رہنمائی کی روح اور حق پر ثابت قدمی
سوال: حضرت بدیع الزمان سعید نورسی فرماتے ہیں: ’’بے شک ماخذ کے اندر موجود قدسیت امت کے عام لوگوں اور جمہور کواحکام کو بجا لانے پر دلیل کی قوت سے زیادہ ابھارتی ہے۔‘‘(1)اس کلام کا کیا مطلب ہے؟
جواب: یہاں جمہور امت اور عوام سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو اسلامی علوم کا علم نہیں، جو دینی زندگی میں تقلید کرتے ہیں اور دین کی روح تک نہیں پہنچ سکتے۔ پس ایسے لوگ اکثر اوقات عقلی، منطقی اور فلسفیانہ دلائل سے بے بہرہ رہتے ہیں یا وہ ان کو جان نہیں سکتے کیونکہ علمی استنباط کی گہرائی کو ناپنا ا ن کے لئے مشکل ہوتا ہے جبکہ وہ وضعی علوم کے نتائج کو بھی آسانی سے نہیں سمجھ سکتے، اس لئے ان کو عقلی اور فلسفیانہ دلائل سے مخاطب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سے ہمارے اوپر یہ بات لازم ہوجاتی ہے کہاگر ہم ان سے کسی شرعی حکم کے بارے میں بات کرنا چاہیں ، خواہ وہ فرض ہو یا حرام یا مباح یا مستحب ، توان سے یوں کہیں کہ: ’’قرآن کریم نے اس مسئلے کے بارے میں یہ حکم فرمایا ہے یا سنت صحیحہ کا حکم یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ اسلوب اثر اور لزوم کے لحاظ سے ان کے لئے زیادہ موثر ہے کیونکہ قرآن کریم اور سنت رسول ان کی نظر میں دو قوی اور مضبوط ماخذ ہیں(اور حقیقت میں بھی بات یہی ہے) اس لئے ان دونوں پر اعتماد کرنا اوران کے احکام بجا لانا ضروری ہے۔
اس لئے عوام سے بات کرتے ہوئے ہم پر لازم ہے کہ ہم فقہی تحلیلات اور قواعد کلیہ کے بیان سے بچیں اور قرآنی آیات اور نبی کریم ﷺ کے اقوال اور افعال کو ترجیح دیں۔ بالفاظ دیگر یہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ جن مسائل کو بیان کرنا چاہتے ہیں، ان کو نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ سے جوڑیں اور یوں کہیں کہ ’’سید السادات ﷺ یوں معاملہ فرماتے تھے، یوں تشریف فرما ہوتے تھے، اس طرح اٹھتے تھے، یوں تناول فرماتے تھے اور ایسے پانی نوش فرماتے تھے۔ ۔۔الخ‘‘ کیونکہ یہ اسلوب زیادہ رہنمائی اور زیادہ قائل کرنے والا ہے۔
جی ہاں ، بنیادی ماخذ کتاب و سنت ہے، لیکن اس کے باوجود بعض عظیم شخصیات کولوگوں کی جانب سے احترام اور اعتماد ملا کیونکہ ان کی زندگی قرآن و سنت کے گرد گھومتی تھی اور ان سے ذرہ بھی ادھر ادھر نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ ان کی یہ زندگی (کسی معنی میں) اپنے مخاطبین کے لئے ایک طرح کا ماخذ بن گئی۔
علماء کی حق پر ثابت قدمی
روایت ہے کہ حضرت ا مام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حضور ہزار وں شاگردوں نے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان میں حضرت ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر جیسے لوگ بھی شامل تھے جبکہ آپ کے علمی حلقے میں عوام اور بہت سے لوگ حاضری دیتے تھے جو آپ کی باتوں کو پوری طرح نہیں سمجھتے تھے کیونکہ امام صاحب جو علمی مسائل اور ان کے دلائل، اور ان سے متعلق فقہ کے خاص اصول اور اجتہاد کے طریقے اوران کے دلائل بیان کرتے تھے، وہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہوتے تھے لیکن آپ کا اپنے رب سے قرب ، نبی کریم ﷺ کے اتباع اور راہ حق پر ثابت قدمی نے لوگوں کے دلوں پر ہزاروں دلائل سے زیادہ اثر چھوڑا۔
اسی طرح امام شافعی، امام مالک اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا حال بھی ایسا ہی تھا۔ یہ ائمہ راہ حق پر اپنے موقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنے تک اپنے موقف میں اس بلندی کو برقرار رکھا۔ جی ہاں، امام شافعی رحمہ اللہ کو مسلمان حکام کے حکم سے زنجیروں میں جکڑ کر جواب طلبی کے لئے بغداد لایا گیا لیکن جب ان کے ارد گرد موجود لوگوں نے آپ کی علم کی وسعت اور معرفت کی گہرائی کو دیکھا تو آپ کو تکلیف دینے سے باز آئے۔ آپ کی عزت اور توقیر کی۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو جیل میں ڈالا گیا، کوڑے مارے گئے، شدید تکلیفوں سے دوچار ہوئے، لیکن اس کے باوجود اپنا موقف کبھی نہیں بدلا۔ بعد کے زمانے میں اگر ہم امام غزالی رحمہ اللہ کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ وہ بھی ایک عظیم انسان تھے جو حق سے ذرا بھر دائیں بائیں نہیں ہوئے اورامت کے دلوں میں تجدید کی روح ، دینی مسائل کی تشریح کےایک نئے انداز میں منفرد رخ سے کرکے، امت کی روح کو بیدار کرنے کے لئے اپنی ساری توانائیاں خرچ کرتے رہے۔ پس جب جمہور امت اور عوام نے ان علماء کو دیکھا، حق پر ان کی ثابت قدمی کو دیکھا، تو ان کو اپنا ایسا رہنما بنا لیا جو قابل تقلید و اتباع ہیں۔
