کارٹون کاتنازعہ اور ہمارا ردعمل
ہمارے نبی پاک ﷺ اورہمارے دین کی پریس میں توہین کی جاری ہے اور اسی طرح مختلف انداز میں یہ حرکت پہلے بھی کی جاتی رہی ہے اوریہ سب آزادی اظہار کے نام پر ہورہاہے اس کے خلاف پوری دنیا میں مسلمان مختلف انداز میں احتجاج کررہے ہیں آپ کی کیارائے ہے؟احتجاجی ردعمل کو جائز حدمیں رکھتے ہوئے کس طرح مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں؟میرے خیال میں دنیاکے بعض ممالک اوراسی طرح ترکی میں جن لوگوں نے ایک چھوٹی سی چنگاری بھڑکائی اوراس کا اآغاز کیا وہ انتہا پسند ہیں ۔یہ انتہا پسند دوسروں کے تصورات کااحترام نہ کرنے والے تنگ نظر ہیں ۔اسی قسم کے لوگ نہ صرف ڈنماک ،فرانس اورجرمنی میں ہیں بلکہ ہر جگہ موجود ہیں ان میں بعض مذہب سے تحریک حاصل کرتے ہیں ۔زیادہ بہتر طور پر اس کی وضاحت اس طرح سےکی جاسکتی ہے کہ یہ لوگ اپنی انتہا پسندی کومذہبی اورثقافتی سمجھ بوجھ ست جوڑدیتے ہیں۔بعض لوگ بنیاد پر ستانہ سوچ کے مطابق عمل کرتے ہیں جب کہ بعض لوگوں کا ردعمل اسلام دشمنی کی بنیاد ہوتاہے اوراس طرح وہ اسلام کے خلاف ایک محاذ کھڑا کردیتے ہیں اس قسم کے لوگ ہمارے ہاں ترکی میں بھی موجود ہیں۔
تنگ نظری اورہٹ دھرمی ہرملک میں پائی جاتی ہے اورہم اس کی کئی مثالیں دیکھ چکے ہیں خاص طورپر جب ہم مغرب پر نظر ڈالتے ہیں جمہوریت پسندی ،انسانی حقوق ،آزادی اظہار رائے کے تصورات انتظامی سطح پر تو درست ہوسکتے ہیں لیکن ان کا استعمال دوسروں کے احساسات اور جذبات کے خلاف درست نہیں ۔بعض لوگوں میں یہ طرز عمل اندرونی ہوتاہے ۔تنگ نظری بعض لوگوں کے خون میں ماضی کے ورثے کے طور پر چلی آتی ہے باہمی تعلقات قائم رکھنے میں ان حقائق کو مدنظر کھنا ہوگا اور اسے تسلیم کرنا ہوگا۔ اسے تسلیم کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تضحیک وتوہین اوراظہار نفرت کی صورت میں خاموش رہاجائے ۔نہیں اس کا مطلب کچھ اور ہے یعنی اس کے ردعمل کاانداز مہذب ہو۔ُل اس کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کریں اوراس کا ایک انداز عدم تشدد پر مبنی احتجاج کی صورت میں ہوسکتاہے ۔جس طرح گاندھی نے برطانیہ کے خلاف کیا۔اپنے ردعمل کے اظہار کے طور پر آپ ان کی مصنوعاتر کابائیکاٹ کرتے ہوئے دیگر ممالک کی اشیاء استعمال کرسکتے ہیں ۔یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اورترک آبادی میں اضافے کی وجہ سے جنم لینے والی بے چینی ایک بیمارے کے دورے کی طرح وقتافوقتا لوٹ آتی ہے اورآج جوکچھ ہورہاہے یہ بھی اسی بیماری کا ایک دورہ ہے مکالموں اورمباحثوں میں آپ کی ملاقات صرف ان لوگوں سے ہوتی ہے جو تحمل ورواداری اورباہمی عزت واحترام کی بات کرتے ہیں مگر اس طرح آپ دھوکہ کھاجاتے ہیں آپ کے خیال میں باقی تمام لوگ بھی اسی سوچکے حامل ہیں مگر یہ درست نہیں ان میں انتہائی جنوبی اور انتہا پسند لوگ موجود ہیں جو رواداری اوربرداشت کے تصور سے یکسر ناآشنا ہیں اورشاید یہ ان سے بھی نفرت کرتے ہیں جوباہمی مکالمے کے عمل میں مصروف ہیں وہ اسے فضول اورلغوسمجھتے ہیں ۔