دونوں کا تعلق دو مختلف جہانوں سے ہے، اس لیے ان کے درمیان ناقابل بیان امتیازات پائے جاتے ہیں۔
تخلیق کے لحاظ سے بھی فرشتے انسانوں سے مختلف ہیں۔یہ فرق ان کے فرائض و واجبات کی وسعت سے پیداہوتاہے۔چونکہ ان کی فطرت میں نورانیت ہے، اس لیے ان میں نفوذ اورسیال پن زیادہ ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ہی لمحے میں بہت سی روحوں کے سامنے آنے اور ایک ہی وقت میں مختلف لوگوں کو دکھائی دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایک فرشتہ متعدد روپ اختیار کرسکتاہے۔ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ چونکہ فرشتے نورسے پیداکیے گئے ہیں، اس لیے ان میں نورکی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
سورج کی طرح کا ہر روشن جسم کسی بھی شفاف جسم پراپنا پرتو ڈال کر مختلف مقامات پر ظہورپذیرہوسکتاہے۔نورکی خصوصیات اورصفات کے حامل فرشتے ایک ہی لمحے میں ہزاروں ارواح سے رابطہ رکھ سکتے ہیں۔
چونکہ خفیف اورلطیف ماہیت رکھنے والے فرشتے سورج ایسی مادی اورکثیف اشیاء سے بہت مختلف ہیں، اس لئے یہ جس طرح مختلف اوقات میں مختلف شکلیں اور صورتیں اختیارکرنے پر قدرت رکھتے ہیں، اسی طرح ایک ہی وقت میں مختلف صورتوں میں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔مذہبی لوگوں کے ہاں تمثل کاتصورخاصاقدیم ہے، لیکن اب یہ مالداراشرافی طبقے کی محفلوں میں بھی اس قدر عام اورمعروف موضوعِ سخن بن گیاہے کہ اسے تجربات سے ثابت شدہ حقائق کی طرح یقینی سمجھا جانے لگاہے۔
آئے روز اخبارات و رسائل میں کسی نہ کسی عجیب و غریب روحانی مظہرکے بارے میں خبریں شائع ہوتی ہیں۔انہیں علم تحضیرالاروح کی اصطلاح میں ‘‘سیال جسم’’یا ‘‘مثیل الانسان’’{qluetip title=[(2)]}(2) مثیل الانسان:بعض نادر واقعات میں ایک انسان کو ایک ہی وقت میں دومختلف مقامات پر دیکھا گیا ہے۔ حقیقی انسان کے مقام سے دور اور مختلف مقام پراس کی ظاہرہونے والی صورت کو‘‘مثیل الانسان’’کہا جاتا ہے۔ (عربی مترجم){/qluetip} سے تعبیرکیاجاسکتاہے۔ایک انسان کو اس کی موجودگی کے مقام سے دورکسی دوسرے مقام پردیکھے جانے اوراس مثالی جسم سے عجیب و غریب قدرتوں اور صلاحیتوں کے ظہورپذیرہونے کے بارے میں بکثرت خبریں ملتی ہیں۔ ان کی حقیقت کچھ بھی ہو اتنی بات یقینی ہے کہ ارواح ایسی موجودات میں مادی اجسام کی بہ نسبت زیادہ سیال پن اور صلاحیتیں ہوتی ہیں، نیزوہ عام انسان کی بہ نسبت زیادہ آزادانہ نقل وحرکت کرسکتی ہیں۔مادے سے متجاوز یہ سیال پن اورگھومنے پھرنے کی صلاحیت مثالی جسم کے عام انسان کی بہ نسبت زیادہ متحرک و فعال ہونے کی طرف مشیرہے۔چونکہ اس سلسلے میں فرشتے روح سے بھی زیادہ صلاحیتیں رکھتے ہیں، اس لیے ان کاہمارے عالم میں جاری وساری طبیعی قوانین سے ماورا ہونا بالکل ظاہرہے۔
فرشتوں اورارواح کاکسی صورت میں ظاہر ہونا قدیم دورسے مشہورہے۔بہت سے اہل دل خصوصاً انبیائے کرام نے اس بارے میں اپنے مشاہدات کی عام لوگوں کے سامنے وضاحت کی ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام حسبِ موقع مختلف صورتوں میں ظاہرہوتے تھے۔اگرموقع پیام رسانی اور وحی پہنچانے کاہوتا تو وہ اس ذمہ داری کے مناسب حال شکل وصورت میں ظاہرہوتے اور اگر جنگ کے دوران ظاہرہوتے توجنگجو کی صورت اختیارکرتے۔ یہ سب تمثل کی مثالیں ہیں۔یہ تمثل عام فرشتوں کے بارے میں بالعموم اورحضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں بالخصوص منقول ہے، جو صحابی رسول حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں ظاہرہوتے تھے۔{qluetip title=[(3)]}(3) سیرأعلام النبلاء، الذھبی، ۲؍۵۵۳.{/qluetip} ایک اورفرشتہ جس کانام ہمیں معلوم نہیں جنگ احدمیں صحابی رسول حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی صورت میں ظاہر ہوا اورمشکل ترین حالات میں نبی اکرمﷺکے دفاع میں شام تک لڑتا رہا، اسی طرح غزوہ بدر میں بعض فرشتوں نے حضرت زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کی صور ت میں ظاہرہوکرمسلمانوں کے حوصلے بلند کیے۔
بعض اہل دل اوراولیائے کرام کے عالم بالا کی ہستیوں سے رابطے کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔خواب کے ذریعے اس رابطے میں شک کی گنجائش ہی نہیں۔عام لوگوں کو بھی اس کا مشاہدہ ہوتاہے۔ تقریباًہرانسان کو اس کامشاہدہ ہوتاہے کہ کوئی روح جسے وہ جانتا ہوتا ہے، خواب میں اسے ہدایات دیتی ہے یاکسی معاملے میں اس کی راہنمائی کرتی ہے، تاہم بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خواب محض لاشعورکانتیجہ ہوتے ہیں۔یہ دعوی کرکے وہ اس موضوع کوایسی تاریکی میں دھکیل دیتے ہیں،جہاں کسی کوکچھ سجائی نہیں دیتا۔ایسی جہالت سے خداکی پناہ!
