بین المذاہب مکالمہ
ان دنوں لوگ کئی چیزوں مثلاً جنگ کے خطرات آئے روز ہونے والے تصادم ‘ فضائی اور آبی آلودگی ‘ بھوک روبہ تنزل اخلاقی اقدار اور اسی قسم کے دیگر موضوعات کے بارے میں لب کشائی کررہے ہیں جس کے نتیجے میں کئی دیگر موضوعات سامنے آئے ہیں مثلاً امن ‘ اطمینان ‘ ماحولیات ‘ ا نصاف ‘ رواداری اور باہمی مکالمہ جیسے معاملات ابھررہے ہیں بد قسمتی سے ماسوائے چند موثر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے والے فطرت کو مزید زیر نگیں اور قابو میں لانے اور مزید مہلک ہتھیار بنانے میں کوشاں ہیں ۔ذرائع ابلاغ فحش لٹریچر کو فروغ دے رہے ہیں خصوصا انٹرنیٹ کے ذرےعے ۔
اس مسئلے کی اصل جڑ در اصل مادیت پسندانہ تصور میں پیوست ہے ‘ جس نے عصری سماجی زندگی میں مذہب کا عمل دخل بری طرح سے محدود کردیا ہے ‘ اور اس کا نتیجہ انسانیت اور فطرت کے مابین اور انفرادی سطح پر مرد وزن کے مابین توازن کے بگاڑ کی صورت میں نکلا ہے ۔
صرف چند لوگوں کا اس بات کا احساس ہے کہ سماجی ہم آہنگی ‘نظام فطرت کے ساتھ موافقت ‘انسانوں کے مابین امن واتفاق اور فرد کی ذات کے اندر حسن ترتیب ‘ صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب زندگی کے مادی اور روحانی پہلوﺅں میں باہمی مفاہمت اور جوڑ پیدا ہوگا ۔ نظام فطرت کے ساتھ موافقت ‘ سماج میں امن وانصاف اور تکمیل ذات صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب بندہ اپنے رب کے ساتھ جڑا ہو۔
مذہب بظاہر متضاد چیزوں مثلاً مذہب اور سائنس ‘ دنیا وآخرت ‘فطرت اور صحائف آسمانی ‘ مادیت اور روحانیت اور روح وجسم میں ہم آہنگی اور مفاہمت پیدا کرتا ہے مذہب سائنسی مادہ پرستی سے ہونے والے نقصانات کے خلاف ایک مضبوط دفاع کا کام کرتا ہے سائنس کو اس کے درست مقام پر لاتا ہے اور اقوام اور لوگوں کے مابین تصادم کو ختم کرتا ہے ۔
فطری سائنس ایک روشن زینے کی بجائے جوکہ رب کائنات سے قربت کا ذریعہ بنتی بے یقینی اور بے اعتقادی کا ایک ایسا ذریعہ بن چکی ہیں جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی کیونکہ مغرب اس بے اعتقادی کا اصل مرکز بن چکا ہے اور عیسائیت اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اس لئے عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین مکالمہ ناگزیر ہوچکا ہے ۔ بین المذاہب مکالمے کا مقصد محض یہ نہیں کہ سائنسی مادہ پرستی کو نیست ونابود کرتے ہوئے اس کا عالمی سطح پر تباہ کن تصور ختم کیا بجائے بلکہ مذہب کی اصل روح اس چیز کی متقاضی ہے۔ یہودیت ‘ عیسائیت اور اسلام اور حتیٰ کہ ہندو وزم اور دیگر مذاہب ایک ہی منبع کو تسلیم کرتے ہیں اور بشمول بدھ مت اسی مقصد کے حصول کیلئے کوشاں ہیں بحیثیت ایک مسلمان میں تمام انبیاءاور تاریخ میں مختلف قوموں کے لئے بھیجی جانے والی تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں اور ان پر ایمان رکھنے کو بطور مسلمان لازمی سمجھتا ہوں ایک مسلمان حضرت ابراہیم ‘حضرت موسیٰ ‘ حضرت داﺅد ‘ حضرت عیسیٰ اور دیگر تمام انبیاءکا سچا پیرو کار ہوتا ہے ۔ کسی ایک بھی نبی یا آسمانی کتاب پر ایمان نہ رکھنے کا مطلب مسلمان نہ ہونا ہے اس لئے ہم مذہب کی وحدت بنیادی یکجہتی پر یقین رکھتے ہیں جو کہ رب کائنات کی رحمت کا ذریعہ اور مذہب پر ایمانی کی آفاقیت کی دلیل ہے ۔
لہٰذا اس طرح مذہب ایمان کا ایک ایسا نظام ہے جو تمام نسلوں اور تمام عقائد کو اپنی آغوش میں لیتا ہے اور ایک ایسی شاہراہ ہے جو کہ ہر فرد کو بھائی چارے کے ہمہ گیر دائرے میں لیتی ہے ۔
قطع نظر اس کے ہر مذہب کے پیرو کار اپنی روز مرہ زندگی میں کس طرح اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں مذہب بالعموم پیار محبت ‘ باہمی احترام رواداری ‘ عفو ودر گزر ‘ خدا ترسی ‘انسانی حقوق کی پاسداری ‘ امن آشتی ‘بھائی چارے اور آزادی جیسی اقدار کو اولیت دیتا ہے ۔ ان میں سے اکثر اقدار کو حضرت موسیٰ ‘ حضرت عیسیٰ ‘ اور محمد کے پیغام میں نمایاں حیثیت حاصل تھی اور اس کے ساتھ ساتھ بدھا ‘زردشت ‘ لاﺅزو ‘ کنفیوشس اور ہندو سکالرز کے پیغام میں بھی ‘
ہمارے پاس نبی پاک حضرت محمد کا بیان موجود ہے جسکا ذکر غالباً حدیث کی تمام کتابوں میں موجود ہے کہ دنیا کے خاتمے کے قریب حضرت عیسیٰ کا پھر سے ظہور ہوگا ‘ہم یہ نہیں جانتے کہ آیا ان کا ظہور جسمانی طور پر ہوگا لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ جب آخری زمانہ قریب آئے گا تو پیار محبت ‘ امن ‘ بھائی چارہ عفو ودر گزر ‘ خدا ترسی اور روحانی پاکیزگی جیسی اقدار کو اولیت حاصل ہوگی جس طرح حضرت عیسیٰ کے دور میں تھی مزید یہ کہ حضرت عیسیٰ کو یہودیوں کی طرف بھیجاگیا تھا ‘ اور کیونکہ تمام عبرانی انبیا نے انہی اقدار کو اولیت دی اس لئے یہودیوں سے مکالمہ ضروری ہوگا اور اسلام ‘ عیسائیت اور یہودیت کے مابین قریبی تعلقات بھی لازمی طور پر قائم کرنے ہوں گے ۔