انہیں یہ باتیں قطعا پسند نہیں ۔لعین کارٹون ساز نے بھی انہی جذبات اوراحساسات کے تحت یہ کیا ہوگا،جوکہ بہت سنگین غلطی ہے آپ نے کسی طور انہی کے انداز میں منہ توڑ جواب نہیں دینا۔ہماری مذہبی روایات اس کی ممانعت کرتی ہیں ۔ہمارے پیارے نبی ﷺ کے لیے عدم احترام کایہ انداز یقیناایک گری ہوئی حرکت ہے لیکن یہی لوگ حضرت مریم کی شان میں سرموخطاپرکسی کو مرتد ٹھہر ا سکتے ہیں۔کیونکہ مسیحیوں کے لیے یہ محترم ہیں اور اسی طرح حضرت عیسی کے بارے میں کوئی متنازعہ کلمہ ان کی نظر میں کسی کو مرتد قرار دینے کے لیے کافی ہے اگر کوئی حضرت عیسی کی تعلیمات یاناجیل مقدس کےبارے میں کوئی ایسی بات کہہ دے جوعیسائیت کے پیروں کاروں کے عقائد کے خلاف ہوتب بھی آپ مرتد ہیں انہی کءے انداز میں منہ توڑ جواب دینا آپ کے لیے ممکن نہیں آپ یہ ہتھیار استعمال نہیں کرسکتے ۔اگر ان کی جانب سے ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ کی توہین اور گستاخی کے جواب میں حضرت سلیمان ،حضرت داؤد،یاحضرت موسی کی شان میں گستاخی کرتے ہیں تو آپ کفر کرتے ہیں ۔یہ ہمارے دین کی آفیت کی دلیل ،اسلام حضرت آدم ،حضرت نوح ،حضرت ہود،حضرت اسحاق ،حضرت اسماعیل،حضرت یعقوب،حضرت شعیب،حضرت عیسی ،حضرت موسی اوردیگر تمام پیغمبروں کوخداکا نبی مانتا ہے ۔ جن کا بیان واضح طور پر قرآن پاک میں کیاگیا ہے سورۃ بقرۃ میں واضح طور پر کہا گیا ہے ۔جس کے مفہوم کے مطابق تمام ابنیاء پر ایمان لانے کے حوالے سے کوئی فرق نہیں رکھا گیا اس کے مطابق مذہب اسلام کے ماننے والے تمام ابنیاء پر ایمان رکھتے ہیں تمام انبیاء کو خدائے بزرگ وبرتر کاخاص قرب حاصل تھا۔ ان کے ساتھ قربت اور ان کے احترام کا مطلب خداسے قربت واحترام کااظہارہے اورہم اپنی دعاؤں میں یہی کہتے ہیں 'اے اللہ ہمیں اپنا چاہنے والابنادے ہمیں اپنے قریب کر لے اور ہمیں اُن سے بھی قریب تر کر جنہیں تو پسند کرتاہے یہ ابنیا ء کرام اللہ کے پسندیدہ بندے تھے اللہ نے انہیں اپنا نبی بنا کر بھیجا ۔خدائے بزرگ وبرتر براہ راست ان کی رہنمائی کرتا اور یہ رشد وہدایت وحی کی صورت میں ان پر مسلسل نازل ہوتی رہتی یہ آپ کے ایمان اور یقین کا معاملہ ہے آپ ان سے جس قدر دور ہوتے جائیں گے ۔ایمان سے بھی اتنا ہی دور ہوجائیں گے اگر آپ ان کے خلاف ایک لفظ بھی ادا کرتے ہیں توان سے ایک قدم دور جاتے ہیں آپ کی تہذیب آپ کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ آپ کسی نبی کی شان میں گستاخی کاجواب اسی انداز میں دیں ۔ لہذا آپ کوجوابی ردعمل کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیارکرناہوگاانبیا ء کرام کے خلاف غلط بات کہناسنگین گستاخی کے زمرے میں آتاہے اورایک ایسے جلیل القدر شخص کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنا جیسے ڈیڑھ ارب کے قریب انسان محترم اورمقدس مانتے ہوں جس کی شخصیت کامطالعہ کرنے کے بعد بسمارک،کارلائیل،کیرل اورگوتھے بھی ان کی ذاتی صفات، صلاحیتوں ،پاک بازی اورفہم وفراست کے قائل ہوگئے۔جنہوں نے بھی حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کی نہ توان کا کوئی پیمانہ ہے اورنہ ہی ان کی کوئی کسوٹی ہے ۔اورنہ ہی وہ احترام کے جذبے سے آشنا ہیں ۔ یہ لوگ تہذیب سے سے بھی لابلہ ہیں ۔یہ حرکت ماسوائے بے ہودگی اورکچھ نہیں اورایسی بے ہودگی جس کے ارتکاب سے آپ کاایمان بھی جاتا رہے آپ میں خدائے بزرگ وبرتر میں دوری بھی بڑھ جائے ہمارے مذہب نے ہمیں یہ سبق سکھایا کہ ہم دوسرے مذاہب کااحترام نہ کریں بلکہ یہ تو ہمیں دوسرے مذاہب کے احترام کا درس دیتاہے ۔ہمارا مذہب ہرایک کے ساتھ میل جول بڑھانے میں ہماری حوصلہ افزائی کرتاہے ۔یہ چاہتاہے کہ ہم اپنے دروازے سب کے لیے کھول دیں اورہم یقینا اپنےدل کے دروازے سب کھول دیتے ہیں ۔اس قسم کی گستاخی کے باوجود ہم اپنی نیک دلی اور اپنے کردار کاسودا نہیں کرتے ۔ہم کہتے ہیں نہیں یہ تحمل اوربرداشت کامظاہرہ کرنے کا وقت ہے کوئی بھی مسلمان اےسے ردعمل سے گرزی کرتاہے جس سے اس کاایمان جاتاہرہے ۔اس وقت ہمیں ایک ایسے ہی چیلنج کا سامناہے ایسی نازیبا حرکت کا مقصد یورپ میں آباد مسلمان آبادی کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کے سوا کاچھ نہیں یہ وہ بات ہے جس کی وجہ سے مشتعل نہ ہونا اورجیسے برداشت کرنا بہت مشکل ہے ۔بعضوں نے اپنا غصہ فرانس اورڈنمارک کے سفارتخانوں پر اتارایہ ہمارے لیے ایک ناگوار طرز عمل ہے اوراہم اس کی تائید نہیں کرسکتے جیساکہ میں پہلے ذکر کرچکاہوں کہ دوسرے ہمارے خلاف وہ ہتھیار استعمال کررہے ہیں جیسے وہ جائز سمجھتے ہیں لیکن آپ کا مذہب آپ کی ثقافت اورآپ کاماضی اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔اس کی قطعا ممانعت ہے ورنہ آپ مجھ سے اپنے مذہب سے اور اپنی قومیت کی اصل روح سے ناطہ توڑنے والےبن جائیں گے ۔آپ کا ردعمل تہذیب واخلاق کے دائرے میں ہوناچاہیے اوران اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے جن کی آپ پاسداری کرتے ہیں ان کامقصد اشتعال دلاناہے اوروہ جوابی عمل چاہتے ہیں اورشاید اس طرح خو د کو بری الذمہ قراردلوانا چاہتے ہیں۔ارباب حل وعقد کو اور عوام دونوں کو اپنے ہیجان پر قابو پانا ہوگاورنہ اول ہم اسلام کا روشن چہرہ بگاڑدیں گے دوئم ایک جاری عمل کو متاثرکردیں گے سوئم ان ممالک کو خود سے دور کردیں گے جوہمارا ساتھ دہنا چاہتے ہیں غلط اور نامناسب ردعمل کی بناپر ہم بھارت ،چین اورروس کو یا مشرق بعید کے ان ممالک کوہراساں کرسکتے ہیں جو شایدہ ہماری حمایت کرنے والے ہوں ۔ ان کی جانب سے نفرت اورمخاصمت پر مبنی ان نازیبا حرکات کے باعث ہم مجروح ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اس نازک اور حساس وقت پر ہم نے پوری ہوشمندی سے کام لینا ہے نہ کہ جذبات میں بہہ جاناہے ہمیں انتہائی ہنری مندی کے ساتھ اپنی سمجھ بوجھ کو بروئے کار لاتے ہوئے اس طرح مقابلہ کرنا ہے جس طرح کشتی میں ،باکسنگ میں یا کسی دوسرے کھیل م،یں عقل اور مہارت سے کام لیاجاتاہے اس موقع پر پریس کو بھی دنیا بھرکویہ پیغام دینے کے لیے استعمال کیاجاسکتاہے مثلا اگر آپ دوسروں کے مقدس یامحترم مقامات پر اسی طرح حملے کرتے ہیں توپھر آپ دوسروں کے دلوں میں بھی اپنے مقدس مقاما ت کے لیے پائے جانے والے جذبہ احترام کو بھی متاثر کرتے ہیں خوہ کیوں نہ لوگ خاموش رہیں اورضبط کامظاہرہ کریں لیکن آپ انہیں کم ازکم یہ سوچنے پر مجبور کردیں گے کہ اب میں میں کہہ سکتاہوں یامیں کیاکرسکتاہوں اس لیے ایسے موقعوں پر احتیاط بہت لازمی ہے ۔ ان باتوں کو بارباردہرانے اوران کے اظہار کی ضرورت ہے آپ کو یہ پیغام الفاظ کی صورت میں ان تک پہنچاناہوگا آپ غلط راہ پر چل رہے ہیں آپ جو کچھ کررہے ہیں غلط دیکھیں ہم حضرت مریم کااحترام کرتے ہیں ہم خدا سے ان پر رحمت کی دعا کرتے ہیں ہم حضرت عیسی کابھی احترام کرتے ہیں اوران پر بھی خداکی رحمت کی دعا کرتے ہیں اورحتی کہ ہم نے صیلبی جنگوں کے دوران بھی ان کااحترام کیااخترام ہمارے مذۃب کی پہلی شرط ہے ،ہم نے کبھی دوسروں کے بتوں کو بھی برابھلا نہیں ہم نے کبھی یہ بھی نہیں کہا کہ آپ کا فلاں دانشور یامفکر فضول انسان ہے ہم ایسا نہیں کرتے کیوں کہ قرآن نے ہمیں اس کاحکم دیا ہے ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کی موجودگی میں حضور ﷺ اپنے اردگرد موجود لوگوں کو ابوجہل کے بارے میں بھی کوئی ناپسندیدہ بات کرنے سے منع فرماتے ۔حضور ﷺ فرماتے "جولوگ اس دنیا سے جاچکے ہیں ان کے خلاف بول کر ان کادل نہ دکھاؤ جوزندہ ہیں "بلاشبہ عکرمہ کا اس منکر سے رشتہ تھا جو اس کا باپ تھا۔حضور ﷺ عبداللہ بن عبیہ بن صلال جیسے منافق شخص کےبارے میں اس کے بیٹے عبداللہ کی موجودگی میں بھی کچھ نہیں کہتے حتی کہ حضور ﷺ سے جب کہا گیا توانہوں نے اس منافق کے جنازے میں بھی شرکت کی جب کہ اللہ تعالی کی جانب سے اس منافق کے حق میں دعا کرنے پر تنبیہ کی گئی جس کا حوالہ سورۃ انعام کی آیت 6:108میں ہے۔