حق کی جانب دعوت پر استقامت
حضرت بدیع الزمان سعید نورسی رحمہ اللہ بھی اس رستے اور منہج پر چلے اور کوشش کی کہ وہ اپنے زمانے کی آواز اور اس کی گونج بن جائیں اور سائنس اور فلسفے سے پیدا ہونے والی گمراہیوں سے مقابلے کے لئے عقلی، منطقی اور سائنسی دلائل کے ذریعے ایمان کے محل کو دوبارہ تعمیر کرنے کی سعی فرمائی اوراس بات کی جدوجہد کی کہ اسلام کو اس طرح پیش کریں کہ وہ عقلوں کے موافق اور روح کے جذبات سے ہم آہنگ ہو۔ اس لئے اگر آپ ان کے افکار پر غور و فکرکریں اور ان کو کھنگالیں تو ان کی گہرائیوں میں آپ کو بہت سے موتی اور جواہرات مل جائیں گے اور اگر آپ ان کی کتاب ’’الملاحق‘‘ پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کوان قوانین اور قواعد و ضوابط کا علم ہو جائے گا جو انہوں نے اپنے پیروکاروں کو گمراھی اور کجی سے بچانے کے لئے وضع کئے ہیں۔ یہ قواعد و ضوابط ایمان اور قرآن کی خدمت کا ارادہ کرنے والوں کے لئے ان کا رستہ روشن کرتے ہیں۔ آپ رحمہ اللہ نے اگرچہ اپنی ان کتابوں میں سے کسی کتاب پر تزئین وآرائش نہیں کی جن کے سامنے عقلیں حیران ہیں، مگر آپ کی وہ ثابت قدمی جس پر آپ اپنی اسّی سال سے متجاوز ساری زندگی کا ربند رہے ، وہ بہت سوں کی پیاس بجھاتی تھی۔ جی ہاں، آپ رحمہ اللہ اپنی ثابت قدمی اوربلندی سے ان حقائق کو بیان کرتے تھے جو کئی کئی جلدوں میں نہیں سمو سکتے۔
اس حالت پر قیاس کرتے ہوئے مسلمان عوام نے ایک طویل عرصے سے ان حضرات پر اعتماد کرلیا جو اللہ تعالیٰ سے تعلق میں اس درجے تک پہنچے ہوئے تھے اوران کے اقوال اورافعال پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے ان کی اتباع اور پیروی کی اور اس بارے میں عقلی دلائل اور منطقی قیاسات کی کوئی پروا نہیں کی بلکہ ان حضرات کے موقف کواپنا موقف اوران کی منزل کو اپنی منزل سمجھ لیا۔
قلب وروح کے افق پرتجدید
مختلف زمانوں میں مختلف انداز میں تجدید و احیاء کی تحریکیں ظاہر ہوئیں لیکن معاشرے میں تجدید کے عمل کی کامیابی ان لوگوں پر موقوف تھی جنہوں نے اپنے اندر کی دنیا پر نگاہ رکھی اور اپنا محاسبہ کیا، اپنی روح کے مرتبے کے مطابق زندگی گزاری اوراپنی عمر قلب و روح کی زندگی کے مدار میں گزاری جبکہ یہ کامیابی ان لوگوں کو نہ مل سکی جنہوں نے قلب و روح کے مرتبے سے غفلت برتی، صرف اپنی عقل اورمنطق پراکتفا کرلیا اورلوگوں کے سامنے ایسے علم کو بیان کرتے رہے جس کے ساتھ عمل نہیں تھا۔
تجدید و احیاء کی تحریکوں کے پیچھے قلب و روح کے میدان کے سرخیل ہوا کرتے تھے۔ زندگی کی روح پھونکنے والی ان ہستیوں کی مثال کے طورپر مسالک و مایرب کے اختلاف کے باوجود بے شماراصحاب دل کو پیش کرسکتے ہیں کیونکہ ان عظیم حضرات نے کسی بھی دنیوی فائدے کو سوچے اوران کاانتظار کئے بغیر یا عمل کے مقابلے میں ملنے والے کسی اجر کی تمنا کئے بغیر اپنی زندگی کو راہ حق کے لئے وقف کردیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے ماحول میں ان لوگوں سے بڑے قلب و روح کے مالک لوگوں کی تربیت کی جن کو تم اپنے ہزار اسکولوں میں تعلیم و تربیت دیتے ہو۔
میری ان باتوں سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ علم اورعلمی حقائق کا دروازہ بند کردینا چاہیے یا یہ کہ علم اور علمی حقائق ہمارے لئے مناسب نہیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ علم، اس کے تحصیل کے طریقے اور علمی حقائق، دوبارہ ہمارے احیاء کے لئے نہایت ضروری وسائل ہیں جبکہ یہاں ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ماخذ کی قدسیت کی تاثیر بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر سچائی، اخلاص، اللہ تعالیٰ سے قرب ، اس سےتعلق اوروفاداری ہوتی ہے جبکہ ان عناصر کے اندر مخاطب کے نفس پر گہرے اثرات کے اسرار پوشیدہ ہیں۔
(1) بدیع الزمان سعید نورسی، الکلمات، اللوامع:826، المکتوبات، نوی الحارئق:572
- Created on .