کٹر مسلمانوں ‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین مکالمے کے کئی مشترک نکات ہیں ‘ جیسا کہ فلسفے کے ایک امریکی پروفیسر مائیکل وسکو گروڈ نے کہا کہ مسلمان اور یہودیوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی نظریاتی اور مذہبی وجوہات اتنی ہی ہیں جتنی کہ عیسائیوں اور یہودیوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی ۔ مزید یہ کہ عملی اور تاریخی طور پر اسلامی دنیا یہودیوں سکے ساتھ معاملات طے کرنے کا بہتر ریکارڈ رکھتی ہے ۔ ان کے مابین نہ تو کوئی امتیاز ہے اور نہ ہی کوئی ہولو کوسٹ ‘ اس کے برعکس مشکلات کے دور میں ہمیشہ انہیں خوش آمدید کہا گیا ہے مثلاً یہودیوں کو سپین سے نکالے جانے کے بعد سلطنت عثمانیہ نے انہیں گلے لگایا ۔
باہمی مکالمہ اور مسلمانوں کی مشکلات :
عیسائی ‘ یہودی اور دوسروں کو باہمی مکالمے کی صورت میں اندرونی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے میں ان چند وجوہات کا جائزہ پیش کرنا چاہوں گا جن کی بناءپر مسلمانوں کو مکالمے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں اور یہی وجوہات اسلام کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کی ذمہ دار ہیں ۔
فلر اور لیسر کے مطابق صرف پچھلی صدی میں مغربی طاقتوں کے ہاتھوں جتنے مسلمان شہید ہوئے پوری تاریخ میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے عیسائیوں کی تعداد اس کے برابر نہیں ۔کئی مسلمان اس سے بھی زیادہ جامع اعداد وشمار پیش کررہے ہیں اور اس یقین کا اظہار کررہے ہیں کہ مغربی پالیسیوں کا مقصد مسلمانوں کو کمزور کرنا ہے ۔ یہ تاریخی تجربہ پڑھے لکھے اور با شعور مسلمانوں کے دلوں میں یہ یقین پختہ کرنے کا باعث بن رہا ہے کہ مغرب اسلام کے خلاف ایک ہزار برس پرانی جارحیت کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اس سے بھی بڑھ کر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس کے لئے انتہائی جدید اور پیچیدہ طریقہ کار بروئے کار لائے جارہے ہیں ۔ نتیجتاً کلیساکی جانب سے مکالمے کی دعوت کوشک وشبے کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے مزید برآں اسلامی دنیا بیسویں صدی میں مغرب کے براہ راست یا بالواسطہ غلبے کے سائے میں داخل ہوئی ۔اس دنیا کے سب سے بڑی نمائندہ اور محافظ سلطنت عثمایہ مغربی حملوں کی بناءپر زمین بوس ہوئی۔ ترکی نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مسلمانوں کی جدوجہد کی بڑی جوش وخروش سے حمایت کی۔ مزید یہ کہ 1950ءکی دھائی میں ترکی کے اندر ڈیمو کریٹک پارٹی اور پیپلز پارٹی کے باہمی تصادم کی وجہ سے اسلام کے بارے میں مزاحمت پسندوں اور بعض اوقات دانشوروں کے ذہنوں میں اسلام کا تصادم پزیر مزاحمتی اور سیاسی نظام کا تصور پیدا ہوا ،بجائے اس کے کہ اسے انسان کی قلبی ‘ روحانی اور فکری اصلاح کرنے والا مذہب سمجھا جاتا ۔بعض اسلامی ممالک بشمول ترکی میں اسلام کو کسی جماعت کی آئیڈیا لوجی سمجھنے کی وجہ سے اس تصور کو مزید تقویت ملی ۔
اس کے نتیجے میں سیکولر سوچ کے حامل افراد اور بعض دوسرے لوگوں نے مسلمانوں اور اسلامی سر گرمیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیا ۔
اسلام کو ایک سیاسی نظریے کے طور پر بھی دیکھا جانے لگا کیونکہ مسلمانوں کی جنگ آزادی میں یہ چیز ایک اہم محرک کے طور پر سامنے آئی اس لئے یہ محض حریت پسندی کا ایک نظریہ بن گیاکوئی بھی نظریہ علیحدگی کا باعث بنتا ہے جبکہ مذہب انسان کے ذہن کو روشنی عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان تو کل سکون قلب ‘ احساس اور تجربے کی بنیاد پر ادراک کی قوت بخشتا ہے ۔ مذہب کی بنیادی روح انسان ہیں ایمان ‘ محبت ‘ خدا ترسی اور ہمدردی پیدا کرنا ہے اسلام کو ایک سخت گیر سیاسی نظریہ اور آزادی حاصل کرنے کے نظریے تک محدود کرنے سے اسلام اور مغرب کے مابین ایک دیوار کھڑی کردی گئی اور اس کی بناءپر اسلام کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں ۔
عیسائی تاریخ نے اسلام کی جو شکل پیش کی اس کی بناءپر بین المذاہب مکالمے کے حوالے سے مسلمانوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی کئی صدیوں تک عیسائیوں کو یہ باور کرایاگیا کہ اسلام یہودیت اور عیسائیت کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے اور اس طرح نبی پاک کو ( نعوذ بااللہ ) ایک بناﺅٹی ‘اور حضرت عیسیٰ کا مخالف بنا کر پیش کیا جاتا رہا جس کی مسلمان ایک مثالی ہستی کے طور پر پرستش کرتے ہیں ۔ حتیٰ کہ آجکل کتابوں میں بھی آپ ﷺ کو ایک عجیب وغریب تصورات کے حامل شخص کے طور پر ،جو ہر صورت میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔
مکالمہ ضروری ہے ۔
