فرانس 24 کے لیے محمد فتح اللہ گولن کا انٹرویو
سوال: صدر اردگان کہتے ہیں کہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود ہیں کہ 15جولائی کو ترکی میں ہونے والی بغاوت کی کوشش کے پیچھے ماسٹر مایئنڈ آپ ہیں۔ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدر اردگان سے کافی قربت ہے اور وہ ان کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی نمایاں امکان یا کوئی واضح خطرہ موجود ہے کہ آپ کو ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکہ سے ترکی ملک بدر کر دیا جائے گا؟
گولن: میں اسے کوئی سنجیدہ نوعیت کا خطرہ نہیں سمجھتا۔کیونکہ اس بات سے قطع نظر کہ صدر ٹرمپ میرے یا اس تحریک کے متعلق کیا سوچتے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ وہ یا کوئی بھی دوسرا امریکی صدر دنیا بھر میں امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا خطرہ مول لیتے ہوئےترک صدر کے ان غیر معقول مطالبات پر عمل کرے گا۔چنانچہ میں ان امکانات پر پریشان نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ریپبلکن یا ڈیموکریٹ صدر دنیا بھر میں امریکہ کی ساکھ کو خطرے سے دوچار نہیں کرے گا۔
اب اردگان ہم پر الزام تراشی کر کے اور ناکام بغاوت کی کوشش کو استعمال کرتے ہوئے اس تحریک کو مزید نقصان پہنچانے اور مجھ پر الزام تراشی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ الزام قطعی طور پر غیر معقول ہے اس لیے میں ایک مرتبہ پھر ترک صدر کے لیے اپنی اس پیشکش کو دہرانا چاہتا ہوں کہ مجھے کسی بھی بین الاقوامی کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا موقع دیا جائے۔یہ نیٹو ممبران ہو سکتے ہیں یا پھر یورپین پارلیمنٹ کے اراکین۔ یہ ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انساف کےممبران بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ اس معاملے کی آغاز سے اختتام تک تحقیقات کریں۔ وہ اس کا تفصیلی جائزہ لیں۔ اگر وہ اس کے نتیجے میں میر۱اس سے معمولی سا بھی ربط بھی تلاش کر لیتے ہیں تو میں اپنی مرضی سے، اپنا ٹکٹ خرید کر اس ملک سے چلا جاوں گا۔
سوال: آپ نے اس متعلق بتایا کہ کس حد تک ترک حکومت آپ کے پیچھے لگی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ آپ کے اور اردگان کے درمیان ہمیشہ سے ایسا معاملہ نہیں تھا۔ آپ پانچ برس قبل تک اتحادی تھے اور اب آپ ان کے دشمن نمبر ایک ہیں۔ کیا یہ صورتحال دونوں جانب یکساں ہے؟ ایسا کیا ہو گیا ہے؟
گولن: میں نے کبھی کسی کو اپنا دشمن تصور نہیں کیا۔ میرے دل میں اس کے خلاف نفرت یا انتقام کا کوئی جذبہ نہیں مگر شاید اس کے دل میں ہے۔ شاید میں نے ایسا کیا کہ اسے خبردار کیا۔ مثال کے طور پر میں نے اس متعلق اپنے محسوسات لکھے کہ کرد مسئلے کا درست حل کیا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ بمباری اور سخت اقدامات انھیں فرمانبردار شہری نہیں بنا سکتے۔ میں کبھی بھی ایک مکمل سیاسی شخص نہیں رہا اور نہ ہی کبھی اس کا حامی رہا۔ میں کبھی ان کے قریب بھی نہیں رہا۔ میں اس سے شاید صرف دو تین مرتبہ ہی ملا ہوں جن میں سے ایک اس کے پارٹی بنانے سے قبل تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے مشورہ مانگا اور میں نے اسے وہ کچھ بتایا جو مجھے اس کی پارٹی کے لیے درست لگا۔ ایک اور موقع پر بوسنیا کے لیے ایک امدادی میچ تھا اور وہ آ کر میرے ساتھ بیٹھ گیا اور کسی نے وہ تصویر کھینچ لی۔ بعد میں بہت سے اخبارات نے وہ تصویر متعدد بار یہ کہنے کے لیے استعمال کی کہ ہم دوست ہیں۔ ہم کبھی دوست نہیں رہے۔ ہم میں کبھی بھی اس قسم کا اتحاد و یگانگت نہیں رہی۔ مگر کچھ وقت کے لیے ان کی نرم روی کی وجہ سے شاید دوستوں کو انھیں ووٹ دینے کے لیے کہا۔ ہم نے اسے اسلامی اصول کے مطابق چھوٹی برائی تصور کیا۔
