لندافکار کے حامل معاشرے کی تشکیل
اس دور کے لوگ مثالیت پسندی کی کمی کا شکار ہیں، نیز بسا اوقات وہ ا پنے اوپر قابو پانے کونظر انداز کرتے ہوئے بدعنوانی پر قائم رہتے ہیں، جبکہ بعض اس سے بھی بڑھ کر اپنے آپ کو مضبوط ارادے کا مالک ظاہر کرنے کے لیے انتشار پسندوں اور دہریوں کی طرح اپنے ماحول کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ جب وہ علیحدہ رہتے ہیں تو ان کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے، لیکن جب وہ سرگرم ہوتے ہیں تودین، اخلاق اور عدل و انصاف کو پامال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دور حاضر کے لوگ کسی نصب العین یا مقصد کے بغیر زندگی گزارتے ہیں۔ پیروی کی خواہش سے محرومی کے باعث بعض اوقات وہ لوگ اپنی قوتِ ارادی کو کمزور ہونے دیتے ہیں اور بعض اوقات اسے ایسے آزاد چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ امن اور انسانی احترام جیسی اُن اقدار کو تباہ کرنے کا باعث بن جاتی ہے،جو کبھی انہیں بھی عزیز تھیں۔ جب وہ غفلت کی حالت میں ہوتے ہیں تو اپنے باطن کو نقصان پہنچاتے ہیں اور جب سرگر م ہوتے ہیں تو ایمان، اخلاقیات اور انصاف جیسی اقدار کو تہس نہس کرتے ہیں۔ لہٰذا معاشرے سے ان کی علیحدگی اور تعامل دونوں ہمیشہ مسائل پیدا کرتے ہیں۔
نفس پرست لوگ ضمیر کی آواز کے بجائے خواہشات نفس سے رہنمائی لیتے ہیں۔ وہ جذباتی طورپر مسلسل رنجیدہ رہتے ہیں، لیکن گپ شپ اور فضول گوئی کو دلی طور پر پسند کرتے ہیں۔ وہ ذاتی نقطہ نظر، نئے خیالات ، ضابطہ اخلاق اور مستقبل کے بارے میں اہم منصوبوں سے عاری ہوتے ہیں۔ جب وہ کمزور ہوتے ہیں تو تقریباً ہر معاملے پر خاموش رہتے ہیں، لیکن جب انہیں طاقت حاصل ہوتی ہےتو تباہی و بربادی کے مختلف ذرائع سے ا پنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بالکل خزاں کے بکھرے ہوئے پتوں کی طرح ہواؤں کے رخ کےمطابق اپنی جگہیں بدلتے رہتے ہیں ، حتی کہ بسا اوقات راہ گیرپتوں کے ان ڈھیروں کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔
سالہاسال تک یہ تاریک اور دلگیر ماحول دورِ حاضر کے لوگوں کی فطرت کا حصہ رہا ہے۔ درحقیقت جب سے اس معاشرے نے قصداً اپنے جذبات، خیالات اور مقاصد پر قدغنیں لگائی ہیں وہ یا تو احساس کمتری سے مغلوب رہا ہے پھر ہذیاتی کیفیت میں بڑیں مارنے لگا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ بات اس کی امتیازی شناخت کے خلاف جنگ تھی۔ بدقسمتی سے آج بھی یہ جنگ ایک دوسرے روپ میں پورے زور و شور سے جاری ہے۔ایک طرف آدھی دنیا نئے دور کے تقاضوں کے پیش نظر نئے منصوبوں کی تکمیل میں لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف بقیہ دنیا کے لوگ پُرانے بحرانوں کے شیطانی چکر میں ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے افکار الجھے ہوئے، جذبات دبے ہوئے، رویے بے ربط اور دل بے رحم ہوچکےہیں۔ عوام بے مقصد رجحانات کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ معاشرہ ایک دوسرے راستے پرچلتے ہوئے ہر روز اپنا رخ تبدیل کرتا ہے اور رہنما ناعاقبت اندیش ہیں۔ ہم جس ادارے کو بھی دیکھتے ہیں وہ اندر سے کھوکھلا ہے۔ یہ صورت حال دیکھ کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت افسوس کے آنسو بہائے بغیر فکر، اخلاق، ثقافت، فن، سیاست یا قانون کی حالت زارکو دیکھنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔
اور بھی بہت سی اقوام اسی قسم کے ظلم و ستم اور بے انصافی کا شکار ہیں۔ وہ ناپسندیدہ رویوں میں ایک دوسر ے سے مسابقت پر اصرار کرتی ، خفیہ طورپر ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتی اور مستقل طورپر برسرپیکار رہتی ہیں۔ شاید یہ اس وسیع و عریض دنیا کا مقدر ہے کہ یہاں ہمیشہ طاقت انصاف پر غالب آتی ہے اور مختلف ممالک تنزل کی طرف دوڑ میں ایک دوسرے کی پیروی کرتے ہیں، لیکن میں پوری دیانت داری سے کہتا ہوں کہ جو جنگ شاہین ہار چکے ہوں چڑیوں سے اس کے جیتنے کی امید رکھنا غلط ہے۔
اس معاشرے کی مثال سطح سمندر پر موجود اس بحری جہاز کی سی ہے،جسے اندر سے نقصان پہنچایا جارہا ہو۔ اس بحری جہاز کو طویل سفر کے لیے تیار کرنے کے لیے ہمیں ایسےحوصلہ مند افراد کی ضرورت ہے،جنہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنے ایمان، عزم اور امید کی حفاظت کی ہو، جن کا نصب العین بلند ہو، جن کی زندگی مستقل خدمت کے لیے وقف ہو اور وہ مادی اور روحانی دونوں طرح کی قربانیاں پیش کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ایسے پُرعزم افراد ہی گزشتہ چند صدیوں سے معاشرے کا گلا گھونٹنے والے ظلم و جبر کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایسے بہادر انسان اپنی نجات کو دوسروں کی خدمت سے وابستہ سمجھتے ہیں اور اپنی بہبودکونظر انداز کرکے اسے دوسروں کی خوشیوں کی خاطر ان کے راستے میں نچھاور کردیتے ہیں۔وہ دوسر وں کو زندگی دینے کے لیے ان کے رگوں میں خون اور ہوا کی طرح گردش کرتے ہیں۔ وہ ارمانوں کی آگ میں جلنے والوں کی جھلسا دینے والی تپش کو کم کرنے کے لیے آبشار بن کربہتے ہیں۔ ان کے اعمال ان کے دلوں کےاحساس ذمہ داری سے جنم لیتے ہیں۔ ان کا رحم انفرادی جوابدہی کی سرحدوں سے ماورہوتاہےا اور ان کی شفقت ساری انسانیت کو اپنی آغوش میں لیے ہوتی ہے۔
اپنے ان اوصاف کی بدولت وہ انسانیت کو اس کا کھویا ہوا روحانی جوہر یاد دلائیں گے۔ وہ گزشتہ چند صدیوں سے بےمقصد جینے والے کاہل انسانوں کے لیے ایک نمونہ بن کر انسانیت کی خدمت کریں گے۔ انسانیت کا مقدراتحاد ہے نہ کہ تقسیم، حتی کہ اگر ہم کئی حقائق سے صرف نظر بھی کرلیں، تب بھی اپنے ذہنوں میں اپنے درمیان مشترکات کے بارے میں سوچنے پر واقعات ہمیں ذاتی جذبات سے زیادہ خوشی و غمی کے اجتماعی ماحول کی طرف کھینچتے ہیں۔ ہمارے ضمیر ہمیں ہماری سماجی اجتماعیت یا ددلاتے ہیں ۔ درحقیقت جس طرح ہماری ہر حرکت کسی نہ کسی طرح دوسروں سے مربوط ہوتی ہے، ا سی طرح دنیا کے دور ترین مقام میں بھی رونما ہونے والے واقعات کا ہمارے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ یہ یکجہتی ہماری عالمگیر انسانیت اور مشترکہ جذبات و خیالات کا نتیجہ ہے۔ دوسروں کے ساتھ رہنا ہمارا مقدر ہے اور دوسروں کے ساتھ اشتراک اور ہمدردی کرنےکے لیے ہماری تخلیق ہوئی ہے۔ اصولی طورپر اگر انسانیت کو اس بات کا ادراک ہو جائے کہ انسان کی فطرت اس یکجہتی کی خاطر ڈھالی گئی ہے تو پھر اس تقدیر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم مل کر اپنی دنیا کا راستہ بدل سکتے ہیں۔
