کیا اللہ تعالیٰ کی صفات اور اسمائے حسنیٰ کے مختلف درجات ہیں؟
اگر ہمارے نام ہمارے والدین نہ رکھتے،بلکہ بعد میں حاصل ہونے والی مہارتوں کی بنیاد پر ہمارے نام رکھے جاتے تو ہم میں سے کسی کا نام نانبائی ہوتا تو کسی کا نام ترکھان رکھاجاتا، غرض ہر ایک کا نام اس کے پیشے پر دلالت کرتا۔بعض اوقات نام مبالغہ کے الفاظ بھی ہوتے ہیں،مثال کے طور پر جو شخص معمولی درجے کی سترپوشی کرتا ہے،اسے ‘‘ساتر’’کہتے ہیں،لیکن جو بہت زیادہ سترپوشی کرتا ہے اسے ‘‘ستار’’ کہا جاتا ہے۔جو شخص تعریف کرتا ہے وہ ‘‘حامد’’ کہلاتا ہے،لیکن بہت زیادہ تعریف کرنے والے کو ‘‘حماد’’کہتے ہیں۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے نام مستقبل میں ہمیں حاصل ہونے والی مہارتوں کے پیش نظر نہیں رکھے جاتے،بلکہ وہ ہمارے والدین کی خواہشات کے عکاس ہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات اسم اور مسمیٰ میں کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔شاید کسی کو یہ مثال اچھی نہ لگے،لیکن اس کے سوا چارہ نہ تھا،کیونکہ مجرد (Abstract) حقائق کی وضاحت اور تفہیم کے لئے ہمیں مجبوراً ایسی مثالوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا معاملہ اس سے مختلف ہے،کیونکہ ان کے بارے میں بندوں کو انبیائے کرام نے بتایا ہے۔اسمائے حسنیٰ کا تعلق کائنات میں جاری خدائی اقدامات کے ساتھ ہے۔قوسِ قزح کے رنگوں کی مانند باہم مربوط کائناتی حسن سب پر عیاں ہے۔ہم کوہ و دمن،باغوں اور پھولوں اور آنکھوں اور پلکوں میں اس جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ہزاروں سال سے شعراء اس ظاہری حسن و جمال کے گیت گاتے رہے ہیں اور گاتے رہیں گے،لیکن وہ اس کی بہت معمولی مقدار کو الفاظ کا جامہ پہنا سکے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس حسن و جمال کو دیکھ کر ہم اس قدر حیرت زدہ ہیں اور اسے پوری طرح بیان کرنا ہمارے بس میں نہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کے ایک نام ‘‘الجمیل’’ کا مرہونِ منت ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں رزق کی تقسیم کا بڑا منظم نظام کارفرما ہے۔ ایک خلیے سے لے کر گینڈے تک ہر جاندار کو اس کے مناسبِ حال رزق ملتا ہے، چنانچہ ذکر و تسبیح ملائکہ کا رزق ہے۔گوشت انسانوں کی خوراک ہے اور ہڈیاں جنوں کی روزی ہے۔بلاشبہ تقسیم رزق کے سلسلے میں ہونے والی ان تمام سرگرمیوں کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کا نام ‘‘الرزاق’’ ہے۔
اگر بالفرض ہمیں ‘‘الجمیل’’ اور‘‘الرزاق’’ کا اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہونے کا نہ بھی علم ہوتا تب بھی ہم اللہ تعالیٰ کی کرشمہ سازیوں کو دیکھ کر پکار اٹھتے کہ آپ ہی جمیل اور رزاق ہیں۔اللہ تعالیٰ کے دوسرے اسمائے حسنیٰ کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں،تاہم اللہ تعالیٰ نے ہمیں شکوک و شبہات کا شکار ہوکر ٹھوکریں کھانے سے بچانے کے لیے اپنی کرشمہ سازیوں کا جلوہ دکھانے کے بعد اپنے لیے ان اسمائے حسنیٰ کا انتخاب بھی خود ہی فرمایا۔اللہ تعالیٰ کے یہ نام توقیفی ہیں،جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے پاس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نام تجویز نہیں کر سکتے۔ ان اسمائے حسنیٰ کا تعلق مخصوص خدائی صفات کے ساتھ ہے۔اوپر ذکر کردہ مثال کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسے شخص کو نانبائی یا ترکھان نہیں کہا جا سکتا،جو روٹی پکانا یا نجاری کا کام نہ جانتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز میں حسن و جمال کا رنگ اسی لیے بھرا ہے تاکہ ہمیں پتا چلے کہ حسن و جمال کا اصل سرچشمہ اس کی ذاتِ والا صفات ہے،لہٰذا ہر سطح کا انسان حسن کے کسی بھی مظہر میں‘‘الجمیل’’ کا پرتو دیکھ سکتا۔
اسی طرح دوسرے تمام اسمائے حسنیٰ کا تعلق بھی مخصوص صفات کے ساتھ ہے اور ان صفات کا تعلق ‘‘الشأن’’ کے ساتھ ہے۔اگر ہم یہی بات کسی انسان کے بارے میں کہنا چاہتے تو اسے استعداد اور قابلیت سے تعبیر کرتے،لیکن اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی تعبیر اختیار کرنا درست نہیں۔حاصل یہ کہ افعال کا اسمائے حسنیٰ کے ساتھ، اسمائے حسنیٰ کا صفات کے ساتھ، صفات کا شؤونِ الہیہ کے ساتھ اور شؤونِ الہیہ کا حق تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ تعلق ہے۔اس مقام پر ہمیں وہی بات کہنی چاہیے جو رسول اللہ ﷺنے فرمائی تھی: ‘‘اے ذاتِ معروف! ہم آپ کو کماحقہ نہیں پہچان سکے۔’’ یا جو بات ابوبکر صدیقؓ نے کہی تھی:‘‘ادراک کی قدرت نہ ہونا بھی ایک قسم کا ادراک ہے۔’’ کہہ کر ادب و احترام سےسرجھکالینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ موجود ہیں اور ہمارے روئیں روئیں کو اس کا احساس ہے،لیکن ہم میں اسے پانے کی سکت نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کے وجود سے بڑھ کر کوئی چیز واضح اور عیاں نہیں ہے،لیکن اس کے باوجود اس کی ذات پردۂ خفا میں ہے۔اس مقام پر ہم اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے درمیان فرق کے بارے میں اسی قدر عمومی وضاحت پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کی تفصیلات کسی اور موقع کے لیے چھوڑ رکھتے ہیں۔
- Created on .