سوال: آپ کہتے ہیں کہ آپ کبھی بھی سیاسی نہیں رہے مگر ترک حکومت 2016کی بغاوت کے حوالے سے کہتی ہے کہ آپ بغاوت کے سربراہان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ کیا آپ ان سے رابطے میں تھے یا آپ نے کسی بھی انداز میں ان کی حوصلہ افزائی کی؟
گولن: انھوں نے کوئی احتجاجی تحریک نہیں چلائی اور اب بھی نہیں کریں گے۔ میں انھیں کچھ نہ کہہ سکا کیونکہ حکومت نے تمام ذرائع منقطع کر دیے ہیں جن سے میں ان تک پہنچ سکتا تھا۔ ہمارے مواصلاتی نطام کی تمام شریانیں بند کی جا چکی تھیں۔ انھوں نے اخبارات بند کر دیے۔ انھوں نے ٹی وی سٹیشن بند کر دیے۔ صرف انھیں میڈیا اداروں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی جو حکومتی نقطہ نظر بیان کرتے تھے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے وہ عوامی نقطہ نظر ہموار کر سکتے ہیں۔
سوال: حزب ختلاف میں، حکومت کے مخالف ترک عوام میں ، جیسا کہ آپ نے کہا کہ اپوزیشن پارٹیوں میں بھی آپ کے پیروکاروں کے لیے شدید نفرت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پیروکار اپنے کیے کا مزہ چکھ رہے ہیں کہ پانچ برس سے زائد یہ لوگ بیوروکریسی، حکومتی سیکیورٹی سروسز، عدلیہ میں سرایت کر گئے اور اس موقع پر انھوں نے لوگوں کے خلاف کریک ڈاون کیا اور اس وجہ سے آپ کے پیروکار ترک عوام کی ھمدردیاں کھو بیٹھے۔ آپ ان الزامات پر کیا رد عمل دیں گے؟
گولن: حکومتی پارٹی نے فوجی افسران کے خلاف مقدمات ممکن بنائے۔ اردگان وزیر اعظم تھا اور اس نے کھلے عام کہا کہ وہ خود پراسیکیوٹر ہے۔ یہ بھی رپورٹ آئی کہ اردگان نے خود فوجی سربراہ کو جیل میں ڈالنے کے لیے کہا۔ بظاہر اس انداز میں وہ فوج پر قابو پانا چاہتا تھا۔ جب ایک مرتبہ یہ سب ہو گیا تو اس نے میری تحریک کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس نے میری تحریک کو نشانہ کیوں بنایا ، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ میرے خیال میں ایک سبب تو یہ ہے کہ اس تحریک نے اردگان کی خواہش کے بر خلاف کئی ممالک میں اسکول اور تعلیمی ادارے قائم کیے۔ اردگان کو ان سے یہ توقع ہے کہ وہ اس کی بطور خلیفہ اور مسلمانوں کے ایک عالمی رہنما کی حیثیت سےتعریف کریں۔ اردگان کو یہ سب نہیں مل پایا لہٰذا اس نے ہماری تحریک کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کے ایمان کا تقاضہ ہے۔
سوال: جناب گولن! یہاں امریکہ میں پراسرایت اور دھندلاہٹ نظر آتی ہے۔ آپ یہاں دور پہاڑوں میں رہتے ہی۔ آپ کی تحریک کے اپنے اخبارات ہیں، اسکولز اور کاروبار ہیں۔ یہ تمام گولن تحریک سے منسلک ہیں۔ اور پھر ان میں سے ایک کے پاس بھی آپ کا نام نہیں، کسی کا ٹایٹل بھی آپ کے نام سے منسوب نہیں۔ شفافیت کی یہ کمی کیوں؟ آپ کیا چھپا رہے ہیں؟
گولن: وہ لوگ جو شفافیت کی کمی کا دعویٰ کرتے ہیں میں انھیں کھلی دعوت دیتا ہوں۔ کوئی بھی ادارہ جس کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ چھپا رہا ہے، تمام تحقیقاتی ادارے، ایجنسیاں، ایف بی آئی ان اداروں کے متعلق تحقیقات کر لیں۔
میری ملاقات کانگریس کے ایک رکن سے ہوئی۔ میں نے اسے یہ بات بتائی۔ اس نے کہا کہ وہ شفافیت کے عمل سے مطمئن ہے۔ میں نے کسی سے کبی نہیں کہا کہ اس کا مجھ سے کوئی بھی تعلق ہے۔ یہ شفافیت یا راز رکھنے کا معاملہ نہیں۔ یہ محض میری جانب سے ایک نظریے کا اظہار ہے۔ یہ نظریہ یہ ہے کہ تعلیم معاشرتی مسائل کے حل کا بہترین ذریعہ ہے۔ میں یہ بات کئی عشروں سے کہہ رہا ہوں اور اس پر یقین رکھنے والوں نے 170ممالک میں اسکول قائم کیے۔ میں ان اسکولوں کے قاےم کرنے والوں میں سے ایک فیصد کو بھی نہیں جانتا۔ وہ شاید مجھے جانتے ہوں مگر یہ کوئی رازداری نہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جو اس مواملے میں رازداری کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنی سمجھ کے مطابق شفافیت کی بات کرتے ہیں، وہ جیسے چاہیں تحقیقات کر لیں۔