ایک دفعہ یہ فطری رجحان ہمارے ارادوں اور قوت ارادی سے ہم آہنگ ہو گیا تو اس میں عقل، فہم سلیم اور آزاد رائے کے نئے پہلوؤں کے ذریعے مزید بہتری آئے گی۔ اس کے نتیجے میں انسان کے امتیازی مقام کا اظہار ہوگا اور ہمیں اپنے انتخاب اور نیک ارادوں کا بدلہ ملے گا۔ ہماری قوت ارادی ابدی زندگی کے نصب العین کے دروازے کو کھولنے والی کلید ہے۔
لہٰذا جنہیں ابدی زندگی کی جستجو ہے،انہیں دوسروں کو قبول کرنے کو اپنا نصب العین بنانا چاہیے تاکہ اس کے نتیجے میں ابدیت کی طرف جانے والی شاہراہ پر انہی بھی قبول کیا جائے۔ اس کے برعکس جس طرح اپنی نجات دوسروں کی بربادی میں سمجھنے والے، خودغرض، حدسے زیادہ اونچے عزائم رکھنے والے اور بے رحم لوگ دوسروں سے کبھی محبت نہیں کرسکتے،اسی طرح انہیں بھی کبھی پیار نہیں ملتا۔ مزید برآں زخمی کی تکلیف اور غمزدہ کی بربادی کوبہتر طریقے سے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں،جنہوں نے یہ تکلیفیں سہی ہوں۔ جو خوش نصیب دوسروں کے لیے قربانی دیتا ہے اسے سب کی طرف سے حتی کہ نقصان اور غم میں گھرے لوگوں کی طرف سے بھی احترام ملتا ہے۔
جو لوگ خود غرضی اور بے رحمی کا برتاؤ کرتے ہیں وہ اپنی انفرادی دنیاؤں کے اسیر بن کر رہ جاتے ہیں اور حقیقی اجتماعیت کی وسعت کو کبھی بھی محسوس نہیں کرپاتے۔ ایسے خود غرض لوگ دراصل زندہ لاشیں ہیں،جو زندگی اور موت کے راستے میں صرف بدبختی ہی دیکھتی ہیں۔
وہ انسانیت کی حقیقی اقدار کو ختم کرکے صرف اپنے ضمیر ہی کو دھوکا دے رہے ہیں۔ حقیقی زندگی کی تشکیل حال اور مستقبل کی نسلوں کے لیے ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک مثالی زندگی عمدہ مقاصد اور دوسروں کی خاطر گزاری جاتی ہے۔ اس زندگی کا ہر قدم ا س اجتماعی شعور سے عبارت ہے۔ اس قسم کی سوچ حقیقی انسان کے اوصاف کی عکاس اور کمال کا بلند ترین مقام ہے۔ جو لوگ بصیرت کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں وہ اس سوچ کے پس پردہ ساری کائنات کے ساتھ گہرے اور مضبوط تعلق کا بآسانی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ اس غور و فکر کے نتیجے میں انسان اپنے آپ کو ا ور دوسروں کو دل کی آنکھ سے دیکھتا اور ضمیر کی قدر شناسی کے ذریعے محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا جس طرح لوگوں کا اپنی روحانی دنیاؤں کے ساتھ بہت مضبوط تعلق ہوتا ہے اسی طرح ان میں اپنے ماحول کا مشاہدہ کرنے اور اس سے شناسائی بڑھانے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور انہیں ہر چیز پہلے سے زیادہ مہربان اور معقول دکھائی دیتی ہے۔
تاہم یہ انقلاب راتوں رات ممکن نہیں۔ یہ دراصل اس رحم کا مظہرہے، جو روح کی گہرائی میں عمل تخمیر کے ایک طویل مرحلے اور دل کی زبان میں انسان دوستی کی طرف دعوت کے بعد ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہ دعوت روحانی شخصیات کی طرف سے آتی ہے اور ایک مخصوص عرصے تک ماحول میں اپنے رنگوں کو پھیلانے کے بعد اس بات کی یقین دہانی کرانے لگتی ہے کہ ہر چیز اپنی مخصوص زبان میں محوِ کلام ہے، تاہم چونکہ یہ احساس براہ راست دل سے اٹھتا ہے،اس لیے اسے بیرونی اثرات اور سارے ماحول کوآلود ہ کرنے والے محرکات سے ہر گز متاثر نہیں کیا جاسکتا۔
