صنعت وفن
صنعت ترقی کی روح ہے او یہ راہ اُن راہوں میں سب سے اہم راہ ہے جو جذبات و احساسات کا انکشاف کرواتی ہیں ۔ وہ بدقسمت ذکی لوگ جو اس راہ پر چلنے کا موقع گنوا دیتے ہیں وہ زندگی بھر بالکل مفلوج لوگوں کی طرح اپنے ایک پہلو کے بغیر ہی گزارہ کرتے ہیں ۔
* * * * *
صنعت‘ خفیہ خزانوں کا پتہ چلا کر اُنہیں کھولنے والی ایک جادو کی چابی کی طرح ہے۔ اس سے کھلنے والے دروازوں کی دوسری طرف سوچیں اپنا مخصوص لباس پہنتی ہیں اور خیالات عموماََ اجسام کی صورت اختیار کرتے ہیں ۔
* * * * *
اگر انسان کو سمندروں کی بے پایاں وسعتوں اور گہرائیوں میں ‘ آسمانوں کی بلندیوں اور نیلگوں فضاﺅں میں گھما پھرا کرسیر کرانے والی کوئی خیالی فاختہ ہو سکتی ہے تو وہ بھی صنعت ہے۔ صنعت کی بدولت انسان زمینوں اور آسمانوں کی وسعتوں میں بادبان کھول کر وہاں جا پہنچتا ہے جہاں سے اُسے زمان اور مکان کی قید سے ا ٓزاد فضاﺅں کے تاثرات اور احساسات حاصل ہوتے ہیں ۔
* * * * *
صنعت و فنون ان عوامل میں سر فہرست آتے ہیں جو انسانی احساسات کی حفاظت کر کے ہر لمحہ ان احساسات کو بلند ترین ہدف دکھا کر حساس روحوں کو ایک گہرائی سے دوسری گہرائی تک پہنچاتے ہیں ۔ اگر صنعت و فنون نہ ہوتے توہم انسان کی مداخلت اور اختراعات کی وساطت سے معرضِ وجود میں آنے والی دورِ حاضر کی دلکش اشیاءمیں سے ایک بھی نہ دیکھ سکتے۔ اور وہ متعلقہ آتشیں فنکار روحیں بھی اپنی تمام تجاویز‘منصوبوں اور تصورات سمیت زمین دوز ہو کر دنیا سے جا چکی ہوتےں ۔
* * * * *
بنی آدم کی باطنی گہرائیوں کی منظر کشی کرنے والی سب سے پہلی تصویر فن ہے۔جی ہاں ! فن ہی کی بدولت سب سے گہرے انسانی جذبات اور خیالات‘ سب سے دلکش علامات‘ سب سے جذباتی آرزوئیں یوں قلمبند کر دی گئی ہیں جیسے وہ سب ایک ہی ریکارڈ میں محفوظ کرکے ابدی بنا دی گئی ہوں ۔
* * * * *
ایمان کے ساتھ فن کی رفاقت ہی کی بدولت یہ پُر شکوہ دنیا تتلیوں کے پروں جیسے خوبصورت نقوش پر مشتمل دلکش اشیاءکی ایک ایسی گیلری بن چکی ہے جس میں بپھرے ہوئے گھوڑوں کی طرح عباد ت گاہیں ‘ شہادت کی انگلیوں کی طرح اگلے جہان کی طرف اشارہ کرتے محراب‘ سنگِ مرمر کے ماتھے پر وہ مبارک ڈیزائن اور امتیازی نشان جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی پیغام کا حامل ہے‘ قسم قسم کی خطاطی کے فن پارے‘ چم چم کرتے سونے کے جڑاﺅ زیورات‘اور کبھی ماند نہ پڑنے والی میناکاری جیسی وہ اشیاءہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر کبھی جی نہیں بھرتا۔
* * * * *
حقیقی علم خود کو فن کی رفاقت میں ہی ظاہر کرتا ہے۔ جب تک کوئی شخص اپنی بنائی ہوئی فن کے نام کی کوئی شے بھی سامنے نہیں لا سکتااُس کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے۔
* * * * *
انسان کی مہارتوں کے جاندار ہونے کا اُن کی فنّی روح سے بڑا قریبی تعلق ہے۔ فن سے عاری ایک شخص اگر مردہ نہیں تو زندوں میں بھی شمار نہیں ہو سکتا۔
* * * * *
اگر ماہر فنکار کسی کے بڑی کوشش سے بنائے گئے تمام فن پاروں کو مروّجہ فیشن کے خلاف‘ نا قابلِ اعتبار‘یا نا پسندیدہ قرار دیتے ہیں تو اِس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ متعلقہ شخص ان فن پاروں کی شکل اور روح میں تمیز نہ کر سکا ہو۔
* * * * *
لوہے کو سونے سے اور تانبے کو کانسی سے زیادہ قیمتی بنانے والی چیز فن ہے۔جی ہاں ! فن کی بدولت نہایت کم قیمت دھاتیں سونے‘ چاندی اور الماس سے بھی زیادہ قیمتی ہو جاتی ہیں ۔
* * * * *
جس طرح ہماری سوچ کی حدود میں آنے والے تمام فنونِ لطیفہ انسان کو فنکاروں کی مبارک روحوں کی طرف سے پیش کردہ ابدی تحائف ہیں ‘ اسی طرح ہمیں وقت بتانے والی گھڑیوں سے لے کر ان عینکوں تک جو ہماری کمزور نظر کو طاقت حاصل کرنے میں مدددیتی ہیں ‘ دور دراز فاصلوں کو قریب لانے والے وائرلیس اور ٹیلیفون سے لے کردنیا بھر کے چاروں گوشوں سے آوازوں اور صورتوں کو کھینچ کر ہمارے رہائشی کمروں میں منعکس کرنے والے ٹیلی وژن تک‘ ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک اٹھا کر لے جانے والی ریل گاڑیوں ‘ بسوں اور طیاروں سے لے کرخلائی شٹل اورہوائی جہازوں تک انسانیت کے لیے امن اور خوشحالی کا وسیلہ سمجھے جانے والے تمام ذرائع بھی اِن لطیف روحوں کے ہی کارنامے ہیں جن کے دروازے فن کے لیے کھلے ہیں ۔
* * * * *
وہ تمام روحیں جن کے د روازے فن کے لیے بند ہیں اور جن کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے‘ اُن کا نہ خود اُنہیں ‘ نہ اُن کے خاندان کو‘ اور نہ ہی اُن کی قوم کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ بلکہ وہ ایک طرح کے ایسے ناکارہ اژدھام پر مشتمل ہوتے ہیں جو فائدو مندہونے کی بجائے ضرر رساں بھی ہو سکتاہے۔
- Created on .