ہم فرشتوں،تمثل اور روحوں کے موضوع میں دلچسپی رکھنے والوں کو خاص اس موضوع پرلکھی گئی کتابوں کی طرف مراجعت کرنے کامشورہ دیتے ہیں،لیکن بطورنتیجے کے اتنی بات ضرور کہیں گے کہ جس طرح ہرموجودچیزکی مثل آئینے میں ظاہرہوتی ہے، اسی طرح فرشتوں کے لیے ہرچیزآئینے کی مانند ہے اوروہ اس میں جلوہ گرہوسکتے ہیں،تاہم مادی اجسام کے برخلاف ان کا ظہور صرف صورت کی مانند نہیں ہوتا،بلکہ اپنی تمام ترصفات اورخصوصیات کے ساتھ ہوتاہے۔
اس بارے میں فرشتے یا روح کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ تنہا فردہے،کیونکہ وہ اپنی جگہ سے اپنا پرتو شعاع کی مانند، جس جگہ چاہے ڈال کر مطلوبہ فرائض سرانجام دے سکتا ہے۔ اس بارے میں دوری اورمسافت رکاوٹ بن سکتی ہے اورنہ ہی ان لوگوں کی کثرت جن تک پہنچنا مطلوب ہے۔جس طرح سورج تنہاہونے کے باوجودہرایسی جگہ پہنچ کر جہاں اس کی روشنی کو منعطف کرنے والاآئینہ موجودہو، اپنے اثرات ڈالتاہے،ایسے ہی نورانی مخلوق فرشتے کسی بھی جگہ ظہورپذیر ہوکرحیات وممات سے متعلق اپنی ذمہ داریں اداکرتے ہیں۔
مزیدبرآں حقیقت میں ارواح کوقبض کرنے والی ذات تواللہ تعالیٰ کی ہے۔حضرت عزرائیل علیہ السلام تومحض نگران اور واسطہ ہیں۔اللہ تعالیٰ ہرجگہ حاضروناظر ہیں اورایسے ایسے امور سرانجام دیتے ہیں، جن کا انسانی عقل تصوربھی نہیں کرسکتی۔اللہ تعالیٰ ایک لمحے میں اربوں مخلوقات کووجودبخشتے ہیں اوراتنی ہی مخلوقات کو فناکرتے ہیں۔ یہ وہ لامتناہی قدرت ہے، جو ہر لمحے ہرچیزکودیکھتی اورجانتی ہے اوروہ لامتناہی علم ہے، جس کاعقل تصوربھی نہیں کرسکتی۔اللہ تعالیٰ کائنات کے ذرے ذرے سے واقف ہیں،آنِ واحد میں ان ذرات کی بقدرکام سرانجام دیتے اور تمام مرنے والوں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔
روح قبض کرنے والے اللہ تعالیٰ ہوں یا ملک الموت، جس کی موت کا وقت آپہنچتا ہے وہ اپنی روح قبض کروانے کے لیے خوداس کی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔اسے ایک مثال سے سمجھئے:فرض کریں ہزاروں کی تعدادمیں ریڈیواور اینٹینا ہیں،جو کسی مخصوص فری کوئنسی پرکام کرتے ہیں۔ جب ہم اس فری کوئنسی پرکام کرنے والے ٹرانسمیٹرکابٹن دباتے ہیں تو ایک ہی وقت میں ان تمام ریڈیوں پر الفاظ اوربولنے والے کی آواز سنائی دیتی ہے۔اسی طرح مخلوق اپنے تمام تر عجز و فقرکے ساتھ قدرت وعزت کی مالک ہستی کی طرف متوجہ ہے اورجب اس کی تخلیق یاروح کی سپردگی کامقررہ وقت آتاہے وہ اپنی روح میں مخصوص اشارہ محسوس کرتی ہے۔ جب ایک عاجز انسان ایک بٹن دبا کر ہزاروں کلومیٹر دور پڑے آلات پراثراندازہوسکتاہے تو عجزو نقصان سے پاک اور قدرت والی ہستی جس کا ہماری ارواح وانفاس کے ساتھ گہراتعلق بھی ہے ،ہماری ارواح پر اثراندازہونے سے کیسے عاجزآسکتی ہے؟جبکہ انسان ایک زندہ مشین ہی توہے۔
اوپرذکرکردہ تفصیل سے قطع نظرقبض روح سے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔
۱۔ جیساکہ اوپرذکرہوا روح عطا اور قبض کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں۔ملک الموت کی حیثیت محض واسطے اورنگران کی ہے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو ارواح قبض کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے اور اوپرہم مثالوں سے اس کی وضاحت کرچکے ہیں کہ ایک ہی فرد یا فرشتہ تن تنہااس کام کوسرانجام دے سکتاہے۔
۳۔ بہت سے ملائکہ ایسے ہیں، جن کے تحت اوربہت سے ایسے ملائکہ کام کرتے ہیں، جنہیں بہت سے تکوینی امورکوسرانجام دینے اوران کی نگرانی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، لہٰذا ملک الموت کی سربراہی میں بہت سے فرشتے ہیں، جو روحوں کے قبض کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ان کی مختلف اقسام ہیں۔ایک قسم کے فرشتے اہل ایمان کی روحیں بغیرتکلیف پہنچائے آسانی سے قبض کرتے ہیں۔دوسری قسم کے فرشتے مجرموں کی روحیں تکلیف دہ انداز میں قبض کرتے ہیں اورایک تیسری قسم کے فرشتے ان روحوں کو تیزی سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں:﴿وَالنَّازِعَاتِ غَرْقاً o وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطاً o وَالسَّابِحَاتِ سَبْحاً o فَالسَّابِقَاتِ سَبْقاً o فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْراً ﴾ (النازعات:۱۔۵) ‘‘ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کافروں کی جان کھینچ لیتے ہیں اور ان کی جو مؤمنوں کی جان آسانی سے نکالتے ہیں اور ان کی جو تیرتے ہوئے جاتے ہیں پھر لپک کر آگے بڑھتے ہیں پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں۔ ’’لہٰذا ملک الموت کے تحت بہت سے ملائکہ کام کرتے ہیں، جنہیں وہ حکم خداوندی سے نیک بخت اور بدبخت لوگوں کی روحیں قبض کرنے کے لیے بھیجتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہاجاسکتاہے کہ اس میں آغاز سے ہی فکری انحراف پایا جاتا ہے۔ وہ انحراف فرشتوں کوانسان کے مشابہہ قراردیناہے، حالانکہ فرشتے تخلیق میں انسان سے مشابہت رکھتے ہیں اور نہ ہی ماہیت کے اعتبارسے ،نیزفرشتوں کے کام اور اقدامات بھی انسان کے کاموں اوراقدامات سے بالکل مختلف ہیں۔وہ انسانی روح کی طرح آن واحد میں مختلف مقامات پرظاہرہوکرمختلف کام سرانجام دے سکتے ہیں۔دورِحاضرمیں توروحوں کوحاضرکرنے اور غیرمرئی مخلوقات کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کابہت چرچاہے۔حیاتیاتی قوانین سے ماورا اور شعور رکھنے والے قوانین کی طرف مشیرہپناٹزم اورعلم روحانیات (Spirtualisim) وغیرہ ایسی سرگرمیاں عام ہو چکی ہیں۔
یہ بات اس قدرعام ہے کہ اس سے یقین کا فائدہ حاصل ہوتاہے، لہٰذا اس قسم کی مخلوقات سے مشابہت رکھنے والے فرشتے ان کی ذمہ داریوں سے کئی گناہ زیادہ کام کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔روحیں قبض کرنے کی ذمہ داری بطورخاص قابل ذکرہے،کیونکہ اس کاروائی کے دوران جس جاندار کی موت کاوقت آپہنچتاہے، وہ روح سپردکرنے کے لیے تیار اورآمادہ ہوتا ہے اورایک ہی فری کوئنسی کے ذریعے وہ ان فرشتوں سے وابستہ ہوتاہے، مزیدبرآں اس ذمہ داری کو محض ایک ہی فرشتہ سرانجام نہیں دیتا،بلکہ یہ ذمہ داری لاتعداد فرشتوں کے سپرد ہے۔ اگرہم جان کنی کے عالم میں مبتلا ہر شخص کی روح قبض کرنے کے لیے ایک مستقل فرشتے کوبھیجنے کوپیش نظررکھیں تو اس معاملے میں کوئی بھی بات باعث اشکال نہیں رہتی۔ واللہ اعلم
- Created on .