آج بین المذاہب مکالمے کے اشد ضرورت ہے اور اس کے لئے پہلے قدم کے طور پر ہمیں ماضی کو فراموش کرنا ہوگا ،مناظرے بازی کو ختم کرنا ہوگا ،عمومی نکات کو ترجیح دینے کے رجحان کو ختم کرنا ہوگا جو کہ مناظرے بازی سے بھی زیادہ بڑھ کر ہے ۔مغرب میں دانشوروں اور مذہبی پیشواﺅں کے رویوں میں اسلام کے حوالے سے تبدیلی نظر آرہی ہے یہاں میں میسگنن ( مرحوم ) کا حوالہ خصوصی طور پر دینا چاہوں گا جنہوں نے اسلام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا " حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا دین جس کا احیاءمحمد ﷺ نے کیا " وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ عیسائیت کے بعد کے دور میں اسلام کا کردار مثبت بلکہ پیغمبرانہ ہے ۔اسلام ایک ایمان ویقین کا دین ہے ۔یہ فلسفیوں کے خدا پر فطری یقین کا دین نہیں بلکہ ابراہیم کے خدا اسحاق کے خدا ‘ اسماعیل کے خدا پر ایمان کا دین ہے ۔یہ رضائے الٰہی کا ایک عظیم اسرار ہے ۔وہ قرآن کی خدائی تصنیف اور محمد کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں ۔
ہمارے نبی پاک ﷺ کے حوالے سے مغرب کے تصور میں بھی کچھ نرمی پیدا ہوئی ہے۔عیسائی مذہبی پیشواﺅں کے ساتھ ساتھ کئی مغربی مفکرین میسگنن ‘چارلس جے لیڈٹ ‘ وائے مبارک ‘ آئرین ایم ڈالمس ‘ ایل گارڈٹ ‘ نارض ڈنئیل مائیکل لی لانگ ‘ ایچ ماریئر ‘ اولیور لے کومبے اور تھامس مرٹن نے اسلام اور نبی پاک ﷺ دونوں کے لئے گرمجوشی ظاہر کی ہے اور مکالمے کی ضرورت کی بھی حمایت کی ہے اس کے علاوہ سیکنڈ ویٹیکن کونسل نے بھی جس نے باہمی مکالمے کے عمل کا آغاز کیا یہ کہا ہے کہ اسلام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کے بارے میں کیتھولک چرچ کا رویہ تبدیل ہوچکا ہے ۔ کونسل کے دوسرے دور میں پوپ پال ششم نے کہا :
” دوسری طرف کیتھولک چرچ اس سے بھی بڑھ کر عیسائیت کے افق سے پرے دیکھ رہا ہے اب یہ ان دیگر مذاہب کی جانب متوجہ ہورہا ہے جو ایک خدا کا تصور محفوظ رکھتے ہیں ۔جو برتر ‘سب کا خالق اور ہماری قسمت اور فہم ودانش کا مالک ہے ۔یہ مذاہب خدا کی عبادت پورے خلوص اور عملی عقیدت کے اظہار کے ذریعے کرتے ہیں ۔“
انہوں نے اس چیز کی بھی نشاندہی کی کہ کیتھولک چرچ ان مذاہب کے خیر ‘سچائی اور انسان پہلوﺅں کی بھی تعریف وتوصیف کرتا ہے ۔
”چرچ اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ جدید معاشرے میں مذہب کے مفہوم کی ساکھ بر قرار رکھنے کے لئے اور خدا کی بندگی کی خاطر چرچ از خود بندے پر خدا کے حقوق کی سختی سے تائید کرنے والابنے گا ۔“
نتیجتاً آخر میں جاری کئے گئے تحریری بیان میں جس کا عنوان ”کلیسا کا غیر عیسائی مذاہب سے تعلقات کا اعلامیہ “تھا کہاگیا کہ ہماری دنیا میں جو کہ سکڑ چکی ہے اور جہاںتعلقات میں زیادہ قربت آچکی ہے لوگ مذہب سے انسانی فطرت کے ان پر اسرار پہلوﺅں کے حوالے سے جو انسان کے دل کو الٹ پلٹ دیتے ہیں تسلی بخش جواب چاہتے ہیں ۔ انسان کیا ہے ؟ زندگی کا مفہوم اور مقصد کیا ہے ؟ نیکی اور بھلائی کیا ہے اس کا اجرا کیا ہے اور گناہ کیا ہے ؟ اذیت اور ابتلا کا منبع کیا ہے ؟ حقیقی خوشی حاصل کرنے کا کونسا راستہ ہے ؟ موت کیا ہے مرنے کے بعد اعمال کی جانچ پرکھ کیا ہے اور دنیاوی اعمال کے بدلے ملنے والے ثمر کامعاملہ کیا ہے ؟ عدم اور وجود کا اسرار کیا ہے ؟
ان موضوعات کے حوالے سے دیگر مذاہب اپنے اپنے نکتہ ہائے نظر رکھتے ہیں اور یہ کہ چرچ دیگر مذاہب کی اقدار کو کلی طور پر رد نہیں کرتا ۔ کونسل دیگر مذاہب کے ممبران سے باہمی مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔
چرچ اپنے پیروکاروںکی بطور عیسائی زندگی بسر کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے بارے میں محتاط انداز میں ہمدردی کے ساتھ ‘مکالمے کے ذریعے اور ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انہیں سمجھنے کی اور ان میں اخلاقی اور سماجی اقدار کے فروغ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ایک دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ پوپ جان پال دوئم اپنی کتاب "CROSSING THE THRESHOLD OF HOPE" میں ( مسلمان کی لا پرواہی کی باوجود ) یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ہی سب سے بہتر انداز میں دھیان کے ساتھ عبادت کرتے ہیں ۔و ہ اپنے قارئین کو اس بات کی یاد دہانی کرواتے ہیں کہ اس حوالے سے عیسائیوں کو مسلمانوں کو ایک مثالی نمونے کے طور پر لینا چاہئے ۔
اس کے علاوہ آج کی جدید دنیا میں مادیت کے تصورات کی اسلام کی جانب سے مزاحمت اور اس کے اہم کردار پربھی مغربی مبصرین حیران ہیں ۔ ای ‘ ایچ جرجی کے اس حوالے سے مشاہدات بہت اہم ہیں :
”اپنی اہمیت ‘ اپنی بقاءاور حقیقت مندانہ جذبے کے حوالے سے ‘ نسلی اور مارکسی تصورات کے خلاف یکجہتی کے حوالے سے استحصال کی کھلی ‘مذمت کے حوالے سے بھٹکی ہوئی اور خون آلود انسانیت کے حوالے سے اسلام آج کی جدید دنیا کا سامنا ایک خصوصی مشن کے حوالے سے کرتا ہے نہ تو مذہبی باریکیوں کی بناءپر اسلام کسی مخمصے کا شکار ہے اور نہ ہی یہ اندر سے بٹا ہوا ہے اصول وعقائد کے کٹرپن کے بوجھ تلے بھی نہیں دبا ہوا ۔عزم کی پختگی کا منبع اسلام اور جدید دنیا کا توافق ہے ۔“
