طلاق

طلاق وہ فعل ہے جس کے ذریعے فرد نکاح کے بندھن سے چھٹکارا حاصل کر کے اپنے آپ کوآزاد کر لیتا ہے۔ اگرچہ طلاق کے نتیجے میں متعلقہ شخص شازونادر ہی سکھ کا سانس لیتا اور آرام کرتا دکھائی دیتا ہے مگر اکثر اوقات یہ فعل اپنے ہمراہ بے چینی اور پریشانی ہی لاتا ہے۔

دین کی نگاہوں میں جن کاموں کے کرنے کی ممانعت نہیں ہے اُن میں سب سے ناپسندیدہ فعل طلاق ہے۔ مگر جتنی اس کی اجازت اور جواز ناپسندیدہ ہے اُتنا ہی اسے ممنوع قرار دینا بھی غیر طبعی اور غیر فطری ہے۔

* * * * *

جن وجوہات کی بنا پرطلاق ضروری ہو جاتی ہے ان سے آنکھیں چرانے کی وجہ انسانی خصلتوں سے اور ان خصلتوں کی خصوصیات سے لاعلمی ہے۔ اس بات کی امید رکھنا کہ شادی کرنے والاہر جوڑا آپس میں گھُل مل جائے گا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سوچنے والا شخص سادہ لوح ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ تمام انسان بالکل سیدھے سادے‘ ایک جیسی فطرت اور ایک ہی مزاج کے مالک ہوتے ہیں ‘ سب کی بناوٹ ایک جیسی ہوتی ہے‘ اور چال چلن میں بھی سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔

* * * * *

ہر من مانی طلاق‘ طلاق دینے والے کے لیے ندامت اور مطلقہ کے لیے نا انصافی کا سبب بنتی ہے اور خاندان کے ہر فرد کے لیے ایسی ذہنی پریشانی کا سرچشمہ ہوتی ہے کہ بعض اوقات اِس فعل کا درد اور اضطراب ایک رستے زخم کی طرح ساری عمرمحسوس ہوتا رہتا ہے۔۔۔۔

* * * * *

اگر طلاق ایک بیمار عضو پر جرّاحی کے عمل کی طرح سمجھی جاتی ہے تو ازدواج کے عقلی اور منطقی خطوط پرجاری رہنے کے لیے شادی کو بعض صحت بخش شرائط سے منسلک کیا جانا بھی ایک مفید احتیاطی عمل ہے۔چناچہ پیشتر اس کے کہ طلاق دے کرخاندان پر اورطلاق کی بندش سے ضمیر پر ظلم کرنے کی نوبت آئے‘ضروری ہے کہ میاں بیوی کی باہمی ہم ا ٓہنگی کا ازدواج سے پہلے ہی نہایت احتیاط سے پتہ چلا لیا جائے اور پھر بعد میں اُن شرائط میں کسی قسم کی ڈھیل قبول نہ کی جائے جن کی وجہ سے یہ ہم آہنگی قائم رہتی ہے۔

کوئی زمانہ تھا جب صدیوں تک طلاق پر پابندی لگا کر یا پھر اسے کبھی پوری نہ کی جا سکنے والی ایسی شرائط سے منسلک کرکے کوشش کی جاتی تھی کہ جو خاوند اور بیوی اکٹھی ازدواجی زندگی نہ گزارنا چاہتے تھے اُنہیں بھی اکٹھا رہنے پر مجبور کر دیا جاتاتھا۔ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب عورت کو ایک ایسی شے کی طرح دیکھا جاتا تھا جسے جب چاہا پا لیا اور جب چاہا اپنے سے الگ کرکے پھینک دیا۔ ان دونوں میں سے پہلے زمانے میں مرد کو عذاب پہنچانے کے سِواکچھ نہیں تھا اور دوسرے زمانے میں عورتکوانسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