طاقت کی سرکشی اور فرعونیت
سوال: کسی خاص ادارے یا منصب پر فائز رہنے والے بعض افسر کچھ وقت کے بعد اپنے آپ کو اس منصب کا مالک سمجھ سکتے ہیں۔ اس بارے میں مومن کا رویہ اور برتاؤ کیسا ہونا چاہئے؟
جواب: کسی شخص کا لوگوں کے مکمل ارادے اور انتخاب سے کسی کام کی ذمہ داری سنبھالنے اور اس ذمہ داری کے عہدے کو اپنی ملکیت سمجھنے میں بڑا فرق ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ بہت سے لوگ اس سے غافل ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ہر افسر اور ذمہ دار نبی اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے رستے پر نہیں چلے گا تو وہ ظلم واستبداد اور سرکشی کی دہلیز پر پھسلنے لگے گا اور اپنے آپ کو صرف اپنے منصب کا ذمہ دار نہیں سمجھے گا بلکہ اپنے آپ کو اس کامالکسمجھنےلگےگا۔
منفیباتوںپرپہلے اپنے آپ کو ملامت کرنے والے لوگ
اگر افسر اور ذمہ دار لوگ اپنی ذمہ داریوں کے دائرے میں ہونے والی کسی بھی منفی بات پر سب سے پہلے اپنا محاسبہ کریں اور اپنے نفس کو ملامت کریں تو وہ اس طرح اس قسم کی مصائب سے بچنے کی اہم بنیاد حاصل کر لیں گے۔ اس قسم کی سوچ اور ادارتی فلسفے کی بنیاد ہمارے احساسات اور دینی سوچ پر ہے۔ اس بارے میں حضرت عمر کا طرز عمل قابل تقلید نمونہ ہے۔ اگرچہ آپ بھت عظیم صاحب مملکت تھے اور اپنے دس سالہ دور خلافت میں اتنی عظیم فتوحات حاصل کیں جو سلجوقی اور عثمانی دور کی فتوحات کے برابر تھیں، آپ عام الرمادہ (قحط کے سال) کسی دور جگہ سر بسجود ہو کر رونے اور یہ دعا کرنے لگے کہ ’’اے اللہ امت محمدیہ کو میرے ہاتھ سے ہلاک نہ فرما!‘‘ (1) اس لئے ہر ذمہ دار اور قائد سب سے پہلے اپنے آپ کو منفی امور، کمزوریوں اور اختلافات کا ذمہ دار سمجھے اور اللہ کے سامنے گڑگڑائے اور مشکلات کو حل کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگا دے۔
وہقربانیدینےوالی روحیں جنھوں نے اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیا ہے اور اپنے دلوں کے پیغام کو اس کی پیاسی روحوں تک پہنچانے کی کچھ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھائی ہے، ان کو ایسی مشکلات اور کٹھن رستوں کا سامنا ہو سکتا ہے جن کے بارے میں انھوں کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی ان کو ایسی کامیابیاں عطا فرمائے جن کی وجہ سے لوگ ان کا احترام کرنے لگیں لیکن یہی بات بعض کمزور نفسیات کے مالک لوگوں کے جذبات کو بھڑکا سکتی ہے۔ چنانچہ ان کے دل میں بھی ان روحوں کے ساتھ انہی کے مرتبے پر ظاہر ہونے کی خواہش پیدا ہوگی لیکن یہ خواہش صرف ذاتی مفاد اور نجی منفعت کے لئے ہوتی ہے۔ پھر جب وہ اس خواہش کو پورا نہیں کر سکتے تو جھوٹ اور الزام تراشی جیسی تمام برائیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی ان شرور کا ارتکاب کرنے والوں کا یقینا محاسبہ کرے گا لیکن جہاں یہ مشکلات پیدا ہو رہی ہیں وہاں ذمہ دار کو سب سے پہلے اپنی ذات کا احتساب کرتے ہوئے یہ کہنا چاہئے کہ ’’میں نے کونسی غلطی کی ہے جس کی وجہ سے ہم پر یہ مصیبت آئی ہے؟!‘‘
کسیبھیکامیابیکو اپنی طرف منسوب نہ کرنے والے لوگ
