مقصد اور وسیلہ
ہر کام اور مہم کے لیے پہلے اس کا ہدف اور مقصد مقرر کرنا لازمی ہوتا ہے تا کہ انسان اپنے وسائل سے ہی بندھا نہ رہ جائے۔ قوم کی راہ میں کی جانے والی خدمات کے سلسلے میں اگر روحانی اقدار کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہدف مقرر نہ کیا جائے تو خیالات ایک گرداب کی شکل حاصل کر لیتے ہیں اور خدمت کرنے والے لوگ خیالات کے اِس گرداب کے رحم و کرم پرچکرکاٹتے رہ جاتے ہیں ۔
* * * * *
غوروفکر کے پلیٹ فارم پر ضروری ہے کہ پہلا مقام ہدف اور مقصد کو دیا جائے اور یہ بالکل واضح ہوں ۔ورنہ آپ سوچ بے اعتدالی کا شکار ہو جائے گی جس کا نتیجہ ذہنی الجھاﺅ ہو گا۔ ایسے بے شمار منصوبے دیکھنے میں آئے ہیں جو دیکھنے میں تو بڑے شاندار تھے مگر مقصد اور وسائل کے آپس میں خلط ملط ہو جانے کے باعث بے ثمر رہ گئے۔ایک تو اِن سے کوئی فائدہ مند نتیجہ حاصل نہ ہو سکا اوردوسرے یہ اپنے پیچھے بے انتہا کینہ اور نفرت چھوڑ گئے۔
* * * * *
فعال انسان اور منصوبے بنانے والے ہر شخص کو چاہئیے کہ ہر شے سے پہلے خا لق ِ اعظم اور اُس کی خوشنودی کوپیشِ نظررکھے ورنہ کئی قسم کے ُبت بیچ میں ٹانگ اڑا سکتے ہیں ‘ باطل حق دکھائی دے سکتا ہے‘ ہوس اور لالچ سوچ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں ‘ اور مذہبی جنگ کے نام پر جرائم کئے جا سکتے ہیں ۔
* * * * *
حقِ تعالیٰ کی خوشنودی کی راہ میں کیے جانے والے کاموں کا ہرذرہ سورج‘ ہر قطرہ دریا‘ اور ہر آن ابد کی قیمت رکھتی ہے۔اِدھر تو یہ بات ہے اور اُدھر جس راہ پر چلنے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی نہ حاصل ہوتی ہواِس سے دنیائیں بے شک جنّتوں میں تبدیل ہو جائیں مگر اِس کام کا اثر صفر ہی ہو گا‘ قیمت کچھ نہیں ہو گی‘ اور یہ متعلقہ شخص کی کمر پر ایک وبال ہو گا۔
وسائل اور ذرائع کی قدروقیمت کا پیمانہ یہ ہے کہ مقصد کا حصول کس حد تک ممکن رہا اور مقصد کے حصول کی راہ میں نقائص کس حد تک حائل ہوئے۔ اِسی اعتبار سے جو وسائل مقصد کے حصول تک نہیں پہنچاتے بلکہ مقصد کے حصول کی راہ میں روڑا اٹکاتے ہیں اُنہیں ”ملعون“ کہا جاتا ہے۔ دنیا پر لعنت کا بھیجا جانا بھی خدائے تعالیٰ کے اسی پہلو سے منسلک ہے۔ ورنہ یہ دنیا جو ہزاروں اسمائے الٰہی کے جلووں کی عکاسی کرنے والی ایک محتشم نمائش گاہ کی حیثیت رکھتی ہے‘یہ ایک ایسی جگہ ہے جس سے محبت بھی کی جاتی ہے اور جس کی تعریف کے پل بھی باندھے جاتے ہیں ۔
* * * * *
حق کو ہاتھ میں لے کر بلند کرنے کے موضوع سے متعلق قسم قسم کے راستے اور ذرائع موجود ہیں ۔ ان کی قدروقیمت اِس بات پر منحصر ہے کہ یہ حق کی کس قدر عزت اور احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں اور حقیقت کے بارے میں انسانی دسوچ کی کس حد تک نشوونما کرتے ہیں ۔ اگر ایک گھر اپنے اندر پناہ لینے والوں کو اپنی مہارت سے اُڑنے کے قابل بنا دیتا ہے‘ ایک معبد اپنے محراب میں جمع ہونے والی جماعت کے ابدیت کے تصو ر کا خمیر اٹھا کر اس کی ماہیت بدل دیتا ہے‘ اور ایک مکتب اپنے طلباءکو امید اور یقین کے ذریعے بڑے بڑے کام کرنے کی جرات عطا کر دیتا ہے تو گویا یہ سب ان کاموں کا وسیلہ بننے کا فرض ادا کر دیتے ہیں ۔لہٰذہ یہ سب مقدس ہیں ۔ ورنہ ان میں سے ہر ایک ایک ایسا جادو کا جال ہے جو اولادِ آدم کی راہ کاٹ دیتا ہے۔ یہی حال معاشرے‘ اِدارے‘ اوقاف‘ سیاستدانوں وغیرہ کا بھی ہے۔۔۔۔!
* * * * *
ہر اِدارہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ‘ اس کے بانی کو چاہیے کہ وہ اِس اِدارے کے بنانے کا مقصد اور اُس کے جاری رہنے کی حکمت کواکثر ذہن میں لاتا رہا کرے تاکہ اس کے کام کا ہدف ہاتھ سے نہ چھوٹے اور اِدارہ بارآور ثابت ہو سکے ۔ اس کے برعکس وہ ہوسٹل‘یتیم خانے اور مکتب جو اپنے ہدف اور قیام کے مقصد کو بھول جاتے ہیں ‘بالکل اُن انسانوں کی طرح ہوتے ہیں جو اپنی پیدائش کے مقصد کو بھول چکے ہوتے ہیں اور اصل راہ سے ہٹ کر اُلٹی راہ پر چلتے رہتے ہیں مگر اپنے اصل ہدف تک کبھی نہیں پہنج سکتے۔
ذہنی اجارہ داری اور سچ کو صرف اپنے آپ تک محدود رکھنا وسیلہ پرستی اور ہدف تعین نہ کرنے کی علامت ہے۔ ایک ہی یقین‘ ایک جیسے احساسات اور خیالات کے لوگوں کے خلاف کینہ پروری اور نفرتیں اگر ہدف اور مقصد کے خیال سے محرومیت کی دلالت نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں ؟ حیف ہے اُن لوگوں پر جویہ سوچتے ہیں کہ کائنات کا نظام اُنہیں کے ناقص حساب سے چلایا جا رہا ہے‘ او ر حیف ہے اُس ذلیل مخلوق پر‘ اُن نفس کے غلاموں پر جو نفس سے آزادی کو قبول نہیں کرتے۔۔۔۔!
- Created on .