لہذا اگر آپ لات منات عزی(مکہ میں ظہور اسلام سے قبل موجود بت)کو برا کہتے ہیں یابدھا،برہن یاکنفیوشیس کوبر اکہتے ہیں تواس کے جواب میں انہیں ماننے والے اوران کے پیروکارآپ کے نبی ﷺ کوبرا کہیں گے اس کے علاوہ آپ انہیں اس لےے بھی برانہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ کی تہذیب اور ثقافت آپ کو دوسروں کو براکہنے سے منع کرتی ہے ہوسکتاہے آپ چند افراد کو براکہیں لیکن اس کی وجہ سے کئی لوگوں کوناراض کردیں اوروہ جواب میں آپ کی اقدار کوبرا کہیں ایک مرتبہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا "کسی بھی شخص کواپنے والدین کی برائی نہیں کرنی چاہیے "ایک صحابی نے دریافت فرمایا"اے اللہ کے نبی ﷺ کوئی بھی شخص اپنے والدین کو کس طرح بر اکہہ سکتاہے"تو اللہ کے نبی ﷺ نےفرمایا "اگرآپ کسی کےوالدین کوبرا کہیں گے تووہ جواب میں آپ کے والدین کوبرا کہے گااس طرح آپ نے اپنے والدین کوبرا کہا" اس طرح یہ بات اسلامی فلسفے کے لحاظ سے اپنے والدین کی برائی کے مترادف ہوگی آپ کو اپنی تہذیب اوراخلاقیات کے دائرے میں رہناہے اور اس کی پابندی کرنی ہے اور شاید آپ کی جوابی تدبیر کا دائرہ عمل محدود ہے اس لیے ان لوگوں کا مقابلہ کرناجوکسی اصول اورضابطے کی پاسداری نہیں کرتے مشکل ہے آپ جنگ میں گری ہوئی حرکت نہیں کرسکتے لیکن اس کا کیاکیاجائے کہ دوسرے ان اصلوں کی پاسداری نہیں کرتے ّپ مقابلے میں غیرت اور انسانیت کے اصولوں کوملحوظ خاطر رکھتے ہیں بہتے ریہ ہے کہ آپ انہی کے اندز میں متہ توڑ جواب دینے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس سے خود آپ کا نقصان ہوگا منہ سے غلط الفاظ نکالنے سے گریز کریں ہوسکتاہے وہ کسی ایسی چیز کو بر اکہیں جسے آپ محترم اورمقدس سمجھتے ہوں اورہامرے مذہب نے ہمیں یہی سکھایا ہے آپ اس قسم کی گستاخی پرخاموش نہیں رہ سکتے آپ کو لازما کچھ نہ کچھ کرنا ہوگالیکن آپ کویہ دیکھنا ہوگاکہ کیاآپ کا ردعمل آپ کو اس قسم کے حملوں سے بچا سکتاہے بالفاظ دیگر آپ نے حقائق کامطالعہ اوران کے حل کی تدبیر سوچ سمجھ کرکرنی ہوگی بے ہودگی کےبدے میں بے ہودگی ۔جھنڈوں کاجلانا اورتوہین کے جواب میں توہین مسئلے کا حل نہیں اس کے برعکس اس قسم کے ردعمل کی وجہ سےدوسری جانب بھی اشتعال بڑھے گا ہوسکتاہے کہ آپ کے طرز عمل کی وجہ سے ان کے موقف کو درست قرار دیاجائے ہوسکتاہے وہ کہیں ،" دیکھو یہ لوگ معمولی معمولی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں "انہوں نے جو سنگین حماقت کی ہے اس کے جواب میں ہم نے فہم وشعور کادامن نہیں چھوڑنا۔اپنے خالق اپنے نبی ﷺ اوراپنے قرآن کےس اتھ عقید ت واحترام کے اظہار کے ساتھ ساتھ ہم اس قسم کی جارحیت کے ساتھ کس طرح نمٹ سکتے ہیں اورکون سی عقلی راہ اختیارکرسکتے ہیں انہوں نے جوجرم کیا ہے اس کا جواب دیانچاہے لیکن اس ن کے جھنڈے جلانے سے کیاحاصل ہوگا؟یہ طرز عمل کسی بھی طرح خردمندی پر مبنی نہیں ہو گا اس طرح آپ محض اپنے جوش انتقام او رنفرت کااظہار کررہے ہیں جودوسروں کی نفرت اورنتقام کو بھی ابھارنے کاباعث بن رہی ہے ۔