ادارتی افسران کے اندر احتساب اور ذاتی نگرانی کا احساس نہ ہو تو وہ کبھی بھی اپنے غلط فیصلوں اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کا اعتراف نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ باہر کسی غلطی کرنے والے کو تلاش کرتے ہیں، غلطیاں ارد گرد کے لوگوں کی جانب منسوب کرتے ہیں، جب ان کی غلطیوں کا تذکرہ کیا جائے تو اس کو دھمکی سمجھتے ہیں اور اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو خاموش اور منہ بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں اپنے اپنے مرتبے کے مطابق سرکشی اور فرعونیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ غافل لوگ اللہ کی مہربانی اور معاشرے کی کوششوں کی وجہ سے ملنے والی ہر کامیابی کو اپنی جانب منسوب کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہر چیز ان سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہوتی ہے۔ اس طرح ان کو وہم ہو جاتا ہے کہ وہ ہر شے کی ابتدا اور انتہا ہیں جبکہ یہ حالت ایک طرح سے خدائی کا دعویٰ ہے اور جو شخص ایسا دعویٰ کرے گا اس کا انجام برا ہوگا۔ اس بات کا تذکرہ درج ذیل حدیث قدسی میں آیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ اَلْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ“[2](بڑائی میری چادر اور عظمت میری تہمد ہے۔ اس لئے جو بھی ان میں سے کسی کو کھینچے گا میں اس کو آگ میں پھینک دوں گا)۔ اس حدیث میں حق تعالیٰ ہر متکبر کو خبردار کر رہا ہے جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا اور اللہ تعالی کی صفات الوہیت میں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس کو زبردست طریقے سے پکڑے گا اور دوزخ کا ایندھن بنائے گا۔
عقل مشترک اور اہلمشورہ
جس طرح کوئی چیز ہم سے شروع نہیں ہوئی، اسی طرح کوئی چیز ہمارے جانے سے رکے گی اور نہ ختم ہوگی بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ جن چیزوں کو ہم اپنی ذات سے جڑا سمجھتے ہیں ان کا انجام برا ہوگا لیکن اگر ہم انانیت اور نفسانی خیالات سے دور ہو جائیں تو وہ کام سلامت رہیں گے اور ختم ہوں گے اور نہ ٹوٹیں گے۔ آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی ذات اور ان خدمات کو اسی نظر سے سے دیکھے جن میں اس کی ذات استعمال ہوئی ہے اور کاموں کو عقل مشترک کی جانب منسوب کرتے ہوئے اسی کے ذریعے ان کو چلائے اور کبھی بھی مشورہ لینے سے مستغنی نہ ہو اور جب دیکھے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے عاجز ہے یا ان میں اس سے کوتاہی ہوتی ہے تو بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مقام سے ہٹ جائے اور پورے سکون سے کہہ دے کہ :’’میں اپنے اس منصب کی حیثیت سے لوگوں کے درمیان اتحاد ویگانگت اور تالیف قلوب کے جذبات کو بڑھانے کے لئے کام کر رہا ہوں اور اللہ سے اس کی توفیق مانگتا ہوں۔ اس لئے اگر میں اس منصب کا حق ادا نہیں کر سکتا یا مناسب انداز میں اس کی نمائندگی نہیں کر سکتا یا میرے حال اور ظاہری وضع قطع کے لحاظ سے مجھ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا تو آپ مجھے اس منصب سے ہٹا کراس سے کوئی کم تر کام میرے ذمے لگا سکتے ہیں ‘‘۔ جو لوگ یہ دعویٰ تے ہیں کہ انھوں نے اپنے آپ کو حق اور حقیقت، امت اور ساری انسانیت کے لئے کو وقف کر دیا ہے، ان کواسیاندازسےکامکرناچاہئے۔
کسیبھیچیزکی خواہش نہ کرنے والے لوگ
ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے کسی بھی دنیوی یا اخروی چیز کی تمنا نہ کریں۔ ان کے دل میں اونچے منصب پر پہنچنے، مختلف مراتب حاصل کرنےاور شہرت پانے جیسی خواہشات نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ نفس اور دنیا سے متعلق اونچی چیزوں کی خواہش خود پسندی، غرور اور تکبر کی علامت ہے جب کہ متکبر لوگوں کے لئے توازن کے ساتھ کام کرنا اور اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور ان کو پوری طرح ادا کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے منصب سے ہٹ گئے تو بھونچال آ جائے گا، دنیا ہل جائے گی اور زلزلے کی لکیر اپنی جگہ سے ہٹ جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ ان کی یہ سوچ عین غفلت اور گمراہی ہے۔
