شرور کو ختم کرنے کے لیے ایمانی سلوک
سوال: ظلم و جور کو ختم کرنے کے لیے ایمانی برتاؤ کیا ہونا چاہیے؟
جواب: دین اسلام عدل اور توازن کا پیغام لے کر آیا ہے تاکہ وہ ہر افراط و تفریط کے مقابلے میں عالمی نمازت وضع کرے۔ اسی طرح اسلام شرکو ختم کرنے کے لیے مسکنت اور منفی روئے کو پسند نہیں کرتا جو ظلم کو قبول کرکے اس کے سامنے جھک جاتا ہے۔ اسلام (ظلم کو ختم کرنے کے بہانے سے ) کسی بھی طرح کی سختی اور حد سے تجاوز کی اجازت نہیں دیتا جس سے ایک اور ظلم و جور جنم لے ۔ مومن ایک پختہ قلعہ اور ایسا قوی بازوہے جو ضرورت کے وقت ظلم کے مقابلے میں ڈٹ جانے سے نہیں رکتا اور حق کو قائم کرنے کے لیے کسی بھی خوف اور سستی کو کام میں لائے بغیر اپنا سب کچھ لگا دیتا ہے لیکن عام طورپر اس کا برتاؤ مکمل تواضع ، شفقت، نرمی اور سب پر رحمت ہے۔
مثال کے طورپر مسلمان پر لازم ہے کہ(جب دشمن اس کی عزت، شرافت، وطن ، ملک، آزادی یا اس کی حکومت پر حملہ آور ہوتو) وہ ایسا بازو بن جائے جو کٹنا، اور ایسا سر بن جائے جو جھکنا نہیں جانتا اور اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کرے لیکن جونہی جنگ ختم ہوجائے اور دشمن صلح کی طرف آئے تو اس وقت اپنے آپ کو بردباری اور صلح جوئی کا نمونہ بنائے اور صلح کی جانب مائل ہو اور سلامتی اور امن کے ماحول میں اسلام کی جمالیات کے ساتھ رہنے اور ان کو زندہ کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اس بارے میں قرآن کریم کا صریح حکم ہے: ﴿وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ﴾ (الانفال:61) (اور اگر یہ لوگ صلح کی جانب مائل ہو جائیں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو)
ایک اورآیت میں حق سبحانہ و تعالیٰ مسلمان کی صفات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ﴾ (سُورَةُ الْمَائِدَةِ: 54) (اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور اسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں پر نرمی کرنے والے اور کافروں پر سختی کرنے والے ہوں)
اس کا مطلب یہ ہواکہ ایمان والے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے تواضع کرتے ہیں اور ان سے ذلت کی حد تک نرمی اور ملنساری کا برتاؤ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود کافروں اور منکروں کے خلاف بڑے سخت ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے جھکتے ہیں اورنہ نرمی برتتے ہیں۔ اس بارے میں اسلامی شاعر محمد عاکف نے کیا خوب کہا ہے:
اگرچہ میں نرم ہوں مگر مجھے پالتومیمنہ نہ سمجھنا
میری گردن کاٹی تو جاسکتی ہے مگر اسے جھکایا یا سدھایا نہیں جاسکتا
اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ایک کامل انسان اور عزت و شرافت کا پیکر ہوتا ہے لیکن میں دوبارہ توجہ دلانا چاہوں گا کہ اس جگہ کا تعین ضروری ہے جہاں یہ دونوں موقف اپنائے جاسکتے ہیں۔
’’تم نے اس کا دل کیوں نہ چیر لیا‘‘
بہادری انتہائی اچھی خوبی ہے اور کون ایسا ہواگا جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور بہادری کو پسند نہ کرتا ہوں؟ کیونکہ ابھی ان کو اسلام لائے چند دن ہی گزرے تھے کہ سب کو ان کی بہادری نے انگشت بدنداں کردیا۔