یہ دعوت زمین و آسمان میں قبولیت کی سب سے زیادہ حقدار ہے، کیونکہ یہ ایمان پر مبنی اور رحم سے بھرپور ہے۔ ایک دن روحانی دنیاؤں کے باسی اس دعوت کو شرف بخشیں گے اور اسے عزت و احترام کے ساتھ اندر جانے کا راستہ دینے کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیں گے ۔ تب تمام دل رحم کے جذبے سےدھڑکیں گے، رحم کے ساتھ سوچیں گے، رحم کے ساتھ بولیں گے، رحم کے ساتھ کا م کریں گے اور رحم کے ساتھ ساری دنیا کوقبول کریں گے . . . اور مجھے یقین ہے کہ وہ دن آئے گا جب دنیا رحم کا ایک روشن عکس بن جائے گی اور ہم نہ صرف خود زندگی کوپہلے سے زیادہ خلوص کے ساتھ قبول کریں گے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں گے۔ لالچ سے مکمل طورپر بچتے ہوئے دوسروں کو ابدیت کا راستہ دکھا کر اور اپنی اور دوسروں کی باطنی قوتوں کا مشاہدہ کرکے ہم ایک بہت ہی مختلف زاویہ نظر سے دیکھنے کی روحانی صلاحیت حاصل کرلیں گے۔ ہم صرف انہی اچھے خیالات پر مطمئن نہ ہوں گے جنہیں ہم عملی جامہ پہنا سکتے ہیں، بلکہ ہم اپنی صلاحیتیوں سے بڑھ کر اچھائی اور مہربانی کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ جب یہ ناممکن الحصول ممکن الحصول بن جائے گا تو احسان کے شکریہ کی آواز بلند ہوگی اور مابعد الطبیعاتی معیارات ہمارے دلوں میں توقعات اور امیدیں پیدا کریں گے۔
اس درجے کا روحانی مقام جو مہربانی کے اظہار کے ذریعے فرد کی حدود کا تعین کرتا ہے، انسان کی شخصیت کا یقیناًسب سے گہرا اور شاندار پہلو ہے۔ ایسے افراد کو خدا اور مخلوق دونوں کے ہاں غیر معمولی عزت ملتی ہے اور وہ کامل ترین مخلوق ہونے کا شرف حاصل کرلیتے ہیں۔ان کی ہر کسی سے محبت حق تعالیٰ کے ساتھ ان کے مضبوط تعلق کا نتیجہ ہوتی ہے۔یہ انفرادی سطح کا ایک نصب العین ہے، لیکن اپنی زندگی تک قربان کرکے اپنی قوم کی ترقی کے لیے دعا کرنا قومی سطح کا ایک عظیم نصب العین ہے اور یہ بات کہنا ایک مابعدالطبیعاتی نصب العین ہے کہ اگر مجھے یقین ہوجائے کہ میری قوم کا ایمان محفوظ ہو چکا ہے تو مجھے جہنم کی آگ میں جلنا بھی منظور ہے۔[1] یہ نصب العین دراصل ہمہ گیر احساس ذمہ داری، رحمت اور قتل کی دھمکیاں دینے والوں سے یہ کہنے کے عالمگیر رحم پرمبنی ہے: ’’اے میرے خدا میری قوم کو بخش دیجیے، کیونکہ وہ جانتی نہیں۔‘‘ [2]
ہمارے آج کے معاشرے کوبلند افکار کے حامل حوصلہ مند افراد کی ضرورت ہے۔ اسے نہ صرف اپنی قوم بلکہ تمام انسانیت کے ساتھ ہمدردی کے احساس کے تحت ایک دوسرے کا ہاتھ تھام سکنے والے مثالیت پسند افراد کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے اولوالعزم مثالیت پسندوں کی ضرورت ہے، جواپنی ہر دعا میں دوسروں کی بھلائی کےلیے خدا سے التجا کرتے ہوں اورچونکہ اس عظیم مطالبے کوکوئی اورپورا نہیں کرسکتا اس لیے اس آوازکوبلند کرنا اور اپنے آپ کواس کے لیے تیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
[1] یہ بدیع الزمان سعید نورسی (متوفی۱۹۶۰ء) کا مقولہ ہے۔
[2] غزوہ احد کے موقع پر کفارِمکہ کے ہاتھوں زخمی ہونے کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا ارشاد فرمائی تھی۔
- Created on .