مسلمان اور مغرب قریباً چودہ سوبرس سے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں ۔مغرب کے نکتہ نظر سے اسلام نے مغرب میں کئی اطراف سے در اندازی کی اور اس کے لئے خطرے کا باعث بنا یہ حقائق اب تک نہیں بھلائے گئے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس محاذ آرائی کی بناءپر مسلمانوں کا مغرب کی مخالفت کرنا یا انہیں نا پسند کرنا اسلام اور مسلمان دونوں کے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔ جدید ذرائع مواصلات اور نقل وحمل نے پورے کرہ ارض کو ایک عالمی گاﺅں میں تبدیل کردیا ہے اور اب ہر قسم کے تعلقات باہمی اثرات کے حامل ہیں ۔
مغرب اسلام یا اس کی سر زمین کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکتا اور نہ ہی مسلمان فوجیں مغرب کی سر زمین پر پیش قدمی کر سکتی ہیں ۔
مزید برآں اب جبکہ دنیا میں باہمی میل جول مزید بڑھ چکا ہے دونوں اطراف کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا چاہتی ہیں مغرب سائنس ‘ ٹیکنالوجی ‘ معاشیات اور فوجی برتری رکھتا ہے تاہم اسلام جس چیز کا مالک ہے وہ زیادہ اہم عوامل ہیں ،جیسا کہ قرآن اور سنت اسے پیش کرتے ہیں ۔اسلام نے اپنے عقائد کو اس کی روحانی ماہیت کو نیکی اور بھلائی کے تصور کو اور اخلاقیات کو بر قرار کھا ہے اور گزشتہ چودہ صدیوں سے اسلام کے تمام پہلو کھلتے چلے جارہے ہیں ۔اس کے علاوہ اس میں مسلمان کے اندر ایک نئی روح اور زندگی پھونکنے کی قوت چھپی ہے جو کہ کئی صدیوں سے خوابدیدہ تھی اور اس کے علاوہ کئی دوسرے انسانوں میں بھی جو کہ مادہ پرستی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔
کوئی بھی مذہب فلسفے اور سائنس کی آندھی سے متاثر ہونے سے نہیں بچ سکا اور وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ یہ آندھی شدت اختیار نہیں کرے گی یہ اور کئی دیگر عوامل مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ یہ اسلام کو خالصتاً ایک سیاسی اور معاشی نظریے کے طور پر پیش کریں اور نہ ہی یہ عوامل مسلمانوں کو اس چیز کی اجازت دیتے ہیں کہ مسلمان مغرب عیسائیت ‘ یہودیت اور کئی دیگر مشہور ومعروف مذاہب مثلاً بدھ مت کو تاریخی تناظر میں دیکھیں اور اس کے مطابق رویہ اپنائیں ۔
وہ لوگ جنہوں نے اسلام کو ایک سیاسی نظریے کے طور پر نہ کہ ایک مذہب کے طور پر اختیار کیا ہے ،انہیں جلد ہی اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ اس کے پیچھے کارفرما قوت ذاتی یا قومی عنادو نفرت اور اس قسم کے محرکات تھے ۔
اگر یہ بات ہو تو ہمیں اسلام کو تسلیم کرتے ہوئے بنیادی نکتہ آغاز کے طور پر اسلامی طرز عمل کو نہ کہ موجودہ جبر زیادتی کو اپنانا چاہئے کہ حضرت محمد نے سچا مسلمان انہیں قرار دیا جو اپنے کلام اور عمل سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے اور جوعالمی امن کے سب سے زیادہ قابل بھروسہ نمائندہ ہیں ۔ مسلمان جہاں کہیں بھی جاتے ہیں اس بلند تر احساس کے ساتھ جاتے ہیں جو ان کے دل کی گہرائی میں پرورش پارہا ہوتا ہے ۔کسی کے لئے ایذار سانی یا تکلیف کا باعث ہونے کے برعکس یہ امن اور سلامتی کا نمونہ ہیں ۔ان کے نزدیک جسمانی یا زبانی تشدد مثلاً غیبت ‘ تہمت ‘ تضحیک یا طنز وتشنیع میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ہماری سوچ اور فکر کا نکتہ آغاز اسلامی بنیادوں پر ہونا چاہئے ۔ مسلمانوں کا باہمی ملاپ واشتراک سیاسی یا نظریاتی بنیاد پر نہیں ہوتا ۔جسے بعد میں محض دکھاوے کے لئے اسلام کا لبادہ پہنادیا جائے یا محض اپنی خواہشات کو نظریات کے طور پر پیش کردیا جائے اگر ہم اس رجحان پر قابوپا لیں تو اسلام کی اصل شکل وصورت واضح ہوگی ۔ اسلام کی موجودہ مسخ شدہ شکل جوکہ اس کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے اور جو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے ہاتھوں ہوئی اس نے مسلم اور غیر مسلم دونوں کو خوفزدہ کررکھا ہے ۔
سڈنی گریفتھ ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے تناظر میں مغرب اسلام کو دیکھتا ہے وہ کہتے ہیں امریکی یونیورسٹیوں میں اسلام کو ایک دین کے طور پر نہیں پڑھایا جاتا بلکہ سیاسیات یا بین الاقوامی تعلقات کے ڈپارٹمنٹس میں اسے پولیٹیکل سائنس کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور اسلامی دنیا کے مغرب زدہ حلقوں میں اور ایشیاءاور افریقہ میں غیر مسلموں میں بھی یہی تصور موجود ہے ۔زیادہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اسلام کے پرچم تلے آگے بڑھنے والے کئی گروہوں نے اسلام کا یہی تصور برآمد کیا ہے اور اسی تصور کو تقویت دی ہے ۔
مکالمے کے لئے اسلام کا آفاقی پیغام :
چودہ سو سال قبل اسلام کی پکار ان سب میں عظیم تر تھی جس کا تجربہ دنیا کوکبھی بھی ہوا تھا ۔قرآن پاک اہل کتاب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے ۔
” اے اہل کتاب آﺅ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہو ۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم(صرف خدا کی بندگی اور اطاعت کرنے والے )ہیں۔“ (3:64)