حضرت سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں : ’’آنحضرت ﷺ نے خالد بن ولید کو بنی جذیمہ کی جانب روانہ فرمایا تو انہوں نے ان کو اسلام کی دعوت دی۔ وہ لوگ اچھی طرح ’’ہم اسلام لائے‘‘ کا لفظ نہ کہہ سکے بلکہ کہنے لگے کہ ہم دین سے پھر گئے، دین سے پھر گئے۔ چنانچہ خالد نے ان کو قتل اور قیدی بنانا شروع کردیا اور ہم میں سے ہر آدمی کو اس کا قیدی دے دیا۔ یہاں تک کہ ایک دن خالد نے ہمیں حکم دیا کہ ہر آدمی اپنے قیدی کو قتل کردے۔ میں نے کہا کہ بخدا میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور میرے ساتھیوں میں سے بھی کوئی شخص اپنے قیدی کو قتل نہیں کرے گا۔پھر جب ہم نبی کریمﷺ کے پاس پہنچے تو واقعہ ذکر کیا تو آپ ﷺ نے ہاتھ بلند فرمائے اور دوبار فرمایا: ’’اے اللہ میں خالد کے فعل سے بری ہوں۔‘‘(1)
اس سے ملتے جلتے ایک دوسرے واقعے میں حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں: ’’ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں حرفات نامی مقام کی جانب بھیجا تو وہ لوگ ڈر گئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہمیں ان کا ایک آدمی مل گیا اور جب ہم اس تک پہنچ گئے تو اس نے ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کہہ دیا مگر ہم نے اس کو مار کر قتل کر دیا۔ پھر جب اس واقعے کا تذکرہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آ پ علیہ السلام نے فرمایا: قیامت کے دن تمہارے لئے ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کے مقابلے میں کون ہوگا؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ اس نے اسلحے کے خوف سے کہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تم نے اس کا دل نہیں چیر لیا کہ معلوم ہوجاتا کہ اس نے خوف سے کہا ہے یا نہیں ؟ قیامت کے دن تمہارے لئے ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کے مقابلے میں تمہارے لیے کون ہوگا؟ آپ علیہ السلام کے یہ جملہ اتنی بار ارشادفرمایا کہ میرے دل میں آئی کہ کاش اس دن مسلمان ہوتا۔ (2)
ان دونوں واقعات کے بارے میں آپ علیہ السلام نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ میدان جنگ میں بھی عدل مطلق کے اصول کا پورا پور ا خیال رکھے۔
ظالمانہ طاقت کے مقابلے میں عقل اور سفارتکاری
دوسری جانب: مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو بھی یاد رکھے کہ معاملہ تلوار، توپ اور بندوق سے حل نہیں ہوتا یہاں تک کہ دشمن سے بھی لڑتے ہوئے کیونکہ اگر ہم مشکل کو حل کرنے کے لیے ظالمانہ طاقت کا استعمال کریں ، تو اس طرح دشمنوں کو مظلوم بنا دیں گے۔ یوں ہماری وجہ سے دشمن کو دوست مل جائیں گے اورمآل کار وہ مشکل بڑھتی چلی جائے گی اور اس کا حل نکالنا مشکل ہو جائے گا جبکہ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے ظالمانہ طاقت کی بجائے سفارتکاری سے کام لے کر زبردست نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
میں ذاتی طورپر سلطان یادوزسلیم (اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے) سے بہت محبت کرتا ہوں اوران کو ایک یا دو کو چھوڑ کر باقی تمام عثمانی سلاطین سے آگے سمجھتا ہوں لیکن اس کے باوجود میں اپنی ناقص فہم کے مطابق ان کے بعض عسکری تزویراتی کے امور کے بارے میں سوال اٹھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سلطان یاووز سلیم رحمۃ اللہ بذات خود بڑے طاقتور تھے اور ان کی پشت پر ایک ایسا لشکر جرار تھا اگر وہ اس کو ’’موت کو گلے لگاؤ ‘‘کا حکم دیت تو ایک بھی سپاہی اس حکم کی فوری تعمیل میں ذرا بھی تردد نہ کرتا۔ ان کے مقابلے میں فارس ایک فتنہ پرور مملکت تھی جو فارسیوں نے اپنی لالچ اور حسد پر قائم کی تھی اور عالم اسلامی کے لئے ایک حقیقی خطرہ تھی۔ سلطان یاووز سلیم نے اسلامی وحدت اور نظام عالم کو بچانے کی خاطر اس پر حملہ کردیا، تو فتح نے ان کے قدم چوم لئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ ظالمانہ طاقت کے استعمال کی بجائے عقلی، منطقی اور سفارتی طریقوں کو کام میں لاتے تاکہ بعض ایسے فتنو ں کے پھیلنے کا بھی سد باب ہوجاتا جن کے آثار اب تک جاری ہیں؟اس موضوع کے بارے میں میرا ملاحظہ یہ ہے ۔ اگر میں اس میں غلطی پر ہوں تو اس عظیم روح سے معافی کا خواستگار ہوں اور اگر میں گناہ کا مرتکب ہوا ہوں تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہتا ہوں لیکن میں عقل و منطق اور عقلی اور سفارتکاری کی اہمیت کو بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
ذرا غور فرمائیے کہ کئی سال گزر گئے مگر ہم اپنے ملک ترکی میں دہشت گردی کے واقعات سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے۔ تیس سال گزر گئے مگر سختی اور شدت کو کام میں لانے کے باوجود مسائل جوں کے توں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا رستہ اختیار کرنا ممکن نہ تھاجس سے اس کا سد باب ہوجاتا؟ اگر ہم اپنے مدرسین ، پولیس والوں، مساجد کے ائمہ، اپنے ڈاکٹروں اور انتظامی افسران کے ذریعے ان لوگوں کے دل میں اترنے کی کوشش کرتے تو کیا اس مسئلے کو حل کرنا ممکن نہ تھا؟
اگر ہم اپنے آپ کو ان کی اندرونی دنیا کے لیے کھول دیتے اور سخت پہاڑوں کا رستہ دکھانے کی بجائے ان کو اسکول اوریونیورسٹی کا رستہ دکھاتے اور ان کو مواقع اور وسائل فراہم کرتے تاکہ ان کو اس مال کا لالچ نہ رہے جو دوسرے لوگ ہروقت ان کو فراہم کرتے ہیں، تو کیا اس مسئلے کا حل ممکن نہ تھا؟ اس کا مطلب ہے سفارتی زبان کا استعمال، کیونکہ ظالمانہ طاقت اکثر اوقات عقل و منطق کے استعمال کے رستے میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور یہ سوچنا ہے کہ ’’ میں ہر حال میں ان لوگوں پر طاقت کے ذریعے دباؤ ڈال سکتا ہوں‘‘ ہوسکتا ہے کہ دیگر متبادل تزویراتی اور سیاسی اسالیب کو استعمال کرنے سے روک دے۔
منعفت کے انتظار میں ’’رسوائی ‘‘ تواضع نہیں ہے
اگر شرور کے مقابلے میں عقل کا استعمال، سفارتی عقلمندی، عقلی محاکمہ،نرم بات اور لطیف اسلوب مسئلے کے ایک رخ کو پیش کرتا ہے تو اس کا دوسرا رخ سخت اورظالمانہ طاقت کے مقابلے میں ڈٹ جانا اورہمیشہ سختی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس بنیاد پر منفعت اور مصلحت کی لالچ میں ظالموں اور جابروں کے سامنے جھکنے اور تواضع اور فدا کاری میں فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ موقف بالکل الگ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص جس نرم بات، نرم حالت اور نرم اسلوب کو حق اور حقیقت کی جانب دعوت کے لیے ایک ضروری امر سمجھتا ہے، بعض اوقات ان باتوں کو ظالم طاقت کے نمائندوں کی قربت حاصل کرنے کے لیے پردے اور لبادے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
جی ہاں، نرم بات اورنرم ا سلوب کو اپنانے سے بعض کمزور شخصیات کا مقصد کسی خاص منصب کا حصول ہوتا ہے کیونکہ آپ دیکھیں گے کہ ان کا سب سے بڑا مقصد دوسر وں کے ہاں اپنے منصب کو بلند کرنا اوران کی توجہ حاصل کرنا یا حب جاہ ہوتا ہے۔ ہمارے لیے مناسب نہیں کہ (کبھی بھی) کسی انسان کے بارے میں یہ کہہ کر بدظنی کا شکار ہوجائیں کے ’’تم اس بارے میں دکھلاوایا منافقت کرتے ہو‘‘ بلکہ بعض اصحاب فراست (ان ضعیف شخصیات کے تصرفات اور طور طریقوں کے پیچھے پوشیدہ حقیقی نیت کوجان بھی لیں) تو بھی اس کو ایک موضوعی حکم کی طرح واضح نہ کریں۔ اگروہ ایسا کریں گے تو گناہگار ہوں گے اوراللہ تعالیٰ اس گناہ پر ان کا محاسبہ کرے گا۔ اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ ان کے تصرفات کو جانچے اوراپنے وجدان اور ضمیر میں ان کو تولے اور اپنا محاسبہ خود کرے۔