سوال: مجھے یہ پوچھنے دیجیے جناب کہ آپ اور آپ کی تحریک کے متعلق بہت سی رپورٹیں اور افواہیں گردش کرتی رہی ہیں اور اسے ایک مسلک کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ کیا اٰپ اس مسلک کے رہنما ہیں؟
گولن: میں خود پسند نہیں۔ میں ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو مجھے پسند کرتے ہیں۔میں خود کو تمام لوگوں سے کمتر خیال کرتا ہوں۔ اگر میں خود کو بچانا چاہوں تو صرف اللہ کی مرضی سے چاہوں گا۔ میں خود کو ایک گنہگار تصور کرتا ہوں۔
سوال: بغاوت کے متعلق اب تک کی تحقیقات کی جانب لوٹتے ہوئے اور بہت سے ترک عوام نے مجھ سے آپ سے یہ سوال پوچھنے کو کہا۔ کیونکہ وہ یہ سب جاننے کے لیے بے چین ہیں۔ کیونکہ اب تک حکومت کا کیس صرف ایک شخص کے گرد گھومتا محسوس ہوتا ہے جس کا نام عادل اوکسوز ہے۔ حکومت کہتی ہے وہ ایک مولوی تھا اور آپ کی تحریک کا پیروکار تھا اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسی شخص نے بغاوت کا منصوبہ ترتیب دیا۔ بغاوت کی کوشش کی رات وہ انقرہ کے فوجی اڈے کے قریب سے پکڑا گیا۔ اسے کچھ دیر کے لیے حراست میں رکھا گیا اور پھر چھوڑ دیا گیا اور اس وقت سے وہ شخص غائب ہے۔ حکومت یہ بھی کہتی ہے کہ یہ شخص آپ سے ملا تھا۔ وہ امریکہ پہنچا اور بغاوت سے قبل آپ سے ملاقات کی۔ کیا آپ عادل اوکسوز کو جانتے ہیں؟ کیا آپ اس سے ملے ہیں؟ کیا بغاوت سے قبل آپ اس سے ملے؟
گولن: میرا خیال ہے کہ عادل اوکسوز اس وقت سٹڈی سرکل کا حصہ بنا جب وہ اسکول میں تھا۔ ؓگاوت کے تناظر میں مجھے علم نہیں کہ اگر وہ یہاں آیا ہو۔ چند برس قبل ایک مرتبہ وہ یہاں آیا تھا۔ بعد میں میں نے میڈیا میں اس کے بچے کی میرے ہمراہ تصویر دیکھی۔ یہ وہ چیز ہے جو سینکڑوں لوگ میرے ساتھ کرتے ہیں۔ ایک تصویر سے لے کر اس قسم کا تعلق قائم کرنا اور پھر نتائج تک پہنچنا۔
دراصل عبداللہ گل بھی صدر یا وزیر اعظم بننے سے قبل مجھ سے ملنے آیا تھا۔ جہاں تک عادل اوکسوز کی بات ہے وہ انھیں کہیں ملا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کون سی جگہ اور پھر انھوں نے اسے چھوڑ دیا۔ اور یہ اس کے اور ترک انٹیلیجنس کے درمیان تعلق ثابت ہوا۔
خفیہ ادارے کا سربراہ ہاکان فدان بھی دو مرتبہ یہاں آیا اور میرے بھتیجے کے ساتھ کھانا کھایا۔ ہر کوئی یہاں آیا، میری ہر ایک کے ساتھ تصاویر ہیں۔ چنانچہ کسی کے یہاں آنے اور میرے ہمراہ تصاویر کی بنیاد پر دعویٰ کرنا فہم سے بالاتر ہے۔
سوال: ہم جانتے ہیں کہ آپ کے بہت سے پیروکار ترکی میں قید ہیں۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ آپ کے لیے اپنے پیروکاروں سے رابطہ کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ میڈیا اور اخبارات بند کر دیے گئے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ افغانستان اور صومالیہ وغیرہ میں آپ کے بہت سے اسکعل بھی بند کر دیے گئے ہیں۔یہ سب مجھے یہ سوال پوچھنے پر مجبور کر رہا ہے۔ کیا آپ کی تحریک ختم ہو گئی؟
گولن: میں ایسا نہیں سمجھتا۔ کچھ جگہوں پر اسکول ترکی سے وہاں جا کر انھیں قائم کرنے والے لوگعں سے لے کر مقامی لوگوں کو دے دیے گئے ہیں۔ مگر ان کی سر گرمیاں جاری ہیں۔ مثال کے طور پر ایشیا اور مشرقی ایشیا میں۔ ایک دو جگہوں پر ترک انتظامیہ نے کچھ اسکولوں کو بند کیا ہے۔
170ملکوں میں ہمارے اسکول اب بھی قائم ہیں جن میں امریکہ، برسلز اور یورپ شامل ہیں۔
لہٰذا یہ سب اس امر کا عکاس ہے کہ اس تحریک کا محور و مرکز محبت ہے اور یہ جاری و ساری رہے گی۔ سیاستدان، ان کا وقت محدود ہوتا ہے۔ وہ جمہوری طریقوں سے چلے جائیں گے۔ لیکن یہ تحریک جو محبت پر قائم ہے جاری رہے گی۔
- Created on .