یہ پکار جو کہ نو ہجری میں آئی اس کا آغاز " لا" سے ہوا یعنی " نہیں " جوکہ دین اسلام میں لا الہ اللہ ‘ کے طور پر مکمل حکم ہے کسی مثبت چیز کا حکم دینے کی بجائے بعض کام نہ کرنے کا کہاگیا ہے تاکہ الہامی مذاہب کے پیروکار اپنی باہمی دوری کو ختم کر سکیں ایک ایسا وسیع تر بیان جس پر تمام مذاہب کے لوگ متفق ہوسکیں اگر لوگ اس پکار کو مسترد کرتے تو پھرمسلمانوں کی طرف سے اس کایہ جواب تھاقرآن پاک کی یہ آیت تھی:
” تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین“ (109:6)
یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دوسرے اس پکار کو قبول نہیں کرتے تو ہم اپنے طور پر اللہ کے حضور سربسجود ہیں ۔ہم اس راہ پر چلتے رہیں گے جو ہم نے چنی ہے اور تمہیں تمہاری راہ مبارک ہو ۔
المالیلی حامدی یازر جو کہ ایک مشہور ومعروف ترک مفسر قرآن ہیں نے اس قرآنی آیت کے بارے میں بڑی دلچسپ بات کہی
" اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی طرح مختلف افکار " اقوام ‘مذاہب اور آسمانی صحائف کو ایک فکر اور سچائی میں سمو دیاگیااور اسے کس طرح اسلام نے انسانیت کو نجات اور آزادی کا وسیع ‘فراخ اور سچا راستہ دکھایا ۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ محض عرب اور غیر عرب تک محدود نہیں ہے ۔مذہبی ترقی ،فکری تنگ نظری اور ایک دوسرے سے دوری کی صورت میںآفاقی سطح پر کشادگی ممکن نہیں بلکہ ان کی آفاقیت اور وسعت پر منحصر ہے ۔
اسلام نے ہی فکری وسعت اور نجات کی یہ شاہراہ دی ہے ،اور آزادی کا یہ اصول ہمارے لئے ایک تحفے کی حیثیت رکھتا ہے بدیع الزماں نورسی نے دائرءاسلام کی کشادگی کو استنبول کی با یذید مسجد میں اس طرح بیان کیا ۔
ایک مرتبہ میں نے اسم ضمیر "ہم " پر غور کیا جو کہ ایک آیت میں یوں استعمال ہوا ہے :
”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں“ (1:5)
اور میرا جی چاہا کہ میں اس بات کی وجہ جان سکوں کہ " میں " کی بجائے " ہم" کا لفظ کیوں استعمال ہوا ہے اور اچانک مجھے با جماعت نماز کی صفت اور اس میں پوشیدہ حکمت سمجھ میں آگئی ۔
میں نے دیکھا کہ بایذید مسجد میں نماز کی با جماعت ادائیگی سے ہر فرد میری شفاعت کی دعا کرنے والا بن گیا تھا اور جب تک میں قرآن کی قرآت کرتا رہا ہر ایک میری گواہی دیتا رہا ۔
اجتماعی طور پر کئے جانے والے بندگی کے اظہار نے مجھے یہ حوصلہ دیا گیا میں اپنی ٹوٹی پھوٹی نماز کو بارگاہ الٰہی میں پیش کر سکوں۔
اچانک مجھ پر ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوا اسنتبول کی تمام مساجد ایک ساتھ با یزید مسجد کی سر پرستی میں آگئیں ۔
مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ سب میرے مقصد کی توثیق کررہی ہیں اور ہر فرد نے مجھے اپنی نماز میں شامل کر لیا ہے ۔ اس وقت میں نے خود کو ایک مسجد میں پایا جوکہ خانہ کعبہ کو چاروں طرف سے دائرے میں لئے ہوئی مساجد میں سے ایک تھی ۔ میرے منہ سے نکلا " اے اللہ تمام تعریفیں تیرے لئے ہی ہیں میری شفاعت کی دعا کرنے والے اتنے بندے ہیں ۔یہ سب بھی وہی کہہ رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں اور میری بات کی توثیق کررہے ہیں "
اس حقیقت کے انکشاف کے بعد میں نے خود کو کعبہ کے سامنے کھڑا پایا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے قطار در قطار کھڑے نمازیوں کو گواہ بنایا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔
میں نے اس شہادت کا گواہ حجرا سود کو بھی بنایا اور اچانک مجھ پر ایک اور انکشاف ہوا میں نے دیکھا کہ وہ جماعت جس کے ساتھ میں نماز ادا کررہا تھا تین دائروں میں تقسیم ہوگئی ۔
پہلی جماعت اللہ اور اس کی وحدت پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں کی تھی دوسرے دائرے میں اللہ کی تمام مخلوقات اللہ کو یاد کررہی تھیں ہر مخلوق اپنے انداز میں عبادت میں مصروف تھی اور میں بھی اس جماعت میں شریک تھا تیسرے دائرے میں میں نے ایک عجیب حلقہ دیکھا جو بظاہر چھوٹا تھا لیکن اپنے فرض کے حوالے سے اور معیار کے حوالے سے بہت بڑا تھا میرے جسم کے ذرات سے لے کر خارجی حواس تک ہر حلقہ بندگی اور اطاعت میں مصروف تھا ۔
مختصر یہ کہ اسم ضمیر " ہم ‘جوکہ " ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں“ میں استعمال ہوا ہے ان تینوں جماعتوں کو ظاہر کرتا ہے میں نے تصور کیا کہ ہمارے نبی ﷺ جو کہ قرآن کی عملی تفسیرہیں، مدینہ میں کھڑے نبی نوع انسان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں
”لوگو ‘بندگی اختیار کرو اپنے رب کی۔“ (2:21)
دوسرے انسانوں کی طرح میں نے بھی اس حکم کو اپنی روح میں اترتے محسوس کیا اور میری طرح سب نے جواب میں کہا "ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں"
دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کے ساتھ کس طرح میل
ملاپ کیا جائے
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
”یہ اللہ کی کتاب ہے‘اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ہدایت ہے ان پرہیز گار لوگوں کیلئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔“ (2:2)
بعد میں یہ بتایاگیا ہے کہ یہ متقی لوگ وہ ہیں
”جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘نماز قائم کرتے ہیں جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“(2:3-4)
قرآن پاک ابتداہی سے بڑے تیکھے انداز میں لوگوں سے پہلے والے انبیاءاور ان کی کتابوں پر ایمان لانے کو کہتا ہے قرآن پاک کی ابتداءمیں ہی یہ شرط میرے لئے بہت اہم ہے اور خاص کر دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ مکالمہ کے حوالے سے ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں ۔
”اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے ۔“ (29:46)
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ کونسا انداز اور کونسا طرز فکر اپنانا ہے۔ بدیع الزماں کا نقطہ نظر اور انداز انتہائی منفرد ہے کوئی بھی شخص جو اپنے مخالف کو بحث میں شکست دینا چاہتا ہو رحم کے جذبے سے خالی ہے ۔
وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں
اگر تمہیں شکست ہوجائے اور دوسرا فتح یاب ہوجائے تو آپ کو اپنی خامی دور کرنی چاہئے ۔بحث اپنی انا کی تسکین کے لئے نہیں ہونی چاہئے بلکہ حقائق کی جان کاری کے لئے ہو ایک اور جگہ آتا ہے ۔
”اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کیساتھ نیکی اور انصاف کا برتاﺅ کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالاہے اللہ انصاف کرنیوالوں کو پسند کرتا ہے ۔“ (60:8)
بعض لوگوں کے مطابق بعض آیات میں اہل کتاب پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ درحقیقت اس قسم کی تنقید غلط رویوں کے خلاف غلط سوچ ‘ سچائی مزاحمت ‘ نفرت پیدا کرنے والی نا پسندیدہ عادات کے خلاف ہے ۔انجیل میں اس قسم کے رویوں کے خلاف زیادہ سخت تنقید موجود ہے تاہم اس قسم کی سخت تنقید کے بعد لوگوں کے دلوں کو سچائی کے لئے بیدا کرنے اور امید پیدا کرنے کے لئے نرم الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔
اس کے علاوہ قرآن پاک نے یہودیوں ‘ عیسائیوں اور مشرکوں کے جن رویوں پر تنقید کی ہے ان کا رخ ان مسلمانوں کی طرف بھی ہے جو اس قسم کے طرز عمل کا شکار ہوئے۔ قرآن پاک کے قاری اور مفسر دونوں اس بات پر متفق ہیں۔ الہامی مذاہب بد نظمی اور بے ترتیبی ‘ دھوکا وفریب فساد اور ظلم کی سختی سے ممانعت کرتے ہیں۔ اسلام کا لفظی مطلب امن ‘ سلامتی اور بھلائی ہے ۔ فطری طور پر امن ‘ سلامتی اور بھلائی کا دین ہونے کے ناطے اسلام جنگ کو ایک غلط رویے کے طور پر دیکھتا ہے جس پر قابو پانا چاہئے تاہم ذاتی دفاع کا معاملہ استثنائی ہے۔ جس طرح کے ایک جسم اپنے اوپر حملہ آور ہونے والے جراثیم کے خلاف لڑتا ہے۔ تاہم ذاتی دفاع بھی چند رہنماءاصولوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ اسلام نے ہمیشہ امن اور بھلائی کی بات کی ہے جنگ کو ایک حادثہ قرار دیتے ہوئے اسلام نے جنگ کو بھی متوازن بنانے اور ایک حد میں رکھنے کے لئے قانون بنائے ہیں مثال کے طور پر اسلام انصاف اور عالمی امن کو اس طرح لیتا ہے ۔
”کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاﺅ ۔“ (5:8)
اسلام نے جو دفاعی حد تخلیق کی اس کی بنیاد مذہب جان ومال ‘فکر اور نسل کشی کا تحفظ کرنے والے اصول تھے ۔ موجودہ قانونی نظام نے بھی یہی کہا ہے :
اسلام انسانی زندگی کو سب سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہے ۔اسلام ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل سمجھتا ہے ۔ کسی ایک انسان کے قتل سے مراد کسی بھی انسان کا قتل لیاجاتاہے ۔ حضرت آدم کا بیٹا قابیل پہلا قاتل تھا اگر چہ کہ ان کے نام قرآن پاک یا سنت میںتخصیص کے ساتھ نہیں دیئے گئے لیکن ہم انجیل میں پڑھتے ہیں کہ قابیل نے ہابیل کو غلط فہمی کی بناءپر رقابت کی آگ میں جل کر ناجائز طور پر قتل کردیا تھا ۔
اس طرح خون خرابے کے دور کا آغاز ہوا اسی بناءپر ایک حدیث میں نبی پاک فرماتے ہیں ۔
“جب بھی ایک ناجائز قتل کیا جاتاہ ے تو اس کا کچھ گناہ قابیل کے حصے میں بھی لکھ دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے ناجائز قتل کی راہ کھولی تھی۔
قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد ہوتا ہے کہ جس کسی نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس کسی نے کسی ایک انسان کی جان بچائی اس نے کل انسانیت کی جان بچائی (5:32)
باہمی مکالمے کی ستون
محبت ‘ ہمدردی ‘ برداشت اور عفو ودر گزر
مذہب ہمیں محبت ‘ ہمدردی ‘ برداشت اور معافی کا درس دیتا ہے اس لئے میں ان آفاقی اقدار کے بارے میں چند الفاظ کہوں گا ۔
محبت ہر ذی روح میں موجود لازمی عنصر ہے۔ ایک انتہائی چمکدار روشنی ایک ایسی عظیم طاقت جو ہر طرح کی مزاحمت پر غالب آسکتی ہے ۔