بے شک وہ تمام کوششیں اورسعی جو معاشرے کے مختلف طبقوں میں مصالحت ، یگانگت اور شراکت پیدا کرنے کے لیے کی جاتی ہیں ، یقیناًیہ انسان کے لیے اجر اور ثواب کا باعث ہیں لیکن اگر بعض اوقات شرافت کی توہین کی جائے اور ذاتی مصلحتوں، منصب اور مقام تک رسائی ،مختلف مراتب کے حصول، دوسروں کے ہاں احترام اور پسندیدگی کے حصول اوردنیا میں راحت و آرام کی زندگی گزارنے کے لیے اس کی تنقیص کی جائے اورانسان اس کی خاطر کمزوری دکھائے اور دوسروں کے سامنے احسان مندی محسوس کرے، تو اس فعل کا مطلب ہے’’ذلت۔‘‘
معاشرے کی مصلحت کے لیے مل کرچلنا
اس کے باوجود ذلت اختیار کرنے اوراس اسلوب اور رستے میں فرق کو ملحوف خاطر رکھنا چاہیے جس کو ہم مشکلات کے حل کے لیے مدارات یا مل کر چلنے کا نام دیتے ہیں کیونکہ’’ مدارات اور مل کر چلنا ‘‘سے مراد وہ تصرفات ہیں جو لوگوں کو چلانے اوران کے ساتھ معاملات حل کرنے اوراس کے بعد امن قائم کرنے کے لیے زمین ہموار کرتے اور ایسا ماحول بناتے ہیں جس میں دشمن سے جھگڑا اور مقابلہ نہ ہو۔ حافظ شیرازی (3)کہتے ہیں:
آسائش دوگیتی تفسیراین دو حرف است
بادوستان مروت بادشمنان مدارا
پس دونوں جہانوں کی راحت ان دوالفاظ میں پوشیدہ ہے کہ: ’’ دوستوں کے ساتھ مروت اور دشمنوں کے ساتھ مدارات کا استعمال کرو۔‘‘(4) اس نقطہ نظر کے مطابق دشمن کے مقابلے میں طاقتور ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی موقع کی تلاش میں رہے اور جب بھی مل جائے دشمن سے لڑنے بھڑنے کے لیے تیار ہوجائے اورخصوصاً اس وقت جب آپس میں گتھم گھتا دو فریقوں میں قوت کا توازن بھی نہ ہو۔ ایسے میں اس طرح کی مہم جوئی میں کود پڑنا کمزور کے لیے اپنے آپ کو خود ہلاکت میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔ اس وجہ سے جب قوت کا توازن کھو جائے تو پورے معاشرے کے حقوق کی حفاظت کے لیے دشمن سے مدارات اورنرمی کا برتاؤ شاید زیادہ فائدہ مند اور اچھا ہوگا کیونکہ ایسی تحریک اوراشتعال انگیزی اور حسد، بغض ،عناد اور عدوات کو بھڑکانے میں، کوئی فائدہ نہیں جو کئی طرح کے مزید نقصانات میں پڑنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر ہم اس مسئلے کو حضرت بدیع الزمان سعید نورسی کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ انسان جو ننانوے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے،یقینی بات ہے کہ (اگر وہ عقلمند ہے تو )کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ ان کی تعداد پوری سو ہوجائے بلکہ اس کے برعکس چلے گا اور دشمنوں کی تعداد کم کرنے کے لیے اپنی کوشش کرے گا خواہ وہ ایک ہی کیوں کم نہ ہو۔ یوں ان تمام امور کو مدارات اور حسن تدبیر کے دائرے میں لیا جاسکتا ہے۔
1- حیح البخاری، المغازی، 58
2- ۔ سنن ابی داؤد، الجہاد،104
3- حافظ شیرازی(1389-1320ء) شمس الدین محمد، فارس کے سب سے مشہور شاعر، ان کے ابتدائی حالات کے بارے میں بہت کم علم ہے۔ ان کا غزلوں پر مشتمل ایک ’’دیوان‘‘ ہے۔
4- دیوان حافظ شیرازی، ترجمہ ابراہیم امین الشوازلی ، تہران، 1999ء مہراندلیس للنشر، ص 12-11(63-62)۔غزل نمبر10
- Created on .