حسِّ شعور
انسان کے دائرہِ احساس میں داخل ہونے والی اشیاءکو اُن کے ظاہری اور باطنی خواص کے ساتھ‘ یعنی بیرونی اور اندرونی معنوں کے ساتھ سمجھنے کو حس کہتے ہیں ۔ اس لحاظ سے اس موضوع پرایک یا چند اشیاءکو بیک وقت سمجھ جانے والے شخص کو حسّاس کہاجاتا ہے۔
* * * * *
دماغ کے کسی چیز کو محسوس کرکے سمجھنے کو عقل کہتے ہیں جبکہ روح کے کسی چیز کو سمجھنے کو وجدان یا ضمیر کہا جاتا ہے۔ ان میں سے اول الذکر کی”جاننا“کہہ کر تعریف کی جائے تو آخرالذکر کو”حس“کہنا مناسب ہو گا۔ اسی ا عتبار سے وہ لوگ جو عقلِ کاہل کے مالک ہیں اورجن کا ضمیر مر چکا ہے اُن کے بارے میں یہ بات کسی حال میں بھی سوچی نہیں جا سکتی کہ اُنہیں ہستی کا کوئی احساس ہو گا یا ا ُنہیں ہستی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور حالات کا کچھ علم ہو گا۔
* * * * *
حکمت کے نقطہءنظر سے حس وہ وجدان یا ضمیر ہے جو بذاتِ خود روح کے ادراک کا ایک نظام ہے۔اِس لحاظ سے اِس کے یہ معنی ہوئے کہ بے حس انسان ایک طرح سے بے ضمیر انسان ہوتا ہے اور بے ضمیر انسان بے حس ہوتا ہے۔
* * * * *
زیادہ واضح الفاظ میں حِس‘ اپنے اندرونی شعور کے ذریعے اچھے اور خوبصورت کو برے اور بد صورت سے ممیز کرنے کا نام ہے کہ اس طریقے سے بہت سے انسانی اوصاف کا انکشاف کیا جا سکتا ہے۔ مثلاَ ” جب ہم اپنے دشمن کو قید کر لیتے ہیں تو کیا اُسے مار دینا چاہیے یا معاف کر دینا چاہیے؟“ یا پھر”اگر کوئی ہماری عفّت پر دھبہ لگائے تو کیا ہمیں بھی اُس کی عفّت پر دھبہ لگاناچا ہیئے یا اُس کے ساتھ انسانیت کے ساتھ پیش آنا چاہیے؟“ ہم ان صورتوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دیتے ہوئے ہمیشہ اِن معنوں میں استعمال کی جانے والی حِس کی مدد لیتے ہیں ۔
* * * * *
حِس کی تربیت اور نشوونما حکمت کے ذریعے ہوتی ہے۔ جہاں تک مادّی فلسفے کا تعلق ہے‘ وہ حس کو بجھاتا اور کُند کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر مسئلے کو لے جا کر عقل سے وابستہ کرنے والے لوگ حِس کی روشن دنیا کو کبھی بھی پہچان نہیں سکتے۔
* * * * *
صحیح حِس کے لیے بے غرض اور بے لوث ادراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور حقیقی اور مکمل ادراک حقیقی اور مکمل حِس سے معرضِ وجود میں آتا ہے۔
* * * * *
بے حس اور بے ضمیر لوگوں کی تمام فتوحات مکمل طور پر حیوانی فتوحات ہوتی ہیں ۔ اِن فتوحات میں سے ہر فتح ذلت اور رسوائی کے ایک سلسلے پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ بالآخر جسمانیت کے ایک خونخوار حد تک پہنچنے‘ نفسانیت کے دوزخ کے سب سے گہرے گڑھے میں تبدیل ہو جانے‘ روح کے ہاتھ پاﺅں کے ٹوٹ جانے اور ضمیر کے نظام کے مفلوج ہو جانے پر ختم ہوتا ہے۔
