تجدید کی روح اور اللہ تعالیٰ کا فضل
وال: اس شخص کی بڑی بڑی خصوصیات کیا ہونی چاہئیں جو سوچ اور دینی فکر میں تجدید کا شوق رکھتا ہو؟
جواب: جب تک ہم ایک لمبے عرصے سے موجود تصورات، تعلیمات اور غلط افکار سے نجات حاصل نہیں کرلیتے، ہم ایک نئے باب کا آغاز نہیں کرسکتے۔ مثلاً جن علاقوں میں مسلمان رہتے ہیں وہاں روحانی زندگی کی کمزوری اور ایک بڑی حد تک ضعف اور دینی ماحول کو کام سے روکنا اور وجدو عشق کو بھلا کر دل کی زبان کو بالکل بند کرنا اور تعلیم یافتہ مفکرین اور طلبہ کا متشدد اور مصنوعی مادیت کی طرف جانا اور اس کی بوتل میں بند ہوجانا اور اندھے تعصب کو حق پر ثابت قدمی کی جگہ رکھنا اور یہ سمجھنا کہ آخرت اور جنت کی طلب دنیا کی معمول کی خوشی کا دوام و استمرار ہے۔
اس سے مقصود یہ نہیں کہ ہم ان آلود گیوں کو دورنہیں کرسکتے جنہوں نے چند صدیوں سے ہماری ارواح کو محصور کررکھا ہےبلکہ یہ بیان کرنا ہے کہ ساحل نجات تک پہنچنا اس وقت تک نہایت مشکل ہے جب تک ہم من حیث الامت اپنے سقوط اور زوال کے حقیقی اسباب مثلاً لالچ، سستی، طلب شہرت، حکومت کی خواہش اور دنیا کی رغبت وغیرہ سے نجات حاصل نہیں کر لیتے جبکہ ان احساسات اور جذبات سے اللہ کے حکم اور اس کی عنایت اور حق کی طرف توجہ کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ حق اسلام کا جوہر اور اس کی حقیقت ہے جس کا مطلب ہے استغناء ، بہادری، تواضع، دوسرے کے دکھ کا اہتمام اور روحانیت اور ربانیت اور یہ کہ ہم اپنے دلوں کو حق اور سچائی کے جذبات کے ذریعے صاف کریں اوران کے قالب میں ڈھالیں ، لیکن شدید مشکل کا مطلب نا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس وقت تجدد اور مطلوبہ تبدیلی واقع ہوجائے جب تک میدان جوہر اور ذات کے ساتھ مخلص بہادر لوگوں سے خالی نہیں ہوجاتا( اور وہ خالی نہیں ہے) جو تجدید کے ارادے کے مالک اور عصر حاضر کو گلے لگانے اور سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔
اگرچہ پلک جھپکنے کے برابر ہی کیوں نہ ہو
ایک نمونے کے طورپر ہم اس بارے میں امام غزالی کی زندگی پر نظر ڈال سکتے ہیں۔ جن کو ’’حجۃ الاسلام‘‘ کا لقب دیا جاتا ہے۔ آپ پہلے تو علم ظاہری کے ایک بلند مرتبے تک پہنچے بلکہ اپنے زمانے کے مطابق جن جن مصادر تک رسائی ممکن تھی وہاں تک پہنچ گئے اوران مؤلفات میں مہارت پیدا کرلی جن سے ان کے زمانے کے کتب خانے بھرے ہوئے تھے۔ اس کے بعد آنے والی نسلوں کے لئے کئی مبارک کام چھوڑ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ پانچویں صدی ہجری جس میں امام غزالی نے پرورش پائی(ایک رخ سے) بڑا مبارک زمانہ تھا جس میں ہماری ترقی اپنے اوج کمال تک پہنچ گئی تھی۔ اس طرح امام غزالی ظاہر ی علوم میں چوٹی تک پہنچے لیکن اس کے بعد ان علوم کے تنگ سانچوں کے اندر بند ہوکر نہیں رہ گئے بلکہ ایمانی اور روحانی افق کی جانب متوجہ ہوئے جس سے ان کو ایک اور قیمت اور رخ ملا ۔کیونکہ امام غزالی سمجھتے ہیں کہ علماء کتابوں میں جو الفاظ اور عبارتیں تحریر کرتے ہیں اگر ان کا کوئی روحانی اور مابعد الطبیعیاتی رخ نہ ہو تو وہ محض نظریات ہوتے ہیں جبکہ نظری کو عملی میں بدل کر ،زندگی میں اس کو اس طرح نافذ کرنے سے حقیقت کی معرفت حاصل ہوتی ہے جس کا اثر دل پر محسوس ہو۔ اس لئے جو لوگ قلب و روح کے فلک میں زندگی گزارتے ہیں وہ دیگر اہل علم کے مقابلے میں سقوط اور انحطاط کا کم شکار ہوتے ہیں۔
یوں یہ بات ناممکن ہے کہ اللہ کی رحمت اس انسان سے دور ہوجائے جو دل اور روح کی زندگی کے مدارج پر چڑھتا ہے اور اپنی چاہت اور نفس کی خواہشات سے نکل کر اپنے اندر فنا اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے ہمراہ بقا کو دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے افکار ،احساسات اور آراء کے حوالے نہیں کرتا۔ جی ہاں، اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کو پلک جھپکنے کے برابر بھی ان کے نفس کے حوالے نہیں کرتا بلکہ ان کو خطا میں پڑنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔
جیسے کہ سب جانتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنی امت کو یہ دعا ایک مطلوبہ ہدف کے طورپر تعلیم فرمائی:
’’ حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ أَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ وَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ“[1] ‘‘(اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے ، میں تیری رحمت سے مدد چاہتا ہوں۔ میرے سارے کام کو درست فرما دے اور مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی اپنے نفس کے حوالے نہ کر) اور اصلاح کرنے والے وہ لوگ جنہوں نے سید المرسلین ﷺ کی اس دعا کو اپنا اعلیٰ ہدف مقرر کرکے اس رخ پر اپنا سب کچھ قربان کردیا وہ ہمیشہ اللہ کے حکم اور مہربانی سے معیت الہٰیہ کی روشنی میں چلے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ذرہ بھر عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا
اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حق تعالیٰ نے ان عظیم لوگوں کے دلوں میں (جنہوں نے تاریخ میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں) اجتہاد، استنباط اور تجدید کے بارے میں ان کی آراء کو ڈالا۔ اگر آپ اسماعیل حقی برصوی کی کتاب ’’النتائج ‘‘ کو دیکھیں تو آپ کو اس طرح کی عبارتیں ملیں گی:’’ طلوع فجر کے وقت مجھے یہ الہام ہوا اورمیرے دل میں یوں آیا‘‘۔ ان الفاظ سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان عظیم لوگوں کے رستوں کوروشن کرتا ہے۔ ان کے لئے رستوں کو کھولتا ہے اور اس کے ذریعے وہ ہر شے کو درست دیکھتے اور درست انداز سے ان کی تشریح کرتے ہیں اوراس کے بعد معاشرے کے خدوخال ، زمانے کے حالات اور مکلفین کی ذمہ اری کے مطابق ضروری کام انجام دیتے ہیں۔
حق تعالیٰ سورۃ الزلزال میں فرماتے ہیں: ﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ * وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ﴾(سُورَةُ الزَّلْزَلَةِ: 7-8). (جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا)
اس آیت کریمہ کے معنی کو یوں سمجھنا کہ: ’’انسان آخرت میں اس دنیا میں کئے گئے اچھے اور برے اعمال کی جزاء و سزا پا لے گا‘‘ ناقص فہم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس موضوع کو یوں دیکھنا چاہئے: انسان کو اس دنیا میں بھی اس نے جو اچھائیں اور برائیاں کی ہیں ان کا بدلہ دیا جائے گا (خواہ وہ معمولی سی ہی کیوں نہ ہوں) چونکہ بھلائی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں (خواہ ان میں سے کوئی ایک ذرے کے برابر ہی کیوں نہ ہو) کا دنیا میں بھی بدلہ ملے گا، تو پھر وہ اچھائی اور بھلائی جو کسی اعلی مقصد کے لئے کی جائے گی، یقینا ً اس کی بھی جزا دی جائے گی خواہ اس کا وزن کرہ ارضی کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ یہ جزا اکثر اوقات اللہ تعالی کی مہربانی کی کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔
اس رخ سے اس بات کا تصور نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ویسے ہی چھوڑ دے جو احیاء دین کے لیے کام کررہے ہیں ، جنہوں نے امت کو اپنا غم بنا لیا ہے اور لوگوں کی زندگی کی خاطر اپنی زندگی وقف کردی ہے اور اپنی ذاتی دلچسپیوں کو قربان کرکے کسی بھی شکل میں کسی منصب کے بارے میں سوچا ہے اورنہ کل کے بارے میں۔ کس کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات انسان کی صراحۃً رہنمائی فرماتا ہے اور کبھی اس کے دل میں خفیہ انداز سے ان کے احساس کے بغیرہی کوئی چیز ڈال دیتا ہے اور احیاء سے وابستہ ایسے عظیم انسان کو جتنے بھی ٹیڑھے رستوں اور بھول بھلیوں کا سامنا ہو اور اس کا رستہ کیسی ہی گہری اور دشوار وادیوں سے کیوں نہ گزرتا ہو، وہ کبھی نہیں بھٹکے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے کرم سے ہمیشہ سیدھے رستے پر اپنا سفر جاری رکھے گا۔
حقیقت کے شیدائی ایسے عظیم لوگ جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف رخ کھول دیئے ہیں وہ بعض اوقات ابتداء سے ہی ہر شے کو ظاہر و باہر دیکھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اگر ان کو کوئی واقعہ یا مشکل پیش آجائے تو پورے اطمینان اور آسانی سے کہہ دیتے ہیں: ﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلاَلُ﴾(یُونُس: 32) (اور حق بات کے ظاہر ہونے کے بعد گمراھی کے سوا ہے ہی کیا؟) چنانچہ یہ لوگ درست بات کی جانب رہنمائی کرتے ہیں اور حقیقت کو بیان کرتے ہیں اور جب کبھی کسی مبہم اورنامعلوم واقعے سے دوبدو ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: ’’یا اللہ تیری خوشنودی ہی کافی ہے۔ اے اللہ ہمیں وہ چیز اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما جس سے تو راضی ہے تاکہ یہ لوگ تیری طرف آئیں‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی جانب اخلاص، سچائی اور سنجیدگی سے رجوع کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ حق کو دیکھتے اور حقیقت کو بیان کرتے ہیں اورلوگوں کو سیدھا رستہ دکھاتے ہیں۔
اس کے دروازے پر کھڑے ہونے کے بعد کوئی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا
اگر آپ اپنی دعا میں اپنی سچائی اور اخلاص کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ: ’’اے اللہ میں ان مصائب اور آزمائشوں کے مقابلے کے لیے تیری پناہ چاہتا ہوں جن کو برداشت کرنا میرے بس کی بات نہیں، اے اللہ تیرے سوا طاقت اور قوت کا کوئی منبع نہیں، اے اللہ میں تیرے غیر کے بغیر تیرے در پرپڑا ہوں ۔ اس لئے تو مجھے گناہوں اور خطاؤں اور ان کے زبردست بوجھ سے نجات دے دے اورزندگی کی مشکلات میں میری مدد فرما۔ تیرے بغیر گناہوں سے بچنے اور نیکی کی طاقت نہیں۔ اے اللہ مجھے ان اقوال اور افعال کے بارے میں جو میں لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے کررہا ہوں ایک لمحے کے لیے بھی اپنے سوا، میرے نفس یا کسی اور کے حوالے نہ فرما۔ اے اللہ مجھے اپنی ہدایت اور رہنمائی کی تجلیات سے کبھی محروم نہ فرما۔ اے اللہ مجھے ہمیشہ صراط مستقیم پر چلا اور مجھے اپنے تمام تصرفات میں اخلاص اور سچائی نصیب فرما۔ اے اللہ مجھے اپنے کرم اور رحمت سے محروم نہ فرما کہ میرے اقوال اور افعال لوگوں پر اثر کریں۔ اے اللہ میں جانتا ہوں کہ گمراہ لوگ میرے رستے میں رکاوٹیں ڈالیں گے جبکہ میں رہنمائی اور تبلیغ کے رستے پر چل رہا ہوں گا اور وہ مختلف معمولی باتوں کو بہانہ بنا کر مجھ پر حملہ آور ہوں گے۔ اے اللہ میں تیری رحمت، تیرے کرم، تیری حفاظت اور تیرے در کی پناہ چاہتا ہوں کسی اور کی نہیں، ا س لیے تو مجھے توفیق عنایت فرما کہ میں ان کے مقابلے میں بغیر جھکے، ذلت اٹھائے اور اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے ،ان کے مقابلے میں کھڑا ہوجاؤں۔ اے اللہ تو مجھے اپنے حضور جھکنے اور عاجزی اور ذلت برداشت کرنے کی توفیق عطا فرما کسی اور کے سامنے نہیں۔ اے اللہ میں تیرے در کی پناہ کا طالب ہوں اور گناہوں سے بچنے اور نیکی کرنے کی توفیق تیرے بغیر نہیں مل سکتی۔ اے اللہ میں اپنے دل کی صفائی سے عاجزی کا اعتراف کرتا ہوں۔ میں تیرے حقوق کا کما حقہ خیال رکھنے میں اپنی تفصیر کو مانتا ہوں ، اس لیے میں ایک بار پھر تیرے د روازے پر کھڑا ہوں اور تجھ سے دعا گو ہوں کہ میرے دل کو اس طرح صاف کردے جس طرح سفید کپڑے کو میل سے صاف کیا جاتا ہے اور اس کو ایسا کردے جیسے وہ ابتدائے آفرینش میں تھا۔ تیرے بغیر گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکی کرنے کی سکت‘‘۔ تو حق تعالیٰ کبھی آپ کو خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا اور آپ کی ان دعاؤں اور عاجزی کو بغیر کسی بدلے اور مثال کے کبھی ضائع نہیں کرے گا اور تمہارے اجتہاد، استنباط اور انتخاب میں کبھی بھی ایک لمحے کے لیے بھی تمہیں تمہارے اپنے نفس کے حوالے نہیں کرے گا۔
جی ہاں، اگر آپ اس نہج پر زندگی گزارتے ہیں اور صبح و شام اس کے در سے لو لگاتے ہیں اور ایک ایک کرکے اپنی تمام ضروریات اس کے حضور پیش کرنے اور مانگنے پر اصرار تے ہیں تو اللہ جل جلالہ اس دعا کو سنتا ہے ، اسے دیکھتا ہے اور جانتا ہے۔ اس لیے وہ اس کو قبول فرمالے گا اور تمہیں مایوس نہیں لوٹائے گا۔ جیسے کہ بہت سے اولیاء اوراہل حق کی موثر اور دل کو جلانے اور جذبات کو بھڑکانے والی گہری دعاؤں میں مذکورہے کہ آج تک کوئی آدمی ایسا نہیں گزرا جس نے اللہ تعالی کا دروازہ کھٹکھٹایا ہو اور وہ خالی ہاتھ لوٹا ہو۔ ایسے بہت سارے لوگ تھے جو اپنے گناہوں اور خطاؤں میں جکڑے ہوئے تھے لیکن جب انہو ں نے اس کی چوکھٹ پر آکر اس کے عفو و درگزر اور مغفرت سے رجوع کیا تو ان پر اس کی رحمت چھا گئی ۔ اس کے احسان، کرم اور لطف نےان کو ڈھانپ لیا حلالانکہ وہ پہلے بڑے بڑے گناہوں اور خطاؤں کے مرتکب ہوئے تھے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ تعمیر، اصلاح اور تجدید چاہنے والوں کو اکیلا نہ چھوڑے اگرچہ وہ ’’فنا فی اللہ‘‘ اور’’ بقاء با اللہ‘‘ اور ’’بقاء مع اللہ‘‘ کے مراتب تک نہ بھی پہنچے ہوں اور علم الیقین ، عین الیقین ا ور حق الیقین کے مراتب سے گزر کر ذات الہٰی تک پہنچ سکے ہوں اور اس سلسلے میں ان کے پاس سوائے اس کے اور کوئی سرمایہ نہیں کہ وہ انتہا درجے کے سچے اور مخلص ہیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے روتے اور گڑگڑاتے ہیں اور پورے اخلاص کے ساتھ اس کے در سے لو لگاتے ہیں۔ اور عاجزی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کہ اس کے آگے دست دعا دراز کرتے ہیں: ’’اے اللہ ایمان کامل عطا فرما۔ اے اللہ اخلاص تام نصیب فرما۔ اے اللہ سچائی نصیب فرما‘‘ تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت ،رحمت اور لطف ان کے شامل حال ہوجائے گا۔
[1] النسائی، السنن الکبریٰ، 6/ 176البزار، المسند:13/49
- Created on .