محبت ہر اس روح کوارفع واعلیٰ بنا دیتی ہے جو اسے اپنے اندر سمولے اور اسے ابدیت کی طرف لے جاتی ہے ۔وہ لوگ جو محبت کے سہارے ابدیت سے جڑ جاتے ہیں وہ اوروں میں بھی محبت کے سہارے حاصل ہونے والی ابدیت اور اس ابدیت سے حاصل ہونے والے سرور کو دوسروں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں ۔وہ اپنی زندگی اس نیت مقصد کے لئے وقف کردیتے ہیں اور اس کی خاطر ہر طرح کی تکلیف برداشت کرتے ہیں جس طرح ان کی آخری سانسوں میں لفظ ” محبت “ نکلتا ہے اسی طرح قیامت کے روز اٹھائے جانے پر بھی ان کے منہ سے ”محبت “ ہی نکلے گا ۔ ایثار پسندی در اصل وہ اعلیٰ احساس سے جو محبت کو فروغ دیتا ہے ۔جو بھی انسان اس محبت میں شریک ہے انسانیت کا ایک بڑا ہیرو ہے۔ہر وہ انسان بھی جس نے اپنے اندر سے بغض اور کینہ کو نکال پھینکا ہو۔ ایسے ہیرو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں یہ عظیم انسان ہر روز اپنے اندر محبت کی ایک نئی شمع روشن کرتے ہیں اور اپنے قلب کو محبت اور ایثار کا سوتا بنا دیتے ہیں۔ لوگ انہیں ہمیشہ خوش آمدید کہتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں ۔ یہ ابدی زندگی کا حق آسمانی عدالت سے حاصل کرتے ہیں ان کے نشانات نہ ہی موت اور نہ ہی قیامت سے مٹتے ہیں۔ یہ لوگوں کے دلوں تک براہ راست پہنچنے کا وہ ذریعہ ہے جو نبیوں نے اپنایا وہ لوگ جو اس کی پیروی کرتے ہیں انہیں رد نہیں کیا جاتا اگر بعض انہیں رد کریں تب بھی بہت زیادہ لوگ انہیں خوش آمدید کہتے ہیں جب محبت کی بناءپر انہیں ایک مرتبہ خوش آمدید کہہ دیا جائے تو پھر کوئی انہیں ان کا مقصد حاصل کرنے سے روک نہیں سکتا ۔
کائنات کی ہر شے ایثار وہمدردی کی بات کرتی ہے اسی لئے کائنات کو ایک ایسی جگہ قرار دیا جاسکتا ہے جہاں ہمدردی اورایثار کی دھن بج رہی ہو ۔ انسان کو ہر ذی روح کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ انسان ہونے کا یہی تقاضہ ہے انسان جتنا زیادہ ہمدردی کا مظاہرہ کرے گا اتنا ہی خود کو بلند محسوس کرے گا اور جتنا ناجائز اور غلط کام ‘ظلم ‘ وزیادتی اور سختی کرے گا اتنا ہی خفیف اور شرمندہ محسوس کرے گا ۔ایسے لو گ انسانیت کے لئے باعث شرم ہوتے ہیں ہمیں نبی پاک محمد ﷺ کی زبانی علم ہوتا ہے کہ ایک فاحشہ پیاس کی شدت سے جاں بلب کتے کو پانی پلانے پر جنت بھیج دی جائے گی جبکہ ایک دوسری عورت اس لئے جہنم رسید کردی جائے گی کہ اس نے ایک بلی کو بھوکا مرنے دیاہوگا عفو ودر گزر نیکی سے الگ نہیں اور عفو ودر گزر ایک بڑی خوبی ہے نیکی عفو ودر گزر سے جدا نہیں ہر انسان اس کہاوت کو جانتا ہے کہ غلطی کرنا چھوٹوں کا کام اور معاف کرنا بڑوں کا ۔ کسی اچھی بات سے معاف کئے جانے کا مطلب سچائی میں جھانکنا ہے اس لئے Infinitive Mercyکے مطابق اپنی ذات میں جھانکنا اور خود کو ٹٹولنا ہی بڑا زبردست کام ہے ۔تمام زندہ اور بے جان چیزوں کو انسانیت کے ذریعے معاف کرنا سکھایا گیا ۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی معافی کی صفت کی جھلک انسانوں میں ظاہر کی ۔قلب انسان کو عفو ودر گزر سے روشناس کرایا ۔جب حضرت آدم ( پہلے انسان) بلندی سے پستی میں جانے کے صدمے سے دوچار ہوئے تب اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا معاف کرکے انہیں تھام لیا اور انہیں نبی کا درجہ دے کر سر فراز کیا ۔خطا کرنے کے بعد انسان میں معاف کئے جانے کو جو شدید جذبہ پیداہوتا ہے اس کے سہارے شرمندگی اور ندامت کے تکلیف وہ احساس پر غالب آکر انسان رحمت خداوندی سے فیضیاب ہوتا ہے اور دوسروں کے گناہوں سے بھی صرف نظر کرتا ہے ۔حضرت عیسیٰ نے ایک مجمع سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جو کہ ایک عورت کو سنگسار کرنے کے لئے بے تاب تھا " تم میں سے جو بھی گناہوں سے پاک ہے اس عورت پر سنگباری میں پہل “کرے کیا کوئی بھی اس شرط کو سمجھتے ہوئے کسی عورت پر پتھر برسا سکتا ہے جبکہ وہ خود بھی سنگسار کئے جانے کے قابل ہو ؟ صرف وہی بد بخت ایسا کرسکتے ہیں جو دوسروں سے پاکیزگی کا امتحان پاس کرنے کا مطالبہ کریں ۔
کینہ اور نفرت جہنم کے وہ بیج ہیں جو لوگ شرارت کی نیت سے بکھیرتے ہیں ۔وہ لوگ جو شر پھیلاتے ہیں اور اس دنیا کو جہنم میں بدل دیتے ہیں ان کے برعکس ہمیں عفو ودر گزر کا دائرہ ان لوگوں تک وسیع کردینا چاہئے جو اپنی مشکلات کے ہاتھوں بند گلی میں جا پھنسے ہوں ۔ جو لوگ نہ تو دوسروں کو معاف کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو برداشت کرتے ہیں ان کی زیادتیوں نے پچھلی ایک یادو صدیوں کو سب سے زیادہ بھیانک دور بنادیا ہے ۔اگر یہی لوگ مستقبل میں بھی حکمرانی کرتے رہے تو یہ یقیناً ایک خوفناک دور ہوگا اس لئے آج کی نسل اپنی اولاد اور آل اولاد کو جو سب سے بہترین تحفہ دے سکتی ہے وہ انہیںعفو ودر گزر کا درس دینا ہے خواہ کیوں نہ انہیں تلخ ترین رویے اور پریشان کن حالات کا سامنا کرنا پڑے ۔
ہمیں یقین ہے کہ در گزر اور برداشت ہمارے زیادہ تر زخموں کو مندمل کردے گابشرطیکہ یہ آفاتی ہتھیاران لوگوں کے ہاتھ میں ہوا جو اس کی زبان سمجھتے ہوں ۔
