نظام الاوقات اور ہماری خاندانی زندگی
سوال:نبی کریم ﷺ بیک وقت داعی اور حکمران تھے ۔ اور اسی وقت ایک باپ، خاوند اور اپنے اصحاب کے قریبی دوست بھی تھے۔ اس کے باوجود آپ علیہ السلام اپنے اوقات کو اس طرح مرتب فرماتے تھے کہ ان میں سے کسی کے حق میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تھی۔اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ اعلیٰ اہداف والے لوگوں کو اپنے اوقات مرتب کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے تاکہ وہ اپنے اوپر لازم حقوق میں توازن قائم کرسکیں؟
جواب: اوقات کو مرتب کرنے کا مطلب ہے کہ آدمی ان تمام امور کا خیال رکھے جو اس کو کرنے چاہئیں، اپنی ترجیحات کو پہچانے اور زندگی کے لئے ان کے مطابق منصوبہ بندی کرے۔ اسی منصوبہ بندی میں ہماری عبادت کی زندگی بھی شامل ہے جیسے نماز، ذکراور دعا جبکہ جن لوگوں کا خیال رکھنے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے جیسے خاندان اور بال بچے وغیرہ، وہ اس کے علاوہ ہیں۔مثلاً کوئی مومن قیام اللیل کو خدمت کا بہانہ بنا کر نہیں چھوڑ سکتا بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسا نہ کرے۔ جی ہاں ، مسلمان دل کو چاہئے کہ وہ قیام اللیل میں سے اپنا حصہ حاصل کرے، خواہ وہ دو رکعت نماز ہی کیوں نہ ہو۔ سچی بات یہ ہے کہ جو شخص رات کو نہیں جاگ سکتا اور دس پندرہ منٹ تہجد اور دعا کے لئے مخصوص کرلیتا ہے تو وہ خدمت کی زندگی میں سے کچھ نہیں کھوئے گا بلکہ اس کے برعکس اس کو کئی چیزیں مل جائیں گی کیونکہ جو شخص رات کو اچھی طرح استعمال کرسکتا ہے وہ ترقی کے راستے پر ہوتا ہے جبکہ رات کو تہجد کی نماز ایک ایسی چیز ہے جس پر اللہ تعالیٰ ملاء اعلیٰ کے باشندوں کے سامنے فخر کرتے ہیں اور رات کے اس وقت کی دعا کا دوسرے اوقات کی دعاؤں سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی طرح پیشانیوں کو زمین پر رکھنا، جائے نماز کے سلاتھ وصال، اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی و انکساری اور گڑگڑانا اور سیاہ رات کی مخصوص اس زبردست خاموشی میں اشک بہانا، ایک ایسی بڑی بات ہے جس کا دوسرے اوقات کی عبادات سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے دن کو مرتب کرتے وقت قیام اللیل سے غفلت نہ برتیں۔
’’ہر حقدار کو اس کا حق دے دو۔‘‘
جس طرح انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان عبادات سے غفلت نہ برتے جو اس کی قلبی اور روحانی زندگی کو غذا فراہم کرتی ہیں، اسی طرح اس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ ان عام حقوق کا بھی خیال رکھے جو اس کی معاشرتی زندگی میں اس پر لازم ہیں اور ان کے بوجھ کے مطابق ان کی ترتیب بنائے اور آپ کو نبی کریمﷺ کا وہ ارشاد گرامی کبھی نہیں بھولنا چاہئے جوآپ علیہ السلام نے ان صحابہ کرام سے فرمایا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے فراغت کی خاطر اپنے عزیزوں سے غفلت برتی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’إن لربك عليك حقًّا، ولنفسك عليك حقًّا، ولأهلك عليك حقًّا، فأعط كلّ ذي حقٍّ حقّه‘‘[1] ( تیرے رب کا تجھ پر ایک حق ہے، تیرے نفس کا تجھ پر ایک حق ہے، تیرے گھر والوں کا تجھ پر ایک حق ہے۔ اس لئے ہر حقدارکو اس کا حق دے دو)۔ ہم نے اس حدیث شریف میں دیکھ لیا کہ وہ اس جانب اشارہ کررہی ہے کہ انسان کی عبادت میں بھی مشغولیت ان حقوق سے غافل ہونے کا سبب نہیں ہونی چاہئے جواس پر لازم ہیں جیسے اس کے نفس کا حق ، بیوی کا حق، بچوں کا حق وغیرہ۔
