تمدن(تہذیب)
تمدن‘ امیری‘ ظاہری شرافت‘ جسمانی خواہشوں کے پورا کرنے اور مادّی عیاشیوں کے سمندر میں تیرتے پھرنے کا نام نہیں ہے۔تمدن‘ دل کی امیری‘ روح کی شائستگی‘ نظر کی گہرائی‘ اور دوسروں کے زندہ رہنے کے حق کو ماننے اور اُنہیں قبول کرنے کا نام ہے۔
حقیقی تمدن ہمیشہ ان ممالک میں پروان چڑھ سکا ہے جہاں سائینس اور اخلاق کو ایک ساتھ آگے بڑھایا جاتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ مغربی تمدن جو ہر چیز کو محض سائینس سے شرو ع کرتا ہے ہمیشہ مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے‘جب کہ مشرقی تمدن (جو ایمان اوراخلاقی فلسفے کا گہوارہ تو ہیں مگر) خود کو سائینس سے بچا کر اپنی ذات کے اندر محدود ہو چکے ہیں ‘وہ حالِ حاضر کے مطابق جزوی طور پر ہی سہی‘ وحشت کا شکار ہو چکے ہیں ۔مستقبل کا تمدن وہ ہو گا جو مغرب کی سائینس ا ور فنون اور مشرق کے ایمان اور اخلاقی فلسفے کی نرسری میں بڑا ہو کرپھلے پھولے گا۔
* * * * *
وہ تمدن جس کا انحصار اخلاق اور فضیلت پر نہیں ہو گا‘ اور جو عقل اور ضمیر کے تالابوں سے سیراب نہیں ہو گا وہ انسانیت کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ محض گنے چنے امیروں کی‘ اور چند ہوس پرستوں کی ہوس کی خدمت کے لیے وقتی طور پر منایا جانے والاچراغاں ہو گا۔ حیف ہے ان لوگوں پر جو اس چراغاں کی جلتی بجھتی روشنیوں کے دھوکے میں آ جاتے ہیں !
* * * * *
یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ تمدن طبعی سائینس اور مختلف فنون سے بہت آگے نکل جانے پر‘ سمندری اور ہوائی جہازوں ‘اور ریل گاڑیوں جیسے جدید وسائل کے مالک ہونے پر یابڑے بڑے شہروں ‘ کھلی کھلی سڑکوں اور بلند عمارتوں میں زندگی گزارنے پر مشتمل ہے۔ صاحبِ ایمان اور دیانتدار لوگوں کی نظر میں ان سب اشیاءکوجن میں سے ہر ایک تمدن کا وسیلہ گردانی جاتی ہے‘ تمدن کے طور پر قبول کر لینا محض سراب ہے‘اس کے سِوا کچھ بھی نہیں ۔
* * * * *
لوگوں کا مہذب اور متمدن ہونا اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنی ذات میں پائی جانے والی اعلیٰ خوبیوں کی اصلاح کرتے کرتے اُنہیں کس حد تک اپنی دوسری فطرت بنالیا ہے۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا متمدن ہونا اُن کے لباس سے اور ہر طرح کے مادی ذوق سے استفادہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے‘ تو وہ ایک طرح سے اُ ن لوگوں میں شمار ہوں گے جو صحیح تخمینہ لگانا نہیں جانتے۔ ایسے لوگ درجنوں جسمانی زندگیوں کے بوجھ تلے پسے جانے والے بدبخت ہیں ۔
* * * * *
اس میں کوئی شک نہیں کہ وحشی اور بدوی قومیں خونخوار‘ ظالم اور لٹیری ہوتی ہیں ۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چونکہ ان قوموں کے اس رجحانِ طبع سے ہر کوئی بڑی اچھی طر ح واقف ہے اس لیے یہ لوگ اوروں کے لیے زیادہ ضرر رساں نہیں ہوتے۔ یہ تو ٹھیک ہے مگر آپ اُن ” مہذب بدوﺅں “ کے بارے میں کیا کہیں گے جو جدید ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں اورہر وقت خون پینے کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں !
* * * * *
اگر کسی قوم کواپنے تشخص کے بارے میں لیکچر دینا پڑ جائے توتہذیب و تمدن سے متعلقہ اس مجوزہ لیکچر کا ضروری مواد اس قوم کی علمی‘ اخلاقی اور تکنیکی تصانیف پر مشتمل ہونا چاہیے۔ کیونکہ اجتماعی تربیت‘ مختلف قسم کے ہنر‘ اور صنعتیں اور آرٹس ہی تمدن کو ایک پیکر عطا کرتے ہیں ۔ جہاں تک اخلاق کا تعلق ہے تو یہ ایک بلیغ زبان کی حیثیت سے کسی قوم کے تمدن کومشتہر کرتا ہے۔
- Created on .