لہذا مہذب طرز عمل بھی ضروری ہے بظاہر ان کا اندازانتہائی مہذب ہے آپ بھی عقل اورنرمی کے ساتھ دوسروں کوزیادہ بہتر انداز میں نشانہ بناسکتے ہیں نرمی اورتحمل کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنے مقصد سے دستبردار ہوجائیں لیکن آپ نے دیوانگی اورجوش سے اجتناب کرتے ہوئے خود کو ان کے حملوں سے بچانا ہے کیاآپ ایساکرسکتے ہیں؟حدیث کے مطابق "برائی کواچھائی اورنرمی سے ختم کیاجاسکتاہے" آپ نے جورویہ اختیا ر کرنا ہے اوراہل ایمان کا طرہ امتیاز ہے پوری دنیا کی نظریں ہم پر ہیں ہمارے ساتھ ایک کھیل کھیلا گیاہے ہمیں کھیل کے اصولوں کومدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھناہے ہم اسباب کو سمجھ کر اوران کا توڑ کرکے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں ہمیں ایسی راہ اختیارکرنی چاہیے کہ دنیا بھی آگے بڑھنے میں ہمارا ساتھ دے جب یہ معاملہ بین الاقوامی قانون کے سامنے پیش کیاجائے تو ہمیں حق بجانب قراردیاجائے اوردوسرے یہ کہنے پر مجبو رہوجائیں "دیکھو انہوں نے اپنا اچھا رویہ کبھی بھی تبدیل نہیں کیا ان کا طرز عمل ہمیشہ منطقی رہاہے " ہمارےمخالف ہمیں اشتعال دلانا چاہتے ہیں اگر ہمارا ردعمل ان کی ہی خواہشات کے مطابق ہواتو پھروہ کسی اور معاملے میں ایسا کریں گے وہ ہمیں گلیوں اور سڑکوں پرلانے کی کوشش کرینگے اوریہ ہماری کمزوری ہےوہ ہمیں اس حد تک لے جانے کی کوشش کریں گے جہاں ہم ہر قدر بھول جائیں وہ رائے عامہ کوہمارے خلاف کردیں گے اور پھر ہمیں اکھاڑ پھینکنا ان کے لیے قطعا مشکل نہ ہوگا ہمیں محتاط رہنا ہوگا جنون اور جذبات پ رمبنی طرز عمل درست نہیں اپنا ذہنی سکون کھوجاتے ، جھنجھلاہٹ اورغصہ کی بناپر بعض لوگ منہ توڑ جواب دینے پر تل بیٹھے ہیں لیکن وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم نہیں ہوئے ۔آزادی کااظہار رائے کامطلب دوسروں کی توہین کی آزادی نہیں ہے اگر آپ کسی کی شریک حیات کے بارے میں بھی کوئی غلط مواد شائع کرتے ہیں توآپ کا لازما کئی اعتراضات کا امنا کرنا پڑیگااورآپ سے وضاحت طلب کی جائے گی اگرآزادی اظہار کے نام پر برطانوی شاہی خاندان یا انقلاب فرانس کے خلاف کچھ لکھیں تو ان کاردعمل کیاہوگا؟یاان کے علاوہ آپ کسی بھی اور کے خلاف اگر کچھ لکھیں توآپ خوداندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کا ردعمل کیاہوگا؟آپ صرف یہ کہہ کرجان نہیں چھڑا سکتے کہ یہ آزادی ہونی چاہیے لیکن اگر آپ دوسروں کے تصورات کااحترام نہیں کرتے توآپ ان کی آزادی سلب کرتے ہیں آزادی کی بھی حدود ہونی چاہیں آپ نے سب کااحترام کرناہے انہوں نے کارٹون شائع کرکے ایک بہت بڑا جرم کیاہے یہ ہرلحاظ سے گستاخی اوربے ہودگی ہے انہیں چاہیے جوبھی قدم اٹھائیں سوچ سمجھ کر اٹھائیں ۔
- Created on .