انسان
انسان ایک بلند جذبات سے مزین ہستی ہے جِس میں فضیلت کی اِستعداد اور ابدیت کے لئے جنون پایا جاتا ہے۔ایک سب سے زیادہ حقیر دکھائی دینے والے انسان کی روح میں بھی خوبصورتی کے عشق اورفضیلت کے احساس کی پیدا کردہ ابدیت کی سوچ یوں موجود ہوتی ہے جیسے قوسِ قزح۔اس شخص کے بلندیوں پر پہنچ کر ابدیت سے ہمکنار ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس کی شخصیت میں پائی جانے والی یہ قابلیتیں کِس حد تک پھلتی پھولتی ہیں ۔
* * * * *
انسان کی انسانیت اس کی فانی حیوانی جسم میں نہیں بلکہ اس کی ابدیت کی متلاشی اور عاشق روح میں تلاش کرنی چاہیے۔ وہ جب کبھی روح کی طرف سے غفلت برتتے ہوئے محض اپنے جسم کے قابو میں ہوا تو کبھی بھی نقطہِ تسکین و تشفّی تک نہ پہنچ سکا‘اور نہ ہی کبھی مطمئن کیا جا سکا۔
* * * * *
سب سے خوش قسمت اور دلشاد انسان وہ ہے جس کا وجدان ہمیشہ اگلے جہان کے عشق اور اشتیاق سے سرمست رہتا ہو ۔وہ لوگ جو اپنی زندگی جسم کی محدود‘ تنگ اور گلا گھونٹنے والی قید میں رہ کر گزار دیتے ہیں وہ خواہ محلوں میں ہی کیوں نہ ہوں پھر بھی قید میں ہی سمجھے جاتے ہیں ۔
* * * * *
ہر انسان کا سب سے پہلا اور بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو منکشف کر کے پہچانے‘ اور اس وسیلے سے اپنی روشن شدہ حیثیت کے عدسے سے اپنا رخ رب کی طرف موڑ لے۔وہ بد بخت لوگ جو اپنی حیثیت کو پہچان کر اپنے آپ کو نہیں جانتے‘اور جو اپنے خالقِ اعظم کے ساتھ رشتہ نہیں جوڑ سکتے وہ اپنی زندگی اس طرح گزار دیتے ہیں جیسے ایک حمّال جو اپنے کاندھوں پر خزانہ اٹھائے ہوے ہو مگر اسے اس کا علم نہ ہو۔یہ لوگ اسی حمّال کی طرح زندگی گزار کر مر کھپ جاتے ہیں ۔
* * * * *
اگر چہ انسان اپنی ذات میں تو ایک عاجز ہستی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ قدرت ِلا متناہی پر انحصار رکھنے کے وسیلے سے نہایت اعلیٰ اقدار کا مالک بن جاتا ہے۔ جی ہاں ! یہ اُس قدرتِ لا متناہی پر آسرا رکھنے ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ قطرے سے آبشار‘ ذرّے سے سورج‘ اور گدا سے سلطان بن جاتا ہے۔
* * * * *
انسان اپنے وجود اور حادثات(واقعات) کی کتاب کے ساتھ گہرا تعلق پیدا کر کے جتنا اس کے ساتھ زیادہ یک جان ہو جاتا ہے اُتنا ہی اُس کے دل کی دنیا میں حکمت کی روشنیاں ظاہر ہوتے لگتی ہیں ۔ اس وسیلے سے وہ اپنی اصلیت کو جان جاتا ہے‘معرفتِ اللہ تک پہنچ جاتا ہے اور پھر رخصت ہو کر اللہ تعالےٰ سے واصل ہو جاتا ہے۔مناسب یہی ہے کہ سوچ کی سطح پر جس سیر سیاحت کے حقیقت میں بدلنے کا ارادہ ہو اُسے انکار اور الحاد سے نہ باندھا جائے۔
* * * * *
حقیقی انسان وہ ہے جو دوسری جاندار چیزوں کے ساتھ مشترک حرکات‘ مثلاََ نسل کشی اور اپنی نوع کے دوام کے سلسلے میں کئے جانے والے کام‘ اس شعور سے کرتا ہے کہ وہ فرض ہیں اور پھر اِنہیں ضرورت کی حدود میں رہتے ہوئے سر انجام دیتا ہے۔ وہ لوگ جو بغیر کسی حدوحساب کے جسمانی لطف اندوزی میں پھنسے رہتے ہیں وہ انسان اور دوسری موجودات کا درمیانی فاصلہ کم کرنے اور انسانی حدود میں کھچاﺅ پیدا کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
- Created on .