ایسےلوگجنہوںنے قیادت کرنے کی بجائےقیادتمیںرہنےکوترجیحدی
حضرت بدیع الزمان نورسینےرسالہ ’’اخلاص‘‘ اور ’’اخوت‘‘ میں جو اصول پیشکئےہیں ان میںسےاکثر اس بارے میںسنہرے اصول ہیں اور اس طرح کیلغزشوںسےبچنےکےلئے ان کاخیالرکھناانتہائیاہمہےکیونکہوہفرماتےہیںکہ :’’اگر انسان تابع ہونےکو متبوع ہونےپرترجیحدے (جبکہیہیدوسری بات در حقیقتذمہداری اور خطرےکا سبب ہے) تو وہ اخلاص کامرتبہ حاصل کرلےگا اور اختلافات مٹجائیںگے‘‘[3]۔مطلب یہہےکہآدمی کو چاہئے کہ وہ کسی لائق اور قابل انسان کے پیچھے چلنے کو لوگوں کو اپنے پیچھے چلانے پر ترجیح دے۔ فرض کریں کسی جگہ جماعت سے نماز ہونے والی ہو تو انسان پر لازم ہے کہ وہ امامت کرانے کے لئے جلدی نہ کرے بلکہ پیچھے ہو جائے اور آگے نہ بڑھے اور اچھی طرح دوسروں کی اتباع کرے بلکہ اس کو چاہئے کہ جب تک لوگ اس کو اہل نہ سمجھیں اور اس کو پیشکش نہ کریں اذان اور اقامت کے لئے بھی آگے نہ بڑھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر امامت، خطابت جیسے ظاہری معاشرتی امور میں حساسیت اور باریک بینی کے ساتھ ان امور کا خیال رکھا جائے تو یہ بات لوگوں کے اخلاق کا حصہ بن جائے گی اور مرور زمانہ سے ان کے مزاج میں تبدیل ہو جائے گی اور اگر انتظامی منصب ایسے شخص کے ہاتھ میں آ جائے جس کو اپنے نفس کی خواہشات کو دبانے اور ان پر قابو پانے کی قدرت حاصل ہو تو وہ سرکشی، استبداد اور ظلم کی کھائیوں میں نہیں گرے گا۔
روحانی غذا سےہر گز غفلت نہ برتی جائے
دین اور انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ شروع سے ہی اس طرح کی مشق کریں اور انسان کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ کسی چھوٹے دائرے میں مسؤول ہو تو چھوٹا سرکش نہ بنے تاکہ جب اس کی ذمہ داری کا دائرہ وسیع ہو جائے تو اس کو یہ وہم نہ ہونے لگے کہ وہ شہ عالم ہے۔ اس طرح وہ بڑا سر کش بن جائے گا جس کے خیالات بے لگام ہوں گے اور ناممکن منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گا اور جب وہ کام نہ کر سکے گا تو کسی کی نہ سنے گا اور لوگوں کو کچل ڈالے گا۔۔۔۔ بلکہ انسان کو چاہئے کہ اس کے بر عکس کام کرے اور یہ یقین رکھے کہ اس کے ہاتھ سے جو مثبت نتائج ظاہر ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق، اس کے حکم اور اس کی عنایت سے ہوئے ہیں اور اس بات کو نہ بھولے کہ اس کی ذات محض ایک معمولی سبب ہے اور اس کا منصب کچھ بھی ہو اپنی قدر وقیمت پہچانے۔ اس لئے اللہ رحم فرمائے اس شخص پر جو اپنی حدود کو پہچان کر اس پر رک جائے۔
اس لئے معمولی سے معمولی منصب سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبے تک ہر انسان کی روحانی تربیت سے کبھی بھی غفلت نہیں برتنی چاہئے اور لوگوں کو ہمیشہ اسلامی اور انسانی قوانین اور عالمی اخلاق کے مطابق تیار کرنا چاہئے اور ہر ایک کی اس طرح مدد کرنی چاہئے کہ وہ بطور ’’انسان‘‘ نشوونما پائے۔ پس اگر لوگوں کو روحانی خوراک نہ دی جائے اور ان کو شتر بے مہار بنا کر چھوڑ دیا جائے تو وہ ہلاک ہو کر گڑھے میں گر جائیں گے اور اس کے بعد گروہوں میں بٹ کر منہ کے بل حیران وسرگردان پھریں گے اور ہر ایک ’’نفسی نفسی‘‘ کا نعرہ لگائے گا اور تباہ کن علیحدگی، خوفناک تنہائی میں رہیں گے اور زندگی انانیت کے تنگ زندان میں بسر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔
[1] ابن سعد: الطبقات الكبرى، 237/3.
[2] سنن أبي داود، اللباس، 27؛ سنن ابن ماجه، الزهد، 16.
[3] بديع الزمان سعيد النورسي: اللمعات، بیسواں لمعہ، پہلا نقطة، ص 211.
- Created on .