جس طرح نمازوں کے لئے پانچ اوقات کی تخصیص مسلمانوں کواوقات مرتب کرنے کے بارے میں کئی اہم اسباق فراہم کرتی ہے، اسی طرح لیل و نہارکی تخلیق کی حکمت کے بارے میں قرآنی آیات بھی اس بارے میں کچھ معلومات فراہم کرتی ہیں۔ مثلاً حق تعالیٰ سبحانہ فرماتے ہیں: ﴿وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (سُورَةُ القَصَصِ: 73) (اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایاتاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ شکر کرو)
یہ اور اس جیسی دیگر آیات تنظیم اوقات کے بارے میں مسلمانوں کی راہنمائی کرتی ہیں اور ان سے کہتی ہیں: اگر تم اپنے اوقات کو مرتب کر لو اور دن کووہ کام کر لو جو دن کو کرنا ضروری ہیں اور رات کووہ کام کر لو جو رات کو کرنا ضروری ہیں، تو تمہیں رات کا ایک رخ بھی مل جائے گا اوردن کو بھی ایک اور مرتبہ حاصل ہوگا اورتم اپنی زندگی میں تشویش اور اضطراب سے چھوٹ جاؤگے اور تمہیں ان رکاوٹوں سے اٹکنا نہیں پڑے گا جو بے ترتیبی سے پیدا ہوتی ہیں اور تم زیادہ برکت اور ترقی والی زندگی کا لطف اٹھا سکو گے۔
چوبیس گھنٹے کی ترتیب
اگر نظام الاوقات بنانے سے آپ کا مقصد یہ ہو کہ آپ کے اوقات میں برکت اور ترتیب آجائے تو پھر آپ کو دن کے پورے چوبیس گھنٹوں کا نظام الاوقات بنانا ہوگا۔ اگر آپ ایسا کرسکیں تو پھر آپ واضح طورپر یہ بھی مقررکرسکتے ہیں کہ کون سے کام دن کے کن اوقات میں کرنے چاہئیں۔ ان کاموں میں دوستوں سے ذکر حبیب کے بارے میں ملاقات سے لے کر کتاب پڑھنے اورکمرے کو مرتب کرنے سے ذکر و اوراد میں مشغول ہونے اور بعض معاملات میں گھر والوں سے مشورے سے لے کر آرام کے اوقات تک سب باتیں شامل ہوں گے بلکہ اس ترتیب میں وہ اوقات بھی آسکتے ہیں جو آپ چائے یا پانی پینے اور کھانا کھانے کے لئے مخصوص کرسکتے ہیں۔ مثلاً اگر کھانا تناول کرنے کے لئے بیس منٹ کافی ہوسکتے ہوں تو اسی پر اکتفا کرلینا چاہئے ورنہ کھانے کے بعد فضول باتوں میں ہمارے اوقات ضائع ہوجائیں گے بلکہ ہمیں چوبیس گھنٹوں میں احتیاطی اوقات بھی رکھنے چاہیں، تاکہ کسی اچانک پیش آنے والے کام کی وجہ سے نظام الاوقات میں خلل نہ پڑے۔
اگر ہم اپنے کاموں کو اس کے تمام اصول و فروع کے ہمراہ اس طرح تفصیل کے ساتھ مرتب کریں گے تو وقت میں مزید برکت پیدا ہوگی اور انسان کو اپنے کاموں کا ثمر کئی گنا بڑھ کر ملے گا کیونکہ اگر زندگی کی ترتیب بنالی جائے تو انسان اپنے اوقات میں ترتیب پر آجاتا ہے اور ایک خاص پروگرام کے مطابق کام کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اس روحانی مہمیز کی وجہ سے اپنے کام سہولت اور آسانی سے انجام دے سکتا ہے۔
میری ان باتوں سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس طرح کے طرز زندگی کے ذریعے انسان کو مشین بنایا جارہا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان مرتب ہو اور اس کی زندگی ایک نظم وضبط کے تحت گزرے جبکہ مرتب انسان عبادت اور اطاعت میں سستی کرتا ہے،نہ ذکرو اوراد سے غافل ہوتا ہے، نہ ان ذمہ داریوں میں کوتاہی کرتا ہے جو اس کے کاندھوں پر ہوتی ہیں اور نہ ہی اپنے اہل خانہ کے حقوق میں کوئی کمی کرتا ہے۔