ہماری برداشت کا دائرہ اس قدر وسیع ہونا چاہئے کہ ہم دوسروں کی خطاﺅں سے صرف نظر کر سکیں اختلاف رائے کا احترام کر سکیں اور ہر اس چیز کو معاف کر سکیں جو معاف کئے جانے کے قابل ہو ۔حتیٰ کہ اس وقت بھی جب ہمارے لازمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہو تب بھی ہمیں انسانی اقدار کا احترام کرنا چاہئے اور انصاف قائم کرنا چاہئے ۔انتہائی روکھے خیالات اور تلخ ترین تصورات کے مقابلے میں بھی ہمیں اسی احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہئے جس کا نبی حکم دیتے رہے ہیں اور اسی نرمی کا برتاﺅ کرنا چاہئے جسے قرآن نرم لہجہ کہتا ہے ۔ہمیں یہ اس لئے کرنا چاہئے کہ ہم دوسروں کے دلوں کو چھو سکیں اور اس کی خاطر دوسروں کے لئے اپنے قلب ‘ اپنی زبان اور اپنے رویے کو نرم کریں ۔ ہماری برداشت کا دائرہ اس قدر وسیع ہوکہ متضاد خیالات سے بھی استفادہ کرسکیں کیونکہ یہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم اپنے قلب ‘ اپنی روح ‘ اور اپنے ضمیر کو صحیح حالت میں رکھیں باوجود اس کے کہ یہ ہمیں کچھ نہیں سکھاتے ۔برداشت ،جسے ہم بعض اوقات احترام اور ہمدردی کی جگہ فیاضی اور فراخ دلی کی جگہ استعمال کرتے ہیں، اخلاقی نظام کا لازمی عنصر ہے یہ روحانی تربیت کا بھی لازمی ذریعہ اور درجہ کمال کو پہنچے مردوزن کے اندر موجود آفاقی خوبی ہے ۔
برداشت کے عدسے تلے ایمان والوں کی خوبیاں ایک نئی گہرائی اور ابدیت حاصل کرتی ہیں اور ان کی خامیاں اور کمزوریاں سکڑ کر معمولی سی رہ جاتی ہیں در حقیقت زمان اور مکان کی قید سے آزاد ذات کا ہمارے ساتھ سلوک ہمیشہ عفو ودر گزر کے منشور سے گزر کر ہم تک پہنچتا ہے اور ہم اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ اس کی رحمت ہمیں اور دیگر تمام مخلوقات کو اپنے حصار میں لے لے ۔ اس رحمت کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے والی فاحشہ بھی رحمت خداوندی کی حقدار بنی اور جنت تک پہنچ گئی ۔ اللہ اور اس کے نبی ﷺ کی محبت میں مے خوری کی لعنت میں گرفتار ایک شخص اچانک اٹھا اور نبی ﷺ کا رفیق بن گیا ۔ اورزرہ برابر رحمت خداوندی کی بدولت ایک قاتل شدید نفسیاتی عارضے سے باہر نکل آیا اور اس بلندی کی طرف بڑھا جسے پانا اس کی فطری صلاحیتوں کے پیش نظر مکمل نہ تھا لیکن اس نے اس بلندی کوپا لیا ۔
ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں اسی عد سے میں دیکھیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ عفو ودر گزر کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہمارے گرد چلتے رہیں ۔ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ماضی اور حال پر عفو ودر گزر اور بخشش کا سایہ رہے اس کے سائے میں ہم پاکیزہ اور پاک صاف ہوجائیں اور بلا کسی بے چینی واضطراب کے مستقبل کی جانب بڑھ سکیں ۔ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے ماضی پر تنقید ہو یا ہمارا مستقبل ہمارے حال کی وجہ سے تاریک ہو ۔ہم سب گھر کے اندر سر زد ہونے والی خطاﺅں اور شرارتوں کے جواب میں اپنے والدین کی طرف سے محبت احترام اور بخشش اور برداشت کی توقع کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں گلے لگاتے ہوئے ہمارے اندر پیار اور آزادی کا احساس جگا یا جائے یہی رویہ سکول میں ہمارے اساتذہ کا ہمارے ساتھ ہو ۔ اسی طرح خدائے بزرگ وبرتر کی عدالت میں بھی ہمیں معافی مل جائے
تاہم ہم جس چیز کے حقدار ہیں وہ بہت اہم ہے جو دوسروں کو معاف نہیں کرتا خود بھی معافی کا حقدار نہیں ہوتا ہمیں اتنا ہی عدم احترام کا سامنا ہوگا جتنا کہ ہم خود بے ادب ہوں گے وہ جو دوسروں سے پیار نہیں کرتا محبت کے قابل نہیں ہوتا وہ بنی نوع انسان کے لئے معافی اور بخشش کا جذبہ نہیں رکھتا اسے بھی معافی اور بخشش نہیں ملے گی وہ جو دوسروں کو کوستا ہے اسے بھی جواب میں کوسنے ہی ملیں گے وہ جو دوسروں کو برا کہتے ہیں انہیں بھی برا کہا جائے گا اور جو دوسروں کو ایذائیں پہنچاتے ہیں انہیں بھی ایذائیں ملیں گی ۔
اگر سچے مسلمان اپنے راستے پر چلتے رہیں اور دوسروں کی غلط باتیں قرآنی اصولوں کی روشنی میں برداشت کرتے رہیں یعنی جب یہ غلط بات سنیں یا ان کے ساتھ غلط برتا ﺅ کیا جائے تو اس کی پرواہ نہ کریں اور یہ کہ دوسروں کی خطاﺅں سے صرف نظر کریں تو دوسرے انہیں ان کی خطاﺅں کے سزا دیں گے ۔
حرف آخر
وہ لوگ جو دنیا کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں پہلے خود اپنی اصلاح کریں دوسروں کو زندگی کے سیدھے راستے پر لانے کے لئے انہیں خود اپنے اندر کے بغض وعناد اور حسد سے پاک کرنا ہوگا اور اپنی ظاہری دنیا کو نیکی اور بھلائی سے سجانا ہوگا وہ لوگ جو تنظیم ذات اور خوداختیاری سے بہت دور ہوچکے ہیں جو اپنے جذبات کو پاک کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں ابتداءمیں بہت پرکشش اور دروں بین نظر آتے ہیں لیکن وہ دیر پاتا ثر قائم نہیں کر سکتے اور یہ لوگ جو جذبات ابھارتے ہیں جلد ہی غائب ہوجاتے ہیں
نیکی ‘ خیر وبھلائی خوبصورتی سچائی ہی در اصل اس دنیا کا اور انسانیت کا اصل جوہر ہیں خواہ کچھ بھی ہو ایک روز انسانیت اس جوہر کو پا لے گی کوئی اسے روک نہیں سکتا ۔
- Created on .