وہ لوگ جن کے ضمیر دین‘ وطن اور قوم پر نازل ہونے والی مصیبتوں کے اضطراب اور درد کو محسوس کرتے ہیں ‘ وہ ایک طرح کی ایسی بلند پایہ روحیں ہوتی ہیں جو اپنے عالمِ حسّاسیت کے باعث خواب سے بیدار ہو چکی ہوتی ہیں ۔یہ لوگ ان علوی اقدار کی خاطر جنہیں وہ دل و جان سے چاہتے ہیں ‘ خوشی خوشی اپنی جان تک قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جہاں تک بے حس اور بے شعور لوگوں کا تعلق ہے تو وہ قربانی کے بارے میں زبانی خواہ جو کچھ کہتے رہیں ‘ ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اپنے منہ سے نکلنے والی باتوں میں سے چھوٹی سے چھوٹی بات پر ہی عمل بھی کر سکیں ۔
* * * * *
خواہ اپنا نقصان ہی موضوعِ بحث کیوں نہ ہو‘ اگر ایک انسان دوسروں کا خیال رکھنے‘ اُن کے لیے اپنی زندگی وقف کردینے‘ اُن کے دکھوں اور خوشیوں میں شریک ہونے جیسی خصلتوں ( جن میں سے ہر خصلت بذاتِ خود ایک قدر کا درجہ رکھتی ہے)کا مالک ہے تو اُس شخص کی اِن خصلتوں کا سبب اُس کی روحانی حس کی مضبوطی ہے۔جو لوگ ایسی حس سے مکمل طورپر محروم ہوتے
ہیں اُن میں یہ ساری خصلتیں تو ایک طرف‘ایسی ایک آدھ خصلت کی موجودگی کا دِکھائی دینا بھی ناممکن ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں میں فضیلت اور جوانمردی کے نام سے پائی جانے والی خصوصیات کی بات کریں تو اِن لوگوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جو دوسرے موسیقاروں کے بنائے ہوئے نغموں کی نغمہ سرائی کے دوران اپنی آواز میں منمنا کر کسی حصّے میں شریک ہوجاتے ہیں تاکہ اُنہیں بھی موسیقار سمجھا جائے۔
* * * * *
حِس کا بلندترین درجہ یہ ہے کہ اگر دینی اور قومی اقدار سے زیادتی کی جا رہی ہو تو انسان پر ایک ایسا اعصابی بخار طاری ہو جائے جو حسّاس روحوں کو ملیریے کے بخار کی طرح ہلا کر رکھ دے‘ اورنتیجے کے طور پروہ اُن لوگوں سے سختی کا برتاﺅ کرے جو یہ زیادتی کر رہے ہوں ۔ اس رویہ کو ہم ”حمیت“ بھی کہہ سکتے ہیں ۔
* * * * *
جہاں اقدار تہس نہس ہو جائیں ‘ اعلیٰ اور ارفع اقدار زمین بوس ہو جائیں ‘ وہاں روح جو خفقان اور اضطراب محسوس کرتی ہے اُسے ”حمیت“ کہتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی واضح خاصیت ہے جو حقیقی انسان اور انسان کی شکل کی دیگر مخلوقات کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔بلندی پرموجود اُس بلند ترین روح سے لے کر موجودہ زمانے کے مضطرب انسانوں تک وہ تمام دردبھرے ذہن جو بخُورات کی دھونی دینے والے برتن کی طرح مسلسل سلگتے رہتے ہیں ‘ اپنے اس جلتے ہوئے بخار کے ساتھ کبھی پہاڑوں کی چوٹیوں پر‘ کبھی غاروں میں اور کبھی مزاروں پر اٹھتے بیٹھتے‘ گھومتے پھرتے‘ سوچ میں گُم‘ تڑپ تڑپ کر کراہتے اور بے حال ہوتے رہتے ہیں ۔اور میرے خیال میں تاریخ کے نہایت شاندار ادوار کے معمار بھی یہی حسّاس اور صاحبِ حمیت قہرمان ہیں ۔
- Created on .