ہمارے ساتھ اسی رستے پر چلنے والوں کو قائل کرنا
وقت کو مرتب کرتے وقت ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ کرنا بھی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ آدمی کے لئے ضروری ہے کہ جو لوگ اس کی زندگی میں شریک ہیں ,ان کو اس نظام الاوقات کے بارے میں خود بتائے جس کو وہ نافذ کرنا چاہتا ہے اوران کی آراء سے مستفید ہو۔ پھر ان سے ان کے سامنے ان کاموں کی اہمیت واضح کرے جن کو ادا کرنا اس لئے ضروری ہے اور ان کو دل و دماغ سے ان پر قائل کرے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان پر لازم ہے کہ وہ حتی الوسع ان کو ہمارے اوپر لازم حقوق اللہ، دین اور قرآن کے حقوق کے بارے میں قائل کرے جبکہ بیوی بچوں اور والدین کے حقوق ان کے علاوہ ہیں ۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہر حقدار کو اس کا حق دے۔ اگر وہ اپنے ہمراہ ایک گھر میں رہائش پذیر لوگوں کو اس مسئلے پر اتفاق کرنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ اپنے کام بڑی سہولت اور آسانی سے انجام دے سکے گا اور اپنے ا رد گرد کے لوگوں سے کوئی اعتراض یا منفی رویہ نہیں دیکھے گا۔
ذرا تصور کیجئے کہ ایک آدمی نے اپنے آپ کو اپنے اکثر اوقات اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے استعمال کرنے پر قائل کرلیا اور وہ اس پر یقین رکھتا ہے تو اس انسان نے اس کام کو اپنی گھٹی میں شامل کرلیا ہے اور اپنی فطرت کا حصہ بنا لیا ہے یہاں تک کہ یہ شخص اس کی خاطر بلا تردد کئی طرح کی قربانیاں دے سکتا ہے لیکن جو لوگ اس کی زندگی میں شریک ہیں اگر ان کو اللہ تعالیٰ کے حق کی عظمت اور چار دانگ عالم میں اس کے دین کا پرچم بلند کرنے کی اہمیت معلوم نہ ہو کہ یہ دین ایک روحانی امانت ہے، اس لئے اس امانت کے بارے میں ہمیشہ روحانی تعاون ہونا چاہئے اور اگر دیگر لوگ اس قلعے کی مرمت کے بارے میں حیاتیاتی اہمیت کو نہ سمجھیں جس کو کمزوری کے عوامل زمانوں سے کھوکھلا کررہے ہیں اور اس کے ساتھ اس رستے پر چلنے کے لئے تیار نہ ہوں، تو پھر اس انسان کو مزید کوشش کرنا ہوگی تاکہ دیگر لوگ بھی اسی رستے پر چلیں جبکہ ایک مدت کے بعد یہ محنت آدمی کو تھکا دیتی ہے۔
اس کے مقابلے میں اگر وہ شخص ان لوگوں کو قائل کرلے جو اس کی زندگی میں عقیدے اور اعلیٰ اہداف کے ذریعے شریک ہیں، ان کے ہمراہ اسی فکر و شعور سے سانس لے اور ان کے دل میں بھی ان خدمات کا خیال رکھنے کا شعور پیدا کرے جو وہ کررہا ہے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات سنجیدہ انداز میں اس کے کام کوآسان اور مرتب کرنے میں نہ صرف مدد گار ہوگی ، بلکہ اگر کبھی وہ اپنے اوپر لازم ذمہ داریوں میں کوتاہی کرے گا مثلاً کسی اجلاس میں جانا تھا اس میں نہیں گیا یا پڑھنے کے کسی پروگرام میں شریک نہیں ہوا، تو اس بارے میں سب سے پہلا رد عمل ان لوگوں کی طرف سے آئے گا جو اس کی زندگی میں شریک ہیں اوریہ امر اس کے لئے باعث تحریک ہوگا۔
اگر معاملہ اس کے برخلاف ہو(مثلاً اس کی بیوی بچوں کے ہاں جو اس کے ہمراہ رہتے ہیں، اس نظام الاوقات کی کوئی اہمیت نہ ہو جو وہ قائم کرنا چاہتا ہے ) تو کچھ عرصہ بعد فکر و شعور میں اختلاف پیدا ہونے کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور یہ اختلاف اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور عنایت کے طلبگار ہیں توپہلے اپنے درمیان اتحاد واتفاق اور یگانگت پیدا کرنے کی کوشش کریں ،خواہ آپ کا دائرہ کار کچھ بھی ہو۔ان کے سامنے ان کاموں کی اہمیت واضح کرے جن کو ادا کرنا، اس لئے ضروری ہے اور ان کو دل و دماغ سے ان پر قائل کرے۔
وقت کا صدقہ
دوسرا موضوع جس پر یہاں غورکرنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ کسی اعلیٰ مقصد کی خاطر کئے جانے والے کاموں کے لئے وقت مخصوص کرنا ، کیونکہ وہ کام جو انسان (کسی مثالی ہدف کے حصول کے لئے کرتا ہے) اس کے لئے وہ ایک ملازم یا مزدور کی سوچ کے مطابق دن میں سات یا آٹھ گھنٹے مخصوص کرتا ہے ،اس سوچ کی تنگی کی وجہ سے وہ بھی محدود ہو جائے گا۔ اس لئے اگر انسان کسی اعلیٰ مقصد کے لئے کئی کاموں کی ذمہ داری اٹھالے اور ان کے لئے ضروری وقت تیرہ سے پندرہ گھنٹے کے درمیان ہو تو اس کے لئے ضروری ہوجائے گا کہ وہ اپنے وقت کی خوب اچھی ترتیب کے ذریعے ان کاموں کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ جس قدر ہوسکے اپنا وقت اللہ کے راستے میں ایک طرف تو ایک بھی لمحہ ضائع کئے بغیر خرچ کرے اور دوسری جانب اپنے اس وقت کو اپنے کاموں کو زیادہ اچھے طریقے سے مرتب اورمنظم کرکے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔
خصوصاً ہمارے زمانے میں درپیش مسئلہ ایک ایسے روحانی قلعے کو دوبارہ آباد کرنے کا ہے جو ایک طویل عرصے کے دوران نقصان سے دوچار ہوا ہے ۔ اس لئے جن لوگوں نے اپنے آپ کو قرآن اور ایمان کی خدمت کے لئے وقف کردیا ہے، ان سے اب تک دی جانے والی قربانیوں سے زیادہ قربانی مطلوب ہے۔ ان کو اس سلسلے میں زیادہ حساسیت اور بیداری سے آگے بڑھنا چاہئے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ آپس میں ’’وقت کا صدقہ‘‘ کرسکتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص یہ اعلان کرے کہ وہ دن میں بارہ گھنٹے اپنی امت کی خدمت کے لئےمخصوص یا صدقہ کرے گا، جبکہ دوسرا شخص کوئی ایسا کام اپنے ذمے لے سکتا ہے جو تیرہ گھنٹوں میں ہوسکتا ہو اور تیسرا آدمی چودہ گھنٹے اللہ کی راہ میں کام کرنے کا وعدہ کرے۔
حاصل کلا م یہ ہے کہ سب کے سب اپنے وقت میں سےمحدود گھنٹے صدقہ کریں اوراسے خدمت کے پس منظر میں مرتب کرکے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش اور سعی کرسکتے ہیں۔ یہ ہے مفہوم اس کام کا جو ایک سچے مسلمان کے ذمہ لازم ہے۔ اگر آج ہمارے ہاں کام کا مفہوم یہ نہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اسلام کے اس رخ سے جہالت برتی جارہی ہے۔
اگر کوئی شخص (وسائل ہونے کے باوجود) امید کے مطابق وقت صدقہ نہیں کرتا، تو اس کا مطلب ہے کہ اس بارے میں لوگوں کو قائل کرے کی ضرورت ہے کیونکہ اس بارے میں مخاطبین سے موافقت اور مطابقت پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر اس طرح کی مطابقت اورموافقت حاصل ہوجائے تو بھی کسی بھی صورت میں کسی انسان کے حقوق پر زیادتی نہیں ہونی چاہئے اور ہرفرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے کاندھوں پر آنے والے ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں نہایت حسایت سے کام لے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کریں، خاندانوں کے حقوق کو نقصان نہ پہنچے، سربراہ اور ملازم کے درمیان کوئی بھی ظلم وقوع پذیر نہ ہو اور کام کے مقام پر لوگوں کی ذمہ داریوں کا ہر گز نقصان نہ پہنچایا جائے۔
اس کے مقابلے میں اگر ہم کام کے بارے میں بات سے ایک ملازم کی سوچ کے مطابق کام کرنا سمجھیں ،تو پھر جب ہم سات یا آٹھ گھنٹے کام کریں گے تو اس کے بعد وقفہ ہوگا، کھانے پینے کا اہتمام ہوگا، اپنی پسند سے چلنا پھرناہوگا، قہوہ خانوں میں آناجانا ہوگا (جیسے کہ سست اور ضعیف لوگ کرتے ہیں) اور کھیل کود اور بہت سی بدنی اورشیطانی سرگرمیوں میں شرکت ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کو غلط انداز میں سمجھ رہے ہیں ۔ جو آدمی اس سوچ کے مطابق کام کرے گا ، تو اس کےلئے آج انسانیت کی خدمت کے لئے ہمارے اوپر لازم ذمہ داریوں کے عشر عشیر کو بھی پورا کرنا ناممکن ہوگا بلکہ یہ انسان کام کے بارے میں ایسی بیمار سوچ کا حامل ہوگا وہ انتہائی ضرورت کے وقت بھی چھٹی کرنے اوراس وقت اجازت طلب کرنے سے نہیں چوکے گا جب بہت سے اہم کام انجام دینا ضروری ہوں گے۔ اس طرح وہ بہت سے واجب الاداء کاموں میں رکاوٹ ڈالے گا۔
’’خدمت والے ‘‘ لوگوں کے ہاں کام کے اوقات اس طرح نہیں کیونکہ وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی قطعی کوشش کرتے ہیں جو حق کی خدمت کے لئے انہوں نے اپنے کاندھے پراٹھائی ہوئی ہے اور جس کام کو بھی شروع کریں اسے پورا کئے بغیر نہیں چھوڑتے اوراگر اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی وجہ سے بیوی بچوں اور خاندانوں کے حق میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو اس کی بھی تلافی کی کوشش کرتے ہیں اور ان لوگوں کو خوش کرنے اور ان کی دلجوئی کی سعی کرتے ہیں جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حق تلفی ہوئی ہے۔ مثلاً ان کو کوئی گلدستہ پیش کردیتے ہیں اور دیر سے آنے کاسبب بتلاتے ہیں اوراس کے بعد ان سے جو جو وعدے کئے ہوتے ہیں، وہ پہلے موقع میں پورے کرتے ہیں اوران غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کرتے ہیں جو غیر ارادی طورپر سرزد ہوئی ہوتی ہیں۔
اس مقام پر میاں بیوی پر لازم ہے کہ کسی ضروری کام کی وجہ سے ہونے والی تاخیر کے بارے میں ایک دوسرے سے نرم برتاؤ کریں اوراس بات کو ہر گزنہ بھولیں کہ وہ گھنٹے اور منٹ بلکہ سیکنڈ جو ایسے انتظار میں گزرتے ہیں، وہ انتظار کرنے والوں کا حق میں عبادت کے حکم میں ہیں کیونکہ اس طرح کا انتظار حقیقی قربانی سمجھا جائے گا جبکہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں بہت سے معاملات اور کام ایسے ہیں کہ آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کو اپنے رفیق حیات کے ساتھ بانٹے اوران پر غور کرے۔ یوں وہ چند ثانیے جوایک انسان خدمت کی راہ میں جہاد میں مصروف اپنے شریک حیات کے انتظار میں گزارتا ہے (جبکہ اسے اس کی ضرورت ہوتی ہے )شاید کئی سالوں کی عبادت کے طورپر قبول ہوجائیں اور اسے معلوم بھی نہ ہو کیونکہ مومن کی نیت اس کے ارادے سے بہتر ہے۔[2] اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک خیر کی کوشش کرے اوردوسرا روحانی اور مادی طورپر اس سے تعاون کرے تو (اللہ کے حکم سے ) دونوں کو اس نیک عمل کا ثواب ملے گا۔
[1] صحیح البخاری، الادب:86
[2] الطبرانی، المعجم الکبیر:186-185/6
- Created on .