بلائے زبان
بسیار گفتاری ایک بیماری ہے جوذہنی اور روحانی تناسب کے فقدان کا اظہار کرتی ہے۔ قابلِ قبول الفاظ وہ ہیں جنہیں سمجھنے کے لئیے مخاطب کو اپنا سر نہ پٹخنا پڑے اور اُسے مختصراََ مُدعاءبیان ہو جائے۔ اپنے مخاطب کو چند باتیں بتانے کے لئیے لمبی چوڑی بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ اکثر اوقات لمبی بات اپنے ہمراہ ایک طرح کے نقصانات بھی لے آتی ہے۔کیونکہ زیادہ الفاظ باہمی تضاد سے خالی نہیں ہوتے اور باہمی تضاد دوسری طرف کے ذہن میں قسم قسم کے نئے سوالات کھڑے کر دینے سے عاری نہیں ہوتے۔ ایسی صورتِ حال مخاطب کے لئیے فائدہ مند ہونے سے زیادہ نقصان دہ بن سکتی ہے۔
* * * * *
عقلمند انسان وہ ہے جو خود بات کرنے کی بجائے ایسے اشخاص کوبات کرنے دیتا ہے جو نہ صرف خود اس کے لئیے بلکہ دوسروں کے لئیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں ۔اصل میں وہ شخص جن کی عقل کائناتی فنون اورعلوم سے اور دل الٰہی اِستعداد سے پُر ہو اور وہ لوگ جو پختگی کی سطح تک پہنچ چکے ہوں اُن کی موجودگی میں دوسروں کا بات کرنا بے ادبی ہوتی ہے۔اوراُن کامل روحوں کا خاموشی اختیار کیے رکھنا معاشرے کے لئیے محرومیت ہوتا ہے۔
* * * * *
کم بولنا اور زیادہ سننا فضیلت اور پہنچا ہوا ہونے کی علامت ہے۔ متواتر بولتے چلے جانے کی خواہش اگر ہمیشہ پاگل پن نہ سمجھی جائے تو بھی یقینا اس کے توازن کا فقدان اور بے حیائی سمجھے جانے میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے۔
* * * * *
کہا جانے والا ہر لفظ ایسا ہونا چاہیے جس کا مقصد ایک مسلئے کا حل یا ایک سوال کا جواب مہیا کرتا ہو۔بات کرتے ہوئے سوال پوچھنے والے کو اور دوسرے سامعین کودِق کر دینے سے ہر صورت احتراز کرنا ضروری ہے۔
* * * * *
انسان کا جہاں بولنا ضروری ہو وہاں بولنا‘ اور جہاں خاموش رہنا ضروری ہو وہاں خاموش رہنا تو قدرتی بات ہے۔مگرایک بات ہے کہ جن لوگوں کا بات کرنا زیادہ مفیدثابت ہو سکتا ہے اُن کے بات کرنے کوہمیشہ ترجیح دینی چاہیے۔یہ بھی تو ہرشے سے پہلے اس بات پر منحصر ہے کہ اس میں ادب کا کس حد تک دخل ہے اور خاموش رہنے کی کتنی فضیلت ہے۔ ہمارے بڑوں نے
کیا عمدہ بات کہی ہے :”تمہارا بولنا اگر چاندی ہے تو تمہارا خاموش رہنا سونا ہے۔“
* * * * *
انسان اپنی قدروقیمت زیادہ باتیں کرنے سے نہیں بڑھاتا بلکہ اس بات سے بڑھاتا ہے کہ اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ صحیح موقع پر کہے گئے ہوں اور مفید ہوں ۔ اس کے برعکس ایسا شخص جوہر جگہ جو منہ میں آئے بولتا چلا جائے خاص کر جب اس کی کہی ہوئی باتیں بلند پایہ معنی رکھنے والے اور فنی مہارت کا مطالبہ کرنے والے موضوع سے متعلق ہوں ‘ وہ ایک تو کئی غلطیوں کامرتکب ہو سکتا ہے اور دوسرے اپنی قدروقیمت کھو سکتا ہے۔
”زیادہ بولنے والے کی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں ۔“ کس قدر موزوں اور قیمتی ہیں یہ الفاظ۔
* * * * *
انسان اپنی گفتگو سے اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے اور اپنے طرزِ عمل سے اپنی روح کی عظمت کو منعکس کرتا ہے۔ وہ باتونی لوگ جو کسی کو بولنے ہی نہیں دیتے‘ جیسے ہر لفظ کا صرف اُنہی کے منہ سے نکلنا لازمی ہو‘ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام دوستوں کی نفرت اور حقارت کا شکاربننے لگتے ہیں ۔اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگرکبھی کبھار اُن کے منہ سے عمدہ الفاظ بھی نکل جائیں تو اُنہیں بھی کوئی شخص غور سے نہیں سنتا۔بعض اوقات بہت سی عمدہ حقیقتیں محض اِس وجہ سے معمولی سی لگتی ہیں کہ وہ ایک باتونی شخص نے کہی ہوتی ہیں ۔اِس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ ان عمدہ حقیقتوں کی بے حرمتی اور بے عزتی کی گئی ہے۔
* * * * *
کم کھانے اور کم سونے کی طرح کم بولنا بھی عرصئہ دراز سے پختہ کارلوگوں کا شعار رہا ہے۔ روحانی استعدادوں کی افزائش کے لیے انسان کو جس چیز کی سب سے پہلے سفارش کی جاتی ہے وہ ہے اپنی زبان کو قابو میں رکھنا‘ غیر ضروری اور نا مناسب باتوں سے اجتناب کرنا۔ کیونکہ اس بات کا بڑا احتمال ہے کہ ہر جگہ منہ کھول کر جو منہ میں آئے کہہ دینے والوں کی زبانیں ‘ جو کہ اُن کے سروں اور دلوں سے بھی بڑی ہوتی ہیں ‘ اُن کے اِس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی مسلسل گمراہ ہو جانے کا سبب بنی رہیں ۔
* * * * *
جو لوگ کچھ بھی نہ کرنے کے باوجودبہت کچھ کرچکنے کا دعویٰ کرتے ہوں اُن کا حال توبالخصوص قابلِ رحم ہوتاہے اور اُن کے بارے میں دوسروں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اِسی اعتبار سے سب سے سچی بات کہنے والے(رسولِ کریم)کے بیان میں ایک زبان کی اور دوسرے دو ٹانگوں کے درمیان والی جگہ کی حفاظت کرنا جنّتوں کی طرف پرواز کرنے کے لیے سب سے ابتدائی وسیلوں میں شمار کیا گیا ہے۔
* * * * *
کوئی شخص زیادہ بولنے‘ اپنی بات کو پسند کرنے‘دوسروں کو بات کرنے کا حق نہ دینے جیسی بیماریوں سے جس قدردور رہتا ہے اُتنا ہی اپنے خالق اورعوام کے زیادہ قریب اور اُن کی نگاہوں میں عزیز ہوتا ہے۔بہ صورتِ دیگروہ شخص نہ حقِ تعالیٰ سے اور نہ ہی خلقِ خدا سے کوئی ایسی شے پا سکے گا جس کی اُس نے اُمید لگا رکھی ہو۔
- Created on .