ا نسانیت
انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں اچھے برے طرزِ عمل کے تمام طریقوں کو اپنے نفس کا ترازو قبول کر کے‘ ہر شے کا اِسی سے وزن کیا کرے۔ جو چیزیں اُس کے نفس کو پسند آئیں وہ دوسروں کے لیے بھی پسند کرے اور جو اشیاءخود اُس کے نفس کو نہ پسند آئیں ‘اُن کے بارے میں اپنے دل سے یہ بات ہرگز نہ نکالے کہ وہ اوروں کو بھی پسند نہیں آئیں گی۔ اس طرح وہ نہ صرف غلط طرزِ عمل سے بچ جائے گا بلکہ دوسروں کو رنجیدہ کرنے سے یھی بچ جائے گا۔
* * * * *
اگر آپ یہ سوچیں کہ آپ کے ساتھ کیئے گئے احسانات نے کیسے آپ کے وجدان کو نرم کر دیاتھا اور آپ کے اندر اپنے محسن کے لیے محبت اور دلچسپی پیدا کردی تھی‘تو آپ پر ایک ایسی راہ کا انکشا ف ہو سکتا ہے جس کے ذریعے آپ بھی دوسروں کے دلوں میں اپنے لیے محبت اور دلچسپی پیدا کر سکتے ہیں ۔” انسان نیکی کا غلام ہے“ نیکی بھی ایک مضبوت پناہ گاہ ہے اُن لوگوں کے خلاف جن سے انسان کو شر کا اندیشہ ہو۔
* * * * *
ا نسان کی پختگی اوراُس کا کمال اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حق پرستی کو ہاتھ سے چھوڑے بغیر جہاں تک ممکن ہو ان لوگوں کے ساتھ بھی نیکی ہی کرے جنہوں نے اُس سے بدی کی ہو۔جی ہاں ! انسان کو چاہیے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں اُسے بدی سے دوچار ہونا پڑا ہو اُن کے ساتھ بھی مروت اور انسانیت کے مطابق سلوک کرنے سے باز نہ آئے۔ اس لیے کہ برائی کرنا ایک حیوانی فعل ہے۔برائی کا برائی سے مقابلہ کرنا انسان کے لیے ایک سنگین قصور اور اس کے اندر ایک اہم کمی ہے۔ جبکہ برائی کا اچھائی سے بدلہ لینا جوانمردی اور عالی ظرفی ہے۔
* * * * *
دوسروں کے لیے مفید ثابت ہونے کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔جو شخص عالی ہمت ہو وہ دوسروں کے لیے اپنی روح کو قربان کر دینے کی حد تک بے غرض ہو سکتا ہے۔البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ا س طرح کی عالی ظرفی کا انسان کے لیے ایک فضیلت ہونااُس کے خلوص‘ اُس کی بے غرضی اور نیت کی صفائی پر اور اس بات پر منحصر ہے کہ وہ نسلی اور قبائیلی تعصب سے کتنا دور ہے۔
* * * * *
کسی شخص کی انسانیت اور مروت‘دوست و احباب سے اس کی قربت اور اس قربت کے قائم و دائم رہنے پر منحصر ہے۔ان پر اس قربت کا اظہار کیئے بغیر مروت کا دَم بھرنا محض ایک خیالی دعویٰ ہے۔ ان کے ساتھ کی جانے والی نیکیوں کو اُن نیکیوں سے جا ملانا جو اُنہوں نے ہمارے ساتھ کی ہوں ‘ اور پھر گھڑی گھڑی اپنی طرف سے کی جانے والی نیکیوں کو روک کر اُنہیں سزا دینا ہماری روح کی ناپختگی اور حقیقت تک نہ پہنچے ہوئے ہونے کی علامت ہے
* * * * *
ایک انسان دوسروں کے ساتھ جو بڑی بڑی نیکیاں کرتا ہے اُن میں سے ایک نیکی یہ ہے کہ اُن کی نامناسب حرکتوں سے نظر چرالی جائے اور اُن کی غلطیوں پر آنکھیں بند رکھی جائیں لوگوں کے قصور تلاش کرنا بے ادبی ہے اور ان قصوروں کا دائیں بائیں ڈھنڈورا پیٹنا ایک نا قابلِ معافی عیب ہے۔ جہاں تک اُن سے سرزد ہونے والی برائیوں کا اُن کے منہ پر ذکر کرنے کا تعلق
ہے تو وہ ایک ایسی چوٹ ہےجو لوگوں کو ایک دوسرے سے وحدت کے بندھن میں باندھ رکھنے کی بھائی چارے کی زنجیر پر پڑتی ہے۔کاش کہ اس طرح کی چوٹ سے لوگوں کی رنجیدہ ہو جانے والی خودی نئے سرے سے جڑ سکتی اور اُن کی وحدت دوبارہ قائم ہو سکتی ۔
* * * * *
جو لوگ دوسروں سے کی گئی بڑی سے بڑی نیکیوں کو غیر اہم سمجھتے ہیں اور دوسروں کی طرف سے کیئے گئے چھوٹے چھوٹے احسانات کو بڑا سمجھتے ہوئے اُن کی تعریف کرتے ہیں وہ ایسے کامل انسان ہیں جو خُداوندانہ اخلاق کی بلندی پر پہنچ چکے ہےی اور جن کے وجدان امن اور سکون پا چکے ہیں ۔اس قسم کے لوگ نہ تو اپنی طرف سے کی گئی اچھائیوں کو اُچھالتے ہیں اور نہ ہی اپنے ساتھ ہونے والی لا تعلقی کی شکایت کرتے ہیں ۔
- Created on .