مفيد تنقيد کا اصول
سوال: تنقید کے مفید یا غیر مفید ہونے کا تعلق کن امور سے ہے ، کیونکہ تعمیری تنقید تقریباً ہر مسئلےمیں سب سے اچھی اور افضل بات تک پہنچنے کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی ہے؟ وہ کون سے اخلاق ہیں جن کا تنقید کرنے والے یا تنقید کا نشانہ بننے والے کو خیال رکھنا چاہئے؟
جواب : تنقید کے معانی میں سے ایک معنی یہ ہے کہ کسی بھی لفظ ، فعل یا برتاؤ کو پرکھ کر اس کے مثبت ومنفی پہلؤوں کو آشکارا اور جو چیز موجود ہے اور جو ہونی چاہئے، ان میں موازنہ کیا جائے۔ تنقید ان اہم علمی اصولوں میں سے ایک ہے جو کسی بھی شے میں مثالی کے درجے تک پہنچنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس رخ سے اس کا استعمال سلف صالحین کے زمانے سے ہو رہا ہے۔مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات کی صحت تک رسائی کے لئے ان کی سند اور متن پر تنقید کی گئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تنقید کا استعمال صرف حدیث نبوی کے میدان میں ہی نہیں ہوا بلکہ یہ عصر اول سے ہی قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث کی شرح جیسے بہت سےمیدانوں میں حقیقت کے اظہار کے لئے ایک اہم نظام بن گئی تھی، اور اسی علمی نظام کے تحت ان اجنبی افکار کا مقابلہ ممکن ہوسکا جن کو اسلام میں ملانے کا ارادہ کیا گیا۔ اسی طرح افکار میں تصادم کی صورت حال میں مختلف تفسیروں اور اجتہادات کی صحت اور سقم کو پرکھا گیا اور علم مناظرہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان پر بحث ہوئی۔ چنانچہ ان افکارکو تنقید اور مراجعت کی بھٹی سے گزارا گیا اور اس طرح حق کی کرن ظاہر ہوئی۔
اس طرح خصوصی طور پر سند حدیث پر تنقید کے بارے میں ایک عظیم میراث وجود میں آئی اوررواۃحدیث پر جرح وتعدیل اور تنقید کے رخ سے کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں لکھی گئیں اور یوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات کی صحت کو معلوم کر لیا گیا۔ اس کے باوجود علماء کرام انتہائی درجے تک اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ تنقید کے مطلوبہ ہدف سے ہٹ کر کوئی بھی لفظ ان کی زبان سے نہ نکل جائے اگرچہ وہ تنقید کے اہم موضوع کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس باب میں انہوں نے نہایت حساسیت اور باریک بینی کا مظاہرہ کیا ۔ مثلاً حضرت شعبہ بن الحجاج(جو علم علم جرح وتعدیل کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک ہیں) کو یہ کہتے دیکھتے ہیں:”چلو اللہ کی خاطر غیبت کریں!‘‘ اس سے ان کی مراد شیوخ حدیث کے بارے میں بات ہے۔ (الذہبی، سیر اعلام النبلاء: 6/616) ان الفاظ سے آپ اس کام یعنی رواۃ حدیث پر تنقید کی ضرورت اور اس کے ساتھ ہی اس بات کی ضرورت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ کام صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہئے۔
جی ہاں، ہمارے اس عالم میں تنقید کو زیادہ اچھی بات تک پہنچنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے خواہ وہ دینی میدان میں ہو یا تطبیقی علوم کے بارے میں خصوصاً پہلی پانچ ہجری صدیوں میں ۔ اس کے نتیجے میں موجودہ حالات میں بھی اس علمی نظرئے کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ تنقید کے موضوع پر بے انصافی نہ کی جائے اور پاس ادب رکھا جائے اور مسئلے کو پورے اہتمام اور حساسیت کے ساتھ لیا جائے۔ اس بارے میں کچھ ایسے نظریات موجود ہیں جن کو ہم تنقید کے آداب یا اصول کہہ سکتے ہیں۔ ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بہت سے تالے انصاف اور نرم اسلوب کے ذریعے کھولے جا سکتے ہیں:
تنقید کا اسلوب سنجیدہ اور اسے پیش کرتے وقت انسانی کلام کے سب سے اچھے اسلوب کا انتہائی درجے تک خیال رکھنا ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تنقید ایسے طریقے سے ہو کہ سامنے والا اسے خوشدلی سے قبول کر لے اور اس کی وجہ سےمخاطب کسی رد عمل پر نہ اتر آئے۔ اس لئے اگر آپ اپنی معقول اور منطقی آراءاور خاص مشکلات سے تعلق رکھنے والے متبادل افکار کو انسانی اسلوب میں نرمی اور انصاف سے پیش کریں تو تمہیں دوسروں کی جانب سے احترام ملے گا اور آپ کے افکار کو شرف قبولیت۔ مثال کے طور پر آپ کسی موضوع سے متعلق اپنی رائے کی وضاحت کرتے ہیں مگر آپ کا مخاطب اس کے بالکل بر عکس سوچتا ہے تو اگر آپ اس کو یوں مخاطب کریں کہ: ’’جناب میں اس مسئلے کو یوںسمجھتا ہوں لیکن جب میں نےآپ کے الفاظ پر غور کیاتومجھے اس کا ایک اور مختلف پہلو نظر آیا‘‘ تو ہو سکتاہے کہ کچھ وقت کے بعد وہ شخص دوبارہ آ کر آپ سے کہنے لگے کہ: ’’مجھے معلوم ہو گیا کہ جس مسئلے کے بارے میں ہم نے پہلے بات کی تھی وہ اسی طرح تھا جس طرح آپ نے کہا‘‘۔ اس وقت آپ کو یہ جواب دینا چاہئے کہ :’’میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کس قدر انصاف پسند ہیں!‘‘ اس رخ سے انسان کو چاہئے کہ وہ بعض اوقات اپنے خاص تجربات، علمی معلومات اور انانیت کو اس وقت ہیچ سمجھے جب حقیقت کے احترام اور اس کے دل میں اترنے کا تقاضا ہو اور اس پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ حق کا پرچم بلند کرے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر معقول بات کو معقول انداز میں قبول کرانا مقصود ہو تو پھر دوسروں کے افکار کو بھی معقول انداز سے پرکھنا چاہئے(خواہ وہ غیر معقول ہی کیوں نہ ہوں) اور ہمیشہ کھلے دل سے ان کا سامنا کرنا اور سچائی اور اخلاص کا ایسا ماحول تشکیل دینا چاہئے جس سے وہ حق اور حقیقت کو قبول کر سکیں۔
عمومی بات اور پردہ پوشی کا اہتمام:
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو شخص دوسروں کی آراء کااحترام نہیں کرتا (خواہ وہ کسی بھی میدان میں ہو) اوران کو ہمیشہ کھوٹے سکوں کی طرح نظر انداز کر دیتا ہے اور ان کو فضول سمجھتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ (غیر محسوس طور پر) ایسی بہت سی ”قیمتی “چیزوں سے محروم ہو جائے جو اس کو فائدہ دے سکتی تھیں۔ اس رخ سے یہ بات لازم ٹھہری ہے کہ تمام افکار کو ایک خاص حد کے اندر احترام کے ساتھ دیکھنا چاہئے اگرچہ وہ کھوٹے سکے یا پیتل، یا لوہا یا تانباہی کیوں نہ ہوں۔اگر ہم اس طریقے پر چلیں گے تو ہم اپنےمخاطبین کو حقائق پر قائل کرنے کا بہترین درست طریقہ پالیں گے، ورنہ وہ الفاظ جو تکلیف دہ شکل میں ذکر کئے جاتے ہیں گویا دوسروں کے سروں پر برسنے والے ہتھوڑے ہیں وہ حسن قبول کی مستحق نہیں ہوں گے خواہ وہ کیسے ہی خوبصورت افکار یا منصوبے کیوں نہ ہوں بلکہ اگر تنقید کے اسلوب پر غور نہ کیاجائے تو اس کے رد عمل سے بچنے کا بھی کوئی طریقہ نہیں، یہاں تک کہ اگر کسی شرعی مسئلے میں کوئی غلطی ہو تو اسے بھی شرعی دلائل کے ذریعے معین کیا جائے گا۔ مثلا اگرآپ اپنے کسی دوست کو دیکھتے ہیں کہ وہ حرام کو دیکھ رہا ہے تو اگر آپ اس سے ایسے اسلوب سے پیش آئیں جس سے وہ پردہ ختم ہوجائے جو تمہارے درمیان ہے اور اس سے یوں کہیں کہ ”تم یوں یوں کر رہے ہو۔ اپنی آنکھ کو تھوڑا نیچے کرو ۔حرام کے قریب نہ جاؤ۔“ تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی یہ تنقید (اللہ تعالی محفوظ رکھے) اسے شیطان کا وکیل بنا سکتی ہے، خاسوقت جب مخاطب اپنے تصرفات اور برتاؤ پر آپ کی تنقید کے لئے تیار ہو نہ تنقید کو اچھا سمجھتا ہو اور نہ اس کو قبول کرتا ہو تو ایسی میں آپ کی ہر تنقید اس کے رد عمل کا سبب بنے گی اور اس کے اندر حق کا احترام نہ کرنے کاجذبہ پیدا ہوگا اور یہ تنقید اسے ہمارے ذاتی اقدار کا دشمن بنا دے گی، یہاں تک کہ اگر وہ اس بات کا یقین بھی کرلے کہ جو کچھ کہا جا رہاہے وہ حق ہےتو وہی اس کے ذہن میں بہت سے ایسے فلسفے ہو سکتے ہیں جو حق کو باطل بنا کر دکھائیں اور یہ سب کچھ ان روحانی ضربوں کی وجہ سے ہوگا جو اس اس کی سر پر پڑی ہیں بلکہ (جب وہ رات کو اپنے بستر پر دراز ہوگا یا وہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب سوچے گا۔
اس وجہ سے ضروری ہے کہ کسی بات کو تنقید کے ذریعے حل کرنے کے لئے بالواسطہ خطاب کو ترجیح دی جائے کیونکہ نبی کریم ﷺ جب کسی شخص کی کوئی غلطی یا کوتاہی ملاحظہ فرماتے تھے تو براہ راست اسے مخاطب نہیں فرماتے تھے بکلہ لوگوں کو جمع فرما کر سب سے مخاطب ہوتے، اس طرح غلطی کرنے والے کو اس خطاب سے عبرت اور نصحیت حاصل کرنے کا موقع مل جاتا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار نبی کریمﷺ نے ایک شخص کو زکاة جمع کرنے پر ما مور کیا جب وہ واپس آیا تو کہنے لگا: یہ آپ کا ہے اور یہ مجھے تحفہ ملا ہے"۔ چنانچہ یہ سن کر آپ علیہ السلام منبر پر کھڑے ہوئے ، اللہ تعالی کی حمد وثناء کی اور اس کے بعد فرمایا: "مَا بَالُ العَامِلِ نَبْعَثُهُ فَيَأْتِي يَقُولُ: هَذَا لَكَ وَهَذَا لِي، فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ، فَيَنْظُرُ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا" ( اس عامل کو کیا ہوا ہے جس کو ہم بھیجتے ہیں اور وہ واپس آکر کہتا ہے کہ یہ آپ کا ہے اور یہ میرا ہے (اگر ایسا ہے ) تو وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا تاکہ وہ دیکھتا کہ اس کو تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ (البخاری،الاحکام : 24، مسلم، الامارة: 26)
اب ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ تنقید اور رہنمائی کون کرے گا۔اگر ہمیں کسی شخص پر تنقید کرنے کی ضرورت پیش آجائے، تو کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ یہ کام خود کرنے پر اصرار کرے بلکہ اس کام کو کسی ایسے آدمی کے لئے چھوڑ دے جس کو مخاطب پسند کرتا ہے، کیونکہ محبوب کی تنقید کو بھی مدارات اور تعریف سمجھا جاتا ہے۔
جی ہاں، اگر آپ دیکھیں کہ آپ کے کلام سے مخاطب کے ذہن میں نفرت پیدا ہوگی تو اس بات کو چھوڑ دیں اور کسی اورکو بات کرنے کا موقع دیں کیونکہ حقیقت کو بیان کرنے والا اہم نہیں بلکہ اہم بات یہ ہےکہ اس حقیقت کو دل قبول کریں۔
یہ بات خالی از فائدہ نہ ہوگی کہ میں آپ کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین کا ایک واقعہ بیان کروں۔ اگرچہ یہ واقعہ صحیح احادیث کی کتابوں میں مذکور نہیں مگر اس کے باوجود عبرت اور نصیحت سے بھر پور اسباق پر مشتمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ دونوں کا گزر ایک بوڑھے شخص پر ہوا، جو وضو کر رہا تھا مگر اس نے اچھی طرح وضو نہ کیا تو نادر فطرت وفراست کے مالک ان دونوں حضرات نے اس شخص کو نصیحت کرنے اور وضو کا طریقہ سکھانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ دونوں اس کے پاس کھڑے ہوکر کہنے لگے: "چچا جان، ذرا دیکھیئے ہم دونوں میں سے کون اچھی طرح وضو کرتا ہے"۔ اس کی بعد دونوں نے اس طرح وضو کیا جس طرح اپنے نانا سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو وضو کرتے دیکھا تھا۔ اس طرح وہ شخص کسی اعتراض کا نشانہ بنا اور نہ صریح تنقید کااور نہ براہ راست اس کی غلطی کی جانب اشارہ ہوا۔ وہ ضمیر کے اطمینان کے ساتھ کہنے لگا : "آپ دونوں نے اچھی طرح وضو کیا جبکہ میں اچھی طرح نہ کر سکا"۔
اس لئے میں دوبارہ اس جانب توجہ دلاؤں گا کہ کسی بھی مسئلے کے بارے میں تنقید ایسے مناسب اسلوب کے بغیر قابل قبول نہیں ہو سکتی جس کا مقصد غلطی کی تصحیح اور درست بات کا اظہار ہو اور اسے اچھے انداز اور تیاری کے ساتھ پیش کیا جائے۔
مخاطب کی ایسی تربیت کہ وہ تنقید برداشت کرسکے
اس مسئلے کا ایک اور رخ یہ بھی ہے کہ مخاطبین کو اس درجے تک پہنچا دیا جائے جہاں وہ تنقید کو قبول کرسکیں اور ان میں حق کےاحترام کا شعور بیدار کیا جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس مرتے تک پہنچے ہوئے تھے۔ اس لئے ایک دوسرے کی غلطیوں کا مقابلہ بڑی خوشنودی اور مکمل سکون سے کرتے تھے اور اس بات سے کبھی ان میں کوئی اختلاف نہ پیدا ہوتا تھا۔ ایک روز حضرت عمر منبر پر تشریف فرما ہوئے او ربعض ایسے طریقوں کے متعلق بات کی جن کا مقصد شادی میں آسانیاں پیدا کرنا تھا اور اس جانب اشارہ فرمایا کہ مہر اتنا ہونا چاہئے جتنا سب کے لئے قابل برداشت ہواور مہر زیادہ رکھنے سے باز رہنے کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ یقینا یہ بات استحصال سے محفوظ رکھنے کے لئے کسی حد تک ایک اچھا حل تھا، ایسے ہی اس مسئلے کا احساس اور اس میں آسانی کرنے سے اس دور کی ایک بہت بڑی معاشرتی مشکل حل ہوسکتی ہے۔
مگر ان الفاظ کے مقابلے میں خواتین کے چبوترے سے ایک عورت کھڑی ہوئی اور بولی:امیر المؤمنین، یہ بات آپ کے ہاتھ میں نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلاَ تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا﴾ (النساء : 20) (اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو۔ اور پہلی عورت کو بہت سال مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے؟)
اس وقت حضرت عمر ایک ایسی سلطنت کا انتظام چلا رہے تھے جو ترکی سے بیس گنا بڑی تھی اور انہوں نےہی اس زمانے میں دو عظیم قوتوں کو جھکایا او ران کو اپنی اطاعت اور قلمرو میں شامل ہونے پر مجبور کیا تھا، مگر اس سب کے باوجود یہ الفاظ سن کر فورا رک گئے اور آپ کے لبوں سے یہ الفاظ نکلے: "اے اللہ تو معاف کردے! عمر تم سے تو سارے لوگ زیادہ سمجھ رکھتے ہیں"۔ (تفسیر ابن کثیر در تفسیر آیت بالا)حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس انتہائی حساسیت کی وجہ سے آپ کو "وقاف عند کتاب اللہ"( اللہ کی کتاب کے سامنے بہت زیادہ کھڑا رہنے والا کے) لقب سے پکارا جاتا تھا۔ (ابن الاثیر، اسد الغابۃ : 4/318)اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ جب چاہتے اور جہاں چاہتے اپنے جذبات پر قابو پا سکتے تھے۔
اسی طرح ضروری ہے کہ سب کے پاس یہ احساس اور شعور ہو یہاں تک کہ ہم کسی سے بھائی چارہ قائم کرسکیں اس سے مناسبت پیدا ہوجائے اور اسے یہ صلاحیت دے دیں کہ وہ بڑی سہولت کے ساتھ ہم میں اور ہمارے برتاؤ میں نظر آنے والے ہر قصور پر تنقید کرسکے یہاں تک ہم خود اپنے اوپر ہونے والی ہر تنقید کو قبول کرسکیں۔
آخر میں جو شخص کسی مسئلے پر تنقید کرنا چاہئے(جبکہ زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ کسی مسئلے کی تصحیح کرنا چاہے) تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ ان مسائل پر غور کرے اور ان کے بارے میں درست بات کرنے کی پوری کوشش کرے اور دوسرے نمبر پر جب اس مسئلے پر تنقید یا اس کی تحلیل کرنا چاہے تو فریق دوم کی حساسیت کاخیال رکھے اور ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھے کہ مخاطب کس حد تک اس تنقید کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہے۔ پس اگر اس بات کی توقع ہو کہ اس کے کلام پر مخاطب کسی ردفعل کا اظہار کرے گا تو اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ بذات خود اس حقیقت کے اظہار پر اصرار کرے بلکہ یہ کام اس شخص کے لئے چھوڑ دے جس کا دلوں پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے۔
ہمارے اس زمانے میں ان خصوصیات کا خیال رکھنے کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ انانیت حد سے بڑھ گئی ہے اور دل تنقید کو برداشت کرنےکے قابل نہیں رہے۔
دوسری جانب تنقید سننے والے پرلازم ہے کہ وہ کسی بھی شے سے زیادہ حق کی شان کو بلند کرے اور تنقید پر اعتراض کی بجائے شکریہ ادا کرے جیسے کہ حضرت بدیع الزمان فرماتے ہیں: ”ہم ایسے شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہماری کوتاہیوں کو دیکھے اور ہمیں دکھائے (بشرطیکہ وہ حقیقت ہوں) اور اس سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے ، ہم اس کا اسی طرح شکریہ ادا کرتے ہیں جیسے اس شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہماری گردن سے چمٹے بچھو کو ہمیں تکلیف دینے سے قبل دور کر دے اور اس سے رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے ہی ہم اس کے شکر گزار اور ممنون رہتے ہیں جو ہماری کوتاہی اور تقصیرات ہمیں دکھائے"۔ (بدیع الزمان سعید نورسی، الملا حق:251) یہ پختگی اور